ارشادِ ربانی ہے :’’ اور انسانوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں
جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر اپنی جان بیچ ڈالتے ہیں (خطرے میں ڈال
دیتے ہیں) ‘‘۔کورونا لاک ڈاون میں کام کرنے والے نوجوانوں کی پذیرائی کی
تقریب میں شریک نےاپنا تجربہ بیان کیا کہ ابتدائی ایام میں جبکہ بہت خوف
اورکڑی سختی تھی اس کے ایک ہندو شناسا نے کارسے مع اہل و عیال ممبئی سے الہ
باد جانے کاقصد کیاکیونکہ ریل اور ہوائی جہاز بند تھے ۔ واپسی کے بعد اس
ہندو دوا فروش نے اس مسلم میڈیکل نمائندے کو بتایا کہ اس طویل اوردشوار
گزار سفر میں جہاں قدم قدم پر رکاوٹیں تھیں ان کی کھانے پینے کی اشیاء سے
مدد کرنے والے ۹۰ فیصد سے زیادہ مسلمان تھے۔ یہ بھی بتایا کہ وہ لوگ بلا
تفریق مذہب و ملت پریشان حال لوگوں کی مدد کررہے تھے۔ ان کے پاس نہ تو کسی
تنظیم کا پرچم تھا اور نہ اس کے پیچھے کوئی مفاد کارفرما تھا۔ ایک ایسے وقت
میں جبکہ عالمِ انسانیت اپنے گھروں میں محصور ہوگئی تھی یہ بے خوف لوگ اپنی
ذات کو خطرے میں ڈال کر باہر نکل پڑے تھے اور اجنبی لوگوں کی بے غرض مدد کر
رہےتھے ۔ اس دوا فروش نے یہ بھی کہا کہ اب اگر کوئی مجھے یہ بتانے کے لیے
آئے گا کہ مسلمان ایسے اور ایسے ہوتے ہیں تو میں اسے بتاوں گا کہ مسلمان
کیسے ہوتے ہیں؟ مذکورہ آیت کے اختتام اس طرح ہے کہ ’’اور اللہ (ایسے جاں
نثار) بندوں پر بڑا شفیق و مہربان ہے‘‘۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ
اس لوگوں کا دل بدل دیا۔
ملت اسلامیہ نے اس دردمندی کا مظاہرہ ایک ایسے پر فتن دور میں کیا جبکہ
چہار جانب مسلمانوں کے خلاف ایک طوفانِ بدتمیزی برپا تھا ۔ حکومت نے اپنی
ناکامی کی جانب سے توجہ ہٹانے کے لیے ذرائع ابلاغ کو مسلمانوں پر چھوڑدیا
تھا ۔وہ تبلیغی جماعت کی آڑ میں اہل اسلام کے خلاف زہر اگل رہا تھااور ان
کو ملک میں کورونا کے پھیلنے کا ذمہ دار قرار دے رہا تھا ۔ سرکار اور اس کے
گودی میڈیا کے ذریعہ اختیار کردہ رویہ پر قرآن مجید کی یہ آیت صادق آرہی
تھی کہ :’’ بعض لوگوں کی دنیاوی غرض کی باتیں آپ کو خوش کر دیتی ہیں اور وه
اپنے دل کی باتوں پر اللہ کو گواه کرتا ہے، حاﻻنکہدراصلوهزبردستجھگڑالوہے ۔
جب وه لوٹ کر جاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی اور کھیتی اور نسل کی
بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ فساد کو ناپسند کرتا ہے
۔اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈر تو تکبر اور تعصب اسے گناه پر آماده
کر دیتا ہے، ایسے کے لئے بس جہنم ہی ہے اور یقیناً وه بد ترین جگہ ہے‘‘ ۔اس
کے برخلاف مسلمان اللہ کی رضا جوئی میں بے لوث خدمت کررہے تھے اور عوام
الناس کے دل جیت رہے تھے۔
فرمانِ ربانی ہے:’’اور اس شخص سے بہتر بات کس کی ہوگی جو اللہ کی طرف بلائے
‘‘۔ اس زمانے لوگ اپنی زبان سے نہیں بلکہ عمل سے اسلام کی دعوت دے رہے تھے
جیسا کہ اس آیت کا اگلے حصے کا تقاضہ ہے: ’’اور نیک عمل بجا لائے‘‘۔ امت
کا دیندار طبقہ یہ کارِ خیر کو اسلامی شناخت کے ساتھ کررہا تھا جیسا کہ
ارشاد ہے:’’ اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں‘‘اس لیے اسے پہچانا بھی
جارہا تھا ۔ اس حکمت عملی کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ’’ اور بھلائی اور
برائی برابر نہیں ہیں آپ احسن طریقہ سے دفاعکریں تو دیکھیں گے کہ آپ کی جس
سے دشمنی تھی وہ گویا آپ کا جگری دوست بن گیا‘‘ ۔ قرآن حکیم یہ بشارت اپنا
رنگ دکھا رہی تھی۔ ان حالات میں لوگ یا تو مایوسی کا شکار ہوجاتےہیں یا
ردعمل میں حد سے گزر جاتےہیں مگر وہ سعید روحیں مستثنیٰ ہیں جن کی بابت
فرمایا گیا :’’ اور یہ صفت انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کرتے ہیں اور
یہ طریقۂ کار انہی کو سکھایا جاتا ہے جو بڑے نصیب والے ہوتے ہیں‘‘۔اس وقت
ایسا لگتا تھا کہ گویا یہ آیت پھر سےنازل ہورہی ہے اور اس پر عمل در
آمدکیا جارہا ہے۔ اہل ایمان کواس کام پرابھارنے کی خاطر کوئی مہم چلا نے
کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اپنے خالق کی محبت میں انہوں نے خلق خدا کی خدمت
کی۔ اپنے پیارے رسولؐ کے اسوے پر عمل کرتے ہوئے آخرت کے اجرو وثواب کےلیے
دشمنوں سےبھی حسن ِ سلوک کیا ۔ امت کے اندراس معاملے میں کوئی اختلاف نہیں
تھا۔
|