ڈاکٹر شگفتہ نقوی
۔۔۔
صفدر علی حیدری یوں تو کافی عرصے سے لکھ رہے ہیں اور مختلف اخبارات و رسائل
میں شائع ہوتے رہتے ہیں
یہ البتہ انکی پہلی کاوش ہے جو کتاب کی صورت میں منظر عام پر آئی ہے -
میں انکی چند تحریریں پڑھ سکی ہوں
تحریر کی پختگی ' احساس کی گہرائی ' حقیقت کی عکاسی اور حق کو منظر عام پر
لانا وہ بھی عام فہم زبان میں انکی تحریر کی بنیادی خوبیاں ہیں -
انکا ایک کالم
اخلاص ۔۔احتیاط ۔۔۔ اختصار
میرے سامنے ہے
لکھتے ہیں
" بات وہی اچھی جو خاموشی سے بہتر ہو ورنہ چپ ہی بھلی کہ زیادہ بے محابا
اور بغیر سوچے سمجھے بولنے سے صاحب گفتگو کا وقار جاتا رہتا ہے ' رعب ماند
پڑ جاتا ہے
یہ بغیر محنت کے عبادت ہے -
اس میں کتنی محنت کرنا پڑتی ہے یہ تو چپ رہنے والا ہی جانتا ہے
آگے چل کر کہتے ہیں
" زبان خود تو بتیس دانتوں میں محفوظ رہتی ہے لیکن بیس پردوں میں چھپی چیز
کو مجال ہے جو بخش دے
دنیا کے ہر ہتھیار نے اس کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں
کبھی تو دین کی سلامتی نو حصے خاموشی میں ہے -
باب علم کا فرمان ذیشان ہے کہ جب علم بڑھ جاتا تو کلام کم ہو جاتا ہے
خالق کو زبان کی سختی پسند نہیں جبھی تو زبان میں اس نے ہڈی نہیں رکھی
آپ جوں جوں پڑھتے جائیں گے تو محسوس ہو گا باتیں عام سی ہیں لیکن انداز خاص
ہے
کچھ اشعار دیکھئے جو کتاب میں جابجا پائے جاتے ہیں اور انھوں نے نثر کو چار
چاند لگا دیے ہیں
کب سے اپنی تلاش میں گم ہوں
میرے خدا مجھے مجھ پہ افشا کر
میں جہاں کہیں بھی پھسل گیا وہیں گرتے گرتے سنبھل گیا
مجھے ٹھوکروں سے پتہ چلا میرا ہاتھ ہے کسی ہاتھ میں
جو بات معتبر تھی وہ سر سے گزر گئی
جو خوف سرسری تھا وہ دل میں اتر گیا
میں کیوں نہ ایک گھونٹ پہ اکتفا کرتا
کسی کی پیاس کو دریا کبھی ملا بھی ہے
ہے ناخدا کا میری تباہی سے واسطہ
میں جانتا ہوں نیت دریا بری نہیں
اپنے ایک کالم شہر آسیب میں یوں رقم طراز ہیں
" بچپن میں دیکھا ایک ڈرامہ آج تک مجھے یاد ہے جس میں آٹھ دس مختلف افراد
کو دکھایا گیا ہے اور وہ سبھی ایک دوسرے کے ہاتھوں زخم خوردہ ہیں لیکن یہ
کہتے ہوئے ہائے گئے ہیں کہ زمانہ کتنا خراب ہو گیا ہے
ایمان داری تو نام کو نہیں رہی
حالانکہ وہ سب ایک دوسرے پر ہاتھ صاف کرتے پائے جاتے ہیں "
عام سی باتوں کو خاص انداز میں پیش کرنے کا ہنر انھوں خوب آتا ہے
وہ قلم کو معاشرے کی اصلاح کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں
وہ چاہتے ہیں کہ ہمارا ضمیر جاگ جائے
ہم خود بھی تو اس معاشرے کے افراد ہیں ۔
اگر معاشرے میں کوئی خرابی نظر آتی ہے وہ اس معاشرے کے افراد کا عکس ہی تو
ہوتی ہے
اور ایک فرد خود احتسابی کا عمل شروع کرتا ہے تو یہ معاشرے کی اصلاح کی
جانب ایک پہلا مثبت قدم ہوتا یے
صفدر علی حیدری کا قلم معاشرے میں پائی جانے والی خرابیوں کا نہ صرف تجزیہ
کرتا ہے بلکہ آپریشن کرتا چلا جاتا ہے بالکل کسی ماہر سرجن کی طرح ۔۔۔۔
لیکن مشکل یہ ہے کہ وہ صرف قلم سے اس قوم کو جگا رہے ہیں جبکہ ہم کو جاگنے
کے لیے " صور اسرافیل " کی ضرورت ھے
ہر شخص اپنی مجبوری کا رونا روتا دکھائی دیتا ہے کہ وہ حالات کی زنجیروں
میں اس طرح جکڑا ہوا ہے کہ کسی بھی جہاد کا حصہ بننے سے قاصر ہے
پھر جیسے حکمران ہوں گے ویسی رعایا
کیوں کہ لوگ اپنے حکمرانوں کے دین پر ہوتے ہیں
جب اقتدار کے ایوانوں میں عہدوں پلاٹوں فیکٹریوں کی بندر بانٹ ہو گی تو اس
کا اثر نیچے مزدور تک آئے گا
ایمانداری دیانت اور عدل ہماری زندگیوں سے نکل گئے ہیں یا ہم نے ہی انھیں
اپنی زندگیوں سے نکال دیا ہے
اخلاق زوال پزیر اور کردار کے نام پر سبھی چھوٹے بڑے لالچ کے تالاب میں
ڈوبے ہوئے ہیں
یہ ضروری نہیں کہ صفدر علی حیدری کے یہ کالم ہماری قوم کی تقدیر بدل دیں
لیکن
مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ
میں پوری کتاب نہیں پڑھ سکی اور چیدہ چیدہ کالم ہی پڑھے ہیں -
بات سچی ہے دل کو لگتی ہے اور کئی سوالیہ نشان چھوڑ جاتی ہے -
شاید ہم ان سب کا جواب تلاش کرتے کرتے کسی ایسے موڑ پر آجائیں کہ ہمارا نفس
پاک ہونے کا مطالبہ کر بیٹھے
بس مجھے بھی اس معجزے کا انتظار ہے -
کتاب بار بار پڑھنے کے قابل ہے
ہر دفعہ سوچ کے نئے زاویے سامنے آتے ہیں
اچھی بات یہ ہے کہ کتاب کی قیمت بھی کچھ زیادہ نہیں -
|