آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے‘ کی کالم نگار نسیم انجم

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے‘ کی کالم نگار نسیم انجم
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
خاتون کالم نگاروں میں نسیم انجم کا نام معروف اور معتبر ہے۔انہوں نے 8اگست2020ء کو اپنے کالموں کا مجموعہ ”آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے“ارسال کیا۔ مَیں نے زاہدہ حنا کی کالم نگاری پر اپنا مضمون مکمل ہی کیا تھا، جس میں نسیم انجم کا ذکر بھی آیا، بات تازہ تازہ تھی سوچا کہ نسیم انجم کی کالم نگاری پر بساط بھر کچھ لکھ دوں۔ نسیم انجم سے پہلی ملاقات کراچی پریس کلب میں ہونے والی ایک ادبی محفل میں ہوئی، جس میں انہوں نے بھی اظہار خیال کیا اور مجھے بھی کچھ کہنے کا شرف حاصل ہوا۔ان کا مجموعہ ’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے‘ ایک خوبصورت اورضخیم مجموعہ ہے جس میں 75سے زیادہ کالم ہیں،مجموعہ میں مختلف اہل قلم کی کالموں کے بارے میں رائے کے علاوہ انہوں نے جن احباب کے انٹر ویوکیے ان کی تفصیل، سماجیات کے تحت 41مضامین بھی مجموعے کا حصہ ہیں۔اس مجموعی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں صرف ان کے وہ کالم ہیں جو روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہوئے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے ایکسپریس میں کالم نگاری شروع کی اور تاحال اسی میں کالم نگاری کے جوہر دکھارہی ہیں۔ نسیم انجم کراچی کی علمی ادبی حلقے کی جانی پہچانی شخصیت ہیں، استاد ہیں اور لکھاری بھی۔ ان کے لکھنے کے مطابق وہ گزشتہ 20سالوں سے کالم لکھ رہی ہیں اور 2000 سے ایکسپریس اخبار میں مستقل مزاجی سے لکھ رہی ہیں۔ اس اعتبار سے وہ واقعی ایک سینئر اور مستند کالم نگار ہیں، ہفتہ میں ایک کالم لکھتی ہیں، ان کے موضوعات جن پر وہ کالم نگاری کررہی ہیں دیکھ کر احساس ہوا کہ نسیم انجم نے جن موضوعات کو اپنا موضوع بنایا وہ عام طور پر وہی ہیں جن پرمیرے علاوہ دیگر کالم نگار لکھ رہے ہیں جیسے سیاسیات، ادبیات، سماجیاے،شخصیات اور کتاب اور صاحبِ کتاب وغیرہ۔ کالم نگاروں کے موضوعات عام طور پر اسی قسم کے ہوتے ہیں، البتہ استاد،نثر نگار کی تحریر یں ادبی موضوعات، کتاب اور صاحبِ کتاب زیادہ ہوتی ہیں۔11ستمبر2020کو نسیم انجم کا جو کالم اخبار ایکسپریس اخبار کی زینت بنا ہے وہ ایک ادیب و شاعر کی تخلیق ہے اتفاق ہے کہ میں چند دن قبل ہی اس کتاب پر اظہاریہ تحریر کرچکا ہوں۔اکرم کُنجاہی صاحب کی تصنیف ”نسائی ادب اور تانیثیت“ان کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے نسائی ادب کے حوالے سے معروف شاعرات اور فکشن نگارخواتین کے معاشرتی مسائل سماجی ناانصافی، رسم و رواج کے نام پر ظلم و زیادتی اور جنسی گھٹن کو اپنا موضوع بنایا ہے۔نسیم انجم نے کتاب اور صاحبِ کتاب کے بارے میں تفصیل سے خوبصورت انداز سے لکھا ہے۔
نسیم انجم تعلیم کے علاوہ سیاسیات کی طالبہ بھی رہی ہیں، پیشہ صحافت و درس و تدریس، افسانہ نگار، ناول نگار، تنقید نگار، مترجم اور کالم نگار تو وہ مستند ہیں۔ افسانوں میں دھوپ چھاؤں، آج کا انسان، گلاب فن اور دوسرے افسانے۔ جب کہ ناولوں میں کائنات، نرک، پتوار، آہٹ، سرِبازارر قصاں، تنقیدی ادب میں خاک میں صورتیں اور اردو شاعری میں تصور زن، فضا اعظمی کے فلسفہ خوشی‘ کا تجزیاتی مطالعہ شامل ہیں، ان کے ناول اور افسانوں کے مجموعے گلاب فن اور دوسرے افسانے کا سندھی زبان میں ترجمہ ’ہک وک جو سفر‘ کے عنوان سے ہوچکا ہے۔ اسی طرح ان کے ناول نرک کا انگریزی ترجہ off the Pair daizeکے عوان سے منظر عام پر آچکا ہے۔ نسیم انجم کے حوالے سے ایک قابل تعریف عمل ان پر جامعات میں ایم اے، ایم فل کی سطح پر تحقیق کا ہونا ہے۔ ان پر کئی جامعات میں مقالات لکھے گئے۔ کسی بھی ادیب کے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہوتا ہے کہ وہ خود تو لکھتا ہی ہے لیکن اس کی تحریر کو جامعات کی سطح پر تحقیق کا موضوع بنایا جائے۔ ادب کی تخلیق میں نسیم انجم کا سفر جاری و ساری ہے،خوشی کی بات یہ ہے کہ مستقبل قریب میں ان کی کئی تصانیف منظر عام پر آنے والی ہیں۔
لمحہ موجود میں پرنٹ میڈیا میں کالم اور برقی میڈیا میں تجزیوں اور تبصروں کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ معروف ادیب و کالم نگار زاہدہ حنا کے مطابق ”کالموں کو جمہوری دنیا میں نہایت اہمیت دی جاتی ہے اور وہاں کے حکمران اپنے اپنے ملکوں کے اہم کالم نگاروں کو پڑھتے ہیں تاکہ اپنی پالیسیاں بنانے میں ان کی رائے کو مد نظر رکھیں کیونکہ وہ ان کی تحریروں کو زبان خلق، تصور کرتے ہیں“۔یہ رائے ایک معروف لکھاری، افسانہ نگار اور کالم نگار کی ہے جنہیں کالم نگاری کرتے ہوئے لمبا عرصہ ہوچکا ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان میں بھی کالم نگاروں، تجزیہ کاروں اور تبصرہ نگاروں کی رائے کو متعلقہ ارباب اقتدار زبان خلق تصور کرتے ہیں یا نہیں۔موجودہ حکمراں عمران خان صاکے بارے میں یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ ٹی وی کے تبصرے اور تجزیے دیکھتے یا سنتے ہیں، اس بات کا اشارہ انہوں نے ہی کئی بار اپنی گفتگو میں دیا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ تمام تو نہیں چند کالموں پر بھی نظر ڈال لیتے ہوں۔ جنرل پرویز مشرف کے بارے میں بھی یہی رائے تھی کہ وہ تبصروں، تجزیوں، کالموں کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے بارے میں یہ بات معلوم ہوئی تھی کہ وہ انگریزی اخبارات کا مطالعہ کرتے تھے دیگر حکمرانوں کے بارے میں اس حوالے سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ گمان ہے اور پاکستان کے معروضی حالات کی روشنی میں 70سال میں حکمرانی کرنے والے حاکموں کے بارے میں خیال ہے کہ انہوں نے زیادہ تر اپنے مشیروں، وزیروں، حاشیہ برداروں کی آرا کو ہی اہمیت دی اور اپنی تمام تر صلاحیت اس امر پر مرکو زرکھی کہ اقتدار کسی بھی طرح قائم رہے اور طویل ہوجائے۔ ان کی اس خواہش اور کوشش کی وجہ یہ بنی کہ انہوں نے ملک میں ترقی خاص طور پر تعلیم پر توجہ نہ دی۔
کالم نگاری کی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اردو میں کالم نگاری کا آغاز اخبار ”اودھ پنچ“ سے 1877 میں ہوا۔سجاد حسین نے اس اخبار میں فکاہیہ کالم لکھنا شروع کیے۔یہ کہا جاتا ہے کہ اردو میں فارسی کی ملاوٹ سے 1731ء میں جعفر زٹلی نے طنز و مزاحیہ شاعری کی طرز پر فکاہیہ کالم لکھیں۔ منشی سجاد کے علاوہ کالم نگاری کرنے والوں میں تربھون ناتھ ہجر، رتن ناتھ سرشار، مچھو بیگ، ستم ظریف، جوالا پرشاد برق، نواب سید محمد آزاد، منشی علی احمد شوق اور اکبر الہ آبادی شامل تھے۔ اودھ پنچ کے بعد مولانا ابواکلام آزاد نے ہفت روزہ الہلال جاری کیا، وہ اس اخبار میں فکاہیہ کالم لکھتے رہے، 1903ء میں ظفر علی خان کے والد مولوی سراج الدین نے لاہور سے ”زمیندار“ جاری کیا،سراج الدین کے بعد مولانا ظفر علی خان اس کی ادارت کے ذمہ دار ہوئے، 1920میں عبد المجید سالک بھی زمیندار سے منسلک ہوگئے اور فکاہیہ کالم ’افکار و حوادث‘ کے نام سے لکھنے لگے، یہ سلسلہ بیس سال تک جاری رہا۔ زمیندار میں حاجی لق لق کے نام سے بھی زمیندار میں فکاہیہ کالم شائع ہوئے۔ چراغ حسن حسرت نے کلکتہ سے نئی دنیا میں کولمبس کے نام سے کالم تحریر کیے، لاہور سے شیرازاخبار جاری ہوا، ان کے بعد خواجہ حسن نظامی، حاجی لق لق، مولانا محمد علی جوہر کامریڈ اور ہمدرد اخبار نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ ادبی طنز و مزاح لکھنے والوں میں ملا رمزی، شوکت تھانوی، مرزا فرحت اللہ بیگ،مجید لاہوری، سعادت حسن منٹو، مشفق خواجہ جو خامہ بگوش کے قلمی نام سے فکاہیہ کالم لکھتے رہے۔ اس دور میں ہمیں کسی خاتون کالم نگار کا نام نہیں ملتا۔خطوط نگاری یا مضامین کے حوالے چند خواتین کے نام ضرور ملتے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد بشریٰ رحمن کا نام سامنے آتاہے جن کا تعلق بہاولپور سے ہے ادب کی مختلف اصناف جیسے ناول نگاری کے ساتھ ساتھ کالم نگاری بھی کرتی رہی ہیں۔ ’لگن‘ کے نام سے انہوں نے ناول بھی لکھا۔ عملی سیاست میں بھی حصہ لیا۔ 1985-1990 پنجاب اسمبلی اور 2002-2013 قومی اسمبلی کی رکن رہیں۔بشریٰ رحمن روز نامہ جنگ میں ”چادر چاردیواری اور چاندنی“ کے عنوان سے کالم لکھا کرتی تھیں۔ کشور ناہید کا نام بھی ادب کے ساتھ کالم نگاری میں معروف ہے، وہ بھی روزنامہ جنگ میں کافی عرصہ سے کالم لکھ رہی ہیں۔زاہدہ حنا تما م خواتین کالم نگاروں میں سینئر کالم نگار کہی جاسکتی ہیں وہ1967ء سے کالم نگاری کے سفر پر رواں دواں ہیں۔ ان کے کالموں کا مجموعہ ”امیدِ سحر کی بات سنو“کے عنوان سے 2011 ء میں شائع ہوا۔ کالم نگاری کے میدان میں متعدد خواتین بھی اخبارات میں کالم نگاری کرتی نظر آتی ہیں، بعض مستقل مزاجی سے کالم نگاری کررہی ہیں، بعض اپنے ذوق کی تسکین کے لیے، بعض کا پیشہ صحافت ہے اور کچھ اپنی جماعت کے لیے کالم لکھ رہی ہیں۔ تما م ہی خواتین اپنے اپنے طور پر کالم نگاری کا حق احسن طریقے سے ادا کررہی ہیں ان میں نسیم انجم کا نام سینئر اور مستند خاتون کالم نگارکے طور پر لیا جاسکتا ہے۔
’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے‘ میں پہلا کالم پاکستان کے اولین وزیر اعظم اور قائد اعظم محمد علی جناح کے دستِ راست اور ساتھی نوابزادہ لیاقت علی خان پر ہے۔ یہ کالم 16اکتوبر ان کے یوم شہادت پر تحریر کیا گیا۔ کالم لیاقت علی خان پر مختصر لیکن عمدہ تحریر کہی جاسکتی ہے۔ شخصیات کے حوالے سے متعدد کالم مجموعے کا حصہ ہیں، جیسے بابائے اردو مولوی عبد الحق، غالب، صبا اکرم، ڈاکٹرجمال نقوی، فیض احمد فیض، امیر حسن صدیقی، شفیق احمد شفیق اور دیگر شامل ہیں۔ کتابیں اور کتابوں کے اجراء کی محفلوں کی روداد بھی کالم کے طور پر بیان کی گئیں ہیں۔ انٹر ویوڈاکٹر سلیم اختر، پروفیسر سحر انصاری، نند کشوروکرم، ڈاکٹر خالد ندیم، ستیہ پال آنند، زیب اذکار حسین سے مکالمے مجموعہ کا جاندار گوشہ ہے۔ سماجیات کے حوالے سے 41مضامین ہیں جو دلچسپ اور معلوماتی ہیں جیسے محب وطن پاکستان، معرکہ بدر، عبد الستار ایدھی، بانی پاکستان، کچھ یادیں، سید نا حضرت بلال ؓ، انسان کی حقیقت، سلام ایدھی، السلام علیکم، احساس شاعر اور لہو لہو کراچی جیسے مضامین اپنے موضوع پر مختصر لیکن بنیادی معلومات کا مجموعہ ہیں۔
نسیم انجم کے سیاسی موضوعات پر لکھے گئے کالموں میں غیر جانبداری جھلکتی ہے، ان کے تبصرے صاف گوئی کے عکاس ہیں۔ان کی تحریر سے ان کے ادبی شعور کی جہلک نمایاں ہے۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے درست لکھا ہے کہ ”بسا اوقات وہ مختلف شعبوں کی نمایاں شخصیات اور اہم کتابوں کو بھی اپنے کالمز کا موضوع بناتی ہیں“۔ وہ ملکی اور عالمی دنیا کے مسائل پرحوالوں کے ساتھ ا وردو ٹوک اظہار کرتی ہیں، نازک، حساس اور سنجیدہ موضوعات پر بے خوف تبصرہ کرتی ہیں۔ ان کی تحریر میں کسی سیاسی جماعت کی جانب جھکاؤ دکھائی نہیں دیتا۔ وہ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کی
جرأت رکھتی ہیں۔وہ سیاست کو اپنا موضوع بناتی ہیں تو دوسری جانب وہ ادبی موضوعات کو بھی اپنے کالموں میں بلند مقام دیتی دکھائی دیتی ہیں۔اس کی بنیادی وجہ جو کہی جاسکتی ہے کہ وہ بنیادی طور پر ایک ادیبہ، افسانہ نگار اورناول نگارہیں۔کالم نگاری میں نسیم انجم کا یہ مجموعہ ایک اہم اضافہ اور مستند حوالہ کے طور پر ہمیشہ معتبر رہے گا۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔(17نومبر 2020ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1273991 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More