سیاسی رہنماؤں کے ماضی کے بیانات اور اعمال اور آج کی
صورت حال دیکھ،کر، ان کی کھسیانی شکل کا جائزہ لےکر اپنی ہر تحریر سے ڈر
لگنے لگتا ہے کہ کل کوئی اٹھا کر منہ پر نہ مارے.اس لیے ضروری ہے کہ جو بھی
لکھا جائے صرف سچ و حق ہو. سچ کے ساتھ اس کا لکھنا ضروری اور اہم بھی ہو.
صرف سچ و حق اور ضروری و اہم ہونا کافی نہیں بلکہ کہنے کا انداز شائستہ،
لہجہ نرم اور الفاظ مناسب ہوں. اللہ اس وقت سے بچائے کہ آج بے فکری یا بے
توجہی کیساتھ لکھی ہوئی کوئی تحریر، کہا ہوا کوئی جملہ اور نکلا ہوا کوئی
لفظ کل کلاں بری طرح پیچھا نہ کرے اور ناقدین وہی لکھاوٹ اٹھا کر منہ پر نہ
مار دیں.
سیاسی قائدین کی ہر سابقہ تقریر ان کا منہ چڑا رہی ہے اور ہر ٹاک شو ان کے
لیے مصیبت بنا ہوا ہے.ہر اخباری بیان ان کا بری طرح تعاقب کررہا ہے. بیچارے
کہیں کے نہیں رہ جاتے.
لہذا ہر سمجھ دار آدمی کو چاہیے کہ ایسا لکھیں کہ کھبی اپنے لکھے ہوئے پر
پشیمانی نہ ہو. بس سچ ہو، کہنا ضروری بھی ہو اور انداز شائستہ ہو یعنی حق
بات، حق طریقے سے حق نیت کیساتھ سائستہ الفاظ میں لکھی اور کہی جائے تو ان
شاء اللہ ماضی قریب اور بعید میں قلم کار کے لیے باعث ندامت نہیں ہوگی بلکہ
سبب تسکین و طمانیت بنے گی.
احباب کیا کہتے ہیں؟
|