بھارت نے دو مواقع پر اہلیانِ کشمیر کے ساتھ جس جبر، ظلم
اور تعدی کا مظاہرہ کیا اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
پہلاموقع27اکتوبر1947ء کا تھا جب بھارتی فوجیں کشمیر میں اتریں جنہوں نے
ہلکے ہتھیاروں کے ساتھ ڈوگرہ فوج کو تہس نہس کرتے تیزی کے ساتھ آگے بڑھتے
مجاہدین کو روک لیا جس سے کشمیر کی تاریخ بدل گئی اور اہلیانِ کشمیر اِس
جبر کی شکار ہوگئے جو ان کی تیسری نسل کے بعد اب چوتھی نسل تک پہنچ چکا ہے۔
اور دوسرا موقع 5اگست 2019ء کا تھا جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی شناخت ختم
کرڈالی، اس خطہ کو دوحصوں میں منقسم کردیا اور اس طرح تحریک آزادی کو پامال
کرنے کی کوشش کرڈالی۔ پہلی دفعہ بھارت نے 1947ء میں کشمیر پر جابرانہ
غاصبانہ قبضہ کیا اور دوسری بار تقریباً72برس بعد کشمیر کی شناخت ختم کردی
۔ اس طرح ان دونوں مواقع پر جس طرح تاریخ کشمیر، حریت کشمیر ، فکرِ کشمیر
اور کشمیریوں کی شناخت کو کچلنے، ختم کرنے اور مسخ کرنے کی جو کوشش کی گئی،
اس نے اگرچہ کچھ دیر کے لیے کشمیریوں کی روح پر چرکے لگائے لیکن جلد ہی وہ
سنبھل گئے اور پھر انہوں نے نئے عزم اور نئے ولولے کے ساتھ آزادی کی جدوجہد
شروع کردی۔ چنانچہ جب 27اکتوبر1947 کو بھارتی فوجیں سرینگر کے ہوائی اڈے پر
اتریں اور انہوں نے مجاہدین کی پیش قدمی میں رخنہ ڈالا تو مجاہدین وقتی طور
پر پسپا ہوئے ۔ اس کی بنیادی وجہ بھارتی فوج کا بھای ہتھیاروں سے لیس ہونا
اور مجاہدین کے پاس ہلکے ہتھیاروں جیسے توڑے داد بندوقیں وغیرہ ہونا تھا ۔
پھر یہ اسلحہ بھی نہایت قلیل مقدار میں تھا ۔ تاہم کچھ وقت کے بعد تحریک
آزادی نئے روپے اور آہنگ و ترنگ کے ساتھ جس طرح شروع ہوئی اس نے پون صدی سے
بھارت کو ناکوں چنے چبوا رکھے ہیں۔
5اگست2019ء کو آئینی ترامیم اور کشمیر کی تقسیم کے عمل کے بعد بھی کشمیریوں
نے جس طرح اپنی جدوجہد کا علم بلند کررکھا ہے ، اس سے ان کے پایۂ عزم میں
کوئی لغزش نہیں آئی اور وہ پہلے سے بھی کہیں زیادہ حوصلے اور توانائی کے
ساتھ اپنے مقصد کے حصول میں گامزن ہیں۔
بھارت نے قانون تقسیم ہند کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے27اکتوبر1947ء کو
کشمیرکے دارالحکومت سرینگر کے ہوائی اڈے پر اپنی فوجیں اتارنے کیلئے کئی
غلط حقائق کا سہارا لیا۔ اس سلسلے میں بھارت کے رہنما پنڈت جواہر لال نہرو
اور ان کی کابینہ کے دیگر افراد اور سرکردہ ہندو لیڈروں نے برطانوی حکومت
کہ یہ باور کروایا تھا کہ اگر مہاراجہ ہری سنگھ کی مدد کیلئے فوری طور پر
کشمیر میں فوجیں نہ اتاری گئیں تو صرف کشمیر کی ڈوگرہ حکومت ہی خطرے سے
دوچار نہیں ہوگی بلکہ ا س سے خود بھارت کو بھی خطرہ درپیش ہوگا۔ اخلاقی
جواز پیش کرتے ہوئے ڈھنڈوراپیٹا گیا کہ مہاراجہ نے کشمیر کا الحاق بھار ت
کے ساتھ کرلیا ہے چنانچہ اب بھارت پر کشمیر میں فوجیں اتارنے اور حملہ
آوروں کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے پر کوئی قدغن نہیں۔
مشہوربرطانوی مورخ کرسٹینا لیمپ اپنی تصنیف ’’دی برتھ آف ٹریجڈی کشمیر ‘‘
کے صفحہ نمبر 85پررقم طراز ہیں کہ 25اکتوبر1947ء کو بھارتی ڈیفنس کمیٹی کے
اجلاس کے فوری بعد وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے برطانوی وزیراعظم اٹیلی کو
ایک ٹیلی گرام ارسال کی جس میں لکھاتھا کہ ’’ریاست جموں وکشمیر کی صورتحال
میں ایک بہت بڑی تبدیلی رونما ہورہی ہے۔ آفریدیوں اور قبائلیوں کی بہت بڑی
تعداد نے ریاست پر حملہ کردیا ہے۔ انہوں نے متعدد قصبوں پر قبضہ کرلیا ہے
اورغیر مسلموں کی بہت بڑی تعداد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے۔ ہماری اطلاع
کے مطابق یہ حملہ آور گاڑیوں پر سوار ہیں، ان کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں
اور وہ پاکستان کے علاقے سے آئے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعا ت کے مطابق وہ
شاہراہ جہلم ویلی سے وادی ٔ کشمیر کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ‘‘
اس ٹیلی گرام میں یہ بھی ذکر کیا گیا کہ کشمیرکا شمالی علاقہ افغانستان،
روس اور چین کے ساتھ متصل ہے۔ کشمیر کی سلامتی کیلئے لازمی ہے کہ کسی قسم
کا کوئی اندرونی خلفشار اور انتشار نہ ہواور یہ کہ یہاں ایک مستحکم حکومت
ہو۔ یہ چیزیں بھارت کی سلامتی کیلئے بھی لازم ہیں۔ ان امور کا ذکر کرتے
ہوئے گویا برطانوی وزیراعظم کو یہ باور کروانا تھا کہ اگر حملہ آوروں نے
ریاست پر قبضہ جمالیا یا وہ یہاں بڑے پیمانے پر بدامنی پیدا کرنے میں
کامیاب ہوگئے تو افغانستان ، روس یاچین کو ریاست میں مداخلت کرنے کا موقع
مل جائے گا۔ ان ممالک میں سے کسی ایک کی بھی یہ مداخلت نہ صرف ریاست کیلئے
نقصان دہ ہوگی بلکہ بھارت کی سلامتی بھی کسی خطرے سے دو چار ہوجائے گی۔
درحقیقت ان دلائل کا سہارا لے کر بھارت ، برطانوی وزیراعظم کی خوشنودی حاصل
کرنا چاہتا تھا تاکہ کشمیر پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا جائے۔ اگر وہ ایسا نہ
کرتا تو اُسے قانون تقسیم ہند کی خلاف ورزی کرنے کی سخت ہزیمت اٹھانا
پڑتی۔برطانیہ کی خوشنودی ملنے سے اُس کی پوزیشن کافی مستحکم ہوجاتی۔
بھارت کی کشمیر پر فوج کشی تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی ایک کوشش تھی۔ اس
اقدام کے لئے بھات نے بیک وقت کئی غلط اور گمراہ کن دلائل کے سہارے لئے
مثلاً برطانیہ کو غلط آگاہی دی گئی کہ پاکستان کی جانب سے کشمیر میں ڈوگرہ
فوج سے لڑائی کیلئے مجاہدین کی بہت بڑی تعداد حملہ آور ہوچکی ہے اور جو جلد
ہی کشمیر کی سرحد سے بھارت میں داخل ہوجائے گی، دوسرا ڈوگرہ مہاراجہ نے
کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ کرلیا ہے، تیسرا کشمیری عوام کی اکثریت بھارت
سے مدد کی خواہشمند ہے، چوتھا بھارت قانون تقسیم ہند کی رو سے عملی طور پر
پابند ہے کہ وہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف برطانیہ کی
خوشنودی کے تابع اقدام کرے ، پانچواں اگر بیرونی حملہ آور کشمیر کے اندر
بدامنی پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو دیگر پڑوسی ممالک کو بھی ریاست میں
مداخلت کرنے کا موقع مل جائے گا جس سے بھارتی مفادات کو سخت خطرات لاحق
ہوجائیں گے ۔
اقوام متحدہ نے 1947ء سے لے کر بعد کے برسوں کے دوران درجنوں قراردادیں پاس
کی ہیں لیکن عملی طور پر کسی ایک قرارداد پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔ بھارت
ایک جانب کشمیرکی جغرافیائی حیثیت اور الگ شناخت کو مٹارہاہے تو دوسری جانب
وہ کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کے منصوبے پر عمل پیرا ہے ۔ اس سلسلے میں اب
وہ ایک نئی حکمت عملی آزماتے ہوئے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بے دردی
کے ساتھ شہید کررہاہے۔برہان وانی کی شہادت کے بعد یہ عمل تواتر کے ساتھ
جاری ہے لیکن یہ جابرانہ اقدام بھی مسلمانانِ کشمیر کے عزم اور ارادے کی
سیسہ پلائی ہوئی دیوار میں کوئی رخنہ نہیں ڈال سکا۔ ہر جبر کے بعد تحریک
زیادہ جوش اور ابال کے ساتھ ایک نیارخ اختیار کرلیتی ہے اور جب تک مکمل
آزادی کشمیریوں کامقدر نہیں بن جاتی، یہ جوش اور جذبہ اِسی طرح اس تحریک کی
آبیاری کرتا رہے گا۔ ایک کے بعد ایک کشمیری اورایک کے بعد ایک نسل اس کو
پروان چڑھاتی رہے گی۔ ٭٭٭ |