جی او پی کے چیئرمین مائیکل
اسٹیلے پر ان کی ریپبلکن ساتھی حال ہی میں افغانستان کو بارک اوباما کی
اختیار کردہ جنگ قرار دینے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ
امریکا بھی وہاں اسی طرح ناکام ہوجائے گا جس طرح غیر ملکی قوتیں ناکام ہوئی
ہیں۔ بعض نقاد اسٹیلے کو اس بیان پر جھڑکیاں دے رہے ہیں تو دوسرے ان کے
حقائق کو غلط قرار دیتے ہوئے اس موقف کا اظہار کررہے ہیں کہ صدر جاج ڈبلیو
بش نے افغانستان پر حملے کا حکم 9/11 کے فوری بعد دیا۔ تاہم اسٹیلے کے نقاد
غلط ہیں۔ آر این سی کے چیئرمین کا موقف زیادہ درست ہے۔اس امر کا اظہارر
امریکی ہفت روزہ نیوز ویک مے اپنی تازہ اشاعت میں کیا۔
امریکا کی جانب سے افغانستان میں چھیڑی گئی جنگ آج بنیادی طور پر مختلف ہے،
جب کہ بش انتظامیہ کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کے مقابلے میں زیادہ جوش
و خروش موجود ہے۔ افغانستان بارک اوباما کی جانب سے اختیار کردہ جنگ ہے۔ یہ
ایک ایسا نکتہ ہے جس کا اظہار بارک اوباما نے جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کو عسکریت
پسندی سے نمٹنے کے لیے کمانڈر کی حیثیت سے تقرری دے کر کیا ہے۔ 9 سالہ جنگ
کے بعد امریکا کی جانب سے جانی و مالی قربانیوں کے باوجود صورتِ حال میں
کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔ وقت آگیا ہے کہ ہم جوش و خروش پر نظرِثانی کرتے
ہوئے اپنے اقدامات میں کمی اور انہیں درست سمت میں استوار کریں۔
ہمیں جس پہلی چیز کے اعتراف کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اس قسم کی جنگ لڑنا ایک
چوائس ہے ضروری نہیں۔ امریکا نے اکتوبر 2001ءمیں جنگ میں شامل ہونے کا
فیصلہ کیا جس کا مطلب طالبان حکومت کا تختہ الٹنا تھا جس نے القاعدہ کو
افغانستان سے باہر 9/11 جیسے حملوں کی فری چھوٹ دے رکھی تھی۔ امریکی جنگ کے
نتیجے میں طالبان پسپا ہوگئے، جب کہ القاعدہ ارکان کی ایک بڑی تعداد گرفتار
اور ہلاک کردی گئی یا پھر وہ پاکستان کی جانب فرار ہوگئے۔ تاہم وہ ایک
مختلف جنگ تھی۔ وہ اپنے دفاع میں شروع کی گئی ضروری جنگ تھی۔ یہ ضروری تھا
کہ افغانستان کو مسلسل دہشت گردوں کے لیے ایک محفوظ مقام نہ بنایا جائے جو
کہ امریکی سرزمین یا دنیا بھر میں امریکی مفادات پر ایک بار پھر حملے
کرسکتے ہیں۔
اکتوبر 2001ءمیں صدر کی زیرِ صدارت قومی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس میں
واحد شخص میں تھا جو یہ دلیل دے رہا تھا کہ طالبان حکومت کا خاتمہ ہوتے ہی
ایک متحرک افغان حکومت قائم کردی جائے، خواہ وہ کمزور ہی کیوں نہ ہو۔ اس
اجلاس کے بعد ہونے والے مزید اجلاسوں میں بھی میں نے اس امر پر زور دیا کہ
افغانستان میں کم از کم 25,000 سے 30,000 امریکی فوجیوں کی موجودگی یقینی
بنائی جائے جب کہ اتنی ہی تعداد میں نیٹو ممالک کے فوجیوں کو تعینات کیا
جائے۔ بین الاقوامی فوج افغان نیشنل آرمی کو اُس وقت تک تعاون فراہم کرے جب
تک کہ وہ خود اپنے وطن کا دفاع کرنے کی اہل نہ ہوجائے۔
بش انتظامیہ میں میرے ساتھیوں کو میری اس تجویز سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
وہ زمینی حقائق کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے افغان قوم کی تعمیر کی کوئی خواہش
نہیں رکھتے تھے۔ بش انتظامیہ مستقبل کے لیے اپنا ذہن واضح نہیںکرسکی تھی۔
اُس وقت محکمہ خارجہ میں ملازمت کے دوران صدر بش نے افغانستان کے مستقبل کے
لیے امریکی حکومت کے رابطہ کار کی حیثیت سے میری تقرری کردی۔ پالیسی میں
نظرِثانی کے بعد افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 30,000 کردی گئی،
تاہم ان کی اکثریت القاعدہ کی تلاش میں رہی جو کہ تاحال روپوش تھے۔ امریکا
نے کبھی بھی بین الاقوامی فورسز کو ساتھ نہیں ملایا جو کہ افغانستان میں
استحکام کے لیے بھیجی گئی تھیں، درحقیقت اُنہیں ان کے سائز اور کردار میں
محدود رکھا گیا۔
اس وقت تک 2009ءمیں اوباما امریکی صدر بن گئے، افغانستان کے اندرونی علاقوں
میں صورتِ حال تیزی سے بگڑ رہی تھی۔ طالبان اپنے قدم مضبوط کررہے تھے۔
واشنگٹن میں بھی یہ خدشات پائے جاتے تھے کہ اگر طالبان اور القاعدہ پر کڑی
نگاہ نہ رکھی گئی تو وہ حامد کرزئی کی زیرِ قیادت کابل میں نئی منتخب حکومت
کی موجودگی کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔ یہ سوچ نئی اوباما حکومت پر اتنی حاوی
ہوئی کہ صدر نے مزید 17,000 فوجی افغانستان بھیجنے کا حکم دے دیا۔
اوباما کے امریکی صدر بن جانے کے بعد افغانستان میں امریکی مفادات اور
مقاصد کا جائزہ لینے کے لیے بہت وقت موجود تھا، تاہم ہر موقع پر اوباما نے
افغانستان میں صورتِ حال کو کشیدہ کرنے کا راستہ اختیار کیا۔ مارچ 2009ءمیں
پہلے جائزہ کی تکمیل پر اوباما نے اعلان کیا کہ امریکی مشن پاکستان اور
افغانستان میں القاعدہ کے منصوبوں کو ناکام بنانے اور اُسے شکست دینے تک
جاری رہے گا اور مستقبل میں انہیں اپنے ممالک واپس آنے سے روکا جائے گا۔
تاہم امریکی مقاصد القاعدہ پر گفتگو کے پسِ پردہ چلے گئے۔ صدر اوباما نے
اعلان کیا کہ اضافی امریکی فوجیوں کو ملک کے جنوب اور مشرق میں تعینات کیا
جائے گا۔ اس کے نتیجے میں ہمیں افغان سیکورٹی فورسز کے ہمراہ کام کرنے کے
وسیع مواقع حاصل ہوں گے۔ ہم افغان سیکورٹی فورسز کے ہمراہ باغیوں کا سرحد
تک پیچھا کریں گے۔ مختصر یہ کہ طالبان کی واپسی کو القاعدہ کی واپسی کے طور
پر دیکھا گیا اور امریکا افغانستان کی خانہ جنگی میں ایک مکمل کردار بن چکا
ہے جو طالبان کے خلاف ایک کمزور اور کرپٹ مرکزی حکومت کی حمایت کررہا ہے۔
مزید 4000 امریکی فوجی افغان فوجیوں کی تربیت کے لیے بھجوا دیے گئے ہیں۔
صرف 5 ماہ بعد ہی مزید امتیازی پالیسی کے دوسرے جائزے کا آغاز کیا گیا، اس
مرتبہ صدر اوباما نے دوبارہ القاعدہ کو افغانستان میں محفوظ جنت بنانے کا
موقع فراہم کرنے سے انکار کو امریکی پالیسی قرار دیا۔ تاہم دوبارہ انہوں نے
اس عزم کا اظہار کیا کہ امریکا اس سے بھی کچھ زیادہ چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا
کہ ہمیں ہر حال میں طالبان تحریک کو الٹنا ہوگا تاکہ وہ حکومت کا تختہ
الٹنے کی صلاحیت حاصل نہ کرسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں افغان سیکورٹی
فورسز کی صلاحیتوں کو بڑھانا ہوگا تاکہ وہ افغانستان کے مستقبل کی ذمہ
داریاں سنبھالنے کے قابل ہوسکیں۔ ان کے دو مختلف مواقع پر دیے گئے بیان ایک
دوسرے کی ضد ہیں۔ ایک جانب تو انہوں نے کہا کہ ہم مزید 30,000 فوجی
افغانستان بھیجیں گے۔ یہ اعلان کرتے ہوئے انہوں نے طالبان کو متنبہ کیا اور
کابل میں حکومت کو اپنی حمایت کی یقین دہانی کرائی۔ دوسری جانب صدر نے یہ
وعدہ بھی کیا ہے کہ ہمارے فوجی 2011ءکے موسمِ گرما میں وطن واپسی کا آغاز
کریں گے۔ اس طرح ان کا ملک میں جنگ مخالف جذبات کو ٹھنڈا کرنا تھا۔
آج دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اسٹرٹیجی جو تمام فوجوں سے مقابلے کا تقاضا
کرتی ہے، واضح طور پر ناکام ہوچکی ہے۔ 2009ءاگست کے الیکشن جس کے نتیجے میں
کرزئی دوبارہ صدر منتخب ہوئے ہیں، مکمل طور پر فراڈ تھے، اس کی ہمیشہ سے کم
قانونی حیثیت ہے۔ ایسے وقت میں جب امریکی فوج میں اضافہ کے باعث طالبان بعض
اضلاع میں پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئے ہیں، تاہم کرزئی حکومت اس خلاءکو پُر
کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ یہ صورتِ حال دسمبر تک برقرار رہے گی جب اوباما
کو اپنی افغان پالیسی پر ایک مرتبہ پھر نظرِثانی کرنی ہوگی۔ یہ اوباما کے
لیے تیسرا موقع ہوگا کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ افغانستان میں کس قسم کی جنگ
کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے پاس اس موقع پر بہت سے آپشنز ہوں گے۔ پہلا تو
افغانستان میں مزید قیام اور اگلے برس بھی طالبان سے لڑائی اور افغان فوج و
پولیس کی تربیت۔ دوسرا اپنی اسٹرٹیجی پر نظرِثانی اور تیسرا جولائی
2011ءمیں امریکی فوج کی واپسی کا آغاز۔
موجودہ صورتِ حال کے تناظر میں پاکستان افغانستان سے زیادہ اہم ہے۔ اس کی
ایٹمی صلاحیت کے پس منظر میں اس پر توجہ دینے کی زیادہ ضرورت ہے۔ جب کہ وہ
بڑی آبادی والا ملک اور بھارت سے کئی جنگوں کی تاریخ رکھتا ہے۔ یہ امر
اطمینان بخش ہے کہ پاک فوج ملک میں پاکستانی طالبان کو ایک بڑا خطرہ سمجھتے
ہوئے اقدامات کررہی ہے۔ وقت آگیاہے کہ اوباما حکومت زمینی حقائق کو پیش نظر
رکھتے ہوئے اپنی پالیسی پر نظرِثانی کرے۔ .
(یہ آرٹیکل روزنامہ جرات میں شائع ہو چکا ہے) |