کوئی سیکولر نہیں !

1951کی بات ہے جب ملک میں پہلے پارلیمانی انتخابات ہوئے تھے تو جن سنگھ جو اس وقت بی جے پی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کے محض 3 اراکین پارلیمان کامیاب ہوئے تھے ۔ اس وقت پارلیمان میں پہنچنے والے شام پرساد مکھرجی، درگاچرن بینرجی اوراوما شنکر ترویدی جن سنگھ سے منتخب ہونے والے تین اراکین پارلیمان تھے۔ اسوقت شاید ہی کسی نے سوچا ہوگا کہ یہ 3 افراد والی سیاسی جماعت ایک دن بی جے پی بن کر ملک میں حکومت کریگی اورریاستوںمیں اپنادبدبہ قائم رکھے گی۔ کوئی بھی اس تعلق سے گمان بھی نہیں کرسکتا ہے کہ جن سنگھ ملک کو قابو میں کرنے والی ایک مضبوط پارٹی بن کر ابھرے گی اور100 سالوں تک اس ملک کی نمائندگی کرنے والی کانگریس کا صفایا کریگی۔دراصل جن سنگھ یعنی بی جےپی کی کامیابی کے پیچھے نہ تو انکے عوامی مفاد کے کام وکاج ہیں نہ ہی 15 بیس سال پہلے پارٹی کے حق میں کوئی اچھا کام کیا گیا ہو۔ درحقیقت اس پارٹی کی کامیابی کے پیچھے اسکی قوم ہے جنہوں نے اس پارٹی کو آگے لانے اور اقتدار پر پہنچانے کیلئے ہر لمحہ اورہر وقت کوشش کی ہے۔ کبھی بھی بی جے پی کے جن سنگھ سے جڑے ہوئے لوگوں نے یہ محسوس نہیں کیا کہ ہماری نمائندگی صرف 2 یا 3 افراد پر مشتمل ہے بلکہ انہوں نےاس تعلق سے یہ سوچا کہ آج جو چھوٹی کوشش ہماری جانب سے ہورہی ہے وہ کل بڑی کامیابی ثابت ہوگی۔ انہوں نے جیسا سوچا تھا ویسا ہی آج ہوا ہے۔ آج ملک کے پارلیمان نے 303 اراکین پارلیمان ہیں ۔ لیکن دوسری جانب مسلمانوں کی سوچ دیکھیں ، ملک کی آزادی میں جتنا اہم کردار کانگریس پارٹی نے ادا کیا تھا اتنا ہی اہم کردار مسلم لیگ(آل انڈیا مسلم لیگ) نے ادا کیا۔ لیکن اس پارٹی کو ختم کرنے میں خودمسلمانوں نے اہم رول ادا کیا اور اس پارٹی کو آہستہ آہستہ ختم کرنے کی پہل کی جس کی وجہ سے آج مسلم لیگ بہت ہی محدود مقامات پر رہ چکی ہے۔ اسی دوران ہم دیکھ رہے ہیں کہ کسطرح سے مجلس اتحاد المسلمین کو لوگ ٹارگیٹ کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیںکہ مجلس کو صرف حیدرآباد میں ہی رہنا چاہئے تھا، کیا ضرورت تھی کہ مجلس اتحاد المسلمین کو حیدرآباد چھوڑ کر دوسری ریاستوں میں اپنی قسمت آزمائی کرنی تھی۔ مجلس کو صرف حیدآباد کی سیاست میں اپنا رنگ دکھانا تھا۔ یقیناً مجلس نے جو کیا ہے وہ بھلے ہی ان لوگوں کیلئے قابل قبول نہیں جو کسی خاص سیاسی جماعت سے جڑے ہوئے ہیں یا پھر سیکولرزم کی بنیا د پر سیاست کرتے آئے ہیں۔ لیکن آج سیکولرزم کا مفہوم ہی بدل چکا ہے۔ کوئی سیکولرزم کی بنیادوں پر سیاست نہیں کررہا ہے۔ بی جے پی ہندوتوا کو لیکر سیاست کررہی ہے توکانگریس سیکولرزم کی بنیاد پر دکھاوا کرتے ہوئے سافٹ ہندتوا کو اپنارہی ہے، اسکا اعتراف خود کانگریس کے سینئر لیڈر نے کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر مجلس اتحادالمسلمین سیاست نہ کرےتو کیوںنہ کرے؟ کیا مجلس سیاسی جماعت نہیں ہے، کیا صرف اویسی ہی سیکولرزم کو بچانے کے ٹھیکدار ہیں ، کیا اویسی کوگھر میں ہی بیٹھ کر سیاسی بیان بازی کرنی ہے۔ جب کانگریس اورآرجی ڈی کو ذات پات کی بنیاد پر ووٹ مل رہے ہیں تو مسلمان کیوں انہیں ووٹ کاٹو، بی جے پی کی بی ٹیم اورآرایس ایس کے ایجنٹ کا لقب دے رہے ہیں۔ آرجے ڈی یا کانگریس میں شامل ہندوئوں کو تو بی جے پی ان الفاظ سے نہیں نواز رہی ہے بلکہ وہ چاہتے بھی ہیں کہ انکی قوم کے لوگ کسی نہ کسی سیاست جماعت سے نمائندگی کرے اور آخر میں ایک جگہ آکر متحدہوجائیں۔ لیکن مسلمانوں کی وہ سوچ انکا مذہب ہی اتحاد، اطاعت اورشجاعت کے ساتھ سیاست کا حکم دیتا ہے وہ سیاسی منافرت اورمنافقت سے لبریز ہوچلیں ہیں۔ مسلمانوں کیلئے کانگریس کے غلام نبی آزاد ہی ایک مضبوط مثال ہیں جنہوں نے پوری عمر کانگریس کی غلامی کی اورآخر میں راہ گاندھی جی نے کہا کہ آپ بی جے پی کے ایجنٹ ہیں ، تو اندازہ لگائیں کہ غلام نبی آزاد جیسے قد آور لیڈر کی یہ حالت ہے تو چندی چور لیڈروں کی کیا حالت ہوگی۔ مسلمانوں کو سمجھنا چاہئے کہ کوئی سیاسی جماعت بھلے وہ اپنے آپ کو سیکولر کہے وہ سیکولر نہیں ہوتی بلکہ اپنے مفادات پر پردہ ڈالنے کیلئے سیکولرزم کا چولا پہنی ہوئی ہوتی ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو بی جے پی بھی سیکولر ہے ، اس نے بھی مختارعباس نقوی، شاہ نواز حسین، ایم جے اکبر، عبدالعظیم ، وسیم رضوی جیسے مسلمانوں کو اپنے ساتھ رکھا ہے۔ فرق اتنا ہے کہ انکے پاس لیڈراتنے ہی ہیں جتنے کہ کانگریس میں ، البتہ انکے پاس مسلم کارکنوں کی کمی ہے جس کی وجہ سے وہ سیکولرزم کے معاملے میں مار کھاگئی ہے۔ کوئی سیاسی جماعت سیکولرنہیں ہوسکتی ، ہر ایک کا اپنا ایجنڈہ ہے، بی جے پی ہندوتواکا ایجنڈہ لیکر کام کرتی ہے تو سی پی آئی کمیونسٹ کا ایجنڈہ لیکر کام کرتی ہے۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کا ایجنڈہ ہوتا ہے اوروہ اسی پر کام کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو اب زیادہ سیکولرزم کے مسلک پرکام کرنے کی ضرورت نہیں ، اب وہ بھی سنگھ پریوار کی طرح اپنے اصولوں پر کام کرنے لگیں گے تو تب جاکر کچھ تبدیلی آسکتی ہے اورقیادت مضبوط ہوسکتی ہے۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197663 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.