ڈاکٹر نثار احمد قریشی: کہاں پہ خیمۂ جاں نے پڑاؤ ڈالا ہے

 آ غشتہ ایم ہر سر ِ خارے بہ خونِ دِل
قانونِ باغبانی ٔ صحرا نوشتہ ایم ( عرفی ؔ)
23 جون 2007 ء کو اجل کے بے رحم ہاتھوں سے انسانی ہمدردی ،اخلاق و اخلاص،وفا،ایثار،دردمندی ،بے لوث محبت اور بے باک صداقت کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی زمیں بوس ہو گئی۔ اسلام آباد کے شہر خموشاں کی زمین نے ادیان ِ عالم ، تاریخ ،علم و ادب،تہذیب و ثقافت ،فلسفہ اور علم بشریات سے وابستہ علوم کے اِس آسمان کو اپنے دامن میں چھپالیا۔ سمے کے سم کی مسموم ہوا کے چلنے کے اس لرزہ خیز المیے کے نتیجے میں گلوں کی شگفتگی اور عطر بیزی ہوا ہوگئی ۔اپنی اچھی اور لائق صد رشک و تحسین عادات کے وسیلے سے مسرتیں اور کامرانیاں سمیٹنے کی تلقین کرنے والا بے لوث ناصح چل بسا۔وہ زیرک ،فعال ،مستعد اور مخلص ماہر تعلیم ،مصلح اور مفکررخصت ہواجس نے زندگی بھر افرادِ معاشرہ پر بلا امتیاز ممنونیت کے احساس، دردمندی کی شبنم ،شکر گزاری کے جذبات ،ایثار و انکسار کی مثال ، صبر و تحمل کی نظیر ،ایفائے عہد کے جواہر ،حرف ِصداقت کے پھول اور بے پایاں شفقتوں کی مہک نچھاورکی ۔حریت فکر و عمل کا وہ پیکر اب ہمارے درمیان موجود نہیں جس نے سدا تیشۂ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے کی سعی کی۔حریت ِ فکر کی پیکار اور ضمیرکی للکار سے کذب و افترا کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دینے والا نا یاب حق پرست اب ملکوں ملکوں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کوقدرت ِکاملہ کی طرف سے عرفانِ ذات کی جو صلاحیت عطا کی گئی تھی اس کے اعجاز سے انھوں نے اپنی صلاحیتوں پر انحصار کرتے ہوئے عملی زندگی میں فقیدالمثال کامرانیاں حاصل کیں ۔

عالمی شہرت کے حامل اردو زبان و ادب کے نامور استاد ،مستند محقق،زیرک نقاد،ممتاز دانش ور اوریگانہ ٔ روزگار فاضل پروفیسر ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی دائمی مفارقت ایک بہت بڑا قومی سانحہ ہے ۔علم و ادب کا وہ آفتاب جہاں تاب جو 1948ء میں گوجر خان (راول پنڈی۔پنجاب پاکستان ) سے طلوع ہوا پوری دنیا کو اپنی ضیا پاشیوں سے منّورکرنے اور سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے کے بعد عدم کی بے کراں وادیوں میں غروب ہو گیا۔اسلام آباد میں جب ان کا آخری دیدار کرنے میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچا توملک کے طول و عرض سے آنے والے ان کے ہزاروں شاگرد دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔پورا شہر حسرت و یاس کی تصویر بن گیا تھا ۔ہر دل سوگوار اور ہر آنکھ اشکبار تھی ۔دلوں کو مسخر کرنے والے اس عظیم اُستاد نے اردو تحقیق و تنقید کی ثروت میں جو اضافہ کیا وہ تاریخ ادب میں آب زر سے لکھا جائے گا۔ان کی الم ناک وفات کے بعد اردو زبان و ادب کے طلبا اور اساتذہ خود کو بے یار و مددگار محسوس کرتے ہیں ۔اردو تحقیق اور تنقید کا یہ مرد آہن اپنی ذات میں ایک انجمن اور دبستان علم و ادب تھا ۔زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس کا ایک عالم معترف تھا۔ان کی اچانک وفات اتنا بڑا سانحہ ہے جس کے اثرات عالمی سطح پر فروغ اردو کوششوں پر بھی مرتب ہوئے۔پوری دنیا کے علمی اور ادبی حلقوں میں ان کی وفات پر صف ماتم بچھ گئی اور بے شمار تعزیتی پیغامات آئے ۔وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ اردو کے سربراہ اور فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین تھے ۔ان کی قیادت میں علامہ اقبال اوپن یو نیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اردو نے کامیا بیوں اور کامرانیوں کے درخشاں باب رقم کیے ۔انھوں نے پانچ سو سے زائد طلبا اور طالبات کو ایم ۔فل اردو کی تعلیم دی اور پچاس کے قریب ریسرچ سکالرزنے ان کی رہنمائی میں پی ایچ۔ڈی کے تحقیقی مقالے تحریر کیے جو کہ ان کا منفرد اعزاز ہے ۔ ؂
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد

ڈاکٹر نثار احمد قریشی کا تعلق گوجر خان ( راول پنڈی ) کے ایک ممتاز علمی اور ادبی خاندان سے تھا۔ان کے والد ایک عالم با عمل تھے ۔پورے علاقے میں انھیں عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔پاکستان بھر میں اس عظیم خاندان کی شرافت، خود داری ،انسانی ہمدردی ،خلوص اور علم دوستی مسلمہ تھی ۔ حقیقت میں وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے والے محنتی اور دیانت دار شخص تھے ۔ان کی خاندانی روایات جو انھیں ورثے میں ملیں ان کے مطابق ان کے مزاج میں ایک شانِ استغنا تھی۔ وہ در کسریٰ پر صدا کرنے کے قائل نہ تھے بلکہ نان جویں پر ہی گزر بسر کرنے کو ترجیح دیتے تھے ۔ وہ خودی کو برقرار رکھ کر غریبی میں نام پیدا کرنے کا عملی نمونہ تھے ۔مشرقی تہذیب اور اردو زبان و ادب کا اتنا بڑا شیدائی میں نے آج تک نہیں دیکھا ۔تہذیب اور زبان و ادب کے اعتبار سے وہ آفاقیت کے قائل تھے ۔ان کی تربیت ہی ایسے انداز میں ہوئی تھی کہ وہ انسانی مساوات کو اوّلین ترجیح دیتے ۔علاقائی ،لسانی ،نسلی اور دیگر امتیازات ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے ۔انسانیت کا وقار اور انسانی حقوق کی پاس داری زندگی بھر ان کا نصب العین رہا۔کسی کو دکھ اور تکلیف کے عالم میں دیکھ کر وہ تڑپ اٹھتے اور مقدور بھر کو شش کرتے کہ ان دکھوں کا مداوا کر کے آسانی کی کوئی صورت تلاش کر سکیں۔غریبوں کی حمایت ،درد مندوں اور ضعیفوں سے محبت ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا ۔ہوائے جور و ستم میں بھی وہ رخ وفا کو بجھنے نہ دیتے تھے۔ان کی زندگی شمع کی صورت تھی اور وہ اذہان کی تطہیر و تنویر کے لیے وقف تھی ۔

گوجر خان سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے پنجاب یونیورسٹی ، لاہور سے اردو زبان و ادب میں ایم ۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔اس کے بعد وہ شعبہ تدریس سے وابستہ ہو گئے۔اپنی تدریسی زندگی کا آغازانھوں نے 1972ء میں پاکستان فضائیہ کے کالج چکلالہ، راول پنڈی سے بحیثیت لیکچرر کیا۔یہاں انھوں نے دو سال تدریسی خدمات انجام دیں۔اس دور کی یادوں کو وہ اپنی زندگی کا بیش بہا اثاثہ قرار دیتے تھے ۔ وہ پاکستانی فضائیہ کے عالمی شہرت یافتہ فائٹر پائلٹ محمد محمود عالم (M.M Alam: 1935-2013) سے بہت متاثر تھے ۔ وہ یہ بات زور دے کر کہتے تھے کہ دنیا کی جنگی تاریخ میں اتنا بڑاجنگ جو پائلٹ آج تک پیدانہیں ہوا جس نے دشمن کے پانچ لڑاکاطیارے ایک منٹ میں مار گرائے ہوں ۔پاکستان فضائیہ کو بجا طور پر 1965ء کی پاک بھار ت فضائی جنگ کے اِس ہیرو کی عدیم النظیر شجاعت پر ناز ہے ۔ پاکستان فضائیہ کالج چکلالہ میں دو سال خدمات انجا م دینے کے بعد وہ گورنمنٹ کالج گجرات میں تدریسی خدمات پر مامور ہو گئے۔ یہاں انھوں نے بڑے زوروں سے اپنی صلاحیتوں کا لو ہا منوایا۔ انھوں نے پنجاب یونیورسٹی ،لاہور سے نامور ماہرتعلیم اور ادیب صوفی غلام مصطفی تبسمؔ(1899-1978) کی حیات اور ادبی خدمات کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ان کا یہ تحقیقی مقالہ معیار اور وقار کی رفعت کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے ۔ اعلیٰ تعلیم ان کا نصب العین تھا اس کے بعد وہ پاکستان کے ایک بہت بڑے تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج اصغر مال ،راول پنڈی میں تدریسی خدمات پر مامور ہوئے ۔اس عرصے میں ان کی علمی اور ادبی فعالیت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ راول پنڈی ا ور اس کے گرد و نواح میں منعقد ہونے والی علمی و ادبی نشستوں میں ان کی شمولیت سے ان محافل کی رونق کو چار چاند لگ جاتے اور اس طرح اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے ایک وقیع سلسلے کا آغاز ہو گیا۔اس عرصے میں انھیں جن ممتاز ادیبوں کے ساتھ بیٹھنے اور مل کر کام کرنے کا موقع ملا ان میں سید ضمیر جعفری ،کرنل محمد خان،بریگیڈئیر شفیق الرحمن، صدیق سالک ،کیپٹن سید جعفر طاہر،محمد خالد اختر،یوسف حسن خان، خاطر غزنوی،محسن احسان، غلام محمد قاصر،غفار بابر،بشیرسیفی ،شیر افضل جعفری ،رام ریاض ،مجید امجد اورمحسن بھوپالی کے نام قابل ذکر ہیں۔راول پنڈی میں تنقیدی نشستوں کے باقاعدہ انعقاد کے سلسلے میں ڈاکٹر نثار احمد قریشی کا نام اس کے بنیاد گزاروں میں شامل ہے ۔ان کے ادبی مضامین اور شعری تخلیقات 1960 سے شائع ہو رہی تھیں ۔انھیں ملک کے تمام ادبی حلقوں میں پذیرائی نصیب ہوئی۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے اس علاقے میں علم و ادب کے فروغ کے سلسلے میں ایک تڑپ پیدا کر دی اور دلوں میں ایک ولولہ ٔتازہ پیدا کر کے اردو زبان و ادب کے شیدائیوں میں ایک نئی روح پھونک دی ۔گورنمنٹ کالج اصغر مال راول پنڈی میں ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے چار سال تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ان چار برسوں میں اس عظیم مادر علمی میں بزم ادب نے جو فقید المثال کامرانیاں حاصل کیں ان کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ۔آج بھی اس ادارے کے اعزازات میں ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی گراں قدر خدمات کا ممنونیت کے جذبات سے اعتراف کیا جاتا ہے ۔کل پاکستان علمی و ادبی تقریبات میں اس ادارے کے طلبا نے بھر پور شرکت کی اور خیبر سے مہران تک اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے ۔وہ خود ایک قادر الکلام شاعر،شعلہ بیان مقرر،بلند پایہ مضمون نگار،اور ماہر تعلیم تھے اس لیے ان کے شاگرد ان کی فکر پرور اور بصیرت افروز رہنمائی میں بلند ترین منزلوں کی جستجو میں رواں دواں رہتے تھے ۔وہ خاک کو اکسیر کرنے اور ذرے کو آفتاب بنانے کے لیے اپنے خون جگر کی آمیزش سے ید بیضا کا معجزہ دکھانے پر قادر تھے ۔غبار راہ سے جلوہ ہا تعمیر کرنا ان کی ایسی کرامت تھی جس میں ان کا کوئی شریک اور سہیم نہ تھا۔سال 1978 ء میں ڈاکٹر نثار احمد قریشی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں لیکچرر اردو منتخب ہوئے ۔یہاں ان کی آمد سے علمی و ادبیحلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔جمود کا خاتمہ ہوگیا اور تخلیق ادب کے لیے فضاانتہائی ساز گار ہوگئی۔ اس دور میں پاکستان کے نامور ادیب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں تدریسی خدمات پر مامورتھے ۔ان میں ڈاکٹر رحیم بخش شاہین،ڈاکٹر محمد ریاض ،پروفیسر نظیر صدیقی،ڈاکٹر محمود الرحمن، ڈکٹرسلطانہ بخش اور ڈاکٹر بشیر سیفی کے نام قابل ذکر ہیں۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی مقناطیسی شخصیت کے اعجاز سے یہاں ایک ایسی فضا پروان چڑھنے لگی جس نے حالات کی کایا پلٹ دی اور صحرا کو گلزار میں بدل دیا گیا۔پورے ملک سے ریسرچ سکالرز اس عظیم جامعہ میں داد تحقیق دینے لگے ۔ملک کے طول و عرض سے تشنگان علم ان نا بغہ ٔروزگار دانش وروں سے اکتساب فیض کرنے کے لیے ایسے دیوانہ وار یہاں آنے لگے جیسے پیاسا کنویں کی جانب آتا ہے ۔ان اساتذہ کی بے مثال شفقت اور ایثار کا ہر طالب علم معترف تھا۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی کا گھر دور دراز علاقوں سے آنے والے طلبا کے لیے مہمان خانہ بن جاتاتھا۔ مالی لحاظ سے مستحکم طلبا و طالبات تو وزارت تعلیم کے ہاسٹل یا علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ہاسٹل میں قیام کرتے جب کہ مجھ جیسے طالب علموں کی پسندیدہ اقامت گاہ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کا گھر ہی قرارپاتا۔ وہ ایک ماہر نفسیات تھے اوردلوں کا سب احوال جانتے تھے ۔چہرہ شناسی میں کوئی ان کا ثانی نہ تھا۔وہ خود مستحق اور ضرورت مندطلبا کو دعوت دے کر اپنے ہاں ٹھہراتے اور ان کے آرام و آسائش کا پورا خیال رکھتے ۔ان کے ہاں ہر طالب علم ایک اپنائیت محسوس کرتا او رکھل کر اپنے مسائل پر گفتگو کرتا۔ان کے خلوص اور بندہ پروری نے لاکھوں دلوں کو مسخر کر لیا تھا۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں تمام تدریسی عملہ ،دفتری ملازمین اور درجہ چہارم کے ملازمین غرض سب ان سے والہانہ محبت کرتے ۔وہ سب کی مشکلات اور مسائل سنتے اورحتی الوسع ان کی دستگیری کرتے ۔اکثر لوگ ان کو ایسا رانجھا قرار دیتے جو سب کا سانجھا تھا۔

ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی علمی فضیلت اور قابلیت کا دنیا بھر میں اعتراف کیا گیا۔1995میں ان کا انتخاب بحیثیت پروفیسر اردو جامعہ الازہر قاہرہ ( مصر ) ہوا۔انھوں نے چار سال تک دنیا کی اس قدیم ترین یونیورسٹی میں اردو زبان و ادب کی تدریس میں اہم خدمات انجام دیں ۔اس عرصے میں انھوں نے عالمی سطح کے متعدد سیمینار منعقد کرائے۔ دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے کئی ماہرین لسانیات ،نقادو ں اور محققین نے ان سیمینارز میں شرکت کی ۔انھوں نے ویبینار (Web conferencing) کا اہتمام بھی کیا جن میں جدید یت ،مابعد جدیدیت ،ساختیات ،پس ساختیات اور رد تشکیل پر خیال افروز مباحث کا سلسلہ جاری رہتاتھا۔اس عرصے میں فیض احمد فیضؔ ،مجید امجد،ن۔م۔راشد، میراجی ،سعادت حسن منٹو،اشفاق احمد ،ممتاز مفتی ،قرۃ العین حیدر ، فہمیدہ ریاض ،شفیق الرحمن،کرنل محمد خان اور ناصر کاظمی پر ان کا تحقیقی کا م ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی انھوں نے دنیا کے تمام ممالک میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے طویل اور صبر آزما جدوجہد کی ۔دنیا میں فاصلاتی تعلیم کے وہ بہت بڑے ماہر تسلیم کیے جاتے تھے مصر میں اپنے چار سالہ قیام کے دوران میں وہ اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے بے حد فعال اور بھر پور کردار ادا کرتے رہے ۔دنیا کی ممتاز جامعات میں اردو زبان کے ارتقا پر ان کے توسیعی لیکچرز کی بدولت اردو زبان کو بہت فائدہ پہنچا۔مصر کی ایک عرب طالبہ نے ان کی نگرانی میں اردو افسانے کے ارتقا پر پی ایچ ۔ڈی کا تحقیقی مقالہ لکھا ۔دنیا کے متعدد ممالک سے غیر ملکی زبان بولنے والے ان سے اردو سیکھتے اور تخلیق ادب میں ایسی جاں فشانی اور انہماک کا مظاہرہ کرتے کہ اردو زبان پر ان کی اکتسابی مہارت پر حیرت ہوتی ۔ وہ اس دردمندی اور خلوص سے شاگردوں کی صلاحیتوں کو صیقل کرتے کہ جوہر قابل نکھر کر سامنے آ جاتا۔یہ سب کچھ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی معجز نما تدریس کا کرشمہ تھا ۔انھوں نے عالمی سطح پر منعقد ہونے والے فاصلاتی نظام تعلیم کے بارے متعدد سیمینارز میں کلیدی مقالے پیش کیے ،جنھیں بے حد پذیرائی نصیب ہوئی ۔انھوں نے میٹرک سے لے کر ایم ۔اے ،ایم۔ فل اور پی ایچ ۔ڈی سطح کے اردو زبان کے نصاب کی تمام درسی کتب نہایت محنت اورذاتی دلچسپی سے مرتب کرائیں ۔اس وقت یہ کتب پوری دنیا میں فاصلاتی طریقہ تعلیم کے ذریعے پڑھائی جا رہی ہیں ۔ پاکستانی تہذیب وثقافت اوراردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ڈاکٹر نثار احمد قر یشی کی خدمات سے اس خطے اور اردو زبان کو پوری دنیا میں ممتاز مقام حاصل ہوا۔ان کے بار احسان سے اردو داں اہل علم کی گردن ہمیشہ خم رہے گی ۔
دنیا میں کئی طرح کے انسان پائے جاتے ہیں ۔ان میں سے ایسے بہت کم ہیں جو اپنا سب کچھ وطن ،اہل وطن اور بنی نوع انسان کے لیے وقف کر دیں ۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی ایسے ہی انسان تھے ۔موجودہ دور میں فرد کی بے چہرگی اورعدم شنا خت کا مسئلہ روز بروز گمبھیر صورت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے ۔ڈاکٹر نثاراحمد قریشی کو انسان شناسی میں کمال حاصل تھا۔ان کی دوستیاں لا محدود تھیں مگر کسی کے ساتھ دشمنی کے بارے میں انھوں نے کبھی نہ سوچا اورنہ ہی ان کا کوئی دشمن تھا۔ جو شخص بھی ان سے ملتا ان کا گرویدہ ہو جاتا اور ان کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا۔وزیر آباد میں مقیم ان کے ایک شاگرد نے ان کے لیے کٹلری کا ایک بیش قیمت سیٹ لیا اور ان کی خدمت میں پیش کرنا چاہا۔ڈاکٹر نثار احمدقریشی نے اس تحفے کو قبول کرنے سے معذرت کر لی اور یہ کہا کہ اس کو فروخت کر کے اس سے ملنے والی رقم کسی ضرورت مند گھرانے کو دے دی جائے ۔چنانچہ ان کی ہدایت کے مطابق اس سیٹ کی رقم وزیر آباد کی ایک مفلس اور بے سہارا بیوہ کو پہنچا دی گئی ۔ملک کے طول و عرض میں ان کے لاکھوں شاگرد موجود ہیں وہ سب اس بات کے عینی شاہد ہیں کہ انھوں نے تمام عمر کی جمع پونجی اپنی شاگردوں کی فلاح پر خرچ کر دی ۔ضرورت مند طلبا و طالبات کی دامے ،در مے سخنے مدد کرنا ہمیشہ ان کا شیوہ رہا ۔ وہ سب شاگردوں اور احباب کی بلا امتیاز مدد کرتے اور کبھی ان کی طرف سے احساس تشکر اور ممنونیت کی توقع نہ رکھتے ۔احسان کر کے بھول جانا ان کی عادت تھی ۔شورکوٹ کے رہنے والے ایک معلم جو کہ اسلام آباد میں ایم ۔فل کی ورکشاپ کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے، صحت افزا مقام کے تفریحی دورے کا پروگرام منظور نہ ہونے کے باعث ڈاکٹر نثار احمد قریشی سے اُلجھ پڑے۔ ڈاکٹر نثاراحمد قریشی نے ایبٹ آباد اور مری کی برف باری اور شدید دھند کی وجہ سے تفریحی دورہ منسوخ کر دیا تھا۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے بہت سمجھایا مگر وہ دل ہی دل میں رنجیدہ رہا اور ایک دِ ن چُپکے سے سیرکے لیے مری نکل گیا۔دسمبر کا مہینہ تھا مری سے آنے والی برفانی ہواؤں کے باعث وہ پروفیسر صاحب شدید نمونیا کا شکار ہو گئے ۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی کلاس میں آئے اس کی غیر حاضری کی وجہ جان کر سخت مضطرب ہو گئے اسی وقت اپنی چھٹی کی درخواست لکھی اور شاگرد کو لے کر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسلام آباد پہنچے ۔ ادویات کے تمام اخراجات خود برداشت کیے جب تک بخار کی شدت کم نہ ہوئی اس وقت تک با وضو ہو کر دعائیں مانگتے رہے ۔تین گھنٹے کے بعد جب شاگرد اٹھا تو استاد کو سجدۂ شکر میں پایا۔وہ فرط عقیدت سے بے قابو ہو کر آگے بڑھا اور استا دکے قدموں میں گر پڑا ۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی اس سے لپٹ کر رونے لگے اور کہا میدانی علاقے کے باشندے پہاڑی علاقوں کی شدید سردی برداشت نہیں کر سکتے اسی لیے میں نے تفریحی دورہ منسوخ کر دیا تھا ۔اس شاگرد کو اپنی شدید غلطی کا احساس ہو چکا تھا ۔اس نے معافی کی استدعا کی تو ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے مسکرا کر کہا ــ’’اﷲ کریم آپ سب کے لیے آسانیاں پیدا کرے ‘‘۔سچی بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر نثار احمد قریشی دوسروں کے لیے آسانیاں تلاش کرتے کرتے بعض اوقات خود کو مشکلوں میں ڈال دیتے ۔ ان کی زندگی اسی کشمکش میں گزری کبھی سوز و ساز رومی اور کبھی پیچ و تاب رازی ۔اس کے باوجود ان کے چہرے پر کبھی گرد ملال کسی نے نہ دیکھی۔دنیا میں اِنسانی ہمدردی، خدمت ِ خلق، خیر اور فلاح کا نظام ایسے ہی نیک انسانوں کے وجو د کا مرہون منت ہے ۔

ڈاکٹر نثار احمدقریشی قارئینِ ادب کے اس عمومی تاثر سے آ گاہ تھے کہ پیر ا سائیکالوجی کو جعلی سائنس کی حیثیت حاصل ہے ۔اس کے باوجود عملی زندگی میں افراد نے زندگی کے جو معائر منتخب کر رکھے ہیں ان کے انداز جداگانہ نوعیت کے ہیں۔انھوں نے شہرِ خیال کو ہمیشہ نئے آفاق سے آشنا کیا ۔اس امر پر وہ اپنے رنج کا بر ملااظہار کرتے کہ جدید دور کے عشرت کدوں میں آ سیبِ زر نے بسیراکر لیاہے ۔بڑھتی ہوئی آبادی اور نئی بستیوں میں نئے نئے گھر اور نئے نئے بشردیکھ کر ہر حساس شخص محوِ حیرت ہے کہ اپنے ابنائے جنس سے بے تعلق سی دنیا کن اجنبی سی منزلوں کی جانب سرگرم ِ سفر ہے ۔آثار قدیمہ سے ڈاکٹر نثار احمدقریشی کوبہت دلچسپی تھی ۔ دسمبر 1995ء میں ایک مطالعاتی دورے کے سلسلے میں وہ جامعہ کے طلبا کو لے کر ٹیکسلا گئے ۔سفر سے واپسی پر انھوں ے اپنے تاثرات کا اظہاران الفاظ میں کیا:
’’ قدیم شہروں کے کھنڈرات میں اب حشرات الارض ، بے شمار کرگسوں ، بوم و شپر اور زاغ و زغن کا بسیراہے ۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اورکیا ہے کہ عبرت سرائے دہر کے شہر ٹیکسلا میں ممٹی پر ایک چیل دھوپ میں بیٹھی آلام ِروزگار اور خورشید جہاں تاب کی تمازت سے اپنے پروں کو گرمانے کے بعد تباہ شہر سر کپ( Sirkap) کے بادشاہ دمیترس ( Demetrius I of Bactria ) کے قدیم محل تعمیر شدہ (r.c. 200–180 BC), کے اُجڑے کھنڈر اور ویران گلیوں کی نگہبانی کررہی تھی ۔کچھ فاصلے پر زاغ و زغن ،کرگس اور چغدبھی گردشِ ایام کے آلام کی نوحہ خوانی کے بعد تاریخ کایہی سبق دہرارہے تھے کہ آج تک کسی نے بھی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ پس نو آبادیاتی دور میں قلعۂ فراموشی کے اسیروں کوبدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں سے آگاہ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ کھلی فضاؤں میں بلند پروازی کو شعار بنا کر لمبی اُڑانیں بھرنے والے طائران خوش نوا کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ محض ایک دانۂ رزق ہی اُن کی پرواز میں کوتاہی کا سبب بن کر اِنھیں زیرِ دام لاتا ہے ۔ ‘ ‘
ڈاکٹر نثار احمد قریشی راسخ العقیدہ سنی مسلمان تھے ۔ ہر قسم کی عصبیت اور فرقہ وارانہ تعصب سے انھیں شدید نفرت تھی ۔ انھوں نے چار مرتبہ فریضہ ٔ حج کی سعادت حاصل کی اور چار مرتبہ رمضان المبارک کے مہینے میں عمرہ کی سعادت سے فیض یاب ہوئے ۔ عمر ہ کے دوران ماہ صیام کے آخری عشرے میں وہ مسجد نبوی میں اعتکاف کے لیے بیٹھتے اور ہر تیسرے روز وہ قرآن حکیم کی مکمل تلاوت کر لیتے ۔ان کی نیکیوں اور عبادات سے بہت کم لوگ آگاہ ہیں ۔اصل معا ملہ یہ ہے کہ وہ ایک شان استغنا سے متمتع تھے اور ہر قسم کی نمود و نمائش اور ریا کاری سے ان کو چڑ تھی۔وہ پابند صوم و صلوتہ تھے اورہر روز وہ نماز تہجد اور نماز فجر اسلام آباد کی فیصل مسجد میں ادا کرتے ۔اپنی رہائش گاہ سے مسجد تک کا فاصلہ جو قریبا ایک کلو میٹر ہے وہ روزانہ پیدل طے کرتے۔یہی ان کی ورزش تھی اور اسی کو وہ صبح کی سیر پر محمول کرتے تھے ۔نیکی اور صحت کا یہ حسین امتزاج ان کی شخصیت کو مسحورکن بنا دیتا تھا۔وہ با وضو ہو کر اپنے دفتر میں بیٹھتے نہایت مستعدی اور فرض شناسی سے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ۔ان کی پیشہ ورانہ دیانت اور احساس ذمہ داری کو سب تسلیم کرتے تھے۔ان کے دفتر میں دعوتوں اور ضیافتوں کا تصور ہی نہ تھا ۔فارغ وقت میں درود پاک اور آیات قرآن حکیم کی تسبیح پڑھتے۔ ہمارا معاشرہ قحط الرجال کے باعث عمومی اعتبار سے بے حسی کا شکار ہے کسی کے بارے میں کلمۂ خیر ادا کرنے میں بالعموم تامل سے کام لیا جاتا ہے ۔المیہ یہ ہے کہ حسد اور بغض و عناد کے باعث بعض کینہ پرور لوگ بلا وجہ بھی درپئے آزار ہو جاتے ہیں ۔ان اعصاب شکن حالات میں وہ ایسے وقت گزارتے جیسے بتیس دانتوں میں زبان رہتی ہے ۔ وہ سب کے لیے فیض رساں تھے جو لوگ ضرر رساں ہوتے ان سے ہمیشہ دور رہتے یہاں تک کہ ان سے سرسری ملاقات میں بھی اکثر تامل کرتے تا ہم کسی کے خلاف کوئی رد عمل کبھی ظاہر نہ کرتے البتہ قرآن حکیم کی سورۃ الناس اور سورۃ ا لفلق کا کثرت سے ورد کرتے ۔ان کا برتاؤ سب کے ساتھ ہمدردانہ اور مشفقانہ رہا کسی کو محض ذاتی رنجش کی بنا پر انھوں نے کبھی ہدف تنقید نہ بنایا۔وہ احباب کی خوبیوں پر نظر رکھتے اور ان کو جی بھر کر سراہتے اگر کسی کی کوئی خامی انھیں معلوم ہوتی تو اسے تنہائی میں سمجھاتے اور دلائل سے قائل کرتے، تحکمانہ لہجہ کبھی اختیار نہ کیا بلکہ ہمیشہ عجز و انکسار کی روش اپنائی ۔کسی کی غیبت نہ کرتے اگر کوئی ان کی موجودگی میں کسی کی غیبت کرتا تو سختی سے اس کی ممانعت کرتے ۔ ان کا کہنا تھا کہ معاشرتی زندگی کے بیش تر مسائل اور فسادات کا بنیادی سبب غیبت ہی ہے ۔ ان کی محفل میں جب کوئی نا دانستہ طور پر بھی کسی کے عیوب خواہ وہ حقیقی بھی ہوتے ان کے سامنے بیان کرتا تو ڈاکٹر نثار احمد قریشی کے چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا اوروہ نہایت ناگواری سے اسے ٹوکتے اور اکثر یہ مصرع پڑھ کر اس کے روّیے کی اصلاح کی سعی کرتے تھے۔
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو

ڈاکٹر نثار احمد قریشی 2001 ء میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ اردو کے صدر مقر ر ہوئے۔اس کے بعد 2005 ء میں انھیں ڈین آف آرٹس کے منصب پر فائز کیا گیا۔اپنی خداداد صلاحیتوں اور وسیع تجربہ کو بروئے کا رلاتے ہوئے اُنھوں نے اس یونیورسٹی کو ملک کی یونیورسٹیوں کی رینکنگ میں بہت آگے پہنچا دیا۔عالمی جامعات کی رینکنگ میں بھی اس عظیم مادر علمی کو ممتاز اور منفرد مقام نصیب ہوا۔یہ سب کامرانیاں ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی ولولہ انگیز قیادت اورفقید المثال تدبر کا ثمر ہیں ۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی تاریخ میں جس طرح ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی علمی ،ادبی اور تدریسی خدمات کا اندرن ملک اور بیرون ملک ہر سطح پر اعتراف کیا گیااور ان کے اعزاز میں پر وقار تقریبات کے انعقاد سے ان کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا ،اس سے قبل ایسی کوئی تابندہ روایت موجود نہ تھی۔انھوں نے اس عرصے میں متعد سیمینارز کا اہتمام کیا جن میں ممتاز ماہرین لسانیات ،دانش ور،ادیب ،محقق ،اساتذہ ،فلسفی ،ماہرین نفسیات اور نقاد شامل ہوئے۔اب جامعہ کے ڈھنگ ہی نرالے تھے کہیں ادبی نشستیں منعقد ہو رہی تھیں اور کہیں ڈرامہ فیسٹیول کا اہتمام ہو رہا تھا۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے تعلیمی نظام میں پائے جانے والی تشکیک ،بے یقینی ،بے عملی اور جمود کو رفع کرنے کی خاطر جو لائق صد رشک و تحسین جدو جہد کی عالمی سطح پر اسے بہ نظرتحسین دیکھا گیا۔ ان کی طلسمی شخصیت ، مشفقانہ طرز عمل ، تبحر علمی اور ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیفیت نے قلب و نظر کو مسخر کر لیا۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کی تاریخ میں آرٹس کے شعبے میں اس قدر چہل پہل اس سے قبل کبھی نہ دیکھی گئی اور اب ان کی وفات کے بعد شعبہ آرٹس حسرت و یاس کی تصویر نظر آتا ہے ۔فیض ا حمد فیض کا یہ شعر بے ساختہ لبوں پر آجاتا ہے ؂
ویراں ہے مے کدہ خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

پاکستان میں اورپاکستان سے باہر رہنے والے دانش وروں سے ڈاکٹر نثار احمد قریشی کے قریبی تعلقات تھے ۔ممتاز فرانسیسی دانش ور دریدا ) (Jacques Derrida: 1930-2004 اور فرانس سے تعلق رکھنے والے ماہر بشریا ت کلاڈ لیوی سٹراس( : 1908-2009 Claude Lévi-Strauss )سے وہ مل چکے تھے ان کے نظریات کے بارے ان سے تبادلہ خیال کرنے کے بعد جب وہ رد تشکیل ،جدیدیت ،مابعد جدیدت ،ساختیات اور پس ساختیات کے بارے میں اپنا عالمانہ تجزیہ پیش کرتے تو فکر و نظر کے نئے دریچے وا ہوتے چلے جاتے ۔ایسا محسوس ہوتا کہ دریا کی روانی کے مانند دلائل کا سیل رواں ہے جو جہالت کو خس و خاشاک کی صورت بہائے لیے جا رہا ہے۔جب و ہ تقریر شروع کرتے تو سب سامعین ہمہ تن گوش ہو جاتے ۔ تقریر کی اثر آفرینی کا یہ عالم ہوتا کہ جو کچھ وہ کہتے وہ قلب و روح کی گہرائیوں میں سما جاتا۔ان کی بات دل سے نکلتی اور دل میں اترتی چلی جاتی اور پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کے لیکچرز کے کچھ کیسٹ محترمہ ذکیہ بد ر ( خوشاب) ،شفیع ہمدم ( فیصل آباد ) شفیع بلوچ( جھنگ ) ،محمد فیروز شاہ( میاں والی) اور حسر ت کاس گنجوی ( حید ر آباد )کے پاس تھے ۔ ان کے لیکچرز اگر کتابی صورت میں شائع ہو جائیں تو یہ بہت بڑی علمی خدمت ہو گی۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کی طرف سے اب تک اردو کی جتنی نصابی کتب شائع ہوئی ہیں ا ن میں ڈاکٹر نثار احمد قریشی کے معرکہ آرا تحقیقی اور تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ دنیا کے بیش تر ممالک میں جہاں اردو کی تدریس جاری ہے وہاں یہ کتب بے حد مقبول ہیں۔ درسی کتب کے علاوہ ان کی تحقیقی اور تنقیدی کتب کی تعداد بیس کے قریب ہے۔ان کی کتاب ’’ دنیا جن سے روشن ہے ‘‘ بے حد مقبول ہوئی ۔اس تالیف میں انھوں نے نامور شخصیات سے ان کے پسند یدہ اساتذہ کے سوانحی خاکے لکھوائے ۔یہ سب خاکے ان نابغہ ٔ روزگار اساتذہ کے بارے میں لکھے گئے ہیں جن کے فیضان نظر سے نوع انساں کی تقدیر بدل جاتی ہے ۔زندگی کی معنویت اور مقصدیت کو اجاگر کرنے میں یہ کتاب ایک گنج گرا ں مایہ ہے۔اپنے تخلیقی وجود کا اثبات کرنا ہمیشہ ان کا مطمح نظر رہا۔ صوفی غلام مصطفی تبسمؔ کی حیات اور خدمات پر ان کی تحقیقی کتاب اس کی درخشاں مثال ہے ۔وہ ایک عہد ساز شخصیت تھے اپنے فنی تجربات کے ذریعے وہ نئے امکانات کی جستجو میں ہمہ وقت مصروف عمل رہتے۔ ان کا لہجہ اور اسلوب ندرت ،تازگی اور تنوع کا مظہر تھا۔ اس وقت اردو زبان و ادب کی تدریس کا سلسلہ پوری دنیا میں روز افزوں ہے اس کی بنیاد میں بلا شبہ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی محنت شاقہ اور خون جگرکی آمیزش موجود ہے ۔اردو زبان و ادب اس وقت افلاک کی وسعتوں سے آشنا ہے اس ارفع مقام تک رسائی کے کٹھن مرحلے میں اسے ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی بے لوث اور دانش ورانہ اعانت نصیب رہی ہے ۔اس شمع کو فروزا ں رکھنے میں ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے جو گراں قدر خدمات انجام دیں ،ان کی بدولت جریدۂ عالم پر ان کا نام تا ابد نمایاں طور پر ثبت رہے گا۔

ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی زندگی میں مذہب کو بہت اہم مقام حاصل رہا۔عبادات اور عقائد کو وہ ہمیشہ کلیدی مقام کا حامل سمجھتے ۔سیمینارز ،تقریبات،کلاسز،ادبی محافل اور مشاعر وں میں بھی وہ نماز کے لیے وقفہ ضرور رکھتے اور یہ کوشش کرتے کہ تمام حاضرین با جماعت نماز پڑھیں۔جب وہ اپنے شاگردوں کے جھرمٹ میں مسجد میں درس قرآن دیتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ ماہتاب اور ستاروں کی ایک کہکشاں بن گئی ہے جو ظلمتوں کو کافور کرنے کی سعی میں انہماک سے مصروف عمل ہے ۔وہ الفاظ کے بر محل استعمال سے اپنی ذہنی اور روحانی کیفیات سے سامعین کو مسحور کر دیتے ۔تاریخ کو وہ ایک مسلسل عمل سے تعبیر کرتے اور اسے تہذیبی بالیدگی کے لیے ناگزیر قرار دیتے ۔وہ تاریخ اسلام کے ذریعے نئی نسل کو اسلام کے تہذیبی اور ثقافتی ورثے سے روشناس کرانے کی سعی کرتے تھے ۔ان کا استدلال یہ تھا کہ تہذیب اورتمدن کی نشو و ارتقا اور بالیدگی کا تقاضا یہ ہے کہ عصری آگہی کو فرو غ دیا جائے اور اقتضائے وقت کے مطابق ہر قسم کے چیلنج سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے خود کو تیار رکھا جائے ۔قرآن حکیم کی تعلیمات کو وہ بہت اہم قرار دیتے اور اس بات کی جانب توجہ دلاتے کہ یہ الہامی کتاب تمام بنی نوع انساں کے لیے پیام نو بہار ہے ۔اپنے آبا و اجداد کی تحریک پاکستان میں خدمات اور معاشرتی زندگی کو راہ راست پر لانے کی انتھک جدوجہد کے بارے میں تما م حقیقی واقعات وہ بڑے انکسار سے بیان کرتے ۔ اپنے خاندان کی علمی و ادبی خدمات پر انھیں بجا طور پر ناز تھا ۔اس کے ساتھ ہی وہ اس بات کو لائق اعتذار نہیں سمجھتے تھے کہ ان کا تعلق ایک محنت کش دیہاتی خاندان سے ہے ،جس نے اپنی محنت اور لگن سے اپنے لیے رزق حلال کے مواقع پیدا کیے ۔ماضی اور حال کے بارے میں غور و فکر سے وہ اپنے شاگردوں کے ذہنوں کو جلا بخشتے اور استعداد کار کو مہمیز کرتے۔ حریت فکر و عمل اور آزادی ٔ اظہار کو وہ انسانی آزادی کے لیے نا گزیر سمجھتے تھے ۔ان کا خیال تھا کہ اپنی اصلیت کے اعتبار سے حقیقی آزادی کا احساس وہ گوہر یکتا ہے جو شعور اور ذہن کے ارتقا کے لیے لازمی ہے اور اسی کے اعجاز سے مقاصد زیست کو مقاصد کی رفعت میں ہمدوش ثریا کیا جا سکتا ہے ۔وہ اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ فطرت جس طرح لالے کی حنا بندی کرتی ہے اس کے تہذیب ومعاشرت اور معاشرتی زندگی کے تمام پہلوؤں پر پر دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔فطرت کی تمنا یہ ہے کہ ہر شب کو سحر کرنے کی سعی کی جائے۔ منشائے قدرت اور رمز مسلمانی بھی یہی ہے کہ بنی نوع انساں کو ایسی تہذیب سے متمتع کیا جائے کہ اس کا وجود پوری تابانی کے ساتھ برقرار رہے اور ہر رنگ میں اس کے وجود کا اثبات سامنے آئے۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی کا حلقۂ احباب بہت وسیع تھاپوری دنیا کے ادیبوں سے ان کا متعبر ربط تھا۔انھیں اس بات کا قلق تھا کہ پس نو آبادیاتی دور میں اُردو زبان کو بھارت میں سازگار ماحول میسر نہیں آیا۔ولیؔ دکنی اور میر تقی میر ؔ کی قبر کے نشان کے عنقا ہونے کو وہ ایک تہذیبی المیے سے تعبیر کرتے تھے۔اُنھوں نے مشہور برطانوی مستشرق پروفیسر رالف رسل ( 1918-2008 :Ralph Russell )اور جرمن مستشرق ڈاکٹر این میر ی شمل(1922-2003 : Annemarie Schimmel کے حوالے سے 1980ء میں جامعہ علامہ اقبال ،اسلام آباد میں ایک توسیعی لیکچر میں اپنے شاگردوں کو بتایا:
’’اردو زبان کے نابغہ روزگار شاعر میر تقی میرؔ نے 1782میں ذاتی مسائل اور معاشی مجبوریوں کے باعث جب دہلی سے لکھنو منتقل ہونے کا فیصلہ کیاتو یہاں ان کا قیام لکھنو کی ایک کم معروف آبادی ست ہٹی میں ہوا۔ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ یہ آبادی ریذڈنسی اور رومی دروازے کے درمیانی علاقے میں ہوا کرتی تھی ۔اس کا محل وقوع اور رہن سہن لکھنو کے اس زمانے کے ترقی یافتہ علاقے سے قدرے کم معیار کا تھا ۔میر تقی میرؔ نے ایک گونہ بے خودی کے حصول کی خاطر مے نوشی اختیار کی ۔دن رات کی بے خودی کے حصول کی تمنا ،ہجوم غم اور نا آسودہ خواہشات نے میر تقی میرؔ پر جنونی کیفیت طاری کر دی ۔کثرت مے نوشی ،آلام روزگار کی مسموم فضا ،سیل زماں کے مہیب تھپیڑوں اور ہجوم غم نے بالآخر ان کی زندگی کی شمع بجھا دی ۔میر تقی میرؔ کی وفات کے بعد ان کی تدفین ست ہٹی سے کچھ فاصلے پر واقع ایک قبرستان میں ہوئی جسے بھیم کا اکھاڑہ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ۔اب یہ تمام آثار تاریخ کے طوماروں میں دب کر عنقا ہو چکے ہیں اور ان کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔ حقیقتوں کا خیال و خواب ہو جانا کس قدر روح فرسا اور اعصاب شکن المیہ ہے اس کے تصور ہی سے کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔سیماب اکبر آبادی نے کہا تھا :
بس اتنی سی حقیقت ہے فریب خواب ہستی کی
کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جائے ‘‘

ڈاکٹر نثاراحمد قریشی انتہائی وضع دار ،شریف اور خوش اخلاق انسان تھے ۔یہاں تک کہ تمام وضیع بھی ان سے خائف رہتے۔وہ اکثر کہا کرتے روزمرہ معمولات میں ملاقاتیوں کے ساتھ حسن سلوک اور خوش اخلاقی سے پیش آنا بھی ایک نیکی ہے جس کا اجر اﷲ کریم کی بارگاہ سے ضرور ملتا ہے ۔یہ ایک ایسی نیکی ہے جس کے لیے چلہ کشی یا کسی بڑی تپسیا کی ضرورت نہیں ۔درد آشنا لوگوں کے لیے اس کے فراواں مواقع تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے وقت سامنے آتے ہیں ۔حیف صد حیف کہ اکثر لوگ خلوص،دردمندی اور ایثار سے عاری ہونے کے باعث اس نیکی سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ہوس نے نوع انساں کو جس انتشار اور خود غرضی کی بھینٹ چڑھا رکھا ہے اس کے باعث ایسی نیکیوں سے لوگوں نے شپرانہ چشم پوشی کو شعار بنا لیا ہے ۔زندگی آرزوؤں،امنگوں اور تمناوئں کے ایک لا محدود اور غیرمختتم سلسلے کا نام ہے۔ ان حالات میں میں بھی دل بینا رکھنے والے اپنے لیے ایک الگ راہ کا تعین کر لیتے ہیں ۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی زندگی قناعت ،استغنا اور خود داری کی درخشاں مثال تھی ۔آپ نے اپنی خواہشات کو ہمیشہ اعتدال اور توازن میں رکھا اس لیے وہ ایام کے مرکب نہیں بلکہ راکب تھے ۔ان کی شخصیت کی عطر بیزی اور اور سدا بہار شگفتگی کا راز یہ تھا کہ وہ ہمیشہ احتیاط سے کام لیتے اور دانش مندانہ ذاتی رائے کی روشنی میں فیصلے کرتے ۔وہ متلون مزاج لوگوں کو ناپسند کرتے تھے ۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی کوئی فیصلہ کرنے سے قبل اس کے تما م پہلو پیش نظررکھتے اور حقیقت پسندانہ اور غیر جانبدارانہ انداز میں ایک مضبوط اور مستحکم انداز میں رائے قائم کر تے ۔اس کے بعد اس پر نہایت استقامت کے ساتھ قائم رہتے اور ہر قسم کی آزمائش سے گزرنے پر تیار ہو جاتے ۔ کورانہ تقلیدی تصورات کو انھوں نے ہمیشہ مسترد کیا اور جہان تازہ کی جستجو پر اپنی توجہ مرکوز رکھی ۔

اپنے شاگردوں کی علمی اور مالی امداد کے لیے وہ ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔پروفیسر شبیر احمد اختر ( ٹوبہ ٹیک سنگھ ) عارضہ قلب میں مبتلا تھے ۔آج سے تیس سال قبل ٹوبہ ٹیک سنگھ میں امراض قلب کا کوئی معیاری شفاخانہ نہیں تھا۔ڈاکٹر نثار احمد قریشی کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو اُنھوں نے اپنے شاگر د شبیر احمد اختر کو فوراً ٹیلی فون کیا اور اسلام آباد پہنچنے کی تاکید کی ۔ شبیر احمد اختر اپنے استاد کی دعوت پر اسلام آباد پہنچا تو ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے اُسے اگلے روز پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ( PIMS) اسلا م آباد میں داخل کرایا ۔دو ہفتے اس کا علاج جاری رہااور ڈاکٹر نثار احمد قریشی ہر روز صبح و شام اُس کی عیادت کے لیے پہنچتے ۔موسم کے پھل اور پرہیزی غذا کی فراہمی کی ذمہ داری قریشی صاحب نے اپنے ذمے لے رکھی تھی ۔ شبیر احمد اختر کی بیمار پرسی کے لیے میں اپنے اور شبیر احمد اختر کے مشترکہ دوستوں ارشاد گرامی ،شفیع ہمدم ، عاشق حسین فائق ،حاجی محمد ریاض ،احمد بخش ناصر ،گدا حسین افضل ،اسحاق ساقی اور حاجی حافظ محمد حیات کے ہمراہ چناب ایکسپریس کے ذریعے صبح دس بجے راول پنڈی پہنچا۔ہم سب یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ راول پنڈی ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم پر ڈاکٹر نثار احمد قریشی اپنے معتمد ساتھی پروفیسرڈاکٹر بشیر سیفی کے ہمراہ ہمارے منتظر تھے ۔ہم مسافروں کو کاروں میں لے کر وہ روانہ ہوئے راجا بازار سے آگے چاندنی چوک کے نزدیک ایک معیاری ہوٹل سے مشروبات اور چائے سے ہماری تواضع کی گئی ۔اسلام آباد کے سیکٹر H-8 میں واقع منسٹری آ ف ایجو کیشن ( شعبہ نصاب ) کی اقامت گاہ میں ہمارے قیام کاانتظام کیا گیا۔ہم نے دو دِن اسلام آباد میں قیام کیا جس کے سب اخراجات ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے خود اپنی مرضی سے برداشت کیے ۔اُن کی مہمان نوازی اور ایثار کا ایک عالم معترف تھا۔

مولانا ظفر علی خان کے اخبار ’ زمیندار ‘ کے صحافی مولاناچراغ حسن حسرت ( 1904-1955) کے فرزند ظہیر الحسن جاوید (1937-2018)کے ساتھ ڈاکٹر نثار احمدقریشیکے اُس زمانے سے قریبی تعلقات تھے جب وہ جامعہ پنجاب،لاہور میں زیر تعلیم تھے ۔شہر میں منعقد ہونے والی سالانہ ادبی تقریبات میں ڈاکٹر نثار احمدقریشی نے ایک سال ظہیر الحسن جاوید کو ان تقریبات میں مہمان کی حیثیت سے شرکت کی دعوت دی۔ ظہیر الحسن جاوید نے تحریک پاکستان میں نو جوان نسل کی خدمات اور اپنے والد سے وابستہ یادیں تازہ کیں ۔ ظہیر الحسن جاویدنے وطن عزیزکے تعلیمی اداروں کی تدریس ، عظیم الشان علمی وادبی روایات اور درخشاں اقدار اور قابل اساتذہ کی محنت کوبہ نظر تحسین دیکھا اوریہاں کے اساتذہ کی خدمات پر انھیں خراج تحسین پیش کیا ۔ ڈاکٹر نثار احمدقریشینے بتایا کہ انھیں ایسامحسوس ہوا کہ اس موقع پر ظہیر الحسن جاویدنے اپنے والد کی یادوں اور خود اپنی ذات کی خوابیدہ صلاحیتوں کی دریافت کی ایک سعی کی ۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ یادگارملاقات ظہیر الحسن جاویدکے اسلوب کی عکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ ان مقاصدکی جانب توجہ دلاتی ہے جن کا اہم ترین پہلو اپنے رفتگاں کی یاد ہے ۔ اردوشاعری میں صنف ’ ماہیا ‘کے فروغ کے لیے مولانا چراغ حسن حسرت کی جدت کا ایک عالم معترف ہے ۔ظہیر الحسن جاویدنے اپنے والد(چراغ حسن حسرت ) کے لکھے ہوئے اور برکت علی خان کے گائے ہوئے مقبول ماہیے سامعین کو سنانے کے بعد سہ حرفی صنف میں اپنی کاوش بھی پیش کی جس سے سماں بندھ گیا۔ ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے ڈاکٹر نثار احمدقریشینے ان اشعار کو تہذیب ِ ادب اورنظم ِعجب سے تعبیر کیا ۔اس یادگار محفل شعر و ادب میں سنائے گئے سب کے سب اشعار اکثر سامعین کوزبانی یاد تھے ۔ ان اشعار کے حوالے سے وہ چراغ حسن حسرت کو یاد کر کے دل گرفتہ ہو جاتے اور اکثر یہ بات دہراتے کہ جو لمحے بیت گئے وہ کبھی لوٹ کر نہیں آتے اور جو عزیز ہماری بزمِ وفا سے چلا گیا سو چلا گیااُسے واپس بلانا ہمارے بس اور دسترس سے باہر ہے ۔ ذیل میں قارئین کے استحسان کی خاطر ڈاکٹر نثار احمدقریشی او ر ڈاکٹر بشیر سیفی کی سجائی ہوئی محفل میں پیش کیے گئے ان دونوں شعر اکے کلام کا موازنہ پیش کیا جاتاہے :
باغوں میں پڑے جُھولے
تم بھول گئے ہم کو ،ہم تم کو نہیں بُھولے (چراغ حسن حسرت)
’’ باغوں میں پڑے جُھولے ‘‘
کوئل بھی کہے تم سے
’’ ہم تم کو نہیں بُھولے ‘‘ ( ظہیر الحسن جاوید )
اب اور نہ تڑپاؤ
یا ہم کو بُلا بھیجو،یا آپ چلے آ ؤ (چراغ حسن حسرت)
’’ اب اور نہ تڑپاؤ ‘‘
پھر پاس مرے آ کر
سینے سے لگاجاؤ ( ظہیر الحسن جاوید )

اﷲ کریم نے ڈاکٹر نثار احمد قریشی کو اطاعت خداوندی ،ضبط نفس ،تحمل ،بردباری اور توازن کی فراواں دولت عطا کی تھی ان کے ذوق سلیم اور عمدہ صفات کا ایک عالم معترف تھا ۔زندگی کی اقدار عالیہ کے فروغ میں انھوں نے گہری دلچسپی لی ۔انسانیت کے وقار اور سربلندی کے لیے وہ الفاظ کی حرمت پر اصرار کرتے تھے ۔ایک نکتہ طراز نقاد کی حیثیت سے انھوں نے نہ صرف ادب کی اہمیت اور ا فادیت کو نہایت خلوص کے ساتھ اُجا گر کیا بلکہ ادیب کی عزت نفس،اور قدر و منزلت اور معاشرتی حیثیت کو تسلیم کرنے کی جانب توجہ دلائی ۔جذبہ ٔ انسانیت نوازی کا جو بلند معیار ان کی شخصیت میں موجود تھا موجودہ زمانے میں عنقا ہے ۔وطن ،اہل وطن اور بنی نوع انساں کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی ان کی شخصیت کا نمایاں ترین وصف تھا۔اپنی تحریروں میں وہ ارتباط و تعمیم کی ایک مسحور کن دل کش فضا پیدا کر لیتے تھے۔ جب وہ اپنے جذبات ،احساسات ،تجربات اور مشاہدات کو پیرایۂ اظہار عطا کرتے تو قاری ان کے اسلوب کا گرویدہ ہو جاتا۔قاری کو یہ محسوس ہوتا کہ یہ سب کچھ تو گویا پہلے سے اس کے دل میں موجود تھا۔فکر و نظر کی صحیح سمت،حق گوئی و بے باکی، خیالات کی تونگری ،مشاہدات کی ندرت ،اسلوب کی انفرادیت اور مقاصد کی حکمت کے حسین امتزاج سے وہ ید بیضا کا معجزہ دکھاتے ۔اس طرح ان کی تحریریں روح کی تفسیریں بن کرسامنے آتیں اور پتھروں کو بھی موم کر دیتیں ۔ان کے تمام معمولات ،قول و فعل اور گفتار و کردار میں ان کی شخصیت کے دھنک رنگ پہلو صاف دکھائی دیتے تھے ۔

عادات اور ارادی اعمال کی تنظیم وہ اس انداز میں کرتے کہ سیر ت اور کردار میں نکھار پیدا ہو جاتا۔ان کا خیال تھا کہ وہ تمام عادات و افعال جو آغاز کار کے وقت شعوری اور اختیاری صورت میں رو بہ عمل لائے جاتے ہیں بالآخر وہی انسان کی سیرت اور کردار کے روپ میں جلوہ گر ہو کر اس کی شناخت کا وسیلہ بن جاتے ہیں سیرت کو وہ کردار کے باطنی پہلو کا نام دیتے تھے ۔سیرت اور کردار کی تعمیر میں وہ معاشرے اور سماج کو بہت اہم خیال کرتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ حلقہ ٔ احباب کے انتخاب میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے ۔ان کی پہچان ان کی صحبت سے کی جا سکتی ہے ۔ان کے حلقہ ٔ احباب میں دنیا کے ممتاز علما، ادیب ،دانش ور ، مورخ ،نقاد ،محقق اور فلسفی شامل تھے ۔وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ثبوت اور ناقدانہ بصیرت کے ذریعے فرد کی عدم شناخت کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔ا نھوں نے زمانہ حال اور ماضی کے اہم واقعات اور نشانیوں کو بہت اہم گردانتے ہوئے ان کے تحفظ کی تلقین کی ۔ان کی تحریریں جہاں تک مواد کا تعلق ہے ،اجتماعی نوعیت کی ہیں مگر تخلیقی اسلوب کے لحاظ سے ان کی انفرادیت مسلمہ ہے ۔ان کی شخصیت کا ایک واضح پرتو ان کے اسلوب میں پرتو فگن ہے جو انھیں اپنے معاصر اہل قلم سے ممیز کرتا ہے ۔وہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ ٔ حق کہنا اپنی زندگی کا نصب العین سمجھتے تھے ۔ الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا اور کسی مصلحت کے تحت کلمہ ٔ حق ادا کرنے سے گریز کرنا ان کے نزدیک منافقت اورریا کاری کی قبیح مثال ہے ۔ظلم کو برداشت کرنا اور اس کے خلاف احتجاج نہ کرنا ان کے نزدیک بہت اہانت آمیز روّیہ ہے ۔اپنی تمام زندگی میں انھوں نے کبھی کسی باب ِ رعایت سے داخل ہونے کی کوشش نہ کی ۔وہ میرٹ کے زبردست حامی تھے ۔انھوں نے تعلیمی زندگی میں میرٹ کی بالا دستی کو یقینی بنانے کی مقدور بھر کوشش کی اور کبھی کسی سفارش یا پرچی پر دھیان نہ دیا۔اب دنیا میں ایسی ہستیاں کہاں ؟

اپنے قول و فعل سے ڈاکٹر نثار احمد قریشی نے ثابت کیا کہ جس طرح گلزارِ ہستی میں پیہم عنبر فشانی میں مصروف گلِ تر اپنی عطر بیزی کے منابع سے ،ثمر ِ نورس اپنی حلاوت کے ذخیرے سے،بُور لدے چھتنار اپنی گھنی چھاؤں کی اداؤ ں سے،دریا اپنی طغیانی سے ،حسنِ بے پروا اپنی حشر سامانی سے ،اُٹھتی جوانی اپنی طبع کی جولانی سے،سمندر اپنی گہرائی سے ،کلام ِ نرم و نازک اپنی ہمہ گیر گرفت و گیرائی سے ، شعلہ اپنی تمازت سے ،گفتار اور رفتار اپنے معیار اور نزاکت سے ،کردار اپنے وقار سے ،جذبات و احساسات مستقبل کے خدشات اور اپنی بے کراں قوت و ہیبت سے ، نو خیز کونپلیں اپنی روئیدگی سے ، سمے کا سم کے اپنے ثمر سے ،قوتِ عشق اپنی نمو سے ، سادگی اپنے در پئے پندار حیلہ جُو سے، گنبد نیلو فری کے نیچے طیور کی اُڑان گھات میں بیٹھے صیاد کی مچان سے ،خلوص و دردمندی اپنی خُو سے ،حریت ِ ضمیر اپنے خمیر سے ،موثر تدبیر سوچنے والے نوشتۂ تقدیر سے،ایثار و عجز و انکسار کی راہ جذبۂ بے اختیار کی پیکار سے ، حسن و رومان کی داستان جی کے زیاں سے ،جبر کی ہیبت صبر کی قوت سے ،ظالم کی واہ مظلوم کی آہ سے ،چام کے دام چلانے والے دل

گرفتہ مظلومو ں کے ضمیر کی للکار سے اور تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والے فراعنہ جاہ و حشمت کے طومار سے وابستہ حقائق کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اسی طرح ایک بے لوث خادم خلق کے قلزم ِ خیال کا پانی اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ وہ زندگی بھر اس کی غواصی کرنے کے باوجود ایثار و عطا کے پس پردہ کا فرما محرکات کے تاب دار موتی بر آمد کرنے سے قاصر ہے ۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی علمی،ادبی ،معاشرتی اورقومی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے مجھے اختر الایما ن کے یہ اشعار یاد آ رہے ہیں :
ایک حسینہ درماندہ سی بے بس تنہا دیکھ رہی ہے
جیون کی پگڈنڈی یوں ہی تاریکی میں بل کھاتی ہے
کون ستارے چُھو سکتا ہے راہ میں سانس اُکھڑ جاتی ہے
راہ کے پیچ و خم میں کوئی راہی اُلجھا دیکھ رہی ہے ( اختر الایمان)

موت کے جانکاہ صدمے اور اس کے نا قابل اندمال چرکے ازل سے انسان کے مقدر میں لکھ دیے گئے ہیں ۔موت سے بھلا کس کو رستگاری ہے آج وہ تو اس کے بعد کل ہماری باری ہے ۔یاں تو سب یار کمر باندھے ہوئے چلنے کو تیار بیٹھے ہیں ۔رخش عمر مسلسل رو میں ہے ،کسی کو کیا معلوم کہ یہ کہاں تھمے گا ؟انسان کا نہ تو ہاتھ باگ پر ہے اور نہ ہی پا رکاب میں ہے ۔بنی نوع انساں کے مقدر میں یہ
روح فرسا المیہ لوح محفوظ پر لکھ دیا گیا ہے کہ تمام نفوس فنا کی زد میں آ کر رہیں گے اور بقا صرف اﷲ کریم کی ذات کو ہے ۔یہ معما ایسا ہے جو نہ سمجھ میں آتاہے اور نہ ہی کوئی دانائے راز اِس کی گرہ کشائی کر سکا ہے کہ وہ لوگ جو سفاک ظلمتو ں میں ستارہ ٔ سحر کے مانند ضو فشاں رہتے ہیں ،جن کا وجود انسانیت کی فلاح ،مسرت اور وقار کے لیے عطیہ ٔ خداوندی ہوتا ہے ،جن کی زندگی کا مقصد دردمندوں اور ضعیفوں سے محبت کرنا ہوتا ہے ،جو ایک شجر سایہ دار کے مانند ہوتے ہیں کہ خود سورج کی جھلسا دینے والی گرمی برداشت کرتے ہیں مگر دکھی انسانیت کو خنک چھاؤں فراہم کرتے ہیں اچانک اور وقت سے پہلے ہم ان کی رفاقت سے کیوں محروم ہو جاتے ہیں ۔اجل کے ہاتھ ایسے عطر بیز گلستانوں کو ویران کیوں کر دیتے ہیں ۔

ڈاکٹر نثار احمد قریشی اِس تلخ حقیقت سے آگاہ تھے کہ مشعلِ زیست کے گُل ہونے کے خطرات کو کسی طور بھی ٹالا نہیں جا سکتا لیکن خوف اوراندیشوں کے سم کے مسموم اثرات سے گلو خلاصی ممکن ہے۔ اﷲ کریم نے اُنھیں ایک مستحکم شخصیت سے نوازا تھا اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ زندگی کے سفرمیں جب بھی کوئی موہوم ڈر یا اضطراب سد راہ بنتا تو وہ اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے اسے دُور کر دیتے اور کبھی دِل میں ملال نہ آنے دیتے۔اُنھوں نے موت کو کبھی دل دہلا دینے والا لرزہ خیز سانحہ اس لیے نہیں سمجھاکہ اُنھیں معلوم تھا کہ رخشِ حیات مسلسل رو میں ہے،انسان کا نہ توہاتھ اس کی باگ پر ہے اور نہ ہی پاؤں رکاب میں ہیں۔ کسی بھی وقت اور کسی بھی مقام پر اس کی روانی تھم سکتی ہے۔ان کی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرنے سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انھوں نے ہمیشہ مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر اصرارکیا۔ وہ یہ حقیقت ذہن نشین کرا نا چاہتے تھے کہ ماحول کی سفاکی کے باعث جب آہیں اور دعائیں اپنی تاثیر سے محروم ہوجائیں تو مایوسی کے عالم میں زندگیاں بھی مختصر ہو جاتی ہیں۔گلزارِ ہست و بُودمیں تلخ سمے کے سم کے ثمر سے ایسی فضا پیدا ہو جاتی ہے کہ نرگس کی حسرت کی صدائے باز گشت کرگس کی کریہہ صورت میں دکھائی دیتی ہے اور بقا کی ہر موہوم تمنا اپنی ہر اداسے فنا کے سیکڑوں مناظر سے آشنا کرتی ہے ۔خزاں کے اس نوعیت کے بے شمار تکلیف دہ مناظر کو دیکھنے کے بعد طلوعِ صبحِ بہارا ں کی اُمید وہم و گُماں اور سراب سی لگتی ہے۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی زندگی کے معمولات میں خدمت میں عظمت ،نُدرتِ فکر ،تنوع اور جدت پر مبنی خیال آفرینی ان کے سیکڑوں مداحوں کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔کورانہ تقلید سے ڈاکٹر نثار احمد قریشی کو سخت نفرت تھی اس لیے خضر کا سودا چھوڑ کر اظہار و ابلاغ کی نئی راہیں تلاش کرنا اُن کاشیوہ تھا۔اُن کی خیال افروز اور فکر پرور تقاریر کلیشے کی آلودگی سے پاک ہوتی تھیں۔اُن کا دل کش ،حسین اور منفرد سلسلہ ٔ تکلم ہرلحظہ نیا طُور نئی برق ِتجلی کی کیفیت کامظہر ہوتاتھا۔تدریسی عمل میں اُن کا مرحلہ ٔ شوق پیہم نئی منازل کی جانب روا ں دواں رہتا تھا ۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشیکو اچھی طرح معلوم تھا کہ موت کی دیمک ہر جان دار کے تن کو چاٹ لیتی ہے۔ وہ اس تلخ حقیقت کی جانب متوجہ کرتے کہ چشمِ تصور سے زندگی کی راہوں میں ناچتی ،مسکراتی اور ہنستی گاتی موت کی آمد اور اجل کی لرزہ خیزو اعصاب شکن صدا سُن کر بھی دِ ل ِ برداشتہ نہیں ہوناچاہیے۔ اُنھوں نے نہایت جرأت ،عزم اور قوت ِ ارادی سے خدمت خلق کو تزکیۂ نفس کا وسیلہ بنایا۔ حرفِ صداقت سے لبریزاُن کی باتیں دکھی انسانیت کی فلاح کے لیے ان کے داخلی کرب ،خلوص ،دردمندی اور سچے جذبات کی مظہر تھیں ۔ وہ ان لوگوں کی جرأت ،عزم صمیم اور ہمت کو سراہتے جوموت کی دستک سُن کر بھی زندگی کے بارے میں چشم کشا صداقتوں کا اظہار کرنے میں تامل نہیں کرتے ۔ ڈاکٹر نثار احمد قریشی کا طریق کار زندگی کی حقیقی معنویت کو سمجھنے میں بے حد معاون ثابت ہوتاتھا۔ بے لوث خدمت اور بے باک صداقت کی راہ میں کئی سخت مقام آئے مگر انھوں نے کبھی دِل بُرا نہ کیا،ان کے صبر و تحمل اور عفو و در گزر کا جائزہ لینے سے سوانح نگارکے لیے اپنے آنسو ضبط کرنا محال ہو جاتا ہے۔ ملک بھر میں اپنے تمام احباب کی خوشی اور غم میں شریک ہونا ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی زندگی کا معمول تھا۔وہ اکثر یہ بات کہتے کہ نوجوان اولا د کی دائمی مفارقت کا سوگ ضعیف والدین کے لیے جان لیوا روگ ثابت ہوتاہے ۔وہ بڑے کرب سے اس حقیقت کی جانب متوجہ کرتے کہ بابواکبر ، ارشداقبال ،اقبال عاصی ، فہمیدہ ریاض، قمرزماں ،خالدہ حسین ، روحی بانو،متین ہاشمی، جمیل فخری، نواز ایمن،ریاض الحق ، روبینہ قائم خانی ، شہلا رضا، خالہ سکینہ ، افضل احسن، محمداکرم،محمد یوسف،محمد حنیف، اورشبیر راناکو نوجوان بیٹوں کی دائمی مفارقت کے غم نے زندہ در گور کر دیا۔

میرا خیال ہے کہ موت یاس و ہراس کے سو اکچھ نہیں جو محض ایک آغاز کے انجام کا اعلان ہے کہ اب حشر تک کا دائمی سکوت ہی ہمارے خالق کا فرمان ہے ۔ عزیزہستیوں کی رحلت سے ان کے اجسام آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور یہ عنبرفشاں پھول شہر ِخموشاں میں تہہ خاک نہاں ہو جاتے ہیں ۔ ان کی روح عالم بالا میں پہنچ جا تی ہے اس کے بعد فضاؤ ں میں ہر سُو ان کی یادیں بکھر جاتی ہیں اور قلوب میں اُن کی محبت مستقل طور پر قیام پذیر ہو جاتی ہے۔ ذہن و ذکاوت میں ان کی سوچیں ڈیرہ ڈال دیتی ہیں۔ الم نصیب پس ماندگان کے لیے موت کے جان لیوا صدمات برداشت کرنا بہت کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے ۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ فرشتہ ٔ اجل نے ہمارے جسم کا ایک حصہ کاٹ کر الگ کر دیا ہے اور ہم اس کے بغیرسانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور ہیں ۔ اپنے رفتگان کا الوداعی دیدار کرتے وقت ہماری چیخ پکار اور آہ و فغاں اُن کے لیے نہیں بل کہ اپنی حسرت ناک بے بسی ، اذیت ناک محرومی اور عبر ت ناک احساس ِزیاں کے باعث ہوتی ہے ۔غم بھی ایک متلاطم بحرِ زخار کے مانند ہے جس کے مدو جزر میں الم نصیب انسانوں کی کشتی ٔجاں سدا ہچکولے کھاتی رہتی ہے ۔ غم و آلا م کے اس مہیب طوفان کی منھ زور لہریں سوگوار پس ماندگان کی راحت ومسرت کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتی ہیں۔ روح ،ذہن اورقلب کی اتھاہ گہرائیوں میں سما جانے والے غم کا یہ جوار بھاٹا حد درجہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن ثابت ہوتا ہے ۔کبھی غم کے اس طوفان کی لہروں میں سکوت ہوتا ہے تو کبھی مصائب و آلام کی یہ بلاخیز موجیں جب حد سے گزر جاتی ہیں تو صبر و تحمل اور ہوش و خرد کو غرقاب کر دیتی ہیں۔ یاس و ہراس ،ابتلا وآزمائش اور روحانی کرب و ذہنی اذیت کے اِن تباہ کن شب و روزمیں دِ ل گرفتہ پس ماندگان کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ ٔ کار نہیں کہ وہ باقی عمرمصائب و آلام کی آگ سے دہکتے اس متلاطم سمندر کو تیر کر عبور کرنے اور موہوم کنارہ ٔ عافیت پر پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤ ں مارتے رہیں ۔ ہمارے عزیز رفتگاں ہماری بے قراری ، بے چینی اور اضطراب کو دیکھ کر عالم خواب میں ہماری ڈھارس بندھا تے ہیں کہ اب دوبارہ ملاقات یقیناًہو گی مگر حشر تلک انتظار کرنا ہوگا۔سینۂ وقت سے پُھوٹنے والی موجِ حوادث نرم و نازک ،کومل اورعطر بیز غنچوں کو اس طرح سفاکی سے پیوندِ خاک کر دیتی ہے جس طرح گرد آلود آندھی کے تند و تیز بگولے پھول پر بیٹھی سہمی ہوئی نحیف و ناتواں تتلی کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں ۔پیہم حادثات کے بعد فضا میں شب و روز ایسے نوحے سنائی دیتے ہیں جو سننے والوں کے قلبِ حزیں کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتے ہیں ۔کہکشاں پر چاند ستاروں کے ایاغ دیکھ کردائمی مفارقت دینے والوں کی یاد سُلگ اُٹھتی ہے ۔تقدیر کے ہاتھوں آرزووں کے شگفتہ سمن زار جب وقفِ خزاں ہو جاتے ہیں تو رنگ، خوشبو،رُوپ ، چھب اور حُسن و خُوبی سے وابستہ تمام حقائق پلک جھپکتے میں خیال و خواب بن جاتے ہیں۔ روح کے قرطاس پر دائمی مفارقت دینے والوں کی یادوں کے انمٹ نقوش اور گہرے ہونے لگتے ہیں ۔ان حالات میں قصرِ دِل کے شکستہ دروازے پر لگا مشیت ِ ایزدی اورصبر و رضا کا قفل بھی کُھل جاتاہے ۔سیلابِ گریہ کی تباہ کاریوں،من کے روگ،جذبات ِ حزیں کے سوگ اور خانہ بربادیوں کی کیفیات روزنِ اِدراک سے اس طرح سامنے آتی ہیں کہ دِ ل دہل جاتا ہے ۔ سیل ِ زماں کے مہیب تھپیڑے اُمیدوں کے سب تاج محل خس و خاشاک کے مانند بہالے جاتے ہیں۔ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ان سے وابستہ یادیں اور فریادیں ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو جاتی ہیں ۔ دائمی مفارقت دینے و الوں کی زندگی کے واقعات تاریخ کے طوماروں میں دب جاتے ہیں ۔ جب ہم راہِ عدم پر چل نکلنے والے اپنے عزیزوں کا نام لیتے ہیں تو ہماری چشم بھر آ تی ہے ۔ ہجومِ غم میں گھرے ہم اپنا دل تھام لیتے ہیں اور سوچتے ہیں اس طرح جینے کے لیے جگر کہاں سے لائیں ؟ استاد محترم ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی دائمی مفارقت کے حوالے سے اردو زبان کی ممتاز شاعرہ فہمیدہ ریاض کی نظم ’’ عالم ِ برزخ ‘‘کے چند اشعار پیش ہیں:
یہ تو برزخ ہے ،یہاں وقت کی ایجاد کہاں
اِک برس تھا کہ مہینہ، ہمیں اب یاد کہاں
وہی تپتا ہوا گردوں ، وہی انگارہ زمیں
جا بہ جا تشنہ و آشفتہ وہی خاک نشیں
شب گرا ں،زیست گراں تر ہی تو کر جاتی تھی
سُود خوروں کی طرح در پہ سحر آتی تھی ( فہمیدہ ریاض)
ڈاکٹر نثار احمد قریشی کی اچانک وفات نے دل دہلا دیا ،مایوسی اور محرومی کی جان لیوا کیفیت میں کوئی امید بر نہیں آتی اور نہ ہی جانگسل تنہائی کی عقوبت سے بچ نکلنے کی کوئی صور ت نظر آتی ہے ۔زندگی اور موت کے راز ہائے سربستہ کی تفہیم پر کون قادر ہے ۔ فرشتہ ٔاجل ان چارہ گروں اور مسیحا صفت لوگوں کو ہم سے مستقل طور پر جدا کر دیتا ہے جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے وہ ہمیں دائمی مفارقت دے کر ہمیں اس دھوپ بھری دنیا میں بے یار و مدد گار چھوڑ کر کر چلے جاتے ہیں ۔ اور اس کے بعد گل چین ازل ہمیں ان کی دائمی مفارقت دے کر آہوں ،آنسووئں اور سسکیوں کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے ۔اس وقت جب کہ ہم اپنے ایک عظیم استاد سے محروم ہو چکے ہیں ہماری بے بسی اور بے چارگی کا احساس کون کرے گا اور کون یہ کیفیت دیکھے گا ۔مجید امجد کے یہ اشعار حقیقی صورت حال کے غماز ہیں ؂
کون دیکھے گا
جو دن کبھی نہیں بیتا وہ دن کب آئے گا
انہی دنوں میں اس اک دن کو کون دیکھے گا
اس ایک دن کو جو سورج کی راکھ میں غلطاں
انہی دنوں کی تہوں میں ہے ، کون دیکھے گا
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کو ن دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا
ہزار چہرے خود آرا ہیں کو ن جھانکے گا
مرے نہ ہونے کی ہونی کو کون دیکھے گا
ڈاکٹر نثار احمد قریشی اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ان کے نہ ہونے کی ہونی دیکھنے کے لیے ان کے لاکھوں شاگرد اور کروڑوں مداح تقدیر کے لگائے ہوئے زخموں کے باوجود زندہ ہیں ۔سچ تو یہ
ہے کہ یہ زندگی اب ایک مستقل محرومی کے سوا کچھ نہیں رہی۔
 

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 597501 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.