ہم جس دور میں پیدا ہوئے اور ہوش سنبھالا پاکستان میں
واحد ٹی وی چینل پی ٹی وی تھا اس سے جب اکتا جاتے تھے تو ہندوستان کا
دوردرشن لگا لیتے تھے جس پہ مسلسل پاکستان اور پاک فوج کے خلاف منفی
پروپیگنڈا کیا جاتا تھا۔ بعد میں پرائیویٹ چینلز کی بھرمار ہوئی تو بھی
ہندوستان کا رویہ وہی رہا ، جب بھی کوئی بھارتی چینل لگائیں پاک فوج کے
خلاف ایسی ایسی بے بنیاد گپیں سننے کو ملتی ہیں کہ جیسے ساری دنیا کا امن
پاک فوج اور آئی ایس آئی ہی خراب کر رہی ہے۔
میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ ہمارے مقابلے میں انڈین میڈیا کہیں ذیادہ محب
وطن اور ذمہ داری کا ثبوت دے رہا ہے وہ اپنی فوج کے بارے میں کوئی غیر
ضروری اور مشکوک سنسنی نہیں پھیلاتے ، ان کی توپوں کا رخ ہمیشہ پاک فوج کی
طرف رہتا ہے جبکہ ہمارا حال سب کو پتہ ہے ۔
مجھے آج یہ تمہید باندھنے کی ضرورت اس لئے پڑی کہ ایک عرصے بعد سیاسی گہما
گہمی عروج پہ ہے اپوزیشن پی ڈی ایم اتحاد کی شکل میں مرنے مارنے پہ نظر آتی
ہے لیکن افسوس آج کل جو کچھ ہم پی ڈی ایم کے جلسوں میں دیکھ اور سن رہے ہیں
یہی سب کچھ ہم اپنے بچپن سے انڈین ٹی وی چینلز پہ ہوتا دیکھتے آئے ہیں۔
اپوزیشن متحرک ہوئی تو میرے جیسے لاکھوں کروڑوں مڈل کلاس پاکستانی یقینا"
خوش تھے کہ حکومت پہ دباو بڑھے گا تو شائد حکومت اپنی کارکردگی بہتر بنائے
اور عام آدمی کو ریلیف ملے۔ الیکشن سے پہلے ہمیں خان سے بڑی توقعات تھیں
لیکن جس طرح یہ حکومت ناکام ہوئی اور اتنی شدت سے مہنگائی کا طوفان آیا اس
نے پورے پاکستان کو پریشان کرکے رکھ دیا تھا ، عمران خان اب ناصرف عوامی
حمایت کھوچکے تھے بلکہ عوام کے دل میں ان کے لئے نفرت اور زبان پہ بد
دعائیں اور گالیاں بڑھ رہی تھیں ، مہنگائی اور بے روزگاری قریب تھا کہ کوئی
بڑا طوفان اٹھاتیں جو سب کچھ بہا کر لے جاتا ۔
گوجرانوالہ جلسے سے پہلے عوامی جوش وخروش کسی اور رنگ میں تھا پھر تین دفعہ
وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف کی غیر ذمہ دار تقریر نے باشعور لوگوں
کی آنکھیں کھول دیں ۔ آج کل آپ پی ڈی ایم قائدین کی فوج مخالف باتیں سنیں
یا بی جے پی کے کسی لیڈر کا بیان دونوں میں کچھ خاص فرق نظر نہیں آتا ۔
اے این پی کے لیڈر ، الطاف حسین اور محسن داوڑ جیسے ایسی زبان استعمال کریں
تو اس کی وجہ سمجھ آتی ہے مگر خود ایک جرنیل کے ہاتھوں سیاسی پرورش پانے
اور تین بار وزیراعظم بننےوالے میاں صاحب ایسی زبان استعمال کریں تو
میرےجیسے آدمی کا جھنجلا اٹھنا تو بنتا ہے ۔
پی ڈی ایم اتحاد اسی دن ناکام ہوچکاتھا جب اس کا پہلا جلسہ ہی فوج مخالف
منظر پیش کررہاتھا ۔ میرے قارئین جانتے ہیں میں اپنے کالمز میں اکثر
جرنیلوں کو آڑھے ہاتھوں لیتا ہوں لیکن کسی جرنیل سے اختلاف کا مطلب یہ نہیں
کہ آپ اپنے دشمن کی زبان بولنے لگ جائیں ۔
میاں صاحب جرنیلوں پہ سنگین الزامات لگاتے ہیں حالانکہ آپ نے خود بھی ایک
جرنیل سے سیاسی تربیت پائی ہے ۔
آپ جرنیلوں کو کرپٹ کہتے ہیں آپ کا حق ہے لیکن ان کے خلاف عدالت میں کیوں
نہیں جاتے ؟ ۔
آپ اعلیٰ ترین عہدے پہ فائز رہے ہیں اپنے دور اقتدار میں کیوں ان کا احتساب
نہیں کیا؟ ۔
آپ خود ایک جرنیل کے ساتھ معاہدہ کرکے چپ چاپ سعودی عرب نکل گئے تھے اس وقت
قربانی کیوں نہیں دی ؟ ۔
اور کیوں ہمارے اکثر سیاستدان لندن سے ہی ایسے زہریلے بیانات جاری کرتے
ہیں؟ ۔
بحیثیت پاکستانی ہمیں کچھ جرنیلوں سے شکایات ہیں کہ کیوں وہ آئین سے غداری
کرتے اور سیاست میں ملوث ہوتے ہیں؟ لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ فوج کو ہمیشہ
انہی نااہل سیاستدانوں نے اقتدار سنبھالنے پہ اکسایا ہے،ماضی میں فوج کے
آنے پہ مٹھائیاں بھی یہی بانٹا کرتے تھے اور آج اپنے مفادات کے لئے پوری
فوج کو غدار بنانے پہ بھی یہی تلے ہوئے ہیں ۔
اپوزیشن عوامی حمائت جلد کھو دے گی ، ہمیں بی جے پی کی زبان بولنے والے کل
پسند تھے نہ آج ۔ فوج نے ہر برے وقت میں ہمیشہ قربانیاں دیں ہیں جبکہ عمران
خان اور نوازشریف سمیت اکثر سیاستدان پاکستان میں خود رہنا پسند کرتے ہیں
نہ ان کے بچے ۔
|