اب مقابلہ بھارت سے نہیں امریکہ سے بھی ہے

تحریر : محمد اسلم لودھی

اب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ مہران ائیر بیس پر حملہ طالبان نے نہیں کیا بلکہ یہ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری پر ایبٹ آباد آپریشن کے بعد دوسرا امریکی حملہ ہے جس میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے علاوہ بھارتی اور افغانی خفیہ ایجنسی کے کمانڈوز باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے شامل ہوئے۔ اندھیرے میں دیکھنے والی عینکیں اور واکی ٹاکی سوائے امریکن ٬ بھارتی اور افغانی کمانڈو ز کے اور کون استعمال کرسکتا ہے کیونکہ عام لوگ تو اس کے استعمال سے بھی واقف نہیں ہوتے اور نہ ہی ان حساس ترین آلات تک کسی عام آدمی کی رسائی ممکن ہوتی ہے ۔پھر یہ بھی کہاجاتا ہے کہ حملہ آور وں نے کیمروں سے خود کو بچانے کے لیے اپنے جسم پر آئل لگا رکھا تھا مٹی لگنے کے بعد حملہ آور کیمو فلاج ہوچکے تھے بلکہ دہشت گردوں نے بیس میں داخل ہونے کے بعد رن وے کے ساتھ ساتھ پہلے خندوقیں کھودیں پھر وہاں چھپ کر سیکورٹی اہلکاروں کو نشانہ بناتے رہے کیا یہ ٹکٹکس اور جنگی مہارت سوائے آرمی کمانڈوز کے کوئی اور استعمال کرسکتا ہے ۔ یہ صرف اور صرف امریکی کمانڈوز اور بلیک واٹر ایجنٹوں کی کارستانی ہے ۔

لیکن ہمیشہ کی طرح وفاقی وزیر داخلہ تحقیق کئے بغیر طالبان پر الزام لگا کر اس قومی سانحے پر مٹی ڈالنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں تفتیش کا رخ مہران ائیر بیس پر موجود امریکن کی جانب موڑ نے کی بجائے نیوی کے سایق ملازمین کی جانب دانستہ موڑا جارہا ہے اور ان پاکستانی والدین کو اذیت اور تکلیف پہنچانے کی جستجو کی جارہی ہے جن کے بیٹے کسی وقت نیوی میں کام کرتے رہے ہیں یا اب بھی کررہے ہیں ۔کیا یہ بات بھی حیران کن نہیں کہ دہشت گردوں کو ائیر بیس کے اندرونی حصوں اور تنصیبات کے بارے میں مکمل آگاہی تھی جس کی بنا پر انہیں مطلوبہ ٹارگٹ حاصل کرنے میں آسانی رہی ۔ پھر تحقیقاتی ایجنسیوں کی جانب سے یہ نکتہ بھی اٹھایا جارہاہے کہ دہشت گردوں نے آرمی کے طیاروں کو چھوڑ کر فضائی نگرانی پر مامور بحریہ کے اورین طیاروں کو ہی نشانہ کیوں بنایا ۔ پھر ان کا دوسرا ٹارگٹ بیس پر موجود صرف چینی ٹیکنیشنز ہی کیوں تھے جبکہ وہاں تو امریکی کنٹریکٹرز بھی تھے جن کو نہ تو تلاش کیا گیااور نہ ہی انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ۔ ان شواہد کو دیکھتے ہوئے ایک عام شخص بھی یہ کہنے پرمجبور ہوجاتا ہے کہ پاکستانی سیکورٹی ایجنسیوں کی بدترین ناکامی سے قطع نظر یہ حملہ پاکستان میں موجود امریکہ کے خفیہ ایجنٹوں کی سربراہی میں بھارتی اور افغان کمانڈوز نے کیا تھا جن کو بیس پر موجودامریکی کنٹریکٹروں کی تمام تر مدد حاصل تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ ان امریکی کنٹریکٹروں کو حملے کے دوسرے ہی روز نہایت راز داری سے امریکہ پہنچا دیاگیا اور تحقیقات کی نوبت ہی نہ آنے دی ۔ یہ تمام عوامل اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ امریکہ٬ بھارت اور ضمیر فروش افغانوں کو ساتھ ملاکر پاکستان کی سا لمیت کو ممکن حد تک شدید نقصان پہنچا کر امریکہ اس کے ایٹمی اثاثوں پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ہیلری کلنٹن کا دورہ پاکستان بھی اسی تناظر میں تھا تاکہ مہران ائیر بیس اور ابیٹ آباد سانحات کو فراموش کرکے پاکستانی حکمرانوں کو شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشنز اور مفرور طالبان رہنماﺅں کی گرفتاری کا ٹارگٹ دیاجائے ۔ ایبٹ آباد امریکی آپریشن اور مہران ایئر بیس حملہ کے تناظر میں یہ توقع کی جارہی تھی کہ عوام الناس کے شدید غم و غصے کے پیش نظر پاکستانی حکمران اس مرتبہ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو صاف صاف سناتے ہوئے انہیں ہر حال میں ڈرون حملے روکنے اور سرزمین پاکستان پر امریکی جاسوسی نیٹ ورک کو ختم کرنے کا کھلے الفاظ میں مطالبہ کریں گے لیکن جس انداز سے پاکستانی حکمران ہنس ہنس کے امریکی وزیر خارجہ اور دیگر امریکیوں کے سامنے لوٹ پوٹ ہورہے تھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ عوام کے نمائندے ہونے کے باوجود پاکستانی عوام کے جذبات اور احساسات سے وہ بے بہرہ ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ گزشتہ 63 سالوں میں پاکستان پر اتنا برا وقت کبھی نہیں آیا جتنا پیپلز پارٹی کے موجودہ دور میں آیا ہے ۔ ڈرون حملے ٬ بم دھماکے ٬خود کش دھماکے ٬ بجلی٬ گیس کی لوڈشیڈنگ ٬پے در پے مہنگائی میں اضافے٬ بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے اسیب نے پوری قوم کو نفسیاتی مریض بنا کے رکھ دیا ہے ۔ دوسری جانب حکمرانوں کی ہر سطح پر کرپشن ٬بددیانتی اور عدلیہ کی حکم عدولی بھی انتہا پر دکھائی دے رہی ہے ۔جبکہ سیکورٹی اداروں کی پے درپے ناکامیوں اور انتظامی اداروں کی نااہلی وجہ سے پاکستان میں ہر روز 9/11 جیسے سانحات رونما ہورہے ہیں ۔انسانی لاشے گر رہے ہیں گھر سکول اور عبادت گاہیں تباہ ہورہی ہیں لیکن نام نہاد دہشت گردی کی جنگ ایک لعنت بن کر پاکستانی قوم کو ایسی چمٹ چکی ہے کہ جان نہیں چھوڑ رہی ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے ذمہ دار حلقوں کو امریکی عینک اتار کرحقائق کا حب الوطنی کے سانچے میں ڈھل کر احساس کرنے ہوئے اس کا حقیقی معنوں میں تدارک بھی کرنا ہوگا کیونکہ اب پاکستان کے بالمقابل صرف بھارت نہیں بلکہ امریکہ اور اس کے اتحادی بھی ہیں جو اپنے اپنے ملکوں کو بظاہر محفوظ بنانے کی خاطر پاکستان کو افغانستان بنانے کی ہر ممکن جستجو کررہے ہیں بلکہ کھلے الفاظ میں یہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ اب دہشت گردی کی جنگ افغانستان میں نہیں پاکستان میں لڑی جائے گی شاید تمام تر انکار اور حقائق سے آنکھیں چرانے کے باوجود اسامہ بن لادن کی موت کے بعد پاکستان میں شاید ہی کوئی دن ایسا خالی جاتا ہو جب کسی نہ کسی شہر اور گاﺅں میں بم اور خود کش دھماکے نہ ہورہے ہوں ۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ بم دھماکے حکمران کے دہشت گردی کے خلاف عزائم کو متزلزل نہیں کرپارہے اور ان کا عزم مزید پختہ ہوتا جارہا ہے ۔عوام اپنے پیاروں کی نعشیں اٹھا اٹھا کر تنگ آچکے ہیں لیکن حکمران دعویٰ کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 114856 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.