وکی لیکس کی بدولت آئے دن سیاسی
حلقوں میں ایک نہ ایک ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے اس
حقیقت کو جانچا اور پرکھا جائے ۔وکی لیکس کی حیثیت دراصل سفارتکاروں کے
لکھے ہوئے ذاتی ملفوظات سے زیادہ کچھ بھی نہیں اور پھر یہ امریکی سفارتکار
جن کے پیغامات منکشف ہوتے رہتے ہیں کوئی منکر نکیر تو ہیں نہیں کہ ان کو سب
کچھ سچ سچ دکھلائی دیتا ہو اور وہ جو کچھ دیکھتے ہوں اسے من و عن لکھ ڈالتے
ہوں ۔ ہوتا یہ ہے کہ یہ سفارتکار کچھ لوگوں سے گفتگو کر کے ان کا ذہن
ٹٹولتے ہیں ۔ اب جن سے بات چیت کی جاتی ان کو کچھ معلوم ہوتا ہے کچھ معلوم
نہیں ہوتا۔ جو کچھ معلوم ہوتا ہے اس میں سے کچھ صحیح ہوتا ہے کچھ غلط ہوتا
ہے ۔اپنی ناقص معلومات میں سے کچھ تو وہ لوگ بتلاتے ہیں اور کچھ چھپا لیتے
ہیں۔ جو کچھ بتلاتے ہیں اس میں کچھ سچ ہوتا ہے اور کچھ جھوٹ ہوتا ہے ۔یہاں
تک تو بولنے والے کا معاملہ ہوا ۔ اب سننے والا کچھ سمجھتا ہے کچھ نہیں
سمجھتا ۔ جو سمجھتا اس میں سے کچھ صحیح سمجھتا ہے کچھ غلط سمجھتا ہے ۔ جو
صحیح سمجھتا ہے اس میں سے کچھ اسے یا د رہ جاتا اور کچھ وہ نوٹس لکھنے تک
بھول جاتا ہے ۔ جو کچھ لکھتااس میں نہ جانے کیا کچھ اپنی طرف سے دانستہ اور
غیر دانستہ طور پر ملا دیتا ہے ۔اس طرح وہ دستاویز عالمِ وجود میں آتی ہے
۔ اس تصدیق کا کوئی اہتمام کسی بھی مر حلے میں نہیں کیا جاتا اور اس پر
اکثر کوئی اقدام بھی نہیں کیا جاتا لیکن جب یہ وکی لیکس کے ویب سائٹ پر
شائع ہوجاتی ہےتو اس پر ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے ۔ جو لوگ اس آسیب کا شکار
ہوتے ہیں وہ تو اپنا دفاع کرنے کی غرض سے مندرجہ بالا منطق اور دلائل کا
سہارا لیتے ہیں لیکن ان کے مخالفین وکی لیکس کے انکشافات کو الہام کا درجہ
دے کر پھیلانے لگتے ہیں اور اپنی سیاسی روٹیاں سینکتے میں جٹ جاتےہیں ۔
من موہن سنگھ کے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے حوالے سے وکی لیکس کے انکشافات
سامنے آئے تھے تو بی جے پی والوں نے اسے خوب اچھالااور کانگریس پارٹی اپنے
بچاؤ میں لگ گئی ۔کانگریس نے اپنی سرکار کو گرنے سے بچانے کیلئے روپئے
تقسیم کئے یہ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے اس کیلئے کسی وکی لیکس کی چنداں
ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ کانگریس نے ایسا نہ پہلی بار کیا ہے اور نہ یہ آ
خری بار ایساہواہے بلکہ کانگریس کیا بی جے پی والوں نے بھی اپنی سرکار
بچانے کیلئے لکشمی دیوی کو سونے کا تلک لگایا تھا ۔ سچ تو یہ ہے کہ شری
کرشنا نے کروکشیتر کے میدان میں جو گھوشنا کی تھی کل یگ میں اس کے معنی بدل
چکے ہیں بھارتیہ جن تنتر میں جب جب اقتدار کو خطرہ لاحق ہو تا ہے دھن دولت
کا مایا جال سدرشن چکر بن حرکت میں آجاتا ہے اوررن بھومی پر چھا جاتا ہے ۔
قدیم زمانے میں غلاموں کے بازار لگتے تھے اور انہیں خریدا اور بیچا جاتا
تھا آج کل ممبران پارلیمان کی منڈی لگتی ہے جہاں وہ بذاتِ خود اپنے
ضمیرکاسودہ کرتے ہیں اپنی وفاداریاں درہم و ینار کے عوض نیلام کر دیتے ہیں
آج کل یہ اس قدر معمولی بات ہوگئی ہے کہ ایسا کرنے سے نہ ہی بکنے والے کے
اندر کوئی احساسِ ندامت ہوتا ہے اور نہ ہی ان رائے دہندگان کو جنھوں نے
اپنا قیمتی ووٹ دے کر انہیں ایوان اقتدار میں بھیجا تھا اس پر شرم محسوس
ہوتی ہے ورنہ وہ دوبارہ ایسوں کو اپنے حلقہ انتخاب سے کامیاب و کامران نہ
کرتے۔
وکی لیکس کا آسیب گزشتہ ہفتے ارون جیٹلی سے چمٹ گیا ہے اور پتہ چلا کہ
انہوں نے کسی زمانے میں امریکی سفیر رابرٹ بلیک سے یہ کہہ دیا تھا کہ
ہندوتوکا نظریہ تو بی جے پی کیلئے بس ایک سیاسی موقع پرستی ہے گویا یہ ایک
سیاسی ڈھکوسلے سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔اب کانگریس والے اس نعمت غیر
مرتقبہ پر بغلیں بجانے میں لگ گئے۔ سونیا گاندھی سے لے کرگپل سبل تک سبھی
نے بی جے پی کی منافقت پر جم کر تنقید کی حالانکہ اس میں حیرت کی کوئی بات
ہی نہیں ہے ۔ کمیونسٹ پارٹی کیلئے اشتراکیت کی اور کانگریس کے نزدیک
سیکولرزم کی جو وقعت ہے ۔بی جے پی کیلئے ہندوتوا کی بعینہ وہی حیثیت ہے ۔
وطنِ عزیز کی تمام سیاسی جماعتیں نظریہ کو ٹائلٹ پیپر سے زیادہ اہمیت نہیں
دیتیں اپنے جسم سے لگی غلاظت کو اس کے ذریعہ پونچھ کر اسے کوڑے دان میں
پھینک دیتی ہیں
ارون جیٹلی چونکہ وکیل پہلے اورسیاستدان بعد میں ہیں اس لئے انہیں خوف ہے
کہ مبادہ رابرٹ نے ان کے بیان کو ٹیپ کر رکھا ہونیز تر دید کی صورت میں
ممکن ہے ان کی آواز ذرائع ابلاغ سے نشر ہونے لگے اس لئے انہوں نے مفہوم کے
بجائے الفاظ کی تر دید پر اکتفاکیا۔جس کے معنی یہ ہیں کہ اسی مفہوم کو ادا
کرنے کیلئے انہوں نے دوسرے الفاظ کا استعمال کیا تھا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا
ہے کہ آخر ارون جیٹلی کو ایسی متنازعہ گفتگو کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش
آئی ؟ اس سوال کا بلا واسطہ جواب اسی وکی لیکس کے کیبل میں درج ہے۔جیٹلی
کا کہنا تھا کہ اڈوانی جی آئندہ دو تین سال سے زیادہ بی جے پی کی قیادت
نہیں کر سکیں گے اور اس کے بعد نئی نسل کے پانچ میں سے کسی ایک کو لیڈرشپ
کی ذمہ داری اٹھانی پڑیگی ۔یاد رہے یہ بات چیت ۲۰۰۵ کی ہے اور اس لحاظ سے
اڈوانی جی کے دن کب کےلد چکے ہیں بی جے پی نے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا
میں پارٹی کی رہنمائی کے فرائض سشماسوراج اور ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا
میں پارٹی کی قیادت ارون جیٹلی کے حوالے کر کے اس کا عملی اعتراف کر لیا ہے
۔
جیٹلی نے نئی نسل کےجن پانچ لوگوں کا ذکر کیا ہے اس میں سرِ فہرست خود ان
کی نظر میں ان کے اپنے سوا کوئی اور ہو نہیں سکتا گویاانہیں اب پارٹی کی
باگ ڈور سنبھالنے کیلئے اپنے چارحریفوں کا صفایا کرنا ضروری ہے اور وہ اس
کام میں بڑی تندہی سے لگے ہوئے ہیں ۔ گزشتہ مرتبہ انہوں نے پارٹی انتخاب سے
قبل آسام میں پارٹی کے مشترک نگراں سدھانشو متل کا بونڈر کھڑا کرکے مجلس
عاملہ کے اجلاس کا بائیکاٹ کرڈالا اورپارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ کیلئے
مشکلات کھڑی کر دیں لیکن یہ بازی الٹی پڑی آرایس ایس نے راج ناتھ کو اناتھ
کر کے ان کی جگہ نو سکھئے نتن گڈکری کو پارٹی کی ڈگدگی تھما دی تاکہ نیا
صدراپنے سنگھی آقاؤں کے اشارے پرتماشہ لگاتارہے ۔ ویسے ارون جیٹلی کیلئے
بھی یہ کمزور صدر کسی قدرقابل قبول رہا ہوگا اسلئے کہ اگرمطمئن مودی یاسشما
آجاتیں تو ان کو چیلنج کرنا نا ممکن ہوجاتا بلکہ وہ لوگ سب سے پہلے ارون
جیٹلی ہی کا ٹکٹ کاٹ کر انہیں بلاٹکٹ آسام جیسی کسی ریاست میں بن باس پر
روانہ کر دیتے ۔بی جے پی میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ان کے عظیم
دانشورگووندا چاریہ عرصہ دراز سے شمال مشرق کی خال چھانتے چھانتے اب گمنامی
کے اندھیرے میں غرق ہو چکے ہیں ۔
ارون جیٹلی سے تر غیب حاصل کر ان کی حریفِ اول سشما نے اس بار بی جے پی کی
مجلس عاملہ سے قبل اپنا سدرشن چکر چھوڑا اور کہہ دیا کہ کرناٹک کے کے ریڈی
برادران کی ترقی وخوشحالی میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے بلکہ جس وقت ان کو
وزیر بنایا گیا اس وقت یدورپا وزیر اعلی تھے اور ارون جیٹلی ریاست میں
نگراں کی ذمہ داری ادا کر رہے تھے اس لئے وہ دونوں لوگ اس کیلئے ذمہ دار
قرار پاتے ہیں ان کا یہ کہنا تھا کہ ذرائع ابلاغ نےسشما اور ریڈی خاندان کی
تصاویر شائع کرنا شروع کردیں حالانکہ سشما سوراج کی بات بالکل صحیح ہے ۔
ریڈی برادران نے اپنی غیر قانونی کان کنی سے کروڈوں کا کالا دھن جمع کر
رکھا ہے وہ اپنی ذاتی ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہیں اس لئے یہ کہنا کہ ان کی
خوشحالی میں سشما کا حصہ ہے سراسر غلط بات ہے بلکہ اگر ٹھیک سے تحقیقات کی
جائیں تو ممکن ہے ایسے شواہد ہاتھ لگیں جن سے پتہ چلے سشما کی خوشحالی میں
ریڈی برادران کا حصہ ہے۔
کرناٹک میں ہونے والی غیر قانونی کان کنی اور اس میں بی جے پی کے افراد کا
ملوث ہونا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اس کا اعتراف وزیراعلی یدورپا کھلے عام
کر چکے ہیں ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ سشماسوراج ریڈی برادران کو ۱۹۹۹ سے جانتی
ہیں جب انہوں نے بیلاری سے سونیا گاندھی کے خلاف انتخاب لڑاتھا۔ یہ اس دور
کی بات ہے جبکہ اتر پردیش میں بی جے پی کا غلغلہ تھا اور کانگریس والوں کو
رائے بریلی تک کی سیٹ محفوظ نہیں لگتی تھی اس لئے سونیا نے اپنی ساس اندرا
گاندھی کے نقش قدم پر جنوب کا رخ کیا تھا اور ان کے خلاف بی جے پی نے دیسی
بہو کے طور پر سشما کو میدان میں اتارا تھا۔فی الحال بی جے پی ریڈی برادران
کے احسان تلے اس قدر دبی ہوئی ہے کہ سشما تو کیااگر اڈوانی بھی مخالفت کریں
تب بھی ان کو وزیر بننے سے نہیں روکا جاسکتا ۔ ریڈی برادران نے اپنے عالقے
کے ۳۰ میں سے ۲۳ نشستوں پر بی جے پی کو کامیابی دلائی اور آزاد امیدواروں
کی وفاداری حاصل کرنے کیلئے کئی کروڈ روپئے خرچ کئے اور بدلے میں دو بھائی
تو وزیر بن گئے اور تیسرے کو ایسے سرکاری ادارے کا سربراہ بنایا گیا جسے
وزیر کی مراعات حاصل ہیں۔ اس لئے سشما کو ریڈی برادران کے عروج کیلئے کوئی
بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتا۔ اس کے باوجود پارٹی میں اپنا قد بڑھانے اور
ارون جیٹلی کو نیچا دکھلانے کی خاطر سشما سوراج نے یہ کیچڑ اچھالا۔دلچسپ
بات یہ ہیکہ اس موقع پر راج ناتھ جن کو ارون جیٹلی نے ٹھکانے لگایا تھا آگے
آئے اورریڈی برادران کو وزیر بنانے کی ذمہ داری ازخود قبول کر لی۔
بی جے پی کے اندرفی الحال جو مہابھارت چھڑی ہوئی ہے وہ اس وقت تک جاری
رہیگی جب تک کہ ان پانچوں میں سے کوئی ایک اپنے تمام حریفوں کا مکمل خاتمہ
کرکے خود بلا شرکت غیرے پارٹی کی باگ نہیں سنبھال لیتا ۔اس صورتحال کو
سنبھالنے میں لال کرشن اڈوانی مہابھارت کے شری کرشن کا کردار ادا کر سکتے
ہیں بشرطیکہ دوبارہ وزیر اعظم بننے کا خواب وہ ترک کر دیں اور طالبعلموں کی
صف سے اٹھ کر گروجی کی استھان پر براجمان ہو جائیں لیکن اپنے تمام تر
تحفظات و مجبوریوں کے باوجود وہ ہنوز امید سے ہیں کہ کبھی نہ کبھی ان کی
گود ہری ہوگی اور وہ ہندوستان کے تخت طاوس پر کسی نہ کسی طرح براجمان ہوں
گے۔ اقتدار کی یہی حرص و ہوس نہ صرف اڈوانی جی بلکہ بی جے پی کا سب سے
سنگین مسئلہ ہے ۔
گوونداچاریہ جو کسی زمانے میں اڈوانی جی خاص مشیر ہوا کرتے تھے انہوں نے
اسی سال ماہ مارچ کے اندر ایک انٹرویو میں اس صورتحال پر بڑا تفصیلی
اورنہایت بے باک تبصرہ کیا تھا۔ اس انٹرویو میں ان لوگوں کیلئے بہت سامان
عبرت ہے جو سنگھ پریوار کے نقوش پر اپنی سیاسی حکمتِ عملی وضع کرنے کے
خواہش مند ہیں۔ گووندا چاریہ کے مطابق بی جے پی میں فی الحال زبردست
کنفیوژن پایا جاتاہے اور کوئی نہیں جانتا کہ اسے کیا کرنا ہے ۔ آپسی رسہ
کشی نے اس مسئلے کو مزید الجھا دیا ہے۔اڈوانی جی کالے دھن کے معاملے کو
اہمیت دیتے ہیں اور جیٹلی اس مسئلے پر بیان دینے سے پارٹی ترجمان کو روک
دیتے ہیں اس لئے کہ ان کے نزدیک یہ کوئی سنجیدہ مسئلہ ہی نہیں ہے ۔اڈوانی
جی کی حالت گھر میں موجود ضعیف ونحیف بزرگ کی سی ہو گئی ہے جس کا احترام تو
سبھی کرتے ہیں لیکن کوئی ان کی بات سنتا نہیں ہے۔۲۰۰۴ اور ۲۰۰۹ کی ناکامیوں
نے اڈوانی جی توڑ کر رکھ دیا ہےاب تو یہ حالت ہے کہ وہ پارٹی کے اندر کسی
معقول آدمی کو اپنے درد میں بھی شریک نہیں کر سکتے اور گرومورتی جیسے لوگوں
کی باتوں میں آکر اپنے سمیت پارٹی کو رسوا کر بیٹھتے ہیں ۔اس سنگین صورتحال
کا بڑا دلچسپ حل گووندا چاریہ نے ۲۰۰۵ میں اڈوانی جی کو سجھایا تھا ان کا
مشورہ یہ تھا کہ قیادت نوجوانوں کو سونپ دی جائے یا پارٹی کو ختم کردیا
جائے جیسا کہ اٹل جی نے جن سنگھ کے ساتھ کیا تھا اور اگر جذباتی لگاو ٔکے
باعث ایسا ممکن نہیں ہے تو اسے واپس آرایس ایس کے حوالے کرکےفیصلہ اس پر
چھوڑ دیا جائے۔انہیں یقین تھا کہ ان میں سے کسی مشورے پر عمل نہ ہوگا اور
ویسا ہی ہوا۔
گوونداچاریہ نے اس جماعت کے حوالے سے جو کبھی ایک مختلف قسم کی جماعت ہونے
کا دعویٰ کرتی تھی اس قدر سخت موقف کا اظہار کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب ان
کے انٹرویو میں موجود ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ نظریاتی سطح پربی جے پی نے اب
بالکل ہی مخالف سمت کو اختیار کرلیا ہے۔ کانگریس اور بی جے پی دونوں ہی
امیروں کی حامی اور کارپوریٹ کی ہمنوا ہیں۔ اسی کے ساتھ بازار کی قوتوں پر
معیشت کے چلنے کی حمایت کرتی ہیں۔ بدعنوانی کے معاملے میں بھی بی جے پی
کانگریس سے الگ نہیں ہےاس طرح کانگریس اور اس کے درمیان کوئی خاص فرق باقی
نہیں بچا ایسے میں زبردستی تیار کی جانے والی اس کاربن کاپی پر اصلی
دستاویز کا فائق ہونا ایک فطری امر ہے۔
گوونداچاریہ کا کہنا یہ بھی ہے بی جے پی کے اندر کارکنا ن کا اپنے رہمناوں
پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے ۔پارٹی ایک انتخابی مشین میں تبدیل ہو گئی ہےجس کا
ہدف صرف اور صرف اقتدار کا حصول بن گیا ہے۔ان کا مشاہدہ ہیکہ بی جے پی اب
ایک مقصد ِ عظیم کے حصول کی خاطر کام کرنے والے کارکنوں کی جماعت کے بجائے
اقتدار کے حصول میں سرگرداں امیدواروں کی جماعت بن گئی ہے ۔جس کے باعث
نظریاتی معاملے میں سنجیدہ کارکنان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ بی جے پی کے
معاملے جورابطے اور تنظیم کا کام آرایس ایس کر سکتی ہے اس کا مظاہرہ پچھلے
پانچ سالوں میں نظر نہیں آیا جس کی وجہ ممکن ہے یہ ہو کہ آرایس ایس خود بے
دست و پا ہوگئی ہے وہ اس مخمصے میں گرفتار ہے کہ آیا بی جے پی کے سر پرستی
کی جائے یا اسے عاق کر دیا جائے ۔گوندا چاریہ کے خیال میں آر ایس ایس بی جے
پی محتاج نہیں ہے ۔آر ایس ایس کو چاہئے کہ وہ کردار سازی اور قوم پرستی کے
جذبات کو فروغ دینے پر اپنی ساری قوت اور وسائل کوصرف کر دے۔یہ ایک مشکل
کام ضرورہے لیکن اسی کو کرنے میں اس کیلئے سکون و اطمینا ن ہے۔ اس لئے کہ
یہی آر ایس ایس کے کے قیام کا بنیادی مقصد ہے۔ |