آجکل اپوزیشن ایک نام بڑے زور شور سے لیتی ہے کبھی
اسمبلیوں میں تو کبھی جلسوں میں بلکہ کچھ سیاستدان جب یہ نام استعمال کرتے
ہیں تو میں بڑے غور سے انکے منہ کی طرف دیکھتا ہوں انکی آنکھوں میں جھانکنے
کی کوشش کرتا ہوں مگر مجھے سوائے اقتدار کی چمک کے اور کچھ نظر نہیں آتا
اور اسی چمک کے لیے وہ اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہیں اس وقت پی ڈی
ایم میں شامل ہر جماعت کا لیڈر موجودہ حکومت کو کٹھ پتلی کا نام دے رہا ہے
اس نام پراپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں اور انکے خاندان متفق ہیں یہ وہی
لوگ ہیں جوکبھی ایک دوسرے کا نام لینا بھی برداشت نہیں کرتے تھے ایک دوسرے
کی ٹانگیں نہ صرف کھینچتے تھے بلکہ کاٹنے کی کوشش کرتے رہے یہی لوگ کٹھ
پتلی بن کر کبھی کسی آمر کی گود میں پلتے رہے توکبھی کسی ڈکٹیٹر کی انگلی
پکڑ کراقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئے جنہوں نے انہیں چلنا سکھایابعد میں
اسی کے در پہ ہوگئے جب بھی کسی آمر نے اپنی ٹیم بنانے کے لیے سیاستدانوں کو
سلیکٹ کرنا ہوتا تھا تو اسکی کوشش ہوتی تھی کہ کوئی بہت ہی سادہ اور شریف
سا انسان بطور کٹھ پتلی استعمال کیا جائے اور آج ہمیں جتنے بھی نمایاں
سیاستدان نظر آتے ہیں وہ سبھی کے سبھی یحی خان سے لیکر ضیاء الحق تک بطور
کٹھ پتلی تیار کیے گئے تھے اور ہر آمر نے اپنی طرف سے کوشش کی تھی کہ اسکا
جانشین عقل سے عاری ،منافقت کا عادی اور خوش آمدیوں کا منادی ہو کچھ عرصہ
تو یہ سیاستدان بھولے بھالے بن کر اپنا الو سیدھا کرتے رہے بعد جب دوسری
پارٹیاں بھی اپنا حصہ لینے میدان میں آئی تو پھر یہ ایک دوسرے کے خلاف
سازشیں کرنے لگے انہیں جمہوریت میں سو خرابیاں نظر آنا شروع ہوگئی تو پھر
یہ اپنے آقاؤں کورات کی تاریکی میں ملتے انہیں اقتدار پر قبضہ کی دعوت دیتے
تھے اور جب وہ آجاتے ہیں تو پھر 10سال سے زائد عرصہ تک برسراقتدار رہتے ہیں
اس دوران گیٹ نمبر4 کی پیداور بڑی بڑی سیاسی شخصیات انہیں اپنی بھر پور
حمایت کا یقین دلاتی تاکہ انہیں بھی کسی نہ کسی جگہ فٹ کیا جاسکے مجھے شیخ
رشید کی وہ باتیں یاد آجاتی ہیں جو ان کے بارے میں وہ اکثر کہتے ہیں کہ
ہمارے جتنے بھی سیاستدان ہیں وہ گیٹ نمبر چار کی پیداوار ہیں اور اسے ان سب
کی حیثیت اور حقیقت کا بخوبی علم ہے اسی لیے تووہ ہر بات برملا کہہ دیتے
ہیں آج جب اپوزیشن کی کوشش ہے کہ ووٹ کو عزت دینے کے ساتھ ساتھ کٹھ پتلی کے
لفظ کو بھی اپنا بیانیہ بنا دے تو انکی باتوں پر ہنسی آتی ہے کیا اپوزیشن
میں موجود ہر فرد نے سمجھ لیا کہ عوام بیوقوف ہے انہیں ایک پلیٹ بریانی
،جلسوں میں شرکت کے لیے بسیں اور جیب خرچ دیکر جو مرضی کروالیں مگر انکی
مرضی نہیں چلے گی کیونکہ جس طرح پی ڈی ایم کا اتحاد کئی جماعتوں پر مشتمل
ہے اسی طرح ان کے ذاتی مفادات کا بیانیہ بھی الگ الگ پردے میں لپٹاہوا ہے
ابھی کل ہی کی بات ہے جب سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اسمبلی
میں کھڑے ہوکر بھارتیوں کے بیانیے کی تصدیق کرتے ہوئے اپنے ہی ملک کے
اداروں پر چڑھ دوڑے کیا ایاز صادق سلیکٹڈ نہیں تھے ایاز صادق کیا ہماری
سیاسی جماعتوں میں بیٹھے ہوئے سبھی خوش آمدی سلیکٹڈ ہی ہیں اور انکے پارٹی
قائدین تو پیدائشی سلیکٹڈ ہیں پہلے جی ایچ کیو کی نرسری کے لیے سلیکٹ ہوئے
بعد میں اقتدار کے لیے سلیکٹ کیے گئے اور پھر اپنی اپنی پارٹیوں کے لیے
سلیکٹ ہو گئے سردار ایاز صادق کی نازیبا گفتگو اور میاں نواز شریف کے
بیانیے کے خلاف (ن)لیگ کے سابق ایم این اے سردار منصب ڈوگر نے بھی پارٹی
چھوڑدی انکا کہنا تھا کہ وہ نواز شریف کے ملک دشمن بیانیے کا ساتھ نہیں دے
سکتاجبکہ سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے بیان سے دلی دکھ ہوا
پتا نہیں کس کی خوشنودی کے لئے پاک فوج کی فتح کو بدلنے کی کوشش کی ہے آپ
میاں نواز شریف کی خوشامد کر کے سپیکر بن گئے حالانکہ آپ اس کے اہل نہیں
تھے اس سے قبل ایم پی اے میاں جلیل شرقپوری بھی نواز شریف کی آمریت پر
احتجاج کرتے ہوئے پارٹی چھوڑ چکے ہیں یہ ہیں جمہوری اور محب وطن مجاہد لوگ
جواپنے سلیکٹڈ لیڈروں کے خلاف کلمہ حق کہنے کی طاقت رکھتے ہیں اس وقت ملک
میں جتنی بھی سیاسی یا مذہبی جماعتیں ہیں وہ سب آمریت کی بدترین مثالیں ہیں
ہاں اگر کوئی جماعت جمہوری طریقوں پر گامزن ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے جس
میں باقاعدہ الیکشن ہوتے ہیں اور پھر انکے عہدیدار منتخب کیے جاتے ہیں پی
ٹی آئی بھی پارٹی میں الیکشن کرواتی ہے مگر یہاں عمران خان کی مقبولیت آخری
حدوں کو چھو رہی ہے اس لیے وہی ہی منتخب کرلیے جاتے ہیں رہی بات مسلم لیگ ن
اور پیپلز پارٹی ان جماعتوں میں جمہوریت ہے نہ ہی انکے لیڈروں میں سلیکشن
کی پیداوار یہ جماعتیں اپنے اپنے مفادات کے لیے کبھی نواز زرداری بھائی
بھائی بن جاتے ہیں تو کبھی ایک دوسرے کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں اس وقت
دونوں پارٹیاں اقتدار کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں یہاں تک انکے بے جان
بتوں کو دھڑکنیں اور زباں عطا کرنے والے بھی ان سے محفوظ نہیں شائد انہی
سلیکٹڈ لیڈروں کے لیے ہی شاعر نے لکھا تھا کہ
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں
انکو زبان ملی تو ہمیں پہ برس پڑے ۔
رہی بات سردار ایاز صادق کی ابھی نند ن کے حوالہ سے تقریر کی مجھے یقین ہے
کہ اس پر حکومت سخت ایکشن لے گی تاکہ آئندہ کسی کو اس طرح کی گمرہ کن گفتگو
کرنے کی جرات نہ ہوسکے ابھی نندن کا ذکر آگیا ہے تو اسکی حقیقت بھی بیان
کرتا چلوں تاکہ عام لوگ بھی اصل صورتحال جان سکیں بھارت نے 26جنوری کو
ناصرف منہ کی کھائی بلکہ دشمن نے رات کی تاریکی میں بدحواسی کے عالم میں
پہاڑوں پر بم گرائے جبکہ پاکستان نے دن کی روشنی میں بھارت کو جواب دیا،
دشمن کے 2جہاز گرائے، بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کیا گیا،افواج
پاکستان کے چوکنا اور بروقت رسپانس نے دشمن کے عزائم کو ناکام بنا دیا،اس
فیصلے میں تمام سول اور ملٹری قیادت یکجا تھی، پاکستان کی قیادت اور افواج
ہر صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار تھی، دشمن ساری کارروائی کے دوران اتنا
خوفزدہ ہوا کہ بدحواسی اور عجلت میں اپنے ہی ہیلی کاپٹر اور جوانوں کو مار
گرایا،اﷲ کی مدد سے ہمیں دشمن پر واضح فتح نصیب ہوئی جسے نہ صرف پوری دنیا
نے تسلیم کیابلکہ خود بھارتی قیادت نے اس شکست کا جواز رافیل طیاروں کی عدم
دستیابی پر ڈال دیا اس کامیابی سے ناصرف بھارت کی کھوکھلی قلعی دنیا کے
سامنے کھل گئی بلکہ پوری پاکستانی قوم کا سر فخر سے بلند ہوا اور مسلح
افواج سرخرو ہوئی اورپاکستان نے امن کوموقع دیتے ہوئے ابھی نندن کو رہا
کرنے کا فیصلہ کیا۔ بھارتی پائلٹ ابھی نندن کی رہائی کو کسی اور چیز سے
جوڑنا انتہائی گمراہ کن ہے ، یہ چیز کسی بھی پاکستانی کیلئے قابل قبول نہیں
ہے پاکستان نے ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر امن کو ایک موقع دیتے ہوئے ابھی
نندن کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا تھاہم سب کو انتہائی ذمہ داری سے آگے بڑھنا
ہو گا،افواج پاکستان قوم کے خلاف ہر سازش کو ناکام بنائے گی اور ہر سازش کا
منہ توڑ جواب دیا جائے گااور ایسا صرف انتخابات جیت کربرسراقتدار آنے والی
جمہوری حکومت ہی کرسکتی ہے کوئی سلیکٹڈ ایسا نہیں کرتا بلکہ وہ تو معافی
مانگنے امریکہ بھاگ جایا کرتے تھے ۔
|