کٹا ہوا ہونٹ اور کٹا ہوا تالو

دورانِ حمل تین مہینے میں چہرے کے مختلف حصے الگ الگ بن رہے ہوتے ہیں جوبعد میں مل جاتے ہیں اور چہرہ مکمل ہو جاتا ہے۔ اگر کسی بھی وجہ سے یہ چہرے کے مختلف حصے نہ مل پائیں تو کٹا ہوا ہونٹ یا کٹا ہوا تالو یا دونوں نمودار ہو سکتے ہیں۔

اس کی کیا وجوہات ہیں؟ اس کا بالکل ٹھیک جواب تو آج تک کوئی نہیں دے سکا مگر کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے ماہرین کا خیال ہے کہ بچے کے پیدائشی کٹے ہوئے ہونٹ یا کٹے ہوئے تالو کی ایک بڑی وجہ موروثی ہو سکتی ہے ۔ اس خیال کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر ایسے بچے ان ماں باپ کے ہوتے ہیں جو آپس میں ماموں زاد، خالہ زاد یا چچا زاد کزن ہوتے ہیں۔

ماہرین اس عارضے کی دوسری وجوہات میں ماحولیاتی آلودگی ، حمل کے پہلے تین مہینے میں غیر ضروری اور حاملہ کا اپنی طرف سے ادویات کا استعمال بھی بتاتے ہیں۔ بہت سی خواتین اس ضمن میں احتیاط نہیں کرتیں اور بغیر اپنے ڈاکٹر کے مشورے کے مختلف دوائیں استعمال کر لیتی ہیں۔ فولک ایسڈ اور آئرن کی کمی اور تاب کاری شعاعوں کے مہلک اثرات بھی آنے والے بچے کو اس عارضے میں مبتلا کر سکتے ہیں!

مندرجہ بالا وجوہات میں سے کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے لیکن ایک بات یاد رکھنی ضروری ہے کہ کٹے ہوئے ہونٹ یا کٹے ہوئے تالو کا سورج گرہن یا چاند گرہن سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ہمارے معاشرے میں کٹے ہوئے ہونٹ والے بچے کے ساتھ ستم ظریف کئی قسم کے توہمات جوڑ دیتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

پاکستان میں اس بیماری کا تناسب:
پاکستان کا شماراس بیماری کے تناسب سے دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہے جہاں پر کٹے ہوئے ہونٹ اور کٹے ہوئے تالو والے بچے پائے جاتے ہیں۔ چین پہلے نمبر پر، بھارت دوسرے نمبر پر اور انڈونیشیا تیسرے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں ہر 500بچوں میں ایک ایسابچہ پیدا ہوتا ہے۔ اور تحقیق کے مطابق پاکستان میں ایک دن میں اوسطاً دس ہزار بچے پیدا ہوتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دن میں تقریباً 25بچے کٹے ہوئے ہونٹ اورکٹے ہوئے تالو کے ساتھ پیداہوتے ہیں۔ ایک مہینے میں 750اور ایک سال میں 9000بچے ایسے پیدا ہوتے ہیں۔

کٹے ہوئے ہونٹ اور کٹے ہوئے تالو کے نقصانات:
ایسے بچے جوں کہ صحیح طریقے سے بولنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں ۔ وہ زیادہ تر چپ رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور نفسیاتی مسائل کا شکار بنتے ہیں۔ جن میں ڈپریشن عام ہے۔ ساتھ ساتھ ایسے بچے سانس کی نالی کے ورم، کان کی نالی کے ورم اور دانتوں کی بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔

علاج:
ایسے بچوں کا علاج صرف پلاسٹک سرجری ہے۔ مگر سرجری کا صحیح عمر میں ہونا انتہائی ضروری ہے۔ صحیح عمر کے ساتھ بچے کا میڈیکلی فٹ ہونا یعنی بچے کا وزن ، بچے کا ہیمو گلوبن () اور بچے کا سانس کی نالی کا صحیح ہونا انتہائی ضروری ہے۔ عموماًمندرجہ ذیل عمر میں بچے کی سرجری کی جاتی ہے:
٭کٹے ہوئے ہونٹ.... تین ماہ کے بعد کبھی بھی۔
٭کٹے ہوئے تالو.... ایک سال سے ڈیڑھ سال کی عمر میں۔
٭مسوڑھوں کی سرجری.... چھ سے نو سال کی عمر میں۔
٭ناک کی سرجری.... 16سے 17سال کی عمر میں۔

بعض بچے پیدا ہوتے ہیں تو صرف ہونٹ کٹا ہوا ہوتا ہے اور بعض بچے پیدا ہوتے ہیں تو صرف تالو کٹا ہوا ہوتا ہے اور بعض بچوں میں ہونٹ اور تالو دونوں کٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ صرف ہونٹ کٹے بچے میں ایک سرجری اور صرف تالو کٹے بچے میں بھی ایک سرجری کی جاتی ہے مگر جن بچوں کے ہونٹ اور تالو دونوں کٹے ہوئے ہوتے ہیں، ان میں عمر کے مختلف ادوار میں تین سے چار سرجری کی جاتی ہے ۔

اخراجات:
ایک سرجری میں پرائیوٹ سیکٹر میں 60سے 80ہزار روپے کا خرچہ آتا ہے(خوشی کی بات یہ ہے کہ شعبہ پلاسٹک سرجری ، سول ہسپتال اور ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کراچی میں مستحق مریضوں کی فری سرجری کی جاتی ہے)۔

ان سرجریوں کے بیچ میں بچے کے چہرے کی افزائش کو دیکھا جاتا ہے اور اس کی آواز کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ساتھ ساتھ اس کے دانوں اور مسوڑھوں کی افزائش کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ ضرورت پڑنے پر آرتھوڈونٹکس اور اسپیچ تھراپسٹ کی مدد بھی لی جاتی ہے۔ بعض اوقات آواز کی بہتری کے لیے بھی سرجری کی جاتی ہے جسے Pharyngoplasty کہا جاتا ہے۔ یہ زیادہ تر چھ سال کی عمر کے بعد کی جاتی ہے ۔

والدین کو کیا کرنا چاہیے:
زیادہ تر ماں باپ جن کو اس قسم کے نقائص کا علم نہیں ہوتا، وہ ایسے بچے کو دیکھ کر گھبر اجاتے ہیں اور رونا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے والدین کو چاہیے کہ فوری طور پر بچوں کے ڈاکٹر سے رجوع کریں جو بچے کا مکمل معائنہ بھی کرے گا اور بچے کے وزن اور دودھ کے متعلق ہدایت بھی دے گا۔ جن بچوں کا صرف ہونٹ کٹا ہوا ہوتا ہے وہ دودھ پینے میں اتنی تکلیف کا شکار نہیں ہوتے جتنا وہ بچہ جس کے ہونٹ اور تالو دونوں کٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کے لیے لمبا نپل تجویز کیا جاتا ہے جس کے سرے پر سوراخ کو موٹا کر لیا جاتا ہے۔ ہمیشہ ایسے بچوں کو تھوڑا سا اٹھا کر 45کے زاویے پر دودھ پلانا چاہیے تا کہ دودھ سانس کی نالی میں نہ جائے۔ ہر مہینے بچے کا وزن کروانا چاہیے تا کہ یہ پتہ چلے کہ اسے غذا صحیح مل رہی ہے کہ نہیں۔ ساتھ ساتھ حفاظتی ٹیکوں کا کورس بھی کروانا چاہیے۔ جیسے ہی بچہ سرجری کی عمر کو پہنچے تو اسے فوری طور پر پلاسٹک سرجن سے رجوع کرنا چاہیے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Muhammad Faisal shahzad
About the Author: Muhammad Faisal shahzad Read More Articles by Muhammad Faisal shahzad: 115 Articles with 186370 views Editor of monthly jahan e sehat (a mag of ICSP), Coloumist of daily Express and daily islam.. View More