میری زندگی اسکے بغیر کیوں ادھوری ہے ........

ہرقدم پر میرا ساتھ دینے والی بیگم کے کتنے ہی روپ ہیں ،ہرروپ میں وہ کامیاب دکھائی دیتی ہے

کسی نے کیا خوب کہا ہے صبح ہوتی ہے ‘شام ہوتی ہے ‘عمر یونہی تمام ہوتی ہے ۔ابھی کل کی بات لگتی ہے جب میں دولہا بن کے سیدن شاہ کالونی اپرمال لاہور بارات کے ساتھ گیا تھا اور ایک نیک سیرت لڑکی کواپنے ساتھ لے کر واپس آگیا ۔ شادی نبی کریم ﷺ کی سنت ہے ‘ شادی کے بغیر انسان خود کونامکمل تصورکرتا ہے ۔ سلیقہ مند زندگی کا سبق عورت کے روپ میں بیگم ہی آکر سیکھاتی ہے ۔ ڈاکٹر عارفہ صبح خاں (جو ایک ممتاز ادیبہ‘ رائٹر اور مصنفہ ہی نہیں) اعلی درجے کی مزاح نگار بھی ہے ۔وہ اپنی کتاب "کرکرے کردار " میں لکھتی ہیں کہ بیوی ہر گھر کالازمی آئٹم ہے وہ جگہ گھر نہیں کہلاتی ،جہاں بیوی نہ ہو ۔ بیوی گھر کا وہ فرد ہے جس سے اکثر گھر جنت اور اکثر گھر جہنم کا نقشہ پیش کرنے لگتے ہیں ۔بیوی وہ ہستی ہے جو ہو تو بندہ دکھی اورنہ ہو تو بہت زیادہ دکھی ہوتا ہے ۔دنیا کا ہر شریف انسان اپنی بیوی سے شاکی رہتا ہے ۔

ڈاکٹر عارفہ مزید لکھتی ہیں کہ بیویوں کی بھی کئی قسمیں ہیں ان جھگڑالو بیوی ‘ اکڑفوں بیوی ‘فرمانبردار بیوی ‘ شکی بیوی ‘ گھنی بیوی ‘پھوہڑ بیوی ‘ بیوقوف بیوی سیانی بیوی ‘ شوخ و چنچل بیوی ‘ ذمہ دار بیوی ‘ہتھ چھوٹ بیوی ‘ بیمار بیوی ‘ نخریلی بیوی ‘ چکر باز بیوی ‘‘ سٹریل بیوی ‘ بارعب بیوی ‘ باتونی بیوی ‘افلاطون بیوی وغیرہ۔اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میری بیوی میں خامیاں کم‘ خوبیاں زیادہ ہیں ۔ اگر میں اسے سیانی اور دانش مند بیوی کہوں تو زیادہ مناسب رہے گا ‘ جب سے وہ میرے گھر آئی ہے اس نے میرے ذاتی مفادات سے لے کرتمام خاندانی معاملات کو خوب سنبھال رکھا ہے ‘ کئی مرتبہ ایسے بھی ہوتا ہے کہ میں کسی فنکشن میں جانے سے انکار کردیتا ہوں اس کی وجہ مصروفیات کے علاوہ صحت کی خرابی بھی ہوسکتی ہے ‘ خاندان میں میرا بھرم رکھنے کے لیے وہ نہ صرف فنکشن اٹنڈکرتی ہے بلکہ اپنے خاندان کے سامنے میری ڈھیر ساری خوبیاں بیان کرکے میرا مقام و مرتبے میں مزید بلند کرکے گھر لوٹتی ہے ۔

جب سے میں نے اور بیگم نے بڑھاپے کی دہلیز پرقدم رکھا ہے ‘ شام ڈھلے ہم دونوں اپنی اپنی دردوں کو شیئر کرنا نہیں بھولتے۔بہت عرصہ پہلے سے میرے دونوں گھٹنوں میں شدید درد کااحساس رہتا ہے ‘ دائیں گھٹنے کا آپریشن چھ سال پہلے کروایا تھا وہ تو کسی حد تک بہتر ہے لیکن بائیں گھٹنے میں اکثر و بیشترٹھیس نکلتی ہیں کہ نکلتی ہی چلی جاتی ہیں۔ جو مجھے بے چین کردیتی ہیں ۔جب میں اپنے جسمانی اعضا میں ہونے والے درد کی کہانی بیگم کوسناتا ہوں تووہ دھیمے لہجے میں کہتی ہے تکلفیں اور دردیں تومجھے بھی کافی ہوتی ہیں لیکن میں برداشت کرلیتی ہوں ‘ آپ کی طر ح شور نہیں مچاتی ۔ آپ تو معمولی سی بات پر بھی آسمان سرپر اٹھا لیتے ہیں ۔مجھے بیگم کی اس بات پر غصہ بھی آتا ہے پھر یہ سمجھ کر میں خاموش ہوجاتا ہوں کہ وہ ٹھیک ہی کہتی ہے ‘ مجھے سریلی آواز میں کچھ نہ کچھ گنگنانے کا شوق تو بچپن سے ہی چلاآرہا ہے ‘ بڑھاپے میں یہ سریلی تانیں اکثر اپنے پوتوں پوتیوں کے حوالے سے چھڑتی رہتی ہیں ۔ کبھی میری زبان سے "او لٹل مین۔ پیارا پیارا لٹل مین ،سب سے پیارا لٹل مین "تو کبھی "پیارے عمر،سوہنے عمر " ‘ "پیاری فریسہ تو کہاں ہے ۔؟"جیسی آوازیں گھر کے درو دیوار میں گونجتی رہتی ہیں ۔جب میں اپنی دھن میں کوئی راگ الاپ رہا ہوتا ہوں تو بیگم میرا چہرا دیکھ رہی ہوتی ہے اس کے باوجود کہ وہ زبان سے کچھ نہیں کہتی لیکن اس کی آنکھیں وہ سب کچھ بیان کردیتی ہیں‘ جو اس کے دل میں ہوتا ہے ۔ ایک دن مذاق میں کہنے لگی آپ کی آواز بہت سریلی ہے اگر آپ پکوڑوں کی ریڑھی لگا لیں تو پکوڑے بہت بکیں گے۔

ماشاء اﷲ 42سال کے عرصے میں بیگم پہلے بیوی بنی ‘ پھر ماں بنی ‘پھر ساس بنی اور اب ماشااﷲ نانی اور دادی بھی بن چکی ہے ۔سب سے پہلے میں بیوی کے کردار پر کچھ روشنی ڈالنا چاہتا ہوں ۔6اپریل 1978ء کو جب عابدہ بیگم میری زندگی میں داخل ہوئیں تو اس وقت میرے اوران کے خاندان کے رسم و رواج میں زمین آسمان کا فرق تھا بلکہ ایک وسیع خلیج حائل تھی ‘ ہمارے گھر کے باہر ایک بھینس اور کٹی بندھی ہوئی تھی اور تمام کاتمام کلچر پنجابی تھا جبکہ میرے سسرالی خاندان والے اردو زبان بولتے تھے اوران کا رہن سہن لکھنوی تھا ‘ سب سے اہم بات تو یہ تھی کہ صوفی خاندان کی تمام بیٹیاں اردو سپکینگ گھرانوں میں ہی بیاہی گئی تھیں۔ صرف عابدہ کو پنجابی گھرانے میں شادی کرنے کا اعزاز ملا تھا‘ یہ فیصلہ بے شک میرے سسرالی خاندان کے لیے مشکل تھالیکن اﷲ بخشے میرے سسر صاحب کو،ان کو میری سرکاری ملازمت پسند آگئی ‘جب یہ رشتہ طے ہوا تھا، اس وقت میں لوکل گورنمنٹ کے ذیلی ادارے تعلیم بالغاں میں بطور سٹینو گرافر ساتویں گریڈ میں ملازم تھا۔ پرانے وقتوں میں رشتے ناطے جوڑتے وقت یہی دیکھا جاتا تھا کہ لڑکا سرکاری ملازم ہو تاکہ مہینے بعد تنخواہ یقینی طور پر مل جائے ۔ میری یہی خوبی میرے سسر کو بہاگئی ۔ گھرکے تمام افراد کی مخالفت کے باوجود مجھے داماد کی حیثیت سے انہوں نے قبول کرلیا ۔عابدہ بیگم جب میرے گھر پہنچی تو یکسر مختلف ماحول دیکھ کر یقینا پریشان ہوئیں لیکن بہت جلد اس نے خود کو پنجابی ماحول میں ایڈجسٹ کرلیا۔ اس وقت مجھے کرکٹ کھیلنے کا جنون کی حد تک شوق تھا اور صحت بھی بالکل ٹھیک تھی‘جبکہ پڑھائی بھی ساتھ ساتھ چل رہی تھی ۔کریسنٹ کالج اچھرہ کی شام کی شفٹ میں پڑھنے جاتا تھا ‘ ان دنوں مجھے دو بجے دوپہر دفتر سے چھٹی ہوجایا کرتی تھی۔گھر آتے ہی کھانا کھا کر فورٹریس سٹیڈیم(جو اس وقت کھلا میدان تھا، جس میں ایک نہیں کتنی ہی ٹیمیں پچ بناکر کھیلا کرتی تھیں بلکہ چھٹی والے دن میچ بھی وہیں ہوا کرتے تھے )کرکٹ کھیلنے چلاجاتا پھر واپسی پرگھر سے کتابوں کا بستہ اٹھاتا اور کریسنٹ کالج اچھرہ جا پہنچتا ۔جہاں سے رات گیارہ بجے واپسی ہوتی ۔میری آنیاں جانیاں دیکھ کر بیگم اصرار کرتی کہ میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میں بھی آپ کے ساتھ گھومو پھروں لیکن آپ کی زندگی تو مشین بن کر رہ گئی ہے ۔جوانی میں جب تمام جسما نی اعضا بالکل ٹھیک ہوں تو بیوی کی باتوں پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی لیکن جب جسمانی اعضا ساتھ چھوڑنا شروع کرتے ہیں تو ہمدردی کے لیے بھی ایک شخص کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ بیوی ہوتی ہے ۔جو صبح و شام آنکھوں کے سامنے رہتی ہے ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ بیوی کی قدرو قیمت کا پتہ بڑھاپے میں ہی جا کر ہوتاہے۔جب انسان نہ کھیلنے کی ہمت رکھتا ہے اور نہ آوارہ گردی کی۔

بہرکیف 6اپریل 1978سے لے کر نومبر 1984ء تک ہم والدین کے ساتھ رہے پھر مکہ کالونی گلبرگ تھرڈ لاہور میں چار مرلے کاایک پلاٹ 28 ہزار روپے میں خرید ا، اس پر مکان بنانے کا مشکل ترین مرحلے سے گزرنا پڑا۔مکہ کالونی کے مکان میں منتقل ہونے کے بعد میری زندگی کے معمولات یکسر تبدیل ہوگئے ۔دفترسے اڑھائی بجے چھٹی ہوتی ، پھر وہاں سے میں ایوان ادب اردو بازار جزوقتی ملازمت کے لیے چلاجاتا‘ جہاں سے رات آٹھ نو بجے واپسی ہوتی ۔چھٹی کا ایک دن ملتا وہ بھی گھر کے بے شمار مسائل کو حل کرنے میں ہی صرف ہو جاتا۔یہاں مکان کی تعمیر کا جو سلسلہ1984میں شروع ہوا تھا وہ 1995ء تک بمشکل ختم ہوا ۔ والدین سے علیحدگی کے بعد زندگی ایک صدی پیچھے چلی گئی تھی‘مالی وسائل نہ ہونے کی بناپر قدم قدم پر مشکلات حائل ہوتیں ‘ چونکہ ہر لمحے بیوی کی حیثیت سے عابدہ بیگم کا تعاون مجھے حاصل تھا ‘ اگر کھانے کو کچھ نہ ملتا تو ہم بچوں کو کچھ نہ کچھ کھلا پلا کرخود بھوکے ہی سو جاتے ‘ اگر پینے کا پانی میسرنہ آتا تو پڑوسیوں کے ہینڈ پمپ سے پانی حاصل کرکے گزارا کرلیا جاتا بلکہ ابتدائی کئی مہینوں تک ہم پڑوسیوں سے ہی بجلی کا کنکشن لے کر اپنے گھر کو شام ڈھلے روشن کیا کرتے تھے ‘ ٹی وی موجود نہ ہونے کی بناپر سرے شام ہی سو جاتے ‘ گویا زندگی کے تمام ذائقے اور موجیں اختتام پذیر ہوچکی تھیں ‘ جہاں روٹی کھانے کو بمشکل ملتی ہو وہاں پھل کا تصور نہیں کیاجاسکتا ۔ہمارے گھر کے سامنے ایک حکیم ظفراقبال صاحب اپنی فیملی کے ساتھ رہائش پذیر تھے ان کا مطب گوالمنڈی میں تھا وہ سارا دن مریضوں سے جو کماتے ،شام ڈھلے اپنے بچوں کے لیے ان کی من پسند چیزوں سے بھرا ہوا تھیلا ہاتھ میں پکڑکرلے آتے ان میں کولڈ ڈرنکس اور پھل بطور خاص شامل ہوتے۔ہمیں ان کے گھر آنے والے پھلوں کا علم اس وقت ہوتا جب پھلوں کے چھلکے ہمارے گھر کے سامنے پڑے نظرآتے ۔جنہیں دیکھ کر ہم ترسا کرتے تھے کہ کبھی نہ کبھی تو ہم بھی پھل کھائیں گے لیکن والدین سے علیحدگی کے بعد ایک لمبا عرصہ پیٹ پر پتھر باندھ کر ہمیں گزارنا پڑا ۔ آج جب اﷲ تعالی نے زندگی کی ہر نعمت ہمیں عطا کردی ہے ‘بچے بڑے ہوکرملازمتیں کرنے لگے ہیں تو زندگی کی تمام مشکلیں آسانیوں میں تبدیل ہوچکی ہیں ۔ اس عنایت پر اﷲ تعالی کا جتنا شکر ادا کیاجائے کم ہے ۔ مختصرا ایک بات یہاں میں کہنا چاہتا ہوں کہ آسانیاں زندگی میں ضرور آتی ہیں لیکن مشکلات سے گزرکے ۔ عابدہ بیگم نے بحیثیت بیگم ‘ اپنے بہترین کردار سے میرے خاندان کی بنیادوں کو کچھ اس طرح استوار کیاہے کہ اپنی اپنی جگہ گھر کے تمام افراد خوش و خرم نظر آتے ہیں ۔اسی لیے کہاجاسکتاہے کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے ۔

کامیاب بیوی کے بعد عابدہ کا کردار ایک ماں کابھی تھا ‘ میں تو صبح گھر سے نکل کر شام ڈھلے واپس آتا لیکن اس دوران دو بیٹوں اورایک بیٹی کی تربیت ‘ تعلیم اور صحت کا خیال رکھنا ایک ماں کی حیثیت سے عابدہ بیگم کا ہی فرض تھا ۔الحمدﷲ میری بیٹی تسلیم گرایجویشن ہے اور شادی کے بعد اپنے گھر میں خوش و خرم زندگی بسر کررہی ہے ‘ میرا بڑا بیٹا ( محمد شاہد اسلم لودھی ) اس وقت روشن پیکجز پرائیویٹ لمیٹڈ میں آڈٹ آفیسر کی حیثیت سے ملازم ہے جبکہ سب سے چھوٹا بیٹا (محمد زاہد اسلم لودھی ) بنک آف پنجاب کی ڈیفنس برانچ میں گریڈ تھری آفیسر ہے ‘ اس کے باوجود کہ مجھے ریٹائرمنٹ کے بعدایک پیسہ بھی پنشن نہیں ملتی لیکن میرے بچوں نے گھرکو مکمل طور پر اپنے کاندھے پر اٹھا رکھاہے جو وقتافوقتا میری مالی مدد بھی کر دیتے ہیں جس سے زندگی کے آخری ایام نہایت آسانی سے گزررہے ہیں ۔یہ سب کچھ عابدہ بیگم کے کامیاب کردار کاثمرہے۔

ماں کے بعد عابدہ بیگم کا کردار ایک ساس کے روپ میں ابھر کر اس وقت سامنے آیا جب بیٹی تسلیم کی شادی حافظ تاج محمود سے انجام پائی ۔ہمارے گھرانوں میں داماد کی عزت و احترام ‘ خاطر و مدارت باقی تمام رشتے داروں سے زیادہ کی جاتی ہے ‘ یہی کردار آجکل میری بیگم بخوبی ادا کررہی ہے جونہی داماد کے گھر آنے کی خبر ملتی ہے تو فورا میرے ساتھ بائیک پر بیٹھ کر کبھی قصائی کی دکان سے قیمہ بنواتی ہے تو کبھی چکن شاپ سے مرغ کا تازہ گوشت ‘ جبکہ پرچون کی دکان سے کھانوں کو مزے دار بنانے کے مصالے بھی خریدنا نہیں بھولتی ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جب داماد حافظ تاج محمود اور بیٹی تسلیم ہمارے گھر آتی ہے تو ان کے ساتھ ساتھ ہماری بھی موجیں ہوجاتی ہیں ۔لیکن مہینے کا طے شدہ بجٹ یقینی طورپر اپ سیٹ ہوجاتاہے ۔بیٹی ( تسلیم ) کی محبت تو ہر ماں کی طرح عابدہ بیگم اس کے خون میں رچی بسی ہے‘ بیگم کو اس وقت تک سکون نہیں ملتا جب تک وہ دن میں ایک بار اپنی بیٹی سے بات نہ کرلے ۔خدانخواستہ اگر بیٹی کی طبیعت خراب ہوجائے یا کوئی اور مسئلہ درپیش ہو تو بیٹی سے پہلے ماں پریشان ہوجاتی ہے ‘جب وہ پریشان ہوتی ہے تو لامحالہ طور پر میں بھی گرفت میں آجاتا ہوں پھر ہم دونوں اکٹھے ہوکر بیٹی کی حفاظت ‘ سلامتی اور صحت کے لیے دعا کرتے ہیں ۔

جب بیٹی تسلیم کے گھردو بیٹوں( حاشر محمود اور عبدالرحمن) کی پیدائش ہوئی تو میری بیگم ‘ نانی کے مرتبے پر بھی فائز ہوچکی ہے ‘ اپنے دونوں نواسوں کی محبت بلاشبہ اس کے خون میں رچی بسی ہے کیونکہ حاشر اور عبدالرحمن کی رگوں میں ہماری بیٹی کا ہی خون گردش کررہا ہے ‘ بیٹی کی مناسبت سے نواسے بھی ہمارے جسم کا حصہ بن جاتے ہیں ۔

عام طور پر ہمارے معاشرے میں دادی کاکردارتھوڑا سخت ہوتا ہے جس کے بغیرگھر میں گرگراہٹ پیدا نہیں ہوتی ۔نانی کے مقابلے میں دادی زیادہ نمکین ہوتی ہے وہ لاڈ پیار سے زیادہ رعب اور دبدبے سے بات منوانے کی قائل ہوتی ہے۔کہایہ جاتا ہے کہ دادی کی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک صدقے واری جانے والی تو دوسری ڈانٹ ڈپٹ والی دادی ۔ میری بیگم رعب دبدبہ والی دادی ہے ‘ پانچ پوتے پوتیاں جو کسی سے بھی نہیں ڈرتے ‘صرف دادی کی ڈانٹ سے دب کر بیٹھ جاتے ہیں ۔دادا کی حیثیت سے میں بہت نرم دل واقع ہوا ہوں ۔ شرمین فاطمہ (جسے میں لاکھوں میں ایک کہتا ہوں ) رماسہ شاہد ‘ محمد موسف لودھی ‘ محمد عمر زاہدلودھی ، فریسہ فاطمہ اور قرات لودھی ۔یہ چھ بنتے ہیں سبھی میری محبتوں اور چاہتوں کامرکز ہیں میں ۔ میں ان کو خوش دیکھنے کے لئے ہر وہ چیز خرید کر لاتاہوں جوانہیں پسند ہوتی ہے ‘ سٹیل کی الماری میرے ان پوتے پوتیوں کے لیے طلسماتی الماری کا روپ دھار چکی ہے جس سے ان کے لیے رنگ برنگی کھانے پینے کی چیزیں نکلتی ہیں ۔پیار تو مجھے تمام پوتے پوتیوں سے یکساں ہے لیکن جو بچہ میری نظروں سے اوجھل ہوجاتاہے ۔یعنی اپنی نانی گھر چلا جاتا ہے، وہ مجھے سب سے زیادہ یاد آتا ہے ۔ان معصوم بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو پورا کرکے مجھے بھی بے حد خوشی ہوتی ہے جب یہ بچے ضد کرکے مجھے ستاتے ہیں تو میں فورا ان کی دادی کو طلب کرکے کیس اس کے حوالے کردیتا ہوں ،جب انہیں دادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو تمام بچے چپ چاپ اپنے اپنے کمروں میں چلے جاتے ہیں ۔اس لیے کہاجاسکتا ہے کہ دادی کی حیثیت سے عابدہ بیگم کا رعب تمام پوتے پوتیوں پر بہت خوب ہے ۔جب سے ہمارے گھر میں نیا مہمان قرات زاہد لودھی آئی ہے ،وہ ماں کی آغوش سے زیادہ دادی کی گود میں لوریاں سنتی دکھا ئی دیتی ہے ۔

اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ گھر کی سب سے سمجھ دارخاتون کاکرداراب میری اہلیہ ).عابدہ بیگم ) کے پاس ہی ہے جس نے گھر کی ذمہ داریوں کو کماحقہ سنبھال رکھاہے ۔ مجھے اس لیے فکر نہیں ہوتی کہ وہ ہر کام کوکرنے کا بہترین سلیقے اورطریقے سے رکھتی ہیں ۔کس رشتے کو کتنی اہمیت دینی ہے یہ سب کچھ اسے زبانی یاد ہے۔ میں تو بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ کر نماز پڑھنے اورلکھنے لکھانے کے سوا اب کچھ کرنے کے قابل نہیں رہا لیکن وہ اب بھی پورے گھر کو اپنی مٹھی میں بند کرکے رات ہوتے ہی سو جاتی ہے۔حتی کہ مجھے خبرنامہ بھی پورا نہیں دیکھنے دیتی ۔

اس کو میری زندگی میں آئے ہوئے ساڑھے بتالیس سال ہوچلے ہیں ۔جوانی میں قدم بہ قدم ساتھ چلنے والے میاں بیوی اب بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکے ہیں ‘اب زندگی کا ساتھ اور کتنا چلتا ہے اسکے بارے میں تو کچھ علم نہیں ۔ میں نے اسے ایک مضبوط خیالات کی حامل سلیقہ مند خاتون کی حیثیت سے دیکھاہے لیکن میرا دل ہمیشہ وسوسوں کا شکار ہی رہتاہے اس لیے رب العزت سے یہی دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھ سے جدا نہ ہو، دنیا سے جانے کی پہلی باری میری ہی ہو ..................
کیونکہ میری زندگی اس کے بغیر ادھوری ہے ۔

 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 802 Articles with 784634 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.