حسرت موہانی کی مکتوب نگاری

حسرت موہانی کی مکتوب نگاری
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
مولانا سید فضل الحسن، حسرت موہانی اردو ادب میں اعلیٰ مقام اور بلند منصب و مرتبہ پر فائز ہیں۔ وہ ’سید الا حرار‘ اور’ر ئیس المتغزلین‘ کہے جاتے ہیں۔ وہ ایک نڈر صحافی ہی نہیں بلکہ اردو صحافت کے بانی تصور کیے جاتے ہیں۔ اردو غزل کے ممتاز شاعر، شارح،تذکرہ نگار، نقاد، سیاسی رہنما ء ا ور تحریک آزادی کے صفِ اول کے رہنماؤں میں سے تھے، صاف گو اورحق پرست ہی نہیں خدا رسیدصوفی اور درویش منش انسان تھے۔حسرت موہانی پر میں ایک مضمون بعنوان ”ادب و سیاست کے شہسوارمولانا حسرت موہانی“تحریر کرچکا ہوں۔ یہاں حسرت کی خطوط نگاری کے حوالے سے کچھ لکھنا ہے۔
ادیبوں، شاعروں، دانشوروں، تخلیق کاروں کے خطوط ادبی تاریخ میں بلند مقام رکھتے ہیں۔مکاتیب میں علم و ادب کے مختلف موضوعات کے علاوہ مکتوب نگار اور مکتوب الیہ کے بارے میں اساسی اور اہم معلومات مثلاً اوصاف حمیدہ، افتادِ طبع، اسلوبِ فکر، طرزِ نگارش، علمی و ادبی دلچسپیاں اور خاص مباحت وغیرہ کے بارے میں آگاہی ہوتی ہے۔ ان مکتوبات میں مشاہیر علم و ادب اور محققین کے لیے ہی نہیں بلکہ علم و نظر کے لیے بھی دلچسپ آراء اور تاثرات پائے جاتے ہیں۔ مشاہیر کے خطوط نے ان میں پائی جانے والی علمی و فکری سمت کی نشادھی کی ہے اور تحقیقی کاوشوں کے پہلوؤں کو نمایاں کیا ہے۔ مکتوبات بنیادی طور پر فی البدیہہ، برجستہ،بے ساختہ، بر محل اور اپنے دل میں چھپے جذبات، خیالات و احساسات بہ الفاظِ دیگر دل کی باتیں لکھی جانے والی تحریر ہوتی ہے جو تمام تر تکلفات سے مبرا ہوتی ہے، خط لکھنے والا جب، جہاں، جس ماحول میں اپنے مخاطب سے بلا تکلف ہم کلام ہوتا ہے تو اس کی تحریر میں بے ساختہ پن پیدا ہوجاتا ہے۔تکلف و بناوٹ سے پاک اس کی تحریرسے مکتوب الیہ ہی نہیں بلکہ عام قاری بھی اسے ذوق و شوق سے پڑھتے اور اس کا لطف لیتے ہیں۔بابائے اردو مولوی عبدالحق نے خط کو ”دلی خیالات و جذبات کا روزنامچہ اور اسرار حیات کا صحیفہ“ قرار دیا ہے۔ مکتوب نگاری کو ایک منفرد صنف اردو کا درجہ حاصل ہے۔فیض احمد فیضؔ نے شاعر ایتھل اور جولیس روزنبرگ کے خطوط سے متاثر ہوکر ایک غزل ’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے‘ لکھی۔ حسرت موہانی کی خطوط نگاری غالب یا اقبال کی طرح نہیں حسرت نے زیادہ تر جیل میں رہتے ہوئے خطوط لکھے، ان میں زیادہ ہ ہیں جو انہوں نے اپنی بیگم’نشاط النسا ء‘ کے نام ان کے خطوط کے جواب میں تحریر کیے۔ ان کے ان خطوط میں برجستگی، بے ساختگی، ساتھ ہی پریشانی کے عالم اور قید تنہائی میں لکھے گئے خطوط میں ادبی چاشنی کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ یہ خطوط بیگم حسرت موہانی کی مرتب کردہ کتاب کتاب ”نشاط النسا ء بیگم حسرت موہانی سیرت و خطوط کی روشنی میں“ نقل کیے گئے ہیں۔ راغبؔ مراد آبادی نے کہا کہ کتاب سے محبت کرنے والے صاحب ذوق اہل دانش کے خطوط بھی بڑے شوق سے پڑھتے
ہیں ؎
دل دادہ کتابوں کے ہیں جو صاحبِ ذوق
پڑھتے ہیں خطوط ‘ اہل دانش کے بشوق
حسرت نے سادہ زندگی گزاتے ہوئے دنیا میں جو نام پیدا کیا وہ بہت کم لوگوں کو نصیب ہو سکی ہے۔ان کی اسی خصوصیت نے انہیں سید الا حرار اور تحریک آزادی کے عظیم رہنما ء ہونے کا اعزاز بخشا۔ معروف دانش ور سر شار صدیقی نے انہیں ”فوق البشر“ کہا۔مشکل وقت میں صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا، جیل میں رہے تو وقت ضائع نہیں کیابلکہ ادب اور غزل میں ایسا مقام پیدا کیا کہ ”ر ئیس المتغزلین“ کہلائے۔ جیل میں کہا ہوا ایک شعر جو بے انتہا
مشہور ہے ؎
ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اِک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی
حسرت موہانی نے برطانوی سامراج کے سامنے کبھی سر نہیں جھکایا، انہیں کئی بار جیل جانا پڑا، انہیں پہلی بار 1908ء میں گرفتار کیا گیا اور دو سال کی سزا اور بصورت عدم ادائیگی جرمانہ چھ ماہ کی مزید سزا تجویز کی گئی۔چونکہ آپ جرمانہ اداکرنے سے معذور تھے اس وجہ سے ان کا نہایت نادر کتب خانہ جس میں سیکڑوں نایاب قلمی کتابیں اور کمیاب تصانیف، دیوان اور تذکرے تھے جنہیں حسرت نے انتہائی تلاش و جستجو اور صرف سے اکٹھا کیا تھا کاٹ کباڑ کی طرح نیلام کر دیا گیا۔بیگم حسرت کے مطابق ”یہ کتب خانہ ساڑھے چار ہزار کی مالیت کا تھا اور حکومت نے اسے صرف ساٹھ روپے میں فروخت کردیا“۔ حسرت کے ساتھ جیل میں عام قیدی کی مانند سلوک کیا گیا، مولانا کی قید میں اور اخلاقی مجرموں کی قید میں کوئی فرق نہیں تھا۔ ان سے دس ماہ تک
چکّی پسوائی گئی۔ اس دوران رمضان شریف کا مقدس مہینہ بھی آیا۔ آپ نے اس موقع پر یہ شعر کہا جو بہت مشہور ہوا ؎
کٹ گیا قید میں ماہ رَمضان بھی حسرت
گرچہ ساما ن سحر کا تھا نہ افطاری کا
1916ء میں حسرت کی دوبارہ گرفتاری عمل میں آئی اور مقدمہ چلا کر دو سال قید با مشقت کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا۔ جیل میں محنت مشقت، سختی، مصائب و آلام اور مظالم نے مولانا کی طبیعت میں درویشانہ شان پیدا کردی تھی۔ ان کی طبیعت میں سادگی کے ساتھ ساتھ نڈر اور دلیر انسان نے جنم لے لیا تھا۔ آپ کے ساتھ یہ مظالم ’اردو ئے معلیٰ‘ کی اشاعت اور ان میں شائع ہونے والے مضامین کی پاداش میں رواں رکھے گئے۔ اردوئے معلیٰ کے بند ہوجانے کے بعد مولانا نے سُدیشی تحریک علی گڑھ میں چلائی، ان کے اس اقدام پر مولانا شبلی نعمانی نے انہیں لکھا ”تم آدمی ہو یا جن، پہلے شاعر تھے، پھر پالی ٹیشن بنے اور اب بنیے ہوگئے“۔ 1922ء میں حسرت کو آخری بار گرفتار کیا گیا تو آپ اسی سدیشی اسٹور کے لیے فکر مند تھے۔اس بار مولانا ڈھائی سال قید میں رہے۔بیگم حسرت موہانی نے حسرت کا مثالی ساتھ دیا، وہ حسرت کی نجی زندگی کے علاوحسرت کی صحافتی، سماجی اور سیاسی زندگی میں حسرت کے ساتھ سائے کی مانند چلتی پھر تی، عملی طور پر ان کی مدد، ہوصلہ افزائی کرتی دکھائی دیتیں ہیں۔ 1916 ء میں قیدو بند کے دوران بیگم حسرت موہانی نے خطوط کے ذریعہ حسرت کی نہ صرف حاصلہ افزائی کی، ہمت بندھائی، حوصلہ دیا، حکومت کے سامنے ڈٹے رہنے کی تلقین کی، ساتھ ہی ان کا مقدمہ لڑنے
میں اہم کردار ادا کیا۔ نشاظ النسا بیگم حسرت نے اپنے ایک خط میں جب کہ حسرت للت پور جیل میں قیدمیں تھے لکھا:
”تم پر جو افتاد پڑی ہے اسے مردنہ وار برداشت کرنا، میرا یا گھر کا مطلق خیال نہ کرنا، خبردار کسی قسم کی کمزوری کا اظہار نہ ہو۔ تمہارے استقلال کی حد ہوگئی تعریف کرتی ہوں مگر افسوس کہ تم سے علیحدہ ہونے کا خیال بڑا تکلیف دہ ہے“۔
حسرت موہانی نے جیل سے نشاط النسابیگم کے خط کے جواب میں لکھا ”رومال ڈھائی آنے والے بہت رکھے ہیں۔ ایک بنڈل تو اس مکان میں تھا جو خالی کردیا دوسرا بنڈل دوکان کے اندرونی حصہ میں اصل ترکی ٹوپیوں کے کسی لمبے زرد رنگ کے ڈبے میں ہے۔ جو نکلوالینا۔بوٹ پالش بھی بہت
ہیں“۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب مولانا نے سودیشی اسٹور قائم کر لیا تھا۔
حسرت کے تحریر کردہ خطوط میں سادہ پن ہے، خلوص ہے۔ ان کے خط تحریر اور ان کی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ جیسی سادہ ان کی شخصیت تھی جو خط انہوں نے لکھے ان میں بھی سادگی کا واضح اظہار ہوتا ہے۔ حسرت کے خطوط دو موضوعات کا احاطہ زیادہ کرتے ہیں۔ ایک اپنی جیل کی زندگی، قید سے متعلق معاملات، بیگم کو مشورے دینا، اپنی خیریت کا اظہارکرنا، ساتھ ہی اپنی بیگم اور دیگر کو تسلی و تشفی بھی دیتے رہنا۔ دوسرا موضوع ان کا وہ سفر نامہ عراق جس میں انہوں نے عراق کے بارے میں لکھا،مکتوبات میں انہوں نے عراق کا سفر نامہ بیان کردیا۔حسرت اپنے خطوط میں سیاسی، سماجی حالات کا ذکر بھی کرتے ہیں، شاعری تو وہ مستقل طور پر ہی کرتے رہے۔ ان کے خطوط کا اسلوب سادہ لیکن معیاری ہوتا۔ ہر چھوٹے بڑے کو اس کے مرتبے کے اعتبار سے مخاطب کرتے۔ غالب کی پیروی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ڈسٹرکٹ جیل فیض آباد سے لکھے گئے ایک خط کا متن دیکھئے کس قدر سادگی، عام الفاظ اور جملے، لگتا
ہے کہ اپنے گھر میں بیٹھے باتیں کر رہے ہیں۔ دیکھئے حسرت موہانی کا خط بنام نشاط النساء بیگم حسرت کے نام۔
سم اللہ
السلام علیکم۔ میں پرتاب گڑھ سے فیض آباد 2فروری کو بخیریت پہنچا۔ یہاں جیلر صاحب بڑی مہربانی سے پیش آئے۔ سپرنٹنڈنٹ جیل ماشاء اللہ خان ہیں۔ان سے بھی دوسرے دن ملاقات ہوئی۔ یہاں بھی حسب دستورکھانا مجھ کو خالص ملتا ہے یعنی دودھ شکر کے علاوہ وقت پر اور گیہوں کی روٹی
اور ترکاری گھی میں پکی ہوئی۔ غرض کہ ہر طرح سے آرام ہے۔ اطمینا ن رکھنا۔ کتابیں اور اخبارات بھی حسب معمول ہیں بستر وغیرہ بھی اور سامان ضروری
مثلاً لوٹا، پیالہ سب میں اپنے پاس رکھتا ہوں۔ایک اور خط میں حسرت کچھ اس طرح رقمطراز ہوئے۔
تمہارا 30جنوری کا لکھا ہوا کارڈ مجھ کو یکم فروری کو پرتاب گڑھ میں مل گیا۔ آج 3کا لکھا ہوا کارڈپرتاب گڑھ سے واپس آ کر ملا۔ آئندہ خطوط اور اخبارات سب فیض آباد کے پتہ پر بھیجا کرنا۔ فیض آباد انگریزی میں یو ں لکھنا(Fyzabad) میرے پاس اخبار وغیرہ بہت جمع ہوگئے ہیں۔ عنقریب میں سب ایک بوری میں بھر کر واپس بھیج دوں گا۔ اس کے بعد علی گڑھ سے تذکر ہ ئ الشعراء کے لیے بہت سے دیوان منگواؤں گا۔ جن کی فہرست عنقریب روانہ کردوں گا۔ تم وہ سب دیوان ہمارے کتب خانے میں تلاش کر کے ٹرنک میں بند کر کے بذریعہ پسنجر ٹرین بھیج دینااور بلٹی معہ کنجی رجسٹری والے لفافے میں جس کے اندر کپڑا لگا ہوا ہے۔ علیحدہ بھیج دینا“۔ایڈیٹر ہندوستان کے روپے بھیجنے کا حال معلوم ہوا۔ میرا بھی شکریہ ان کو لکھنا۔ پرتاپ گڑھ ہی سے بھیج
دیا تھا۔
للت پور،16مئی 1926
مخدومی و مطاعی کل 15مئی کو میرا مقدمہ شروع ہوا مگر میں نے ابتدائی اعتراضات کیے کہ سماعت یہاں نہیں ہوسکتی علی گڑھ میں ہونا چاہیے۔ الحمد اللہ کہ مجھے بظاہر کامیابی ہوئی۔ مجسٹریٹ کچھ نہ کرسکا۔ مجبوراً دریافت حال کے یے غالباًجھانسی یا کہیں اور مسل روانہ کی ہے۔ میں ان شاء اللہ کامیاب
رہوں گا۔ آپ دعا فرماتے رہیں۔
فقط خاکسار
سید فضل الحسن حسرت موہانی
بسم اللہ ار حمن الرحیم
السلام علیکم۔ کارڈ تمہارا آج ہی پہنچا اور جتنے خطوط تم نے لکھے سب پہنچے حالات معلوم ہوئے۔ آج صبح کو میں نے لیفٹیننٹ گورنر کو تار دیا تھا کہ
مجھ کو ملنے کی اجازت دی جائے۔ اس کا جواب آگیا کہ نہیں مل سکتے۔ البتہ اگر کوئی تحریر بھیجو تو ہم غور کریں گے“۔
فقط خاکسار
سید فضل الحسن حسرت موہانی
اسی تسلسل میں حسرت کا ایک اور خط جس میں وہ گورنر کو اپنی بات سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
بسم اللہ
السلام علیکم۔کارڈ نوشتہ 11مئی کو پہنچا جواب اسی وقت لکھ رہاہوں تاکہ9بجے صبح کی ڈاک میں نکل جائے اور کل ہی تم کو پہنچ جائے۔ میں نے آج 88لفظو ں کا ایک اور تار لیفٹیننٹ گورنر کو بھیجا ہے یہ آخری ترکیب ہے۔ اگر اس کو انہوں نے منظور کر لیا تو خیر ورنہ پرسوں صبح 11بجے دن کے میرے
خلاف مقدمہ کی کاروائی یہاں سب ڈویژنل آفیسر کے آفس میں شروع ہوجائے گی پس اس کے کے لیے تیار ہوں“۔
فقط خاکسار
سید فضل الحسن حسرت موہانی
حسرت نے جیل میں رہتے ہوئے اپنی بیگم سے ہی خط و کتابت نہیں کی بلکہ دیگر احباب کو بھی خط لکھتے رہے جن میں مولانا عبد الباری فرنگی محلی، مولانا محمد علی،مولانا عبد لباری کا نام بھی آتا ہے۔ فرنگی محلی صاحب کے نام اپنے خط میں حسرت نے وضاحت کی کہ انہوں نے حکومت سے اجازت مل جانے کے بعد ہی خط و کتابت کی۔ اسی طرح مولانا حسرت موہانی کے نام کئی دیگر اکابرین نے بھی خط تحریر کیے۔اپنے ایک خط 30اکتوبر1919 میں
اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا۔
30اکتوبر1919
مخدومی السلام علیکم!
آپ کا کارڈ ملا۔ یوم دعا گزرگیا اور بظاہر حکومت پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوا اور بغیر کسی عملی روانی کے عمل نہیں ہوتا۔ میں نے جو تجویز بائیکاٹ پیش کی تھی اس پر عمل کرنے کے لیے ہندوستان میں جہاں جہاں خلافت کمیٹیاں قائم ہوگئی ہوں ان کے نمائندوں کو مقرر ہ تاریخ پر یکجا کرنا ضروری ہے۔ مولانا صاحب (مولانا عبد لباری) سے دریافت کر کے فوراً مجھے اطلاع دیجئے۔ اگر وہ رضامند نہ ہوں تو فوراً تمام اخبارات میں اس مضمون کا اعلان کردیجئے کہ آئندہ مناسب عملی کاروائی کرنے کے لیے خلافت کمیٹی کے نمائندوں کا ایک جلسہ مشاورت لکھنؤ میں 25صفر کے بعد یعنی 27-26فرنگی محل میں منعقد کیا جائے گا۔ خاص خاص لوگوں کو تاردے کر علیحدہ بلولینا چاہیے۔ مدارس ’بنگال‘ بمبئی ہر جگہ سے لوگ آنے کے لیے آمادہ کئے جائیں۔ ہمارے علی گڑھ سے تو اس کے متعلق نہایت عمدہ ریزرویشن پاس کراکے لوگوں کے پاس بھیجا جاچکا ہے۔ اگر لکھنؤ میں انتظام ہوسکے تو اچھا ہے۔ ورنہ مجبوراً علی گڑھ خلافت کمیٹی کو
میں آمادہ کر سکتا ہوں۔ ھواب دیجئے۔
فقط‘ حسرت موہانی
حسرت کے خطوط کا ایک انداز جو انہیں دیگر سے ممتاز کرتا ہے۔ وہ اپنی بیگم کے ہمراہ سال بہ سال حج کرتے رہے۔ حج کے سفر کے دوران وہ حج کے دنوں کی باتیں خط کے ذریعہ اپنی بیٹی نعیمہ بیگم کو لکھتے رہے۔ مولاناکے ان خطوط نے ’سفر نامہ عراق‘ کی صورت اختیار کر لی۔ مولانا نے حج کی تفصیل کا آغاز فروری 1936ء سے کیا اور اختتام اپریل 1936ء کو ہوا۔ حج سے قبل وہ عراق پہنچنے، جہاز کا آبادان پورٹ پر تیل لینے کی غرض سے لنگر انداز ہونے کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہیں، بصرہ شہر، دریا ئے دجلہ کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ ایک خط 11فروری 1936کو لکھا جس میں درگاہ حضرت امام موسیٰ کاظم کے مزار پر حاضری۔ لکھتے ہیں ”عراقی سیاہ ٹوپیاں اور اس پر سے اوور کوٹ بھی خوب گورے گورے خوبصورت انسان ہیں۔ بچے بھی اسی طرح سفید روئی کے گالے، چوڑے چوڑے چہرے، تندرست موٹے تازے، یہاں پر پرانی وضع کی کچھ عورتیں عرب کا سا نقاب باہر ڈال لیتی ہیں۔ مگر پنڈلیاں اوپر تک کھلی، موزے باریک لیڈی شو، باقی عورتیں عموماً پہنچ برہنہ فراک، برہنہ چاک اوپر سے بال بنے ہوئے۔ سب کے چہروں پر
زلفیں آٹھ آٹھ انگل کی لٹکتی ہوتی ہیں۔کسی کی چوٹی لانبی اور کسی کا جوڑا پیچھے بندھا ہوا۔ ورنہ اکثر کے بال کٹے ہوئے۔ بے حد حسین اور گداز بدن سرخ سفید
ناک، نقشے درست، بے تکلف اسکولوں اور بازاروں میں گھومتی پھرتی ہیں“۔(حسرت موہانی کی چند نادر و نایاب تحریریں / سید محمد اصغر کاظمی،ص230)
حسرت موہانی اپنے خطوط میں دوران سفر زیارات، عمارتوں، دریا، لوگوں، خواتین، مزارات کا ذکر بہت تفصیل سے کرتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ ؒ، حضرت یو یشع کے مزار پر حاضری، حضرت جابر صحابی رسولﷺ، حضرت شبلی ؒ کے مزارات پر حاضری، کربلا کا ذکر، حضرت امام حسین ؓ کے مزار پر حاضری کا حال ہے، عباس علمبردار کی قبر مبارک، قتل گاہ کاذ کر، حضرت مسلم بن عقیل، حضرت جعفر طیار، حضرت ہودؑ اور حضرت صالح ؑ کے مزارات پر حاضری، وادی اسلام قبرستان جس میں شہدا، صحابہ، سادات اور علما ء کی قبریں ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت گاہ، جس مقام پر ابن ملجم شقی نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بحالت نماز زہر آلود کنجر سے زخمی کیا تھا کا ذکر کیا گیا ہے۔لکھتے ہیں کہ ”29فروری 36ء کو مکہ پہنچے اور حج کے لیے عرفات تک اسی عراقی لاری میں جانا ہوا۔ 4مارچ 1936ء سے10مارچ1936ء مکہ میں قیام رہا۔ مکہ سے 10مارچ کو روانہ ہوکر 11مارچ کو مدینہ پہنچ گئے اور وہاں 21مارچ تک قیام کیا۔ 25مارچ کو واپس نجف پہنچے اور 2 محرم کو کربلا میں دوبارہ حاضری دے کر 3کو بغداد شریف پہنچے اور اسی دن شام کو بذریعہ بصرہ روانہ
ہوگئے۔ 28مارچ 1939ء کو میل میں روانہ ہوکر 2اپریل کو کراچی اور 4اپریل 1936کانپور واپس پہنچ گئے“۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1436588 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More