ریاست پاکستان ، اداروں کیخلاف جنگ حتمی مرحلہ میں

قومی سوچ و فکر اور نظریہ کو پروموٹ کیا جائے تو اسکے اثرات ہرشعبہ زندگی میں محسوس ہوسکتے ہیں ۔بلکل ایسے ہی جیسے ہمارے معززسیاسی بڑوں کے حامی ،ووٹرز،سپورٹرزآنکھیں بند کرکے ہر بات ،ہردعویٰ پر مکمل یقین کرتے ہیں ۔اور اپنی قیادت سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے کسی بھی سطع پر جاسکتے ہیں ۔اس حوالے سے کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ہرسیاسی جماعت اپنی فلاسفی ،اپنے نظریہ کی عینک سے دیکھتی ہے۔سب کے اپنے اپنے اہداف ہیں ۔اس تفاق کہیئے یا کچھ اور ،ہمارے سیاسی جمہوری سرگرمیوں ،کوششوں و کاوشوں سے ریاست پاکستان کو چنداں کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا ۔البتہ سیاسی اہداف ضرور حاصل ہوتے ہیں ۔عمران خان حکومت میں آئے۔فوج کو اِنکے اقتدار کمیں لانے کا ڈھنڈورہ پیٹا گیا ۔تاہم’’سلیکٹڈ‘‘کہہ کرغم غلط کیا جاتا رہا ۔ براہ راست فوج کا نام لینے سے گفتگو میں گریزکیا گیا۔لیکن جب عمران خان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی ۔جنرل قمرجاوید باجوہ کی دینی وابستگی پر سوالات اُٹھائے گئے ۔اس پر لے دے ہوئی ساتھ ہی معاملہ عدالت میں پہنچ گیا ۔جہاں سے ایک واضع ڈائیریکشن کیساتھ معاملہ پارلیمان میں پہنچا ۔یہیں سے وہ سارے لوگ اہمیت اختیار کرگئے ۔جنہیں چاروں شانے چت کرکے عمران خان وزیراعظم بنے ۔مدت ملازمت میں توسیع کے معاملہ پر سب سے زیادہ تاہم رائے یہ تھی کہ چونکہ پاک فوج کی چین آف کمانڈ اس قدر معیاری ہے کہ سنیارٹی پرآنیولا ہرجرنیل بطور چیف مثالی پیشہ وارانہ قابلیت کاحامل ہوتا ہے ۔۔لیکن جموری حکمرانوں نے جس طرح سول اداروں کا بیڑا غرق کیا ۔اگر اسی طرح اُنھوں نے ادارے کے متعین طریقہ کار سے ہٹ کرجتنی بار بھی فوج کے سربراہ کے انتخاب کیلئے سنیارٹی کو نظرانداز کیا گیا ۔تاریخ گواہ ہے اسکا نقصان صرف انتخاب کرنیوالوں کو ہی نہیں ہوا ۔بلکہ پیچھے لائن میں موجود جرنیلوں کا حق بھی متاثر ہوا ۔اگر چہ منظم ادارہ ہونے کیوجہ سے جموریوں کی طرف سے سنیارٹی نظر انداز کرکے مرضی کے چیف لائے جاتے رہے ۔اور جن کا حق متاثر ہوتا رہا وہ اپنے سے جونیئرکے چیف بننے پر سبکدوش ہونے کو ترجیح دیتے تھے ۔لیکن اس صورتحال میں اس بار تبدیلی آئی ۔بعدازخرابی بیسارجب چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کردی گئی تو معروضی حالات کے پیش نظر کوئی بھی سبکدوش نہیں ہوا ۔البتہ توسیع پانیوالے جنرل باجوہ کی مذہبی وابستگی پرشکوک و شبہات رکھنے والوں نے وقتی خاموشی ضرور اختیار کی ۔مگر وہ برداشت بھی نہیں کرپارہے تھے۔یہ جو اچانک کسی نہ کسی جرنیل پرالزامات لگنے لگتے ہیں ۔یہ صورتحال بھی یونہی نہیں ہے ۔آخر ایسی طاقتیں موجود تو ہونگی جو مختلف اُنگلیوں سے ڈوریوں کو ہلا دیتی ہیں۔ امریکی فوج کے افغانستان میں طالبان کے حشر کی مثال دی جاچکی ۔ میاں نواز شریف صاحب نے بھی خاموش رہنا گوارہ نہیں کیا ۔پہلے میزائلوں سے متعلق بیان داغا تو اب وڈیو خطاب میں براہ راست جنرل باجوہ پرحملہ کردیا۔اسکے ساتھ ہی اب پی ڈی ایم کے جلسوں میں جو کچھ ہوا ۔وہ بھی سب کے سامنے ہے ۔کہ کراچی مین لیگی داماد کی گرفتاری کے تناظرمیں جو پش منظر بیان کیا گیا ۔اُس سے انتشاری کیفیت مذید نمایاں ہوئی ہے ۔یہ انتہائی الارمنگ پوزیشن ہے ۔سنجیدہ حلقوں کا دعویٰ سے یہ تاثر بھی سامنے آرہا ہے جیسے پی ڈی ایم کسی اشارے پر لانچ ہوئی ہے ۔اوراسکے پیچھے بڑا مقصدفوج کے سربراہ کو ٹارگٹ کرنا ہے ۔اورساری صورتحال معمہ بنی ہوئی ہے۔ ڈانڈے براہ راست بھی اور اشاروں کنائیوں سے بھی ایک سے زائد جہگوں سے ملتے ہیں ۔ فوج کے سربراہ کو نشانہ بنانے ،فوج کو دھمکانے کے پیچھے کسی قوت /گروہ سے جوڑے جارہے ہیں ۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ملکی سیاسی قوتوں میں ہمارے پڑوسی ملک کا اثرو رسوخ بھی موجود ہے ۔جو یہ نہیں چاہتا ۔کہ سی پیک کی بیل منڈھے چڑھے ۔اس لئے پاکستان میں کئی اطراف سے گربڑ کی کوششیں جاری ہیں ۔اس ضمن میں فرقہ ارانہ گروپس کو آکسیجن کی فراہمی کی گئی ۔جنہوں نے فوری پیدا شدہ ماحول سے بھرپور فائدہ اُٹھایا ۔تاہم پھربھی درجہ حرارت کچھ زیادہ نہیں بڑھا۔اچانک سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین جنرل باجوہ کے حوالے سے ایسی خبریں آئین جو ہلچل پیدا کرنے کی ایک اور کوشش تھی ۔فوج کے سربراہ کو نام لیکر گالم گلوچ کا نشانہ تک بنادیا گیا ہے ۔اسی دوران کراچی میں لیگی داماد کیپٹن صفدرکی گرفتاری کا سامنے لایا گیا پس منظر اور پولیس فورس افسران کا ری ایکشن ،ایک نواں کٹا‘‘کھولنے کے مترادف بن چکا۔اگر چہ آرمی چیف نے بلاول زرداری کی پریس کانفرنس کے ساتھ ہی واقعہ سے متعلق رپورٹ طلب کرلی ہے ۔اور اسی دن کور کمانڈرز کانفرنس میں مجموعی طور پر ملکی سکیورٹی معاملات پر بھی غور وحوض ہوا ہے ۔قبل ازیں کاکول میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب میں جنرل باجوہ نے خصوصی طور پرہائبرڈ وار کا ذکر کیا تھا ۔حالیہ سالوں سے فورتھ ،ففتھ جنریشن وارکی بازگشت بھی سنائی دہی ہے ۔اور ہائبرڈ وار کی بھی ۔۔۔۔مگر اس طرز کی جنگ کے مراحل میں نشانہ صرف ایک ہی ہے۔کیوں؟؟اس کیوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔لیکن پہلے دیکھتے ہیں ۔ملک کے انتظامی ادارے قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ سمیت دیگر سنگین جرائم سے متعلق مقدمات عدالتوں میں پیش کرتے ہیں تو وہاں مراحل مکمل کرکے الزامات ثابت ہونے پر سزائیں سنادی جاتی ہیں ۔مگر جنہیں سزائٰں سنائی گئیں ،اُنھیں پھولوں کے ہارڈال کر جے جے کار کی جاتی ہے ۔ایک طرح سے انتظامیہ و عدلیہ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا جاتا ہے ۔فیڈریشن پر عدم اعتماد کا مطلب کھلی’’غداری‘‘ہے۔آزادکشمیر کا تعلق ریاست پاکستان سے ہونا چاہیے ۔مگرکابینہ کے اندر سے بھی نواز شریف کے فوج مخالف بیانیے کے حق میں تائید کے بیانات آئے ہیں ۔قرارداد بھی منظور ہوئی ۔مطلب وہاں بھی ریاست پاکستان پرسیاسی قبلہ مقدم ٹھہرا ۔اور یہی ہورہا ہے ۔باقی ادارے ہماری طرز سیاست وحکمرانی کی بھینٹ چڑھانے میں کوئی کسرنہیں باقی رہنے دی گئی ۔سول لیڈر شپ نے منظم اورہرطرح سے مثالی پیشہ وارانہ کردار کی حامل مسلح افواج کے سربراہان کی تقرریوں کامعاملہ مخصوص سوچ اور ترجیح کی بھینٹ چڑھایا۔اس سے ناصرف سیااسی جمہوریوں میں افواج بارے منفی رحجانات کو شہ ملی ۔بلکہ ٹاپ ملٹری لیڈر شپ سے متعلق طنز و تنقید کیلئے اسباب مہیا ہوئے ۔لیکن اب ریاست پاکستان ایسے مقام پر پہنچی ہوئی ہے ۔جہاں ماضی کے سول لیڈرشپ کے پیدا کردے اسباب اوراُنکے نتائج کے اثرات سے نمٹنے میں فوج اور عوام نے بہت کچھ کھویا ہے ۔قربانیاں دی ہیں ۔اور قربانیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ایسے حالات میں جب کوئی فوج کے سربراہ کے مذہب و عقیدہ اور توسیع کے تناظر میں کسی ہدف کیلئے ماحول سازگار کرنا چاہے ۔یا کسی طرز کے تعصب و تنگ نظری سے معزز و محترم ادارے بارے ہرزہ سرائی کرے ۔ایسا برداشت نہیں ہونا چاہیے ۔نہ ہی ہوسکتا ہے ۔

قارئن! کون نہیں جانتا ۔ریاست پاکستان کا دارومدار عدلیہ انتظامیہ ،مقننہ اور دفاعی اداروں کے آئین کے تحت متعین کردہ کردار پر ہے ۔جہاں بھی اسکا خیال نہیں رکھا جائیگا ۔خرابی ہی پیدا ہوگی ۔اس تناظرمیں دیکھا جائے تو ریاست پاکستان کے یہ ادارے ،کچھ قوتوں کے نشانے پر ہیں ۔ایک ایسا ملک جس میں سب کچھ معمول پر ہو۔وہاں عدلیہ ،انتظامیہ مقننہ کا کردار کسی دعوے کے بجائے خود بولنا چاہیے ۔لیکن کیا پاکستان میں یہ کردار خود بولتا ہے؟؟ ایک خاتون کا بیٹا قتل کرنیوالے سارے شاہد کے باوجو بری ہوجاتے ہیں ۔ایک خاندان سڑک پر گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے ۔ایک ٹریفک پولیس اہلکار گاڑی چڑا کر شہید کردیا جاتا ہے ۔انتظامی اداروں کے غیرموثر کردارکیوجہ سے کوئی بھی کسی شہری ،فرد افراد یا گرہ پر سنگین نوعیت کا الزام لگا کرایف آئی آردلواسکتا ہے ۔بِلا تحقیق مقدمات کے اندراج سے شدت پسندی توبڑھتی ہے ۔مگر ساتھ ہی ریاست کاکمزور کردار سامنے آتا ہے ۔شاید یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ سیالکوٹ کی ماں نے اپنے بیٹے کے قاتل کو اپنے ہاتھوں گولی مارکر انصاف لیا۔جبکہ سڑک پر گولیوں سے بھون دئیے گئے بیگناہوں کے معاملے میں تحقیقات انصاف تک نہ پہنچ سکیں ۔وہ کم سن بچے زندگی میں اُس منظر کو فراموش نہیں کرپائیں ۔گے ۔جب پولیس فورس نے اُنکے والدین کو مارا ۔اور خود صاف صاف بچ گئے ۔اسی طرح ایک پولیس والا گاڑی ٹکرا کرشہید کردیا جاتا ہے ۔مگرذمہ دار، عدالت سے بری ہوجاتا ہے۔سنجیدہ حلقے سمجھتے ہیں کہ اسوقت ملک میں جس نوعیت ،جس انداز کے رحجانات پائے جارہے ہیں ۔سامنے کوئی بھی ہو۔وہ معنی نہیں رکھتا ۔اصل معاملہ ایسے طرز عمل کا ہے جوکلی طور پر قومی سلامتی کے منافی ہے ۔اس لئے بہترہوگا کہ اب انتظامی ادارے اور عدلیہ ٹانگوں میں جان ڈالیں ۔اور نیب سمیت جتنے ادارے بعض جمہوریوں کی کرپشن و بدعنوانی ،لوٹ مار بارے شواہد رکھتے ہیں۔مناسب انداز میں عدالتوں کے سامنے پیش کریں ۔اور اب تک جتنے فیصلے آچکے ۔بطور ریاست عدلیہ کے فیصلوں کا احترام ہونا چاہیے ۔نیز عدلیہ ،انتظامیہ ،قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کیخلاف زہریلے پروپگنڈؤں کو ٹھنڈے پیٹوں نہیں لیا جائے ۔کہ اب سورتحال ’’آگے کنواں ،پیچھے کھائی‘‘والی بن رہی ہے ۔بھاگنے والے تو بھاگ جائیں گے ۔جنہیں پاکستان میں رہنا ہے ۔پاکستان کیلئے جینا مرنا ہے وہ ’’قومی رائے عامہ ‘‘کو بچانے کی تدبیرکریں ۔اظہار رائے کی آزادی کا مطلب یہ نہیں جو ہمارے ہاں باور کیا گیا ہے ۔اسوقت جس جس لبادے میں سرگرمیاں منظم ہیں ۔ہوچکی ہیں یا مذید ہونی ہیں یہ سب زیادہ پاکستان کیخلاف دشمن کی جنگ ہے جسکے پیش منظرکو دیکھ میں اپنے ہی لوگ ہیں جو سیاست و جمہوریت کے موجودہ نظام میں قابل ذکرہیں۔ انھیں دیکھ کرنتیجہ پرنہیں پہنچا جاسکتا ۔کیونکہ ایوب خان کے بعد دوسری بار فوج کے سربراہ کے بارے کچھ اور طرح کے نعرے لگنے لگے ہیں ۔اور تین بار وزیراعظم رہنے والی شخصیت بھی دشمن ملک کے میڈیا کو اچھا خاصا مواد مہیا کرچکی ۔یہی نہیں فوج کی سربراہی کا معاملہ بھی عدالت سے ہوکر اسمبلی میں جاکر نمٹایا جاچکا ۔اور فوج کے سربراہ کی توسیع سے بھی کچھ اثرات مرتب ہوئے ہونگے ۔اوراس کا عقیدہ بھی ابھی تک موضوع بنا ہوا ہے ۔اس لئے موجودہ بحرانی سورتحال کاپس منظرلازمی طور پرتوجہ طلب ہے ۔کہ کس کس کی ڈوریاں کہاں کہاں سے اور کون کون ہلا رہا ہے ۔

Agha Safeer Kazmi
About the Author: Agha Safeer Kazmi Read More Articles by Agha Safeer Kazmi: 16 Articles with 10043 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.