پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے بارے میں میرا واضح مؤقف ہے
کہ پاکستان کی کوئی بھی جماعت نہ غدار ہے اور نہ ہی اسلام مخالف ، بس وقت
کے ساتھ سب ہی جماعتیں اپنے اپنے حالات کے مطابق کمپرومائز بھی کرتی ہیں
اور بیانیہ بھی وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے ، 2002 کے انتخابات میں
وزارت اعظمیٰ کے لئے عمران خان نے مولانا فضل الرحمٰن صاحب کو ووٹ دیا ،
جمعیت اور تحریک انصاف کئی احتجاجی پروگرامات میں شریک رہیں ، اس وقت پی پی
اور ن لیگ مجلس عمل کو مُلا ملٹری الائینس کہتے تھے ، ن لیگ اور تحریک
انصاف نے 2002 سے 2008 تک مل کر مشرف کو ٹف ٹائم دیا ، پی پی اور ن لیگ بھی
کبھی اتحادی رہے اور کبھی برسر پیکار ، کسی نے ایوب خان کو ڈیڈی کہا ، کوئی
ضیاالحق کی چھتری تلے بڑھا ، کسی نے مشرف کے غیر آئینی ایل ، ایف ، او کو
منظور کروایا ، کسی نے مشرف کی ریفرنڈم میں حمایت کی ، کسی نے اسٹیبلشمنٹ
سے اعلانیہ رابطے رکھے اور کوئی رات کی تاریکی میں ملتا رہا ، اس لئے میری
زندگی کا تجربہ یہ ہے کہ پاکستان میں جماعتوں اور تنظیموں کی لڑائی کو حق و
باطل کا معرکہ سمجھنا نادانی کے سوا کچھ نہیں ہے ، میری نظر میں تنظمیوں
اور جماعتوں میں سب سے پہلے دو چیزیں ضرور دیکھنی چاہیے ایک اہلیت اور
دوسری دیانتداری۔
جب بھی کسی جماعت کی کارکردگی کا پیمانہ ہو تو شروعات یہاں سے ہونی چاہئے ،
اس کے بعد باقی باتیں ہیں ، ہماری بدقمستی یہ ہے کہ اپوزیشن پر بددیانتی کا
الزام ہے اور موجودہ حکومت پر نااہلی کا ، جس کی وجہ سے قوم کنفیوژ ہے ، آپ
حکومت کو دیکھ لیں اس وقت ملک میں مہنگائی ہے ، ایک عام آدمی کے لئے جسم
اور روح کے رشتے کو برقرار رکھنا مشکل ہوا پڑا ہے ، لوگ آٹا ، چینی ، دال
میں پورے ہیں لیکن ہماری حکومت کے ترجمانوں کی ڈینگیں اگر آپ میڈیا پر سنیں
گے ، تو وہ ہر طرف چین ہی چین اور سکون ہی سکون لکھ رہے ہیں ، اپوزیشن نے
جلسے شروع کئے تو حکومت کا رویہ ایسا لگ رہا ہے جیسے کوئی اپوزیشن نے ملک
میں آگ لگا دی ہو ، خان صاحب اپنے 126 دن کے دھرنے پر فخر کرتے ہیں اور
اپوزیشن کے ایک دن کے جلسے پر تنقید ، حالانکہ سیاست اور جمہوریت میں جلسے
، جلوس اپوزیشن کا حق ہے ، سو انہیں کرنے دیں ، اگر اپوزیشن حکومت کی ہاں
میں ہاں ہی ملا دے تو بھلا وہ اپوزیشن کیوں رہے گی ، لیکن عجب حکومت ہے
گوجرانوالہ کے جلسے کے بعد وزیراعظم پاکستان منہ پر ہاتھ پھیر کر بچوں کی
طرح یہ کہتے نظر آئے کہ اب میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا ، حالانکہ پاکستان کا
ایک آئین و قانون موجود ہے سب کو اس پر عمل کرنا ہے ، یہ کوئی بادشاہت
تھوڑی ہے کہ ظل سبحانی کو کوئی بات پسند نہیں آئی تو بس اب میں نہیں چھوڑوں
گا ، گوجرانوالہ کے بعد کراچی میں جلسہ ہوا تو کیپٹن صفدر کی گرفتاری کر کے
تحریک انصاف نے اپنے لئے بلا وجہ رسوائی کا سبب کر لیا ، اصولی طور پر
تحریک انصاف کو یہ مئوقف اپنانا چاہیئے تھا کہ یہ سندھ حکومت کا مسئلہ ہے
وہاں قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے ، لیکن کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے بعد فیاض
الحسن چوہان ایسے سینہ چوڑا کر کے گفتگو کر رہے تھے جیسے انہوں نے کشمیر
فتح کر لیا ہے ، چند گھنٹوں بعد کیپٹن صفدر تو رہا ہوگئے لیکن ایک اور
بدنما داغ پاکستان کے ماتھے پر سج گیا ، جیسے وزیراعظم آزاد کشمیر پر بغاوت
کا مقدمہ درج کر کے سجایا گیا تھا ، حکومت کے بعد اگر ہم اپوزیشن کی بات
کریں تو یہاں بھی کہانی مختلف نہیں ہے ، میاں نوازشریف انقلابی بننے کے چکر
میں الطافی بنتے جا رہے ہیں ، ایک عام آدمی ان کے خیالات کی نفی اور مذمت
کر رہا ہے ، کراچی کے جلسے میں ان کے خطاب کا بوجھ پیپلزپارٹی نے اٹھانے سے
انکار کر دیا ، دوسری طرف کراچی کے PDM جلسے میں ایک عجیب بات یہ لگی کہ
کراچی میں یہ جلسہ اپوزیشن کا تھا لیکن کسی بھی جماعت نے کراچی کے مسائل پر
بات ہی نہیں کی ، سب اپنے اپنے دکھڑے سناتے رہے کاش کوئی کراچی اور اہل
کراچی کا بھی درد بیان کرتا ، کراچی میں درجنوں اکابر علماء ٹارگٹ ہو چکے ،
قاتل گرفتار نہیں ہوئے کاش کوئی اس پر بھی آواز اٹھاتا ، کراچی کی مصروف
شاہراہ پر رواں ماہ ہی مولانا عادل خانؒ کو شہید کیا گیا تھا لیکن جلسے میں
سردار اخترمینگل بلوچستان کے لاپتہ افراد کے لئے تو آواز اٹھاتے رہے ، مگر
کراچی کی اتنی بڑی علمی شخصیت مولانا عادل خان شہیدؒ کے قاتلوں کی گرفتاری
کا مطالبہ کسی نے نہیں کیا ، اس لئے میں اپنے تمام قارئین کو برادرانہ یہ
مشورہ دیتا ہوں کہ آپ کبھی بھی کسی اور کی آگ کا ایندھن مت بننا ، ہمیشہ
اپنے اچھے نظریہ پر ہی قائم رہنا؛ کیونکہ استعمال کرنے والے کر کے پھر ٹشو
کی طرح پھینک دیتے ہیں ۔
باقی حکومتی روئیے کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ شیخ رشید کی پیش گوئی درست
ثابت ہو جائے گی اور فروری تک جھاڑو پھر جائے گی اور ساری اپوزیشن جیل میں
ہوگی ، جس کے بعد مارچ میں سینٹ کا الیکشن ہوگا اور سینٹ کے الیکشن کے بعد
سب رہا ہوں گے ، کہنے کو تو ساری اپوزیشن یہی کہے گی کہ جیلوں سے نہیں ڈرتے
لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیل خالہ جی کا گھر نہیں ہے ، سالوں جیل میں گزار دینا
اور اپنے کاز و مقصد سے جڑے رہنا ، بچوں کا کھیل نہیں ہے ، میری اپنے تمام
کالم پڑھنے والوں سے درخواست ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کے چکر میں آکر پاک
فوج کی قربانیوں اور اہمیت کو نظرانداز نہ کریں ، جن ملکوں میں منظم فوج
نہیں ہے پڑوسی ملکوں نے ان سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے ، باقی جہاں تک
بات ہے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی تو کاش ہم قائد کے فرمان کو ہی مشعل
راہ بنا لیں ۔
قائد نے فرمایا "کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے، اور اسرائیل ناجائز بچہ ہے اور
مزید یہ بھی وصیت کر گئے کہ پاکستان ہم اس لئے بنا رہے ہیں تاکہ وہاں لوگ
آزادی کے ساتھ اسلامی احکامات پر عمل کرسکیں۔"
قائد اعظم نے انگریز حکومت کے خلاف غازی علم الدین شہیدؒ کا مقدمہ لڑا ،
قائد کے مزار پر جا کر نعرے بازی کرنا بھی نا مناسب بات ہے اور قائد کے
فرمان سے انحراف بھی غلط عمل ہے ، اپوزیشن ہو یا حکومت سب کی ذمہ داری بنتی
ہے کہ قائد کے فرمان پر عمل کریں ، حکومت اور اپوزیشن جمہوریت کے دو پہیئے
ہیں ، لڑتے رہیں ، جھگڑتے رہیں ، لیکن بانی پاکستان کی فکر کو بھی زندہ
رکھیں ،خدارا پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنا دیں۔
|