وطن عزیز اس وقت سیاسی بحران کی جانب بڑھ رہا ہے، لیکن ان
وجوہ کو بنیاد پر عالمی سطح پر خارجہ پالیسی کی کمزوری کو نظر انداز نہیں
کیا جاسکتا۔پاکستان کے دورے پر امریکی حکام اُسی وقت آتے ہیں جب انہیں
افغانستان میں سہولت کاری کی ضرورت ہوتی ہے، پاکستان کی اہمیت ان کے نزدیک
صرف افغانستان میں امریکی مفاداتی تحفظ کے حصوؒل سے بڑھ کر نہیں، ایف اے ٹی
ایف بلیک لسٹ میں نہ ڈالے جانے کو حکومت اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے،
حالاں کہ پاکستان نے گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے جو اقدامات کئے، وہ انتہائی
موثر تھے، تاہم اس کے باوجود پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھے جانے پر ایف اے
ٹی ایف کا سیاسی و دوہرا معیار کھل کر سامنے آیا کہ پلیٹ فارم کو عالمی
طاقتوں کی ایما پر من پسند نتائج کے حصوؒ ل کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے جنوبی ایشیائی ممالک کے لئے جس سخت پالیسی کا اعلان کیا
تھا، اُس کے بعد پاکستان پر بالخصوص سخت دباؤ ڈالا گیا، ریاست نے افغانستان
میں امریکا کو محفوظ راستہ دلانے کے لئے کلیدی کردار ادا کیا، لیکن اس کے
باوجود امریکی پالیسیوں میں جانب داری کا تاثر کھل کر سامنے آتا ہے۔
امریکی اسٹیبلشمنٹ و اعلیٰ حکام پاکستان کو نظر انداز کرنے کی پالیسی پر
رواں ہیں، امریکی حکام کے دوروں کے شیڈول میں پاکستان کو نظر انداز کرنا،
خارجہ پالیسی کے تحت اہمیت کا حامل ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ابھی تک
باہمی اعتماد کا وہ رابطہ بحال نہیں ہوا جس کے لئے پاکستان نے اپنے مینڈیٹ
سے بڑھ کر امریکا کا ساتھ دیا۔ امریکی مفادات کے تحفظ کی وجہ سے ہزاروں
پاکستانیوں کی قیمتی جانوں کی قربانی و اربوں ڈالر کا نقصان، امریکا کے لئے
اب بھی کوئی معنی نہیں رکھتا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اس وقت کہاں کھڑی ہے،
اس سے قریباََ سب بخوبی آگاہ ہیں۔خارجہ امور میں مقبوضہ کشمیر ہمیشہ سر
فہرست رہا، لیکن جس طرح موجودہ حکومت میں مقبوضہ کشمیر پر بھارتی تسلط و
جبر بڑھا، اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ حکومت مقبوضہ کشمیر کا مقدمہ
عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا کریڈٹ لیتی ہے، لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ
اس سے انتہا پسندبھارت کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ کئی ایسے ممالک جن کا انحصار
پاکستان کی حمایت و خدمات پر رہا ہے، انہوں نے بھی سفارتی طور پر پاکستانی
موقف پر اُس طرح ساتھ نہیں دیا، جو دینا چاہے تھا۔
امریکی اعلیٰ حکام کے ایشیائی ممالک کے دورے، ان کے اپنے مفادات کے مطابق
طے شدہ ہوتے ہیں، لیکن ماضی میں دیکھنے میں آتا تھا کہ امریکی حکام اگر
پاکستان کا دورہ کرتے تو بھارت یاترا بھی ان کی شیڈول میں شامل ہوتی، اسی
طرح بھارت جانے والے امریکی حکام، پاکستان کے دورے کو بھی اہمیت دیتے،
امریکا اور پاکستان کے خارجہ تعلقات میں واضح دراڑ کئی برسوں سے گہری ہوتی
جا رہی ہے،اس خلا کو پاکستان نے چین، روس اورترکی کی مدد سے پُر کرنے کی
کوشش کی، تاہم اس وجہ سے پاکستان غیر ارادی طور پر امریکا مخالف بلاک کا
اہم حصہ بن گیا۔ امریکا کی پاکستان کے ساتھ خطے میں تجارتی روابط بڑھانا
ترجیح نہیں تو دوسری جانب پاکستان کے دفاع کے خلاف ملک دشمن ملک کے ساتھ
ایسے معاہدے بھی کر رہا ہے،جس سے خطے میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ کے ساتھ ساتھ
علاقائی طاقت کا توازن بھی بگڑ چکاہے۔
امریکا، چین کو نیچا دکھانے اور کمزور کرنے کے لئے حد سے زیادہ تجاوز کررہا
ہے، حالاں کہ امریکا بخوبی واقف ہے کہ بھارت، امریکی مفادات کا فائدہ چین
کو کمزور کرنے کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کی سا لمیت کے خلاف استعمال کرتا
ہے، بھارت خطے میں جنوبی ایشیاء کا اسرائیل ثابت ہورہا ہے جہاں مسلم کشی
اپنے عروج پر ہے، ایف اے ٹی ایف جیسے ادارے بھارت کی دہشت گردی کے لئے
فنڈنگ، منی لانڈرنگ اور انتہا پسندی کو بالکل نظر انداز کئے ہوئے ہیں، اسی
طرح اقوام متحدہ کے ادارے بھی بھارت کی من مانیوں پر خاموش تماشائی بنے
ہوئے ہیں،مسلم اکثریتی ممالک انجانے خوف کے پیش نظر بھارت میں مسلمانوں کے
خلاف انتہا پسندی کے بڑھتے واقعات پر چپ سادھے بیٹھے ہیں، جو کہ لمحہ فکریہ
ہے۔
ان حالات میں ترکی کا کردار احسن و موثر نظر آتا ہے، بالخصوص فرانس کے صدر
میکرون کے اسلام مخالف بیانات کا جواب دیا گیا، اسی طرح مقبوضہ کشمیر پر
بھی ترکی کے ٹھوس موقف نے پاکستانیوں کے دلوں میں صدر طیب اردوان کی قدر و
منزلت کو بڑھایا۔ پاکستان کو اپنے خارجہ پالیسی میں ٹھوس و حقیقت پسندانہ
موقف اپنانے کی ضرورت ہے کہ خارجہ محاذ پر مزید کام کیا جائے۔ مملکت میں
سیاسی چپلقش روایتی سیاست ہے، اس لئے اپنی تمام قوت سیاسی مخالفین پر صَرف
کرنے کے بجائے عالمی سطح پر وطن عزیز کی اہمیت کو بڑھانا و تسلیم کرانا سر
فہرست ہونا چاہے۔ امریکی خارجہ پالیسی ان دوروں سے واضح ظاہر ہوتی ہیں کہ
پاکستان، ان کی گڈ بک میں اب بھی شامل نہیں بلکہ ایف اے ٹی ایف جیسے اداروں
کے ذریعے بھارت سے لابنگ کروا کر مملکت کے لئے مشکلات پیدا کرنا عالمی طاقت
کے ایجنڈے کا حصہ ہے، جو پاکستان کے حق میں بہتر نہیں۔ |