بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اولاد اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم اور مہتم بالشان نعمت ہے۔ زندگی
کا حقیقی اور دلی سکون اولاد سے ہی انسان حاصل کرتا ہے۔ اولاد بچپن میں
آنکھوں کی ٹھنڈک، جوانی میں زندگی کی رونق، اور بڑھاپے میں والدین کا سہارا
بنتی ہے۔اور اگر والدین اپنی اولاد کو اچھی تعلیم و تربیت کے زیور سے
آراستہ کردیں تو یہی اولاد اُن کے مرجانے کے بعد اُن کے لئے صدقۂ جاریہ کا
کام بھی دیتی ہے۔ والدین کو اولاد جیسی نعمت عطا کرنا اور عطا کرنے کے
بعداُن سے واپس لے لینا یہ اُسی خالق کائنات کے حکمت بھرے فیصلے ہیں جو اِس
تمام جہان کا حقیقی مالک ہے۔
اولاد کی پیدائش پر انسان کا خوش ہونا اور اُس کی وفات پر اُس کا غم گین
ہونا ایک فطرتی سی بات ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی ہر اچھی بری
تقدیر پر راضی رہے۔ جس طرح اولاد کی پیدائش پر انسان خوش ہوکر اﷲ تعالیٰ کا
شکر ادا کرتا ہے تو اسی طرح اُس کی وفات پراسے صبر و تحمل کا مظاہرہ بھی
کرنا چاہیے ۔جس طرح خوشی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو ملتی ہے ، اسی طرح
غم بھی اﷲ تعالیٰ ہی کی طرف سے اُس پر آتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ایسے شخص کو محبوب
رکھتے ہیں جو آسانی میں اُس کا شکر اور تنگی میں اُس کے فیصلے پرصبر کرے۔
والدین کی وفات کا غم تو اولاد کچھ دنوں کے بعد بھلا دیتی ہے ، لیکن اولاد
کی وفات کا غم یقینا والدین کبھی نہیں بھلا سکتے۔ ایک اﷲ والے سے کسی نے
اِس کی وجہ دریافت کی تو اُنہوں نے ایک مثال دی اور فرمایا کہ انسان کے جسم
سے اگر گوشت کا ٹکڑا کاٹ دیا جائے اور اسے علیحدہ رکھ دیا جائے تو بدن تو
درد و الم سے تڑپتا ہے، لیکن اُس سے کاٹ کر علیحدہ کیا ہوا گوشت کاٹکڑا
اپنی جگہ سکون سے پڑا رہتا ہے۔ یہی مثال والدین اور اولاد کی ہے کہ اولاد
والدین کے دل کا ٹکڑا ہوتی ہے ، والدین اگر مرجائیں تو اولاد چند دن رو
دھوکر والدین کو بھلادیتی ہے اور اپنی پرسکون زندگی گزارنا شروع کردیتی ہے،
لیکن اگر اولاد جائے تو والدین کو زندگی بھر اولاد کی جدائی کا دکھ رہتا ہے۔
اولاد کی وفات پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا اور اﷲ تعالیٰ کی تقدیر پر
راضی رہنے کے بڑے فضائل وارد ہوئے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے حضورِ اقدس صلی
اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس مسلمان کے تین نابالغ بچے مرگئے اﷲ
تعالیٰ اُس کو جنت میں داخل کرے گا۔ اُس کی بخشش کا سبب وہ فضل و رحمت ہوگا
جو اﷲ تعالیٰ کا اُن بچوں پر ہے۔ (بخاری ومسلم) ایک حدیث میں آتا ہے حضورِ
اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:’’جس نے ثواب کی اُمید پر تین
بچوں کی موت پر صبر کیا تو اﷲ تعالیٰ اُس کو جنت میں داخل کرے گا۔ ایک عورت
نے کھڑے ہوکر عرض کیا: ’’یا رسول اﷲؐ!جس کے دو ہی بچے مرے ہوں؟‘‘ آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’دو کے مرنے پر بھی یہی بشارت ہے۔‘‘ اُس عورت نے
بعد میں کہا: ’’کاش! میں ایک بچے کے متعلق بھی پوچھ لیتی تو اچھا ہوتا۔‘‘ (نسائی)
ایک حدیث میں آتا ہے حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
’’مسلمانوں کے چھوٹے بچے جنتی ہیں۔ قیامت میں وہ اپنے والدین کے دامن پکڑ
کر کھینچیں گے ۔ اور جب تک اﷲ تعالیٰ اُن کے والدین کو جنت میں داخل نہین
کریں گا وہ اُن کا پیچھا نہ چھوڑیں گے۔ (مسلم)ایک حدیث میں آتا ہے حضورِ
اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:جس کے دو بچے آگے جا چکے ہوں اور
وہ اُن کی موت پر صبر کرے تو اﷲ تعالیٰ اُس کو جنت میں داخل کرے گا۔‘‘ حضرت
عائشہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا: ’’یا رسول اﷲؐ! اگر کسی کا ایک ہی ہو؟‘‘ آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : ’’اے نیک توفیق والی! ایک کا بھی یہی حکم
ہے۔ (ترمذی) حضرت معاذ رضی اﷲ عنہ کی روایت میں صرف ایک ہی بچے کی موت پر
جنت کی بشارت دی ہے، بلکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہاں تک بھی فرمایا
ہے کہ: ’’جس عورت کا کچا حمل بھی نکل جائے اور وہ ثواب کی نیت سے اُس پر
صبر کرے تو وہ کچا بچہ بھی اپنی آنول میں لپیٹ کر اپنی والدہ کو جنت میں لے
جائے گا۔‘‘(احمد، طبرانی) ایک حدیث میں آتا ہے حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا: ’’جب کسی بندے کا چھوٹا بچہ مرجاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ
فرشتوں سے فرماتا ہے تم نے میرے بندے کے بچے اور اُس کے پھل کو لے لیا؟‘‘
وہ عرض کرتے ہیں : ایسا ہی ہوا ہے۔‘‘ اﷲ تعالیٰ پوچھتے ہیں: ’’پھر اُس بندے
نے اِس صدمے کی خبر سن کر کیا کہا؟‘‘ فرشتے عرض کرتے ہیں: ’’اُس نے آپ کی
تعریف بیان کی اور اناﷲ……الخ پڑھا‘‘ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اُس بندے کے
لئے جنت میں گھر بنادو اور اُس کا نام ’’بیت الحمد‘‘ رکھو!‘‘(ترمذی)
حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’میں نے ( حضورصلی اﷲ علیہ
وسلم کے صاحب زادے) حضرت ابراہیم رضی اﷲ عنہ کو دیکھا کہ حضور صلی اﷲ علیہ
وسلم کے سامنے اُن پر نزع کی کیفیت طاری تھی۔ یہ دیکھ کر حضور صلی اﷲ علیہ
وسلم کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’آنکھ
آنسو بہارہی ہے۔اور دل غم گین ہورہا ہے۔ لیکن ہم زبان سے وہی بات کہیں گے
جس سے ہمارا رب راضی ہو۔ اے ابراہیم! اﷲ کی قسم! ہم تمہارے جانے کی وجہ سے
غم گین ہیں۔‘‘(طبقات ابن سعد)
حضرت اُسامہ بن زید رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’ہم لوگ نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں آپ کی ایک صاحب زادی نے آپ کو
بلانے کے لئے ایک آدمی کو یہ پیغام دے کر بھیجا کہ اُن کے بیٹے کا انتقال
ہونے والا ہے۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے آنے والے قاصد سے فرمایا کہ:
’’واپس جاکر میری بیٹی کو بتا دو کہ اﷲ تعالیٰ نے جو چیز ہم سے لے لی وہ
بھی اسی کی ہے اور جو ہمیں دی ہے وہ بھی اسی کی ہے ۔ اور اﷲ تعالیٰ کے یہاں
ہر چیز کا وقت مقرر ہے ۔ اور اسے کہہ دو کہ وہ صبر کرے۔ اور اﷲ سے ثواب کی
اُمید رکھے (وہ قاصد صاحب زادی کے پاس جواب لے کر گیا، لیکن صاحب زادی نے
اسے دوبارہ بھیج دیا) وہ قاصد دوبارہ آیااور اُس نے کہا کہ: ’’ وہ آپ کو
قسم دے کر کہہ رہی ہیں کہ : ’’آپ اُن کے پاس ضرور تشریف لے جائیں۔‘‘اِس پر
حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آپ کے ساتھ حضرت سعد بن عبادہ ،
حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابی بن کعب، اور حضرت زید بن ثابت رضی اﷲ عنہم اور
چند دیگر صحابہؓ بھی کھڑے ہوئے ۔ میں بھی اُن حضرات کے ساتھ گیا۔ (جب وہاں
پہنچے تو) اُس بچے کو اُٹھا کر حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لایا
گیا۔ بچے کا سانس اُکھڑا ہوا تھا(ایسی آواز آرہی تھی) جیسے کہ وہ پرانے اور
سوکھے مشکیزے میں ہو۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی دونوں آنکھوں سے آنسو
بہنے لگے۔ حضرت سعد رضی اﷲ عنہ نے حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں
عرض کیا: ’’یا رسول اﷲؐ! یہ کیا ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’یہ رحم اور شفقت کا
مادہ ہے ، جسے اﷲ تعالیٰ نے اپنے خاص (بندوں) کے دلوں میں رکھا ہے۔ ﷲ
تعالیٰ اپنے بندوں میں سے اُن ہی بندوں پر رحم فرماتے ہیں جو دوسروں پر رحم
کرنے والے ہوں۔(ترمذی، ابوداؤد،ابن ماجہ)
مختصر یہ کہ اولاد کی موت پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا، اﷲ کی رضاء اور
اُس کے فیصلے پر راضی رہنا، اﷲ سے اچھی اور نیک امید یں وابستہ کرنا ، اور
اِس سلسلے میں حضور، صحابہ، اور بزرگانِ دین کے نقش قدم پرچل کر زندگی
گزارنا نہ صرف یہ کہ ایمان و یقین کے کامل ہونے کا پتہ دیتا ہے بلکہ اِس سے
انسان کو حوصلہ اور ضبط بھی نصیب ہوتا ہے اور اِس سے انسان کو اﷲ ورسول کی
خوش نودی بھی حاصل ہو تی ہے۔ |