جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سربراہ مولانافضل الرحمن نے
جب سیاسی زندگی کاآغازکیاتوآزادکشمیرمیں سب سے پہلے وہ 1984میں جامعہ
انوارالعلوم دھیرکوٹ تشریف لائے تھے انہیں یہ دعوت جامعہ انوارالعلوم کے
بانی مولاناعبدالحی نے دی تھی کشمیرکے پہاڑوں میں رہنے کے باوجود وہ
دوراندیش شخصیت کے مالک تھے انہیں معلوم تھا کہ مولانافضل الرحمن مستقبل
میں سب سے بڑی دینی وسیاسی جماعت کی قیادت سنبھالنے والے ہیں اوراس کے ساتھ
ساتھ ملکی سیاست میں بھی ان کاسیاسی کردارنمایاں ہونے والاہے یہی وجہ ہے کہ
انہوں نے کسی بھی دیگرکسی سیاسی ومذہبی جماعت سے مرعوب ہونے کی بجائے جمعیت
علماء اسلام سے وابستگی کونظریہ بنالیااورآخروقت تک اسی جماعت کے ساتھ
استقامت کے ساتھ کھڑے رہے ۔
منگل کومولانافضل الرحمن اپنے اسی دیرینہ دوست کی دینی ،سیاسی ،ملی وسماجی
خدمات کوخراج عقیدت پیش کرنے اورمرحوم کے اہل خانہ سے اظہارتعزیت کے لیے
جامعہ انوارالعلوم آئے ۔مولانافضل الرحمن ارجہ مولاناعبدالحی کے گھربھی
تشریف لائے اورمرحوم کے صاحبزادوں مولاناصفی اﷲ اورمولاناولی اﷲ سے
اظہارتعزیت کیا مولاناعبدالحی مرحوم سے میرابیس سالہ تعلق تھا نہایت دھیمے
مزاج کی شخصیت کے مالک تھے باتوں کی بجائے عمل پریقین رکھتے تھے ۔
مولاناعبدالحی ایک کمال شخصیت تھے ،ان کااخلاق بلند،علم گہرا،زبان
شگفتہ،تحریردلپذیراورذہن رساتھا،طبیعت میں تواضع وسلامتی تھی ، سیدھی سادی
زندگی گذارنے کے وہ عادی تھے،جو لباس اورپگڑی مدرسہ کے ماحول نے پہلے دن
انہیں پہنایاوہ زندگی کے آخری لمحہ تک نہیں اترا،،ان کو دیکھ کر اسلاف کی
یادتازہ ہوجاتی تھی ،اور محسوس ہوتاتھاکہ ان کی قوت ایمانی اورغیرت اسلامی
کودنیاکی کوئی حرص وطمع سے متاثرنہیں کرسکتی ہوائی سفر ہویاصحرا وبیابان
کاپاپیادہ سفر،اس مرددرویش کے لئے سب برابرتھے ،رئیس کامحل ہویافقیرکی
کٹیایہ مردقلندرہرایک کی رونق بڑھاتا تھا، امیرہو یاغریب، پڑھالکھاہویاان
پڑھ ہرایک کی دلجوئی ان کویکساں عزیز تھی،مدرسہ کی ٹوٹی پھوٹی عمارت
ہویاکسی کالج ویونیورسٹی کی عالیشان بلڈنگ اس مرد حق نوازکے قدم ہرجگہ
پہنچے تھے ،کسی گاؤں یاقصبہ کاجلسہ ہویابڑے شہروں کے علمی سیمینار،یکساں
ذوق وشوق کے ساتھ وہ شریک ہوتے تھے،کسی کوانہوں نے کبھی اس لئے مستردنہیں
کیاکہ وہ کوئی عام شخص ہے،اورنہ کبھی اس لئے کسی کوترجیح دی کہ وہ بڑاآدمی
ہے،اس دورمیں نئے پرانے قائدین کے ہجوم میں مولاناایک منفرد شخصیت کے مالک
تھے،اس دورخودغرضی میں وہ بے لوث خادم انسانیت تھے،کذب وخیانت اورمکروفریب
کے اس زمانے میں وہ ایک مخلص رہنما تھے، جذباتیت اورفتنہ پروری کے ماحول
میں وہ سنجیدگی اورصدق وراستی کاپیکرتھے،ان کی عقل پر قلب کی حکمرانی تھی
اور جوش پر ہوش کی نکیل ،وہ ساری انسانیت سے محبت کرتے تھے لیکن علما
کواپنی برادری تصورکرتے تھے،وہ اتحادانسانیت کے حامی وداعی تھے لیکن اسلامی
غیرت فروشی کے روادارنہیں تھے ،غرض وہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔
دودن قبل میں جمعیت علماء اسلام اسلام آبادکے رہنماء قاری سہیل احمدعباسی
،مفتی امیرزیب اورسلطان سہیل کے ہمراہ مولاناعبدالحی کی تعزیت کے لیے ان کے
گھرسے واپسی پردھیرکوٹ میں مولاناسلیم اعجاز،مولاناامتیازعباسی
اورمولاناندیم آزادودیگرسے مجلس ہوئی مولاناعبدالحی کی خدمات کاتذکرہ
ہوامولانا شوگرکے عارضہ میں مبتلا تھے آخری ایام میں شوگر ھائی ہونے سے
پہلے گردے متاثرہوئے بعدازاں ھارٹ اٹیک کی وجہ سے 24 اکتوبر راولپنڈی کے
ایک ہسپتال میں جان جان آفریں کے سپرد کرگئے ،
مولانا عبداالحی1951میں دھیرکوٹ کی نواحی بستی جولی چیڑ(غازی آباد) میں ایک
دیندارگھرانے میں پیداہوئے ، آپ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے
تھے،مولاناعبدالحی کاخاندان کشمیرکی آزادی کی بنیادرکھنے والوں میں سے ہے
ان کے والدبھی ایک تاریخ آدمی تھے مولانا محمدبخش مرحوم تحریک آزادی کشمیر
کے عظیم مجاہداور روح رواں تھے، مولانا محمدبخش مرحوم جمعیت علماہند سے
وابستہ اورشیخ الہند کی تحریک کے امین تھے انگریزکے خلاف شروع کی گئی علماء
دیوبندکی تحریکوں اورہندوستان سے آزادی کی تحریک کی وجہ سے ان میں جذبہ
جہادکوٹ کوٹ کربھراہواتھا مولانامحمدبخش مرحوم غازی آبادکی مسجدمیں امامت
وخطابت کے فرائض سرانجام دے رہے تھے تواس وقت بھی ان کی خطابت کاموضوع
کشمیرکی آزادی تھا یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریک پر مجاہداول سردارعبدالقیوم
خان سولجر بورڈ کی ملازمت چھوڑکرآزادی کی تحریک کاحصہ بنے ۔
آزادکشمیرکے اس خطہ کی آزادی میں سب سے نمایاں کردارعلماء کاہے بلکہ یوں
کہاجائے کہ اس تحریک آزاد ی کی بنیادہی علماء نے رکھی توغلط نہیں ہوگا جب
23اگست 1947 کو نیلہ بٹ کے تاریخی مقام پر ڈوگرہ سے آزادی کی تحریک بپا
کرنے کی مشاورت ہوئی،جس میں ندوۃ العلماء انڈیاکے فاضل علامہ سید مظفرحسین
شاہ ندوی ،دارالعلوم دیوبند کے فاضل سید صادق حسین شاہ عادل ،پیر سید شمشاد
حسین شاہ ،عبداﷲ خان ناڑاکوٹ اورسردار محمد عبدالقیوم خان شریک ہوئے تواس
اجلاس میں بھی مولانامحمدبخش پیش پیش تھے ۔اورجب معرکہ حق وباطل شروع ہواتو
آزادی کے اس پہلے معرکہ میں ہڈا باڑی باغ کے مقام پر پہلی گولی بھی مولانا
محمدبخش مرحوم نے چلائی اگرچہ بعدمیں یہ کریڈٹ مجاہداول سردارعبدالقیوم خان
کوملا۔
مولانا عبدالحی مرحوم نے جامعہ مدنیہ ،جامعہ اشرفیہ لاہوراورتعلیم القران
راجہ بازارسے تعلیم حاصل کی اوراس وقت کے نامورعلماء کرام مولانا محمدادریس
کاندھلوی، حضرت مولانا رسول خان، حضرت مولانا جمیل خان، حضرت مولانا
رشیداحمد، حضرت مولانا حامدمیاں،شیخ الحدیث مولانا عبدالرحمن پشاوری ،شیخ
القرآن مولاناغلام اﷲ خان، مفتی عبدالشکور ہری پوری جیسے جیدعلماء کرام سے
استفادہ کیا مدرسے سے فراغت کے بعد مولاناعبدالحی نے امامت وخطابت شروع کی
پہلے شمس آبادراولپنڈی ،بعدازاں چڑالہ اورمنگ بجری میں خطابت کرتے رہے
اوراس کے بعد دھیرکوٹ منتقل ہوگئے
مولاناعبدالحی نے رفقاء کی مشاورت سے یہاں مسجداورمدرسے کی بنیادرکھی ،جامع
مسجد کانام مولاناحسین احمد مدنی کی طرف نسبت کرتے ہوئے مدنی مسجداورمدرسے
کانام مولاناانورشاہ کشمیری کی طرف سے نسبت کرتے ہوئے جامعہ انوارالعلوم
رکھا مولاناعبدالحی ایک بے لوث سیاسی ومذہبی رہنماء تھے ،معاشرے میں رواج
یہ ہے کہ سیاسی قیادت ہویامذہبی ہرکوئی اپناجانشین اپنی اولادکوبناتاہے
مگرمولاناعبدالحی نے یہاں بھی اس رواج کوتوڑامدرسہ بناکرکامیاب کیا اورعروج
کے دورمیں مدرسہ اپنے دیرینہ رفیق شیخ الحدیث مولاناسلیم اعجازکے حوالے
کردیااسی طرح مولاناعبدالحی جمعیت علماء اسلام جموں وکشمیرکے سینئرنائب
امیراورسیکرٹری جنرل کے عہدے پرفائزرہے یہاں بھی انہوں نے رسم کوتوڑتے ہوئے
مولاناامتیازعباسی کوآگے لایااورانہیں سیکرٹری جنرل کے عہدے پرفائزکیا
خدا کے پاک بندوں کی حکومت میں غلامی میں
زرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنی
مولاناعبدالحی ساری عمر یہ زرہ زیب تن کیے رہے۔ غلام تو وہ صرف اپنے رب کے
تھے سیاست میں حزب اختلاف میں رہے مگر سب سے نمایاں۔ اس کے باوجود خود کو
کبھی نمایاں نہیں کیا۔ جو بھی ملتا یہی سمجھتاکہ ارے یہ توہمارے جیسے ہی
ہیں۔ وہ خواجہ الطاف حسین حالی کے اس شعر کی مجسم تفسیر تھے:
ہم نے ہر ادنی کو اعلی کردیا
خاکساری اپنی کام آئی بہت
مولاناعبدالحی کاقائم کردہ جامعہ انوارالعلوم کاشمارآزادکشمیرکے بڑے
اورمشہورمدارس میں ہوتاہے وفاق المدارس سمیت دیگراداروں کے امتحانات میں اس
مدرسے کے طلباء نے ہمیشہ نمایاں نمبروں میں کامیابیاں حاصل کی ہیں ہزاروں
طلباء اس مدرسہ سے فارغ ہوکردینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ، انکے دوجواں
بیٹے 5اکتوبر2005کے زلزلہ میں شہید ہوئے بڑے بیٹے مولاناصفی اﷲ دارالعلوم
کراچی سے فراغت کے بعداسلامی یونیورسٹی سے شریعہ اینڈلاکیا اورس وقت وہ
ایڈیشنل قاضی دھیرکوٹ میں تعینات ہے جبکہ چھوٹابیٹامولانا ولی اﷲ
انوارالعلوم دھیرکوٹ کا فاضل ہے اورمدرسے میں تدریس کے ساتھ ساتھ جامع
مسجدامام احمدبن حنبل میں امامت وخطابت کے فرائض سرانجام دے رہاہے ۔
خدارحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
|