شہدائے جموں کی قربانیاں ناقابل فراموش

بے شک آج سے 73 سال قبل نومبرکامہینہ مسلمانان جموں کیلئے بدقسمتی کاایک ایساتازیانہ لے کرآیاتھاجس نے خطہ جموں کی اکثریت کوآناً فاناًمیں نہ صرف اقلیت میں تبدیل کیابلکہ سماجی ،معاشی اورسیاسی طورپرانتہائی کمزوربھی کردیاتھا۔نومبر1947 میں شہیدہوئے مسلمانان جموں ہم نے آپ کی شہادتوں(قربانیوں) کوفراموش نہیں کیاہے بلکہ ہرسال 6 نومبرکادن اپنے ساتھ خونچکاں یادوں کوتازہ کرواتاہے ۔اس وقت کے چندفرقہ پرست ،خودغرض ،ناعاقبت اندیش اوراستحصالی عناصر نے جموں کی ڈیموگرافی تو تبدیل کی لیکن فسادات کے دوران حادثاتی طورپر محفوظ رہنے والے جموں کے مسلمانوں کے اذہان پر بھی ایسے گہرے نقوش ثبت کئے کہ ان کی پرچھائیاں اوراثرات موجودہ نسل آج تک محسوس کررہی ہے۔ دُنیاکی بدترین نسل کشی کے حوالے سے ’’دی وائراُردو‘‘کے ایک صحافی نے 21 اکتوبر 2020 کوشائع اپنی ایک رپورٹ میں لکھاہے کہ ’’کچھ برس قبل دہلی میں ایک پروگرام کے دوران میں نے جب دی ٹائمز لندن کی10اگست 1948کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس نسل کشی میں دو لاکھ37ہزار افراد کو ہلاک کردیاگیا تھا، تو سب کا یہی سوال تھا کہ اتنا بڑا قتل عام آخر تاریخ اور عام معلومات سے کیسے یکسر غائب ہے؟‘‘

تاریخ کی اوراق گردانی سے یہ پتہ چلتاہے کہ 1941 میں جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی32 لاکھ جبکہ ہندوؤں کی آبادی محض آٹھ لاکھ تھی۔وادی کشمیر میں مسلم آبادی93 فیصد جبکہ جمو ں میں 69فیصد تھی۔کہاجاتاہے کہ فسادات کے بعدجموں خطہ میں مسلمانوں کی تعداد31فیصدرہ گئی تھی جوکہ پہلے 69 فیصدتھی۔

’’دی وائیراُردو‘‘مزیدلکھتاہے کہ ’’کشمیر کے ایک سابق بیوروکریٹ خالد بشیر کی تحقیق کا حوالہ دیکر ٹائمز آف انڈیا کے کالم نویس سوامی انکلیشور ائیر اور معروف صحافی سعید نقوی نے بھی جب جموں قتل عام کو کالم کا موضوع بنایا، تو کئی تحقیقی اداروں میں تہلکہ مچ گیا۔مگر جلد ہی اس پر مباحثہ کو دبادیا گیا۔ جدید تاریخ کی اس بدترین نسل کشی پر تعصب اور بے حسی کی ایسی دبیز تہہ جم چکی ہے کہ کوئی یقین ہی نہیں کر پارہا ہے‘‘۔

درج بالاحقائق سے ایسامعلوم ہوتاہے کہ شاید مورخین نے بھی تعصب اورتنگ نظری سے کام لیاہے لہذافسادات 1947؁ء میں شہیدہوئے مسلمانان جموں (بیشترتعدادکاتعلق گوجربکروال طبقہ سے تھا)کی تعداداوراس کے محرکات آج بھی غیرجانبدارانہ تحقیق کے طلبگار ہیں۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ 1947 میں جموں خطہ کے مسلمان ایک سازش کے تحت سیاسی ،معاشی اورسماجی طورپرکمزورکئے گئے تھے لیکن اس کے بعدجوجمہوری حکومتیں جموں وکشمیرمیں قائم ہوئیں اُنہوں نے بھی بالعموم جموں کے مسلمانوں کے مسائل کی اندیکھی کی اوربالخصوص 1947 ؁ء میں شہیدہونے والے شہیدوں اورپاکستان ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی جائیدادوں کاتحفظ نہیں کیا۔اتناہی نہیں کسٹوڈین اراضی کوکوڑیوں کے داموں پربلاتفریق مذہب وملت لوگوں کوالاٹ کرنے کاسلسلہ بھی جاری رکھااورباقی ماندہ جموں کے مسلمانوں کے زخموں پر مرہم پٹی کرنے کے بجائے انہیں پریشان کرنے کے ساتھ شہیدان ِجموں کابھی احترام نہیں کیا۔اس کے علاوہ وقف جائیدادوں کے تحفظ کے سلسلے میں بھی خاطرخواہ اقدامات نہیں اٹھائے ۔

یہ بدقسمتی نہیں تواورکیاہے کہ1947؁ء کے شہدا ئے جموں اورپاکستان ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی پراپرٹی کوتحفظ دینے کیلئے قوانین نہیں بنائے گئے۔ہوناتویہ چاہیئے کہ تھاکہ ان جائیدادوں کومالی طورناآسودہ اورکمزورمسلمانان ِجموں کے نام الاٹ کیاجاتا۔کشمیری قیادت نے ایک طرف کسٹوڈین اوروقف املاک کاتحفظ نہیں کیااوردوسری طرف غیرمسلموں کے نام یہ جائیدادیں الاٹ کیں اورمختلف جگہوں پردیگرمذاہب کے لوگوں نے جبری قبضہ کرنے میں کوئی کسرباقی نہیں چھوڑی ۔جس کااندازہ ’’دی وائراُردو‘‘میں شائع رپورٹ کے مطابق معروف صحافی مزمل جلیل کی تحقیق سے لگایاجاسکتاہے کہ
’’ جموں خطے میں میں 3144کنال وقف زمین غیر قانونی قبضہ میں ہے، جس میں کئی قبرستان، رنبیر سنگھ پورہ کی جامع مسجد، چاند نگر کی زیارت ، مڑ ھ تحصیل میں وقف کونسل کی 460کنال کی زمین ہے، جس کو محکمہ تعلیم نے ہتھیایا ہے ۔ چاند نگر میں پیر بابا کی زیارت کے احاطہ پر ایک غیرمسلم شخص نے قبضہ کیا ہے۔تحصیل سانبہ کے تھلوری گجران میں 49کنال قبرستان پر ایک مندر اور اسکول بنایا گیا ہے۔اس کے علاوہ 65کنال زمین پر پولیس نے ٹریننگ اسکول تعمیر کیا ہے۔ ریہاڑی کی 49کنال قبرستان کی زمین پر فوج کا قبضہ ہے۔ وقف کونسل کی طرف سے بار بار نوٹس دینے کے باوجود فوج اس کو خالی نہیں کر رہی ہے۔ اس قبرستان کا ایک قطعہ حکومت نے ایک بیوہ ایودھیا کماری کو عطیہ کردیاہے۔ وقف کونسل کی اجازت کے بغیر ہی60کنال کی زمین پولیس کو دی گئی ہے۔جموں میونسپل کارپوریشن نے قبرستان کے ایک حصے پر بیت الخلا تعمیر کروائے ہیں۔تحصیل سانبہ کے لیکی منڈا علاقہ میں وقف کی98کنال زمین ضلع سینک بورڈ کے حوالے کی گئی ہے۔ چنور گاؤں میں20کنال زمین بھی پولیس کے تصرف میں ہے۔تحصیل اکھنور کے مہر جاگیرمیں 65کنال قبرستان پر مقامی افراد نے مکانات تعمیر کیے ہیں۔ اسی طرح پیر گجر میں بھی پولیس نے وقف کی37کنال زمین ہتھیا لی ہے‘‘۔

جموں وکشمیرکے قانون سازاداروں اورانتظامیہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ وقف اورکسٹوڈین جائیدادوں کے تحفظ اورانہیں مسلمانوں کے نام ہی الاٹ کرنے کاقانون بنائیں ۔ آخرمیں یہی کہناچاہوں گاکہ بے شک فسادات 47؁ء کوگزرے سات دہائیاں گذرچکی ہیں لیکن آج بھی چندفرقہ پرست عناصرجموں کے مسلمانوں کاقافیہ حیات تنگ کرنے اوراُن پرفسادات کی تلوارلٹکائے رکھنے کاکوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے جوکہ نہایت ہی افسوسناک بات ہے۔تاہم حوصلہ افزابات یہ ہے کہ جموں شہرکے لوگوں نے ہمیشہ ہندومسلمان بھائی چارے کوفروغ دیاہے اوروہ ہربارفرقہ پرستوں کی مذموم سازشوں کوناکام بناتے رہے ہیں اورآئندہ بھی یہی توقع کرتے ہیں۔مسلمانان جموں کویہ پیغام دیناضروری سمجھتاہوں کہ وہ اپنے آپ کومضبوط لائحہ عمل کے تحت تعلیمی، مالی،معاشی اورسیاسی اعتبارسے مضبوط کریں ۔اﷲ تعالیٰ سے اُمیدکامل رکھتاہوں کہ وہ جموں کے مسلمانوں کی حفاظت فرمانے کے ساتھ ساتھ انہیں فہم وفراست عطافرماکرانہیں سرخروفرمائے گا۔
 

Tariq Ibrar
About the Author: Tariq Ibrar Read More Articles by Tariq Ibrar: 64 Articles with 58060 views Ehsan na jitlana............. View More