صاف اور خالص پانی صحتِ انسانی
کے لیے کتنا ضروری ہے اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہو جاتا ہے کہ انسانی
جسم میں 70فی صد پانی ہوتا ہے جس کا درجہ حرارت عموماً 98.6ڈگری فارن ہائیٹ
ہوتا ہے۔ روزانہ پانی کی مقدار جسم میں سے خارج ہو جاتی ہےَ جلد سے 30فی صد،
پھیپھڑوں سے فیصداور پچاس فی صد پیشاب پاخانہ کے ذریعہ۔جب کہ اسی مقدار میں
پانی خوراک اور پینے کے ذریعے روزانہ حاصل ہوتا ہے۔
زندگی کی نوید پانی جب ہی انسان کے لیے روح پرور ثابت ہوتا ہے جب وہ اپنی
خالص حالت میں انسان کو میسر ہو۔ ورنہ ناخالص اور گندا پانی انسان کی زندگی
کے لیے بے حد نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
خالص پانی اپنے وزن میں آٹھ حصے آکسیجن اور ایک حصہ ہائیڈروجن پر مشتمل
ہوتا ہے لیکن بالکل خالص پانی عام طور پر کہیں نہیں ملتا۔ اس میں اکثر چونا،
لوہا، سوڈیم کے کلورائیڈ، کاربونک ایسڈ، ریت( سلیکا)، میگنیشیااور نامیاتی
مواد شامل ہوتے ہیں۔
معدنیاتی مادوں پر مشتمل پانی (مثلاً چونا) گلہڑ، گردوں کی پتھری وغیرہ،
میگنیشیا پر مشتمل پانی دست، لوہے پر مشتمل پانی جگر کی تکالیف، بدہضمی
وغیرہ جب کہ نباتاتی اور حیوانی مادے کا حامل پانی ملیریا، ٹائیفائیڈ، ہیضہ،
اسہال اور پیچش کا باعث بن سکتا ہے۔ اس قسم کا غیر خالص پانی چکھنے میں
بدذائقہ اور معدے کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔
اچھا خالص پانی شفاف اور چمک دار ہوتا ہے۔ اس کا کوئی رنگ اور کوئی بو نہیں
ہوتی اور نہ ہی اس کا کسی طرح کا مزہ ہوتا ہے۔ یہ لشکارے مارتا ہے اور گرمی
یا سردی کے موسم میں عام طور پر اس کے درجہ حرارت میں زیادہ تبدیلی نہیں
ہوتی۔
غیر خالص پانی کو خصوصی طور پر بنائے گئے آلات سے فلٹر کیا جاتا ہے جس میں
مسام دار پتھر بھرا ہوتا ہے۔ پسی ہوئی چارکول (کوئلے) میں سے گزارنے پر بھی
یہ بہتر ہو جاتا ہے۔“
٭ابالا ہوا اور ریت یا پسی ہوئی چارکول (کوئلہ) میں سے فلٹر کیا ہوا پانی
عموماً تمام آلائشوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ بہت کم خرچ پر گھر میں مندرجہ ذیل
طریقے سے ایک بہترین فلٹر تیار کیا جا سکتا ہے:
ایک عام سا کھلا اور گہرا برتن لے کر اس کے پیندے کے درمیان ایک سوراخ کر
دیں۔ چارکول (کوئلے) کا ایک ٹکڑا اس سوراخ میں اس طرح ڈال دیں کہ یہ پانی
کا قطرہ قطرہ ٹپکاتا رہے۔ برتن کے پیندے پر پسے ہوئے چار کول کی تہہ پھیلا
دیں اور اس کے اوپر اچھی طرح دھوئی ہوئی ریت بچھا دیں۔ پھر ریت کی تہہ کے
اوپر پسے ہوئے چارکول کی ایک اور تہہ لگا دیں۔ اس طرح دونوں کی چار چار
تہیں لگائیں۔ سب سے اوپر باریک ریت پھیلائیں۔ تہیں لگانے کے لیے باریک
چھاننی استعمال کی جا سکتی ہے۔ اس فلٹر کو لوہے یا لکڑی کے بنے ہوئے تین
پایوں والے اسٹول کے اوپر رکھ دیں۔ فلٹر کے اوپر کچی مٹی کا برتن پانی سے
بھر کر رکھ دیں جس میں سے پانی قطرہ قطرہ کر کے فلٹر میں گرے گا اور فلٹر
ہو کر قطرہ قطرہ نیچے سے گرے گا۔ صاف شدہ پانی اکٹھا کرنے کے لیے فلٹر کے
سوراخ کے نیچے بوتل یا اگر میسر ہو سکے تو پیتل کا صاف ستھرا برتن رکھ دیں۔
اس میں جمع شدہ پانی ہر طرح کی آلائشوں سے پاک قابل استعمال ہو گا۔
٭ہنگامی صورتحال میں گندے پانی کو اچھی طرح ابال کر چوہرے ململ کے چوہرے
سفید کپڑے میں سے چھان لینے کے بعد استعمال کریں اور اگرایک گھنٹہ دھوپ میں
رکھ کر استعمال کریں تو یہ زیادہ اچھا ہو گا۔
٭اچھی طرح سے رگڑا ہوا ایک نرملی پھل (Strychnos-Potatorum) بہت مختصر وقت
میں کسی بھی طرح سے گندے آدھا کلو پانی کو پینے کے قابل بنا دے گا۔
مندرجہ بالا طریقے سب سے بہترین اور آسان ہیں۔ کیوں کہ ان طریقوں میں پانی
کو خالص بنانے کے لیے کسی قسم کے کیمیکلز کا استعمال نہیں کیا گیا اور نہ
ہی مندرجہ بالا طریقوں کے اختیار کرنے میں کسی قسم کی مہارت کی ضرورت ہوتی
ہے۔ذیل میں پانی کو خالص بنانے کے چند دیگر طریقے بھی پیش ہیں:
٭ایک گیلن پانی میں آئرن پرآکسائڈ کے ڈھائی دانے اسے فالتو نامیاتی مادے
اور مٹی سے پاک کر دیں گے۔
٭ایک گیلن پانی میں پھٹکری کے چھ دانے ڈالنے سے ا س میں موجود تمام کیلشیم
کاربونیٹ، کیلشیم سلفیٹ، امونیا ہائیڈریٹ اور حتیٰ کہ نباتاتی البومینائی
مادہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔
٭آئیوڈین کا آدھا دانہ‘ سٹرک ایسڈ کا آدھا اور سوڈے کے کاربونیٹ کا ایک
دانہ ہیضہ کی وبا کے وقت گندے پانی کی تھوڑی سی مقدار کو خالص بنا دے گا۔ |