ملوکیت کی طرح جمہوریت میں بھی اقتدار کا دفاع دو محاذ پر
کیا جاتا ہے۔صدیوں سے اصحابِ اقتدار کو خارجی محاذ پر چوکنا رہنا پڑتا تھا
کہ کہیں کوئی دوسرا بادشاہ حملہ کرکے تخت سےبے دخل نہ کردے ۔ اس مقصد کے
حصول کی خاطر فوج بنائی جاتی تھی اور اپنے سب سے بڑے وفادار کواس کا سپہ
سالار بنایا جاتا تھا ۔ اب فوج کی جگہ پارٹی نے لی ہے اسی لیے نریندر مودی
نے اقتدار سنبھالتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے خاص معتمد امیت شاہ کو پارٹی کی
صدارت پر فائز کردیا ۔ دوسرا محاذ داخلی ہوتا ہے کہ محل یا فوج کے اندر
جولوگ خطرہ بن سکتے ہوں ان کو مختلف بہانوں سے ٹھکانے لگانا۔ اس کی
خاطرپہلے تو انہیں مارگ درشک منڈل کے حصار میں بند کردیا گیا اور جو اس سے
باہر رہ گئے انہیں وزارت داخلہ سے ہٹا کر وزیر دفاع بنا دیا گیا تاکہ سرحد
پر چین سے نمٹیں اور اپنا آدمی ملک کے اندر فتنہ فساد پھیلاکر اقتدار کو
مضبوط کرتارہے ۔ پہلے امن و امان قائم کرکے اقتدار کو مضبوط کیا جاتا تھا
اب ہیجان و فساد کے ذریعہ وہ مقصد حاصل کیا جاتا ہے ۔ یہ خارجی تبدیلی تو
واقع ہوگئی اس کے علاوہ کچھ نہیں بدلا۔ زمانہ بدل گیا ، نظام بھی بدل گیا
لیکن اقتدار پر قابض لوگوں کے مزاج نہیں بدلا بقول علامہ اقبال ؎
مجلسِ ملّت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سُلطاں، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
اپنےآقا ابلیس کی زبانیمندرجہ بالہ یقین دہانی کو سن کر اس کا تیسرا مشیر
اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے’روحِ سُلطانی رہے باقی تو پھر کیا
اضطراب‘۔ ایکناتھ کھڑسے کو روسوا کرکے پارٹی سے نکل جانے پر مجبور کردینا
اسی روحِ سلطانی کی کرشمہ سازی ہے۔ آزادی کے بعد مہاراشٹر کا برہمن
اشتراکی اور سنگھی خیموں میں منقسم ہوگیا لیکن چونکہ عالمی سطح پر سوویت
یونین کا بول بالا تھا اس لیے برہمنوں کے نزدیک بھگوا جھنڈے پر سرخ پرچم
کوفوقیت حاصل تھی۔ یشونت راو چوہان کی قیادت میں مغربی مہاراشٹر کا مراٹھا
سماج کانگریس کے ساتھ تھا ۔چوہان کو مرکز میں بلاکر کانگریس نے کمال
ہوشیاری سے ودربھ کے وی پی نائک کو صوبے کا وزیر اعلیٰ بنادیا۔ اس طرح
شمالی مہاراشٹر کے پسماندہ طبقات کو بھی اس کے ساتھ ہوگئے ۔ اس سیاسی حکمت
عملی کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایمرجنسی کے بعد
پورے ملک سے کانگریس کی ہوا اکھڑ ی مگر مہاراشٹراس کے ساتھ رہا۔ غلام نبی
آزاد اور نرسمھا راو جیسے قومی رہنما وں کو مہاراشٹر سے کامیاب کرکے
ایوانِ پارلیمان میں بھیجا جاتا جبکہ اپنے صوبے سے ان کا جیتنا مشکل ہوتا ۔
ان مشکل حالات کے اندر بی جے پی نے مراٹھواڑہ اور خاندیش کے جن پسماندہ
رہنماوں پر بازی کھیلی وہ گوپی ناتھ منڈے اور ایکناتھ کھڑسے تھے۔ ان لوگوں
نے پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیے اپنی جوانی کھپا دی۔ نرسمہا راو کےزمانے میں
جب شرد پوار کا سیاسی مستقبل خطرے میں تھا تو انہوں نے اپنے ذاتی مفاد کی
خاطر آزاد میداواروں کی مدد سے کانگریسی امیدواروں کو شکست دینے کی کوشش
کی اور خود بھی ہار گئے ۔ اس زمانے میں شرد پوار اسی طرح جوان اور آرزومند
رہنما تھے جیسا کہ فی الحال دیویندر فردنویس ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت کے
بعد ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں شرد پوارنے اقتدار کے زعم میں یہاں
تک کہہ دیا تھاکہ ہمیں مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ فی الحال فردنویس
اپنے عمل سے یہی کہہ رہے ہیں کہ انہیں پسماندہ رائے دہندگان کی پروا نہیں
ہے یعنی ان کے لیے مودی کا جادو اور مرکز کا ڈنڈا کافی ہے ۔
فردنویس نے بھی اسی طریقۂ کار کو اپنایا جس کا سب سے بڑا ثبوت کھڑسے کی
بیٹیروہنی کی شکست ہے۔ مکتائی نگر سے ایک آزاد امیدوار نے انہیں شکست فاش
سے دوچار کردیا ۔ یہاں پر گزشتہ ۳۰ سالوں سے ایکناتھ کھڑسے اپنی فتح درج
کراتے رہے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شرد پوار کی مانند ان کے نقشِ قدم
پر چلنے والا دیویندر فردنویس بھی اقتدار سے محروم ہو گیا۔ نظریاتی اختلاف
کے بلند بانگ دعووں کے باوجود جمہوری نظام سیاست کی مشترک نفسیا ت نے دونوں
رہنماوں کو یکساں حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ ان انجامِ کار میں
پائی جانے والی زبردست یکسانیت دراصل اس نظام جبر کی فطرت ثانیہ ہے۔ایکناتھ
کھڑسے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مہاراشٹر کی پہلی
شیوسینا ؍بی جے پی حکومت میں انہیں پہلے سینچائی اور پھر محصول کا وزیر
بنایا گیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب مرکزی وزیر نتن گڈکری انتخاب لڑ کر
جیتنے کے بجائے کونسل سے منتخب ہوتے تھے اور گوپی ناتھ منڈے صوبے کے نائب
وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ 2009 سے 2014کے درمیان ایکناتھ کھڑسے حزب اختلاف کے
رہنما کی حیثیت سے کانگریس و این سی پی کے خلاف برسرِ پیکار رہے اور اب
شردپوار کی گھڑی تھام کر کمل کی جڑ کھودنے کا کام کریں گے ۔ یہ بھی عجیب
اتفاق ہے کہ شیوسینا کے ساتھ بی جے پی کی 25 سالہ دوستی کو 2014میں ختم
کرنے کے لیے جو ایکناتھ کھڑسے پیش پیش تھا وہی اب شیوسینا کے وزیر اعلیٰ کی
کابینہ میں شامل ہوکر اپنی خدمات انجام دے گا ۔ اسے کہتے ہیں گردش زمانہ کے
ہیر پھیر کہ اس کے پھیرے میں پڑ کر ہر ناممکن نظر آنے والی شئے ممکن
ہوجاتی ہے ۔مہاراشٹر کی سیاسی تاریخ سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ بی جے پی سے
این سی پی میں آنے والے کھڑسے پہلے رہنما نہیں ہیں ۔ اس سے قبل پونے شہر
کے سابق رکن پارلیمان انا جوشی کو جب بی جے پی نے ٹکٹ نہیں دیا تو وہ ناراض
ہوکر این سی پی میں چلے گئے ۔ وہاں انہیں اسمبلی کا ٹکٹ ملا لیکن وہ ہار
گئے۔ گوپی ناتھ منڈے کے قریبی بیڑ کے جے سنگھ راو گائیکواڑ بھی ناراض ہوکر
این سی پی میں چلے گئے تھے لیکن پھر لوٹ گئے۔ ایک زمانے میں گڈکری سے تنگ
آکر گوپی ناتھ منڈے نے بھی این سی پی میں جانے کا ارادہ کیا تھا مگر
اڈوانی نے انہیں سمجھا بجھا کر روک لیا۔ وہ بھی براہمن اور پسماندہ کے
درمیان لڑائی تھی اب گڈکری کی جگہ فردنویس اور گوپی ناتھ کی جگہ ایکناتھ
ہیں ۔
سیاست میں ابن الوقتی اس قدر عام ہوگئی ہے کہ کب کون کہاں چلا جائے کہا
نہیں جاسکتا۔ ایک زمانے میں ودربھ کے اندر بی جے پی کے بڑے رہنما پروفیسر
مہادیو راو سیونکر ہوا کرتے تھے ، پارٹی نے انہیں دھتکار دیا تو ان کا بیٹا
وجئے این سی پی میں چلا گیا اور الیکشن بھی لڑا مگر کامیاب نہیں ہوسکا۔
مراٹھواڑہ میں بی جے پی کی ومل مدنڈا این سی پی میں جاکر وزیر بنیں لیکن اب
ان کی بہو بی جے پی کی رکن اسمبلی ہیں ۔ڈاکٹر دولت راو اہیر بی جے پی سے
این سی پی میں گئے مگر ان کا بیٹا راہل بی جے پی سے رکن اسمبلی ہے۔اس
معاملے میں سب سے قلابازیاں بھنڈارہ ضلع کے ڈاکٹر خوشحال بوپچے نے کھائی
ہیں۔ وہ بی جے پی کے رکن اسمبلی اور رکن پارلیمان بھی تھے مگر ناراض ہوکر
این سی پی میں چلے گئے ۔ واپس آئے تو پھر سےبی جے پی نے ٹکٹ دے دیا اور
کامیاب بھی ہوگئے ۔ اس کے بعد دوبارہ این سی پی کی راہ لی اور بیٹے روی
کانت کو این سی پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑایا مگر کامیاب نہیں کرسکے ۔
آرایس ایس کا مرکزی دفتر ناگپور میں ہے مگر ۱۹۹۰ تک وہ وہاں سے رکن اسمبلی
تک کامیاب نہیں کرسکی۔ اسی شہر میں دیویندر فردنویس کے والد گنگا دھر راو
فردنویس سنگھ پرچارک تھے وہ اپنے شاگرد ونود گڑگھے پاٹل کو ا نگلی پکڑ کر
سیاست میں لے گئے اور ۱۹۹۵ میں پہلی ناگپور سے اسمبلی میں کامیابی درج
کروائی لیکن نظریاتی تربیت نہیں کرسکے۔ آگے چل کر جب بی جے پی ٹکٹ نہیں
دیا تو ان کا بیٹا پرفل گڑگھے کانگریس میں چلا گیا اور میونسپل کونسلر ہے۔
دیویندر کے خلاف بھی وہ انتخاب لڑ چکا ہے۔ سنگھ سے جن سنگھ اور پھر بی جے
پی میں کام کرنے والے ممبئی کے رہنما مدھو دیولیکر نے جب الزام لگایا کہ بی
جے پی میں بھی کانگریس کی طرح گروہ بندی ہے تو انہیں پارٹی نکال باہر کیا
گیا۔
ایکناتھ کھڑسے کے استعفیٰ نے مہاراشٹر میں پیشوائی کی یاد تازہ کردی۔ اس
الٹ پھیر کے بعد بھی اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ آرایس ایس بہت منظم
تحریک ہے۔ اس کی فکر مضبوط ہے اور اس کے کارکنان نظم و ضبط کے پابند ہیں تو
وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ یہ واقعات قوم کے تئیں سنگھ کی وفاداری کا
پردہ بھی فاش کردیتے ہیں ۔ بی جے پی کے اقرباء پروری سے پاک ہونے کے دعویٰ
کی بھی اس سے قلعی کھل جاتی ہے۔ کھڑسے کے نکل جانے پر دیویندر کی زبان گنگ
ہوگئی مگرصوبائی صدرچندرکانت پاٹل نے مگر مچھ کے آنسو بہائے لیکن سدھیر
منگٹیوار نے اپنے دل کی بات برملا کہہ دی۔ وہ بولے کھڑسے کا بی جے پی
چھوڑنا افسوناک ہے۔ان کی ذاتی رائے میں یہ پارٹی کے لیے یقیناً تشویش کا
سبب ہے۔ ۴۰ انہوں نے سالوں تک تنظیم کی خدمت کی ہے۔ سچی قوم پرستی سے قوم
پرستی کی نقاب اوڑھنے والی جماعت میں وہ جارہے ہیں ۔ کسی نہ کسی ناراضگی کے
سبب ان کا جانا فکر مندی کی بات ہے ۔ پارٹی کے لیے ان کی بہت بڑی خدمات
تھیں۔ منگٹیوار نے ایک فلمی نغمہ کی مدد سے اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے
ہوئے ’خوش رہے تو صدا یہ دعا ہے میری ‘ گایا اور بندنی فلم کا یہ بند
اکھڑسے کوالوداع کیا؎
او جانے والے ہوسکے تو لوٹ کے آنا
ہے کون وہاں تیرا سبھی لوگ ہیں پرائے
پردیس کی گردش میںکہیں تو بھی کھو نہ جائے
کانٹوں بھری ڈگر ہے تو دامن بچانا
اوجانے والے ہوسکے تو لوٹ کے آنا
|