اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی ؟

امریکی انتخاب میں جو بائیڈن کی غیر حتمی اور غیر سرکاری کامیابی کے بعد ایک ہفتہ ہوا چاہتا ہے لیکن ریاستہائے متحدہ امریکہ میں پسری خاموشی فلم شعلے میں اے کے ہنگل کا مکالمہ ’اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی ‘ کی یاد دلاتا ہے۔ انتخابی نتائج پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گبر سنگھ کی مانند امریکی جمہوریت کا جنازہ اٹھا دیا ہے اور پوری قوم صدمے میں مبتلا ہے۔ انتخابی نتیجے والے دن علی الصبحٹرمپ نے پوسٹل بیلٹ کو بلاوجہ غیر قانونی ووٹ قرار دے کر لکھا کہ ’مبصرین کو گنتی کے کمرے میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ میں نے انتخاب جیت لیا ہے۔ مجھے 71،000،000 قانونی ووٹ ملے ہیں۔ انتخابی عمل میں دھاندلی کی گئی ہے جو ہمارے مبصرین کو دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ لاکھوں افراد کو پوسٹ کے ذریعے ووٹ ڈالنے والے بیلٹ پیپر بھیجے گئے حالانکہ انھوں نے یہ مانگے بھی نہیں تھے۔‘ اس طرح کی اوٹ پٹانگ بیان بازی کے بعد انہوں نے دوپہر میں اعلان کردیا کہ ’میں انتخاب جیت گیا ہوں‘۔

امریکہ کی 244 سالہ تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ الیکشن ہارنے کے بعد بھی کوئی صدر قصر ابیض سے نکلنانہیں چاہتا ۔ امریکی جمہوریت میں اقتدار ایک فرد سے دوسرے فرد تک قانون کے تحت پُرامن انداز میں منتقل ہوجاتا تھا لیکن شاید اس بار ایسا نہ ہو۔ انتخابی نتائج کے بعد صدر ٹرمپ خود تو اپنے گھر سے 25 میل دور گولف کھیلنے نکل کھڑے ہوئے لیکن ان کی انتخابی مہم کی ٹیم نے بیان جاری کیا کہ ذرائع ابلاغ میں اپنے دوستوں کی مدد سے بائیڈن جھوٹ بول کر خود کو فاتح قرار دے رہے ہیں ۔ وہ سچ سے پردہ اٹھانا نہیں چاہتے۔اس بیان میں یہ عندیہ دیا گیا کہ ٹرمپ عدالت میں نتائج کی مخالفت کریں گے اور مختلف ریاستوں میں ووٹنگ کے عمل میں بدعنوانی کا مقدمہ دائر کریں گے۔ امریکی دستور کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس قانونی چارہ جوئی کا حق ہے اور انتخابی نتائج کو چیلنج کرنے کے لیے ٹرمپ کے پاس وافر مقدار میں وسائل بھی موجود ہیں لیکن عدالتوں میں محض الزام تراشی سے کام نہیں چلتا بلکہ شواہد کی بنیاد پر یہ ثابت کرنا پڑتا ہےکہ ’الیکشن میں فراڈ ہوا‘ ہے۔ یہ حسنِ اتفاق ہے ٹرمپ یا ان کے حامی ابھی تک کوئی ثبوت نہیں پیش کرسکے ۔

صدر ٹرمپ نے اپنی مہم کے دوران ہی یہ متنازع بیان دے دیا تھا کہ وہ’شکست تسلیم نہیں کریں گے۔‘ الیکشن کمیشن جو مرضی کہے وہ صدر کے منصب پر قائم رہیں گےکیونکہ ان کی شکست صرف چوری کی صورت میں ممکن ہے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ٹرمپ صدر برقرار رہنے پر اڑ جائیں تو کیا ہوگا؟ منتخبہ امیدوار جو بائیڈن کے پاس اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ’مجھے یقین ہے کہ ایسی صورتحال میں فوج انھیں دفتر میں رہنے سے روکے گی اور بہ آسانی وائٹ ہاؤس سے نکال دے گی۔‘بائیڈن کی یہ با ت بھی درست معلوم ہوتی ہے کہ’ انتخاب کے نتائج کیا ہوں گے؟ یہ فیصلہ امیدواروں کے بجائے ووٹرز کے کرنے کا ہے‘۔ اس لیے جب وہ کہتے ہیں کہ ’ امریکہ کی حکومت وائٹ ہاؤس میں موجود کسی بھی در انداز کو نکال باہر کرنے کی اہل ہے ۔‘ تو یہ بات صحیح معلوم ہوتی ہے۔ آج سے چار سال قبل کون یہ سوچ سکتا تھا کہ آنے والا صدر اپنے پیش رو کو گھس پیٹھیا کہے گا؟ لیکن اب یہ امکان پیدا ہوگیا ہے کہ ٹرمپ کو صدارتی رہائش گاہ سے باہرنکا لنے کے لیےامریکی مارشلز یا سیکرٹ سروس کے عملہ کو زور زبردستی کرنی پڑے۔

یہ دلچسپ صورتحال ہے کہ ایک طرف ٹرمپ یہ اعلان کررہے ہیں کہ ڈیموکریٹ امیدوار الیکشن ہار چکاہے اور دوسری جانب جو بائیڈن کی سکیورٹی کوبڑھا کر صدر کے برابر کردیا گیا ہے۔ امریکہ میں قومی سلامتی اور قانون سازی کے ماہر ین کے خیال میں اگرکوئی صدر بظاہر شکست کے بعد بھی اپنی طاقتوں کا ناجائز استعمال کرے تو اس سے جمہوری روایات تباہ ہوجائیں گی اور موجودہ حالات میں یہ غیر متوقع نہیں ہے۔ اس سے امریکہ میں فوج اور سویلین تعلقات نیز عالمی سطح پر جمہوریت کےنظریہ کونقصان پہنچے گا۔ ٹرمپ اگر کرسیٔ صدارت سے چپکے رہے تو وہ سکیورٹی فورسز کی حمایت کھودیں گے کیونکہ فوجی اہلکار کسی صاحبِ اقتدارسیاستدان سے وفاداری کا نہیں بلکہ آئین کی پاسداری کا حلف لیتے ہیں۔ امریکہ کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل مارک ملی امریکی انتخاب میں فوج کے کردار کو مسترد کر چکے ہیں ۔ ایسے میں ڈیموکریٹ امیدوار بائیڈن سے جب پوچھا گیا کہ ٹرمپ کے شکست تسلیم نہ کرنے پر ان کاکیا تبصرہ ہے تو وہ بولے ’میرے مطابق یہ باعث شرمندگی ہے۔‘ جو بائیڈن جیسے سنجیدہ اور متین شخصیت سے اس جواب کی توقع نہیں تھی لیکن اس سے معلوم ہوا کہ طاقت کا نشہ سبھی پر چڑھتا ہے ، کسی پہ زیادہ کسی پہ کم ۔

امریکی نتائج کا حتمی ا اعلان ممکن ہے 14 دسمبر کو امریکی الیکٹورل کالج کی نشست میں ہو جائے لیکن بائیڈن ابھی سے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کی تیاریاںکرنے لگے ہیں ۔ وہ عالمی رہنماؤں مثلاًبرطانوی وزیر اعظم بورس جانسن، فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں اور جرمن چانسلر اینگلا مرکلسے بھی رابطے میں ہیں۔بائیڈن نے انھیں بتایا ہے کہ امریکہ واپس آ گیا ہے۔ ہم لوٹ رہے ہیں۔ اس بیان کو سن کر ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے ان کے ملک کو یرغمال بنالیا تھا جس سے واپسی ہورہی ہے یعنی غلامی صرف غیروں کی نہیں اپنوں کی بھی ہوتی ہے۔بائیڈن کے علاوہ نومنتخب نائب صدر کاملا ہیرس بھی مستقبل کے منصوبوں پر کام کر رہی ہیں لیکن ٹرمپ کے وفادار اقتدار کی منتقلی میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عمومی خدمات اور انتظامیہ کے امریکی ادارے نے اب تک بائیڈن کو نومنتخب صدر تسلیم ہی نہیں کیا ایسے تعاون کی گنجائش ہی نہیں نکلتی ۔ ایسا اس لیے ہورہا ہے کیونکہ اب بھی صدر ٹرمپ ٹوئٹر پر لکھ رہے ہیں کہ ’ووٹوں کی گنتی میں بڑی بدعنوانی ہوئی ہے۰۰۰ ہم جیت جائیں گے۔‘ یہ اور بات ہے کہ ٹوئٹر نے ان ٹویٹس کو متنازع قرار د دے رہا ہے لیکن ٹرمپ کے اندھے بھکتوں کے لیے وہ الہام سے کم نہیں ہے۔

انتخابی نتائج کے حوالے سے خوش فہمی کا صدر ٹرمپ کےکئی حامی بھی شکار ہیں ۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیوکے خیال میں جب تمام جائز ووٹوں کو گن لیا جائے گا تو یہ ثابت ہو جائے گا کہ ٹرمپ انتظامیہ کا دوسرا دور شروع ہو گیا ہے۔اب تو ایسا لگتا ہے کہ رپبلکن پارٹی کی ہر شاخ پہ بائیڈن کا ایک مخالف بیٹھا ہے۔ مثلاً سینیٹر رون جانسن کے نزدیک بائیڈن کو مبارکباد دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔سینیٹر روئے بلنٹ کے مطابق ٹرمپ تو شاید کبھی ہارے ہی نہیں تھے۔سینیٹ میں رپبلکن رہنما مِچ مکونل پینسلوینیا جیسی کڑے مقابلے والی ریاست میںٹرمپ کے ذریعہ قانونی چارہ جوئی کی وکالت کر تےہیں۔ جہاں تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ترجمان تو صدارتی انتخاب 2020 میں جو بائیڈن کی فتح کے خلاف قانونی جنگ کو صرف ایک شروعات مانتے ہیں ۔ قصرِ ابیض میں پریس سیکریٹری بھی یہی راگ الاپتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’الیکشن ابھی اختتام سے بہت دور ہے۔ یہ ختم نہیں ہوا‘۔

دنیا بھر میں انتخابات کے بعد فوجی مداخلت کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اب تو یونیورسٹی آف پٹسبرگ کی پروفیسر کیشا بلین بھی اس بابت فکرمند ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’ ملک کی افسوسناک صورتحال کا اندازہ اس بات لگایا جاسکتا ہے کہ ہم انتخاب میں فوجی مداخلت غور کر رہے ہیں ۔چار سال قبل امریکہ میں یہ ناممکن لگتا تھا مگر پورٹ لینڈ اور واشنگٹن میں مظاہرین کے خلاف وفاقی اہلکاروں کی تعیناتی اس کے امکانات میں اضافہ کردیا ہے‘ ۔نسلی تعصب کے خلاف مظاہروں کے دوران ٹرمپ نے مظاہرین پر قابو پانے کے لیے فوج کی مدد لینے پر غور کیا تھا۔ وہ تو 1807 میں بغاوت کو کچلنے کے لیے وضع کردہ قانون کے مطابق فوجی اہلکاروں کی مدد سے مظاہروں پر کچلنا چاہتے تھے لیکن فوجی سربراہ نے منع کردیا۔ اس حد کوتو امریکی فوجی صدر کے حکم پر بھی عبور نہیں کرنا نہیں چاہتے اس لیے مجبوراً ٹرمپ نے نیشنل گارڈ کے غیر فوجی دستوں کا استعمال کرنا پڑا جو داخلی قومی سلامتی کے محکمہ کو جوابدہ ہے۔

فوج نے اگر صدر کا ساتھ چھوڑ دیا تو ٹرمپ اقتدار میں رہنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ یہ سوال اہم ہے ۔ صدر ٹرمپ اپنے حامیوں کے زیر اثر محکمۂ قانون کے ذریعہ ایک صدارتی حکمنامہ جاری کرکے انتظامیہ کو اس متنازع انتخاب میں انہیں فاتح سمجھنے پر مجبور کرسکتے ہیں لیکن اگر20 جنوری کی شام کے بعد بھی فوج کو حکم دیا جاتا ہے کہ صدر کو سیلوٹ کرے تو وہ ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہوجائے گی کیونکہ ایک میان میں دو تلوار نہیں رہ سکتی ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھلائی اس میں ہے کہ وہ جلد ازجلد اس حقیقت کو تسلیم کرلیں کہ اقتدار کی کرسی وہ میان ہے کہ جس میں سے زنگ زدہ تلوار کو نکال کر پھینک دیا جاتا ہے اور تیز دھار والی نئی تلوار کو رکھ لیا جاتا ہے۔ یہ عمل خاموشی سے پرامن طریقہ پر نہ ہو اس میں بہت شور شرابہ بلکہ خون خرابہ بھی ہوتا ہے ۔ اس لیے امریکہ میں چھایا ہوا یہ سناٹا ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ بقول شاعر؎
یہ جو خاموشی ہے طوفان بھی ہوسکتی ہے
تیری وحشت کا یہ سامان بھی ہوسکتی ہے
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449011 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.