ناول اور ناولٹ کی ایک درمیانی شکل 20000 سے 50000 الفاظ
پر مشتمل ناولا novella باغِ ادب کا ایک دلنشین پھول ہے_ لیکن ہمارے ہاں
ناولا کے بجائے ناولٹ کی اصطلاح مستعمل ہے_ رنگِ ادب پبلیکیشنز کراچی کی یہ
تازہ اشاعت معروف مزاح نگار اور بھرپور مترجم جناب ابو الفرح ہمایوں کا طبع
زاد " فسانۂ بادل دالبندینی" بھی ایسا ہی ایک ناولا ہے جو دو گرائیں دوستوں
بادل اور کالے خان کے عشق و محبت کی دلسوز کہانی ہے۔۔۔ناولا کے نام اور سر
ورق میں ایک عجیب سی جاذبیت ہے جو آپ کو کھینچ کھینچ لیتی ہے_
اِس بیانیہ کہانی کی ابتداء شہر دالبندین کی تاریخ سے ہوتی ہے جو معلوماتی
بھی ہے اور افسانوی بھی_ جلد ہی عروس البلاد شہرِ کراچی جلوہ افروز ہوتا ہے
جو دونوں دوستوں کے عشقِ جانانہ کی جنم بھومی ہے...جہاں کی فرحت جہاں اور
نرگس ان کی زہرہ جبینیں...کہانی میں آہستہ آہستہ دلچسپی کا عنصر رواں دواں
ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مصنف کا فطری جوہرِ مزاح بھی محوِ خرام ہوتا
ہے_ یہ دھیما دھیما سا مزاح کہانی کو آگے بڑھانے اور قاری کو اپنی گرفت میں
لے لینے میں کامیاب و کامران ہے_ فکر و غم کے اِس زمانے میں قارئین کے لئے
مسکراہٹ کا خوب سامان ہے جو تا دیر ساتھ رہتا ہے اور پھر...
اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
صفحۂ ہستی پر قصۂ عشق اور اِس کا انجام لکھا چلا آ رہا ہے...کسی کو پا لینے
کی دھن...جتن در جتن...تعصب و انتقام...یہ ناولا اِسی طرح کے معاشرتی رویوں
اور مسائل کو اجاگر کرتا ہے_ کرپشن کے ناسور پر بھی عمدہ انداز میں ایک
مختصر واقعہ زیبِ داستاں کیا گیا ہے جو کہ ایک قصائ اور اس کی بیٹی کے
درمیان مکالمے کی شکل میں موجود ہے_صاحبِ کتاب کی سلامتِ فکر نے معاشرے میں
سرایت گورے رنگ کی 'فضیلت' کو بھی بزبانِ کردار ہدفِ تنقید بنایا ہے_کہیں
کہیں ناصحانہ رنگ بھی جھلک جاتا ہے_
موجودہ زمانے میں بےحیائ نے جو بڑے بڑے سانحے جنم دئے ہیں ان میں مرد میں
ایک مخصوص بےغیرتی کا ظہور ہے گو کہ ایسا خال خال ہے_ یہاں پہنچ کر کہانی
میں ڈرامائی اور فلمی انداز سا آ جاتا ہے....ذہن کے پردے پر تصاویر دوڑنے
لگتی ہیں_ واقعات ثابت کرتے چلے جاتے ہیں کہ تقدیر انسان کو کہاں سے کہاں
پہنچا دیتی ہے اور بہار آتے آتے کہیں کھو جاتی ہے_
اِس ناولا کی ایک منفرد خوبی جابجا عمدہ اشعار ہیں_ مناسب تھا کہ شوقین اور
متجسس قارئین کے لئے حواشی میں فارسی اشعار کا ترجمہ بھی پیش کر دیا جاتا_
زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہانِ من
ترجمہ _میرے دوست کی زبان ترکی ہےلیکن میں ترکی نہیں جانتا...کیا ہی اچھا
ہو کہ اس کی زبان میرے منہ میں ہو_ منقول
امید ہے کہ یہ ہلکا پھلکا ناولا قارئین کو مقصد میں اہم اور اندازِ تحریر
میں دلچسپ و شگفتہ محسوس ہو گا_
|