ایسے وقت جب یورپی رہنماؤں
کی اکثریت اپنے خسارہ کو کم کرنے کے لیے کوشاں تھی اور ان کے اپنے اپنے
ممالک میں فٹ بال کپ کا بخار زوروں پر تھا تو دوسری جانب بارک اوباما
ٹورانٹو میں اپنے اقتصادی ممالک کی کانفرنس جی 20 کو دوسرے مقاصد کے لیے
استعمال کرنے میں متحرک رہے۔ گو کہ خلیج گلف میں تیل کے بہنے اور جنرل
اسٹینلے میک کرسٹل کی سبک دوشی سے انہیں کانفرنس میں شریک رہنماؤں کی
سوالیہ نظروں کا سامنا تھا، مگر اوباما نے اپنا بیشتر وقت ایشیائی رہنماؤں
کے ہمراہ گزارا۔ اس دوران ان کی جاپان، انڈونیشیا، چین، بھارت اور جنوبی
کوریا کے رہنماؤں سے طویل نشستیں رہیں۔ کانفرنس کے دوران اوباما نے چینی
صدر ہوجن تاو کو واشنگٹن کے دورے کی دعوت دی۔ ایسے رسمی موقع کی چینی
رہنماؤں کو ہمیشہ ہی خواہش رہی ہے۔ ایک سینئر انتظامی افسر نے رپورٹرز کو
بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ مجموعی طور پر باہمی مفاہمت کے 6 میں سے 5
معاہدے ایشیا، بحرالکاہل ممالک سے کیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اس
امر کا اظہار ہے کہ اوباما ایشیا کو اہمیت دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری
سیاسی سیکورٹی اور اقتصادی مفادات کے لیے ایشیا انتہائی اہم ہے۔
امریکی ہفت روزہ جریدہ نیوز ویک کے مطابق اوباما نے بہت ٹھوس نتائج بہ شمول
ایشیا پر اپنی توجہ مرکوز ہونے کے اظہار کی کوشش کی۔ قبل ازیں امریکی
انتظامیہ کئی برسوں تک یہ تاثر دیتی رہی کہ بش انتظامیہ کے دَور میں ہونے
والے جنوبی کوریا فری ٹریڈ معاہدے پر نظرِثانی کی جائے گی۔ گزشتہ جون میں
اوباما انتظامیہ نے اعلان کیا کہ وہائٹ ہاؤس اس کی توثیق کرے گا جس کے
نتیجے میں کلنٹن انتظامیہ کے آغاز میں منظور ہونے والے نارتھ امریکن فری
ٹریڈ ایگریمنٹ کے بعد انتہائی اہم امریکی تجارتی ڈیل تخلیق ہوسکے گی۔
اوباما نے ایک ٹائم ٹیبل بھی مقرر کرتے ہوئے ہدایت کی کہ کوریا ڈیل نومبر
سے قبل مکمل کرلی جائے۔
اوباما نے انہیں بے یار و مدگار چھوڑنے کے لیے ایسا ہی اقدام قبل ازیں بھی
کیا تھا۔ اپنی انتظامیہ کے ابتدائی دنوں میں انہوں نے خود کو پہلا
بحرالکاہلی صدر (Pecific President) قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ چاہتے
ہیں کہ دنیا کے سب سے تیزی سے ترقی کرنے والے انتہائی آبادی والے خطے کو یہ
پیغام بھیج کر کہ ”امریکا دوبارہ ایشیا میں دلچسپی رکھتا ہے“ خود کو جارج
ڈبلیو بش سے نمایاں ظاہر کروں۔ جولائی 2009ءمیں ایک علاقائی ایشیائی اجتماع
سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا کہ ”امریکا ایشیا میں
واپس آگیا ہے۔“ گزشتہ نومبر میں اوباما تمام 11 آسیان ممالک کے ہمراہ
مذاکرات کی میز پر بیٹھ گئے۔ پہلی بار کسی امریکی صدر نے یہ اقدام کیا تھا۔
وہائٹ ہاؤس نے انڈونیشیا سے ایک جامع شراکت داری کے لیے منصوبوں کی رونمائی
کردی۔ انڈونیشیا ایسا ملک ہے جہاں بش کے برخلاف اوباما کو قابلِ ذکر
مقبولیت حاصل ہے۔ ان کی مقبولیت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وہ اپنے بچپن کے
چار برس جکارتہ میں گزار چکے ہیں۔ اپنے اقتدار کے شروع میں ہی اوباما کی
ایشیا بھر میں مقبولیت کی شرح میں تیز رفتار اضافہ ہوا۔ انڈونیشیا سے بھارت
حتیٰ کہ چین تک میں بھی اوباما کی مقبولیت کی شرح میں اضافہ ہوا۔ بی بی سی
کی جانب سے کرائے گئے ایک حالیہ پول میں دو تہائی افراد کا کہنا تھا کہ
امریکا کے دنیا سے تعلقات اوباما حکومت کے دور میں ہی اچھے ہوسکتے ہیں۔
تاہم آنے والے دنوں میں یہ اقدامات زوال پذیر ہونے لگے۔ مشرقِ وسطیٰ کی
صورتِ حال، افغانستان میںجنگ اور اندرونِ ملک سیاسی ماحول میں گرمی کے باعث
اوباما ایشیا کے معاملے پر توجہ نہیں دے سکے۔ انہوں نے نئی جاپانی حکومت پر
عدم اعتماد کا اظہار کیا، جب کہ بھارت سے تعلقات کی بہتری کے لیے غیر یقینی
کا شکار ہیں۔ جون کے شروع میں انہوں نے تیسری بار انڈونیشیا کا دورہ ملتوی
کردیا، جس کے باعث ان کے انڈونیشی حامیوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
اوباما کے تحت وہائٹ ہاؤس نے بھی ایشیا میں بڑی سرمایہ کاری شروع نہیں کی۔
حتیٰ کہ خطے کے بڑے ممالک بہ شمول بھارت، جاپان اور چین سے بھی امریکی
انتظامی نے اکثر و بیشتر غفلت برتی۔
اوباما انتظامیہ کو ایشیا میں تعلقات کی نئی شاہراہیں کھلنے کی توقع تھی،
انڈونیشیا سے دو طرفہ تعلقات میں اضافہ، بھارت اور سنگاپور سے تعلقات کی
شرح بہتر کرنے اور امریکا کے قریبی اقتصادی اور سیکورٹی شراکت داروں سے
بہتر تعلقات کے لیے بھی اقدامات نہیں کیے گئے۔ ایشیائی ممالک سے موسم کی
تبدیلی سے لے کر تجارت تک کے شعبوں میں تعاون سمیت جامع شراکت داری کی
تجاویز تھیں۔ حتیٰ کہ پنٹاگون بھی انڈونیشی اسپیشل فورسز ”کوپاسس“
(Kopassus) کے لیے امریکی امداد میں اضافہ سمیت تعلقات کی تجدید کے لیے زور
دے رہا تھا، حالاں کہ اُس نے دو عشرے قبل مشرقی تیمور میں قتلِ عام کے بعد
انڈونیشی ملٹری سے تعلقات منقطع کرلیے تھے۔
اندرونِ ملک مختلف درپیش چیلنجز بہ شمول ہیلتھ کیئر اصلاحات کے بل اور پھر
خلیج میکسیکو میں تیل بہہ نکلنے کے باعث اوباما نے غیر ملکی دورے ملتوی
کیے۔ اوباما کے ان اقدامات پر ہیریٹج فاؤنڈیشن کے والٹر لوہمین نے متنبہ
کیا کہ اوباما اندرونِ ملک مسائل کے باعث جن ایشیائی ممالک کے دورے ملتوی
کررہے ہیں، ان سے تعلقات میں ایک خلیج پیدا ہورہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب
اوباما کا جکارتہ میں اتنی خوش دلی سے خیر مقدم نہیں کیا جائے گا۔ انڈونیشی
حکومت نے پہلے ہی ایک پبلک پارک میں نصب کیا گیا اوباما کا مجسمہ ہٹا لیا
ہے۔
بھارت جس نے بش انتظامیہ کے دور میں واشنگٹن سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے
لیے عشروں قدیم امریکا مخالف لہر پر قابو پالیا تھا، وہ بھی اب اوباما سے
شاکی ہے، حالاں کہ اوباما نے وزیرِاعظم من موہن سنگھ کے اعزاز میں ایک
سرکاری عشائیہ کا اہتمام کیا، تاہم گزشتہ نومبر میں صدر اوباما نے یہ بیان
جاری کر کے بھارت کو طیش دلا دیا کہ ”چین جنوبی ایشیا میں امن کے فروغ کے
لیے امریکا کے ساتھ مل کر کام کرے۔“ اوباما کے اس بیان سے بھارت کو یہ
پیغام پہنچا کہ واشنگٹن بھارت اور پاکستان کے معاملے میں چین کو مداخلت کا
موقع فراہم کررہا ہے۔ حتیٰ کہ کونسل آن فارن ریلیشنز کے فیگن بام نے یہ
دلیل دی کہ نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان امریکا کی پاکستان اور
افغانستان پالیسی پر شدید اختلافات پیدا ہوگئے ہیں جو کہ دہلی سے واشنگٹن
کے فاصلے مزید بڑھائے گا۔
حالاں کہ وہائٹ ہاؤس چین کو بہ مشکل نظرانداز کرتا ہے اور اوباما نے ہوجن
تاؤ سے طویل نجی گفتگو کی خواہش کا اظہار بھی کیا تاہم وہائٹ ہاؤس کی
پالیسیوں نے امریکا کے ایشیائی دوستوں مثلاً بھارت اور سنگاپور کو اُس سے
دور کردیا ہے۔ اوباما انتظامیہ نے پہلے تو دلائی لامہ سے اُس وقت ملاقات سے
انکار کردیا جب وہ واشنگٹن کے دورے پر آئے، بعدازاں گزشتہ سال چین کے دورے
میں اوباما نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملات اٹھانے سے گریز کیا۔
چین کے خلاف سخت مؤقف اپنانے میں ناکامی کے باعث ایشیا کے ایک معمر سیاست
دان لی کوان یو نے اپنی ناراضی کا اظہار کیا۔ گزشتہ موسمِ خزاں میں واشنگٹن
کے دورے میں انہوں نے صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ (امریکی) پیسفک
(بحرالکاہل) میں اپنے قدم نہیں جماتے تو آپ ایک عالمی لیڈر نہیں ہوسکتے۔
بھارت، چین، انڈونیشیا اور ایشیا میں تیزی سے ترقی کرنے والے ہر ملک کے لیے
آزادانہ تجارت اب سےکورٹی پارٹنر شپ جیسی حیثیت حاصل کرچکی ہے۔ چین پہلے ہی
آسیان میں شامل 10 ممالک سے فری ٹریڈ کا معاہدہ کرچکا ہے۔ ہر ہفتہ ہی
امریکا سے ہٹ کر دیگر پارٹنرز سے نئی ایشیائی ٹریڈ ڈیلز کی خبریں آتی رہتی
ہیں۔ ان میں بھارت آسیان معاہدہ اور جنوبی کوریا کی یورپی یونین سے ڈیل
شامل ہے۔ تاہم امریکی طویل اقتصادی کمزوری کے دَور سے گزر رہا ہے۔ ایسا
معلوم ہوتا ہے کہ اوباما کو کسی ایشیائی تجارتی معاہدہ کی ضرورت نہیں ہے،
وہ تیزی سے ایشیائی دوستوں سے دُور ہوتے جارہے ہیں۔ ایک جاپانی قانون ساز
کا کہنا ہے کہ واشنگٹن کی یک طرفہ پالیسیاں جاپان کو امریکا سے دُور اور
چین کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ |