رموزِ شبیر


Dr. Ata-Ur-Rehman Meo
Department of Urdu
Lahore Garrison University,
Lahore.

یہ آب وگل کا جہاں ایک امتحاں گاہ ہے جس میں آنے کے بعد انسان اپنے خالق سے کیے ہوئے وعدوں سے انحراف کرتے ہوئے اپنے مقصد زندگی وبندگی کو پس پشت ڈال کر اپنے نفس کا غلام بن جاتا ہے ۔ انسان چونکہ متضاد کیفیات کا مجموعہ ہے اس کی فطرت میں جہاں اطاعت اور فرمانبرداری ودیعت کی گئی ہے وہیں سرکشی اور بغاوت بھی اس کی جبلت میں بھی موجود ہے اور اسی سرکشی اور بغاوت کی وجہ سے انسان ہر وہ کام کر گزرتا ہے یا کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے اﷲ رب العزت نے منع کیا ہے اور اسی روش کو اپناتے ہوئے وہ اپنے لئے خسارے کا سودا کر بیٹھتا ہے ۔ جیسا کہ اﷲ رب العزت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے :
’’ وہ لوگ ہیں جن پر ثابت ہوئی بات شامل اور فرقوں میں ، جو گزرے ہیں ان سے پہلے جنوں کے اور آدمیوں کے۔بے شک وہ تھے ٹوٹے میں آئے ہوئے ۔۔‘‘1؂
اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں بھیج کر وادیٔ ضلالت میں آوارہ بھٹکنے کے لئے نہیں چھوڑا بلکہ اسے اشرف المخلوقات کی مسند پر بٹھا کر اسے علم عطا کیا اور قلم سے لکھنا سکھایا ۔ اسے تدبر اور تفکر کی خوبی سے متصف کیا تاکہ وہ صحیح معنوں میں نیابت الٰہی کا حقدار ثابت ہو ۔ دنیوی اور دنیاوی امور کی رہنمائی کے لئے انبیاء کرام کے ذریعے صراط مستقیم کی راہ سمجھائی اور فلاح پانے کی خوشخبری دی ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! رکوع اور سجدہ کرتے رہو اور اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہو اور نیک کام کروتاکہ فلاح پاؤ‘‘2؂
صر ف یہی نہیں بلکہ انسان کی انفسی ، نفسیاتی تربیت کے لئے اسے حلال حرام ، خیر وشر ، صحیح غلط میں فرق کرنے کا شعور دیا اور اسے اپنے معاملات زندگی کو گزارنے اور سنوارنے کے طریقے بھی سمجھائے ۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے :
’’اے ایمان والو!بچتے رہو بہت تہمتیں کرنے سے ، مقرر بعضی تہمت گناہ ہے اور بھید ٹٹولو نہ کسی کا اور بد نہ کہو پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کو ، بھلا خوش لگتا ہے تم میں کسی کو کہ کھاوے گوشت اپنے بھائی کا جو مردہ ہو ۔ سوگھن آوے تم کو اس سے اور ڈرتے رہو اﷲ سے ، بے شک اﷲ معاف کرنے والا مہربان ہے ۔‘‘3؂
ان تمام ارشادات اور تنبیہات کے باوجود جب ہم اپنے اور سماج میں بسنے والے افراد کے رویوں کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہمیں خجالت وندامت کا شکار ہونا پڑتا ہے کہ ہم اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی بتائی ہوئی ہدایات سے کتنے دور جاچکے ہیں۔ خیر وبرکت کی روش اپنانے کی بجائے شر اور نفرت کو پھیلانا ہمارا وطیرہ بن چکا ہے ۔ ہم اس چند روزہ زندگی کو ہی اپنے لئے غنیمت سمجھتے ہوئے اپنی انا کی تسکین کا سامان کرتے ہیں اور اپنے ہر اچھے اور برے عمل کو تقدیر کے پلڑے میں رکھ کر خود بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔
درد نے شاید اسی لئے کہا تھا :
؂ جس لئے آئے تھے ہم سو کر چلے
تہمت چند اپنے ذمے دھرچلے 4؂
ان معروضات کی روشنی میں جب ہم اردو ادب کے فکشن کا جائزہ لیتے ہیں تو اس میں خیر وشر کی قوتوں کا امتزاج بخوبی نظر آتا ہے ۔ کہیں خیر کی فراوانی دکھائی دیتی ہے اور کہیں شر کی راجدھانی ۔ اسی تناظر میں ہمیں بہت سے ادبی شہ پارے دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ادیبوں نے ان شہ پاروں کی بنت میں اپنی عمر میں یوں صرف کی کہ نقادان ادب نے نہ صرف ان کی کاوشوں کو سراہا بلکہ انہیں صف اول کے فکشن نگار کہنے میں بھی کوئی تامل نہ کیا ۔ ادیب چونکہ حساس ہوتا ہے اور اقتصادی ، سماجی ، سیاسی ، معاشی شعور رکھتا ہے ، اس لئے ان کی لکھی ہوئی کہانیاں بہت سے حقائق اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہوتی ہیں۔ ان حقائق کو فرضی کرداروں کے ذریعے پیش کرکے گردو نواح میں ہونے والے واقعات کا پردہ چاک کیا جاتا ہے کیونکہ اگر یہ حالات واقعات اپنے اصل کرداروں کے ناموں کے ساتھ پیش کیے جائیں تو شاید معاشرے کا امن قائم رکھنا ممکن نہ رہے ۔ کیونکہ طاغوتی قوتوں کے سامنے سچ کی ہلکی سی جھلک بھی انہیں سیخ پا کرکے ان کے شر اور نفرت کو اور بھڑکا دیتی ہے ۔ چنانچہ فکشن نگار حالات وواقعات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بسا اوقات اپنی ہی آپ بیتی کو مخصوص کرداروں کے ذریعے پیش کرکے اپنے قلم کی جو لانیوں سے ان کو بے نقاب کرتے ہیں اور اپنا کتھا رسس کرتے ہیں ۔
دنیا میں خیر اور شر کی قوتیں ازل سے موجود ہیں اور جب تک یہ آب وگل کا جہاں قائم ہے ۔یہ آپس میں ٹکراتی رہیں گی ۔ کبھی یہ قوتیں اتنی غالب آجاتی ہیں کہ یہ شر آسیب کی صورت اختیار کرکے انسان کی گھٹی میں رچ بس جاتا ہے یا پھر دوسروں کو اتنی تکلیف ومصیبت سے دو چار کر دیتا ہے کہ ان کی بقیہ ماندہ زندگی اذیت کے آسیب تلے دب جاتی ہے ۔ آسیب اصل میں انسان کے اندر کا شر ہے ، فرعونیت ہے ، آمریت ہے ، انانیت ہے ، انیت ہے جس کی بنا پر وہ دوسروں پر اپنی برتری قائم کرنے کا متمنی دکھائی دیتا ہے ۔ آسیب کے مختلف روپ انسان کو خدا کہلوانے پر مجبور کرتے ہیں ۔ فرعون ، نمرود ، شداد ، سبھی اسی آسیب کی بدولت عبرت ناک انجام سے دو چار ہوئے ۔ یہ آسیب کی کارستانیاں ہیں کہ انسان اپنے سے کمتر لوگوں کی زندگی کا قافیہ تنگ کرنے میں لگا رہتا ہے ۔ کبھی یہ غربت وافلاس کا آسیب انسان کو ڈستا رہتا ہے ۔ کبھی کسی خوف کا آسیب بن انسان کے نہاں خانوں میں بس کراسے ہر لمحہ خوفزدہ کرتا رہتا ہے ۔ کبھی یہ یادوں کا آسیب بن جاتا ہے جو انسان کو حال میں جینے دیتے رہنے کی بجائے ماضی کی یادوں کی دلدل میں دھکیل دیتا ہے ۔
ایک ایسے ہی زیرک ، باصلاحیت ، فعال افسانہ نگار جو ان تمام آسیبوں کی آسیبیت کا شکار ہوئے انہوں نے اپنے افسانہ ’’ آسیب ‘‘ کا تانا با نا آسیب کے ان تمام رنگوں میں رنگ کر بُنا ہے ۔
آسیب بظاہر تو ایک معمولی نام ہے لیکن یہ اپنے اندر دنیا بھر کی معنویت سموئے ہوئے ہے ۔ جو بھی آسیب کی چکی میں آجاتاہے وہ اس کے گرداب سے کبھی نکل نہیں پاتا ۔ لیکن اس کی معنویت میں جھانکے بغیر اس کے چکر کو سمجھنا مشکل ہے ۔
آسیب آ+سیب (یائے مجہول) اصلاً فارسی زبان کا لفظ ہے اوراپنی اصلی حالت اور اصل معنی میں ہی اردو زبان میں مستعمل ہے ۔ سب سے پہلے ’’خاور نامہ‘‘ میں مستعمل ملتا ہے ۔ اسم مجرد (مذکر ، واحد) ، جمع غیر ندائی ، آسیبوں 5؂
1۔ صدمہ ، تکلیف ، مصیبت
؂ آئینے میں لیتے ہو جو زلفوں کی بلائیں
آسیب نہ پہنچے کہیں ہاتھوں کو تمہارے 6؂
2۔ جن ، بھوت ، چڑیل ، پری ، دیو ، ارواح خبیثہ
؂ الٰہی خیر کہ خانم کو شوق سایہ ہے
بلا تو یوں بھی وہ تھیں ہو نہ جائیں اب آسیب 7؂
جن ، بھوت ، پری یا ارواح خبیثہ کا اثر یا سایہ ، چشم زخم جب بچوں کے چیچک نکلتی ہے تو چیچک کو آسیب سمجھتے ہیں۔ 8؂
3۔ ضرر، گزند ، زد ، مار
؂ جن سے آسیب کا تھا کھٹکا
ان دیووں نے خوب سر کو پٹکا 9؂
4۔ آزار ، بیماری ، جنون ، دیوانگی
؂ ہے دافع آسیب ہر اک سیب جلیل
انگور کی ہیں تاک میں سب متوالے 10؂
فرہنگ آصفیہ میں ترکیب آسیبی بھی استعمال ہوئی ہے جس کا معنی ہے وہ شخص جس پر آسیب ہو ، آسیب زدہ ، پری گرفتہ 11؂
یہ دنیا آسیب گاہ ہے یہاں ہر کوئی کسی نہ کسی آسیب کا شکار ہے ۔ کسی کو یہ آسیب اقتدار کی مسند پر بٹھا کر ذلیل ورسوا کرتا ہے تو کسی کو معلم بنا کر آزمائش وابتلا سے دوچار کردیتا ہے ۔ وہ کردار بھی بالآخر مکافات عمل سے بچ نہیں پاتے جو دوسروں کے لئے مسائل کے انبار لگا کر ان کی بے بسی کا نظارا کرتے ہیں۔ ان کو نیچا دکھانے کے لے کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ کسی بزرگ نے کیا خوب کہا ہے :
؂ نیچاں دی اشنائی کو لوں فیض کسے نہ پایا
کیکرتے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا
جو بھی آسیب کا شکار ہوا وہ اس کی شکایت کرتا ہوا پایا گیا لیکن اسے اس سے چھٹکارا نصیب نہ ہوا ۔ اسی لئے آسیب کی آسیبیت سے تنگ آکر کچھ تو یوں پکارا ٹھے:
؂ ہم چلے اس جہاں سے
دل اٹھ گیا یہاں سے
یہی آسیب جب پیار میں ڈھل جائے تو اس کے اثرات رگ وپے میں سرایت کر جاتے ہیں پھر وہ چاندنی راتوں میں تاروں سے باتیں کرتا پایا جاتا ہے یا راتوں کو تارے گنتا نظر آتا ہے ۔ جب دو چاہنے والے آپس میں بچھڑتے ہیں تو پھر یوں پکارا اٹھتے ہیں :
؂ نکے ہوندیاں دا پیار
ویکھیں دیویں نہ وسار
آسیب کا شکار صرف بوڑھا معلم شبیر ہی نہیں ہے بلکہ ہم تاریخ کے اوراق کھنگالتے ہیں تو چند مشہور اشخاص بھی اس آسیب کی آسیبیت سے بے بس ولاچار ہوکر اپنے پیاروں کے غم میں مضمحل اور نڈھال دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی اجمالی تصویر ملاحظہ ہو:
آسیب کا شکار محمد حسین آزاد ہوئے ۔ جواں سال بیٹی داغ مفارقت دے گئی ۔ دماغ کی چولیں ہلیں تو دیوانگی کے عالم میں ایک عرصہ بسر کیا ۔ وہ بھی معلم تھے ۔ غالب کی بھی یکے بعد دیگرے سات اولادیں ملک عدم کو سدھار گئیں۔ جیل کی ہوا کھانا پڑی ۔ پنشن بند ہوگئی ۔ بحالی کے لئے تین سال کلکتہ یا تراکی مگر آسیب نہ بھاگا ۔ تلامذہ غالب از مالک رام اس کا بین ثبوت ہے ۔ غالب بھی معلم تھے ۔
نوبت رائے نظر، روح فرسا حادثات سے ان کی شخصیت ٹوٹ کربکھر گئی تھی۔ پہلے رفیقہ حیات کا انتقال ہوا ، اس کے بعد جوان بیٹے نے داعی اجل کو لبیک کہا ۔ جس نواسے کو بڑی محبت سے پالا پوسا تھا۔ وہ اس دنیا سے چل بسا۔ پھر بیٹی اور ماں کے انتقال کا صدمہ بڑا جانکاہ ثابت ہوا ۔
؂ اشک خونیں بارہا ٹپکے تھے آنکھوں سے مگر
اس قدر سرخی نہ تھی خون تمنا میں کبھی
ہوگیا آغوش مادر بھی جدا آج اے نظر
اب ملے گی ایسی راحت پھر نہ دنیا میں کبھی 12؂
برج نرائن چکسبت بی ۔ اے میں پڑھ رہے تھے ، شادی ہوگئی ۔ دوسرے سال رفیقہ حیات کا انتقال ہوگیا۔ اﷲ نے ایک لڑکا دیا تھا پھر لڑکا بھی فوت ہوگیا۔ دوسری شادی سے کئی اولاد یں ہوئیں لیکن زندہ نہ رہیں۔ صرف ایک لڑکی بقید حیات رہی۔ 13؂
درگا سہائے سرور جہاں آبادی (پیدائش 1873)
1890ء میں شادی ہوئی۔ 1899ء میں بیوی کا انتقال ہوگیا ۔ 1905ء میں جواں سال بیٹا بعارضہ نمونیا فوت ہوا ۔ لخت جگر کی وفات نے سرور کو زندہ درگور کردیا ۔ 14؂
غرض یہ آسیب جس گھر میں بھی داخل ہواس کی تباہی وبربادی کا باعث بنا اور آسیب کا شکار افراد نوحہ خوانی اور سینہ کوبی پر مجبور ہوگئے اور زیست کی ساری خوشیاں ان سے روٹھ گئیں۔
بہت سے حالات وواقعات اس بات کے غماز ہیں کہ جو بھی عشق کے آسیب کا شکار ہوئے تو بالآخر یا تو مجنوں بن کر صحرائے نجد کی دھول پھانکنے لگے یا اپنے خاندان کی لٹیا ڈبو دی ۔ ہر دو صورتوں یہ عشق کا آسیب نہ صرف ان کی ذات کے لئے بھاری ثابت ہوا بلکہ خاندان کی بدنامی کا باعث بنا ۔ حالی نے بھی کیا خوب کہا ہے :
؂ اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کے چھوڑا
جس گھر سے سر اٹھایا اس کو بٹھا کے چھوڑا 15؂
ایک آسیب وسیب کا ہوتا ہے ۔ ایک ذات کا آسیب ہے ۔ جس کے سبب آسیبی اندر ہی اندر گھلتا رہتا ہے ۔ بظاہر تندرست تو انا نظر آتا ہے ۔ ہنستا کھیلتا ہے ۔ زندگی کی ساعتوں کو ہر لمحہ خوشگوار بنانے کی تگ ودو کرتا ہے لیکن بباطن آسیب کے ہاتھوں شکست وریخت کا شکار رہتا ہے ۔ یہی آسیب سیلمان علیہ السلام کے عصا کی طرح دیمک خورد ہ ہوکر اس کے وجود کو چاٹ لیتا ہے ۔ آسیبی کسی کے سامنے اپنی کیفیت بیان بھی نہیں کرپاتا کیونکہ خوف کا وہ آسیب جکڑ لیتا ہے کہ اس کے اپنے اس کا تمسخر اڑائیں گے کیونکہ وہ جنہیں اپنی زندگی کاسہارا سمجھتا ہے کہ یہ میرے غم کا مداوا کریں گے اور آڑے وقت میں کام آئیں گے لیکن جب غم وآلام کے مہیب بادل چھا جاتے ہیں اور مصیبتوں کے طوفانی جھکڑ چلتے ہیں تو سر سبز وشاداب درخت بھی اپنے پتوں سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ بقول شاعر
؂ باغباں نے آگ دی جب آشیا نے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے 16؂
آسیبیت جب اپنے عروج پر پہنچ جائے تو جانکاہ نقصانات کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے ۔ یہ بسا اوقات اپنوں کی طرف سے کئے گئے وار کا حصہ یا مشیت ایزدی کی طرف سے لکھی گئی تقدیر کا حصہ ہوتا ہے ۔
ہمارا یہ بوڑھا معلم غلام شبیر رانا، جن کی طبیعت انتہائی طبع وخلائق ہے ، مغربی مفکرین کے ادب سے انہوں نے خوب استفاد ہ کیا ہے ۔ ان کی اخاذ طبیعت نے مغربی ادب خصوصاً جدید فکر نے لمحہ بہ لمحہ بدلتی تحریکات کے تموج کی غواصی کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں جابجا مغربی دانشوروں کے حوالہ جات بخوبی جگہ پاتے ہیں۔ وہ 5عشروں سے پرورش لوح وقلم میں منہمک ہیں۔ حیات وممات کے سر بستہ رازوں کی گرہ کشائی کرتے رہتے ہیں۔ مغربی ادبیات کے مطالعہ سے انہیں عقلیت پسندی ، حقیقت نگاری ، فطرت نگاری، علامت نگاری ، جدیدیت ، مابعد جدیدیت، ساختیات ، پس ساختیات اور رد تشکیل کے بارے میں جاننے کے مواقع ملے ۔ گبریل گار سیامارکیز کی طلسمی حقیقت نگاری کے مظہر اسلوب کو وہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے جین جینسٹ ، البرٹ کامیوس ، ژاں پال سارتر اور دیگر مغربی مفکرین کے افکار کا گہرا مطالعہ کرکے اپنا الگ اسلوب متعارف کروایا لیکن عجز وانکساری کی بدولت وہ اپنی ذات کی نمود ونمائش کے قائل نہیں ہیں۔ لوگ ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں وہ سب کی سنتے ہیں لیکن ان باتوں کا جواب خاموشی کی زبان سے دیتے ہیں:
؂ یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں ، یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں
تم انشاجی کا نام نہ لو، کیا انشا جی سودائی ہیں
انہیں اس جہان رنگ وبو میں عشق ہے محبتیں بانٹنے کا ، علم بانٹنے کا ، دیانتداری سے زندگی گزارنے کا ، برائیوں، کو مٹانے کا ، سچ کا علم بلند کرنے کا ، مفلس ونادار لوگوں کی مدد کرنے ، دنیا بھر کے علوم کے مطالعے کا ، ان علوم وفنون سے دوسروں کو آراستہ وپیراستہ کرنے کا ، عجز وانکساری کا ، دلیری سے جیے جانے کا ، منافقت زدہ ماحول کی بیخ کنی کا اور چپکے چپکے غم سہنے کا ۔ جب ایک معلم نے اتنے روگ پالے ہوں تو وہ آسیبی کیوں نہ ہو ۔ اسی آسیب نے اس کی جواں سال بیٹی کو ڈس لیا ۔ وہ اس کا لاشہ کندھے پر اٹھائے قبرستان کی جانب رواں دواں ہے کہ فون پر اس کی سسکیاں سن کردل دہل جاتا ہے ، اس آسیبی کا حوصلہ دیکھیے کہ بڑے حوصلے اور وقار سے جواب دیتا ہے کہ بھائی میری بیٹی ایک ہفتہ پہلے شادی ہونا تھی اﷲ کو پیاری ہوگئی ۔ بابل تو بیٹیوں کو بڑے لاڈسے بناؤ سنگھار کرکے سسرال روانہ کرتے ہیں۔ ایک میں بد نصیب ہوں کہ اس کو لحد میں اتارنے جارہا ہوں۔
کچھ عرصہ بعد دوبارہ فون پر خیریت پوچھی تو شکستہ آواز میں غم امڈ آیا کہ اس مرتبہ وہ اپنے چوبیس سالہ جوان بیٹے کو لحد میں اتار چکے تھے۔ کہنے لگے میں تو ایک زندہ لاش ہوں میرے پاس جینے کے لئے کیا رہ گیا ہے ۔ بیٹا میرا دایاں ہاتھ تھا ۔ سہارا تھا ۔ کمپیوٹر سائنس میں بی ایس آنر کیا تھا ۔ میرا سارا بوجھ اٹھایا ہوا تھا۔ افسوس ، صدا فسوس! موت نے وہ بھی نہ چھوڑا۔ مالک کا حکم ، جو اس کی رضا۔ میری زبان گنگ ہوگئی ، دو لفظ بھی تعزیت کے نہ کہہ سکا۔
بوڑھا معلم شبیر بھی آسیب کے ہاتھوں اپنی جملہ متاع لٹاچکا ہے لیکن زندگی کے باقی ماندہ سانسیں اﷲ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے گزارنے پر مجبور ہے ۔ وہ خود کہتا ہے ۔ اس کا حال میر کے اس شعر کی طرح ہے :
؂ دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سومرتبہ لوٹا گیا 17؂
ناصر کاظمی کہتے ہیں:
؂ شور برپا ہے خانۂ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے 18؂
جبکہ بہادر شاہ ظفر کہتے ہیں:
؂ شمع جلتی ہے پر اس طرح کہاں جلتی ہے
ہڈی ہڈی میری اے سوز یہاں جلتی ہے 19؂
جبکہ غالب کہتے ہیں:
؂ قید حیات وبند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں 20؂
جب ہم شبیر رانا کی پر سوزاور پر دردزندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں وہاں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ ایک طرف اسے جوان اولاد کی موت نے جلا کر بھسم کررکھا ہے ۔ دوسری طرف عزیز واقارب نے ان سے مروت کا ہاتھ کھینچ لیا ہے ۔ تیسرا احباب کا رویہ ہے جن کی بے رخی کی آنچ انہیں دھیمے دھیمے سلگنے پر مجبور کررہی ہے ۔ یہ کسی ایک شبیر کی داستان نہیں ہے ۔ ہمارے معاشرے میں بہت سے شبیر ہیں جو اندر ہی اندر گیلی لکڑی کی طرح سلگ رہے ہیں لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔
شبیر رانا کا وصف یہ ہے کہ وہ ایک معلم ہیں۔ دنیا بھر کے علوم وفنون سے انہوں نے اپنی دوستی گانٹھ رکھی ہے۔ وہ اپنی تنہائی کی آنچ میں سلگتے ہیں لیکن اس کا مداوا کرنے کے لئے دنیابھر کے علوم کے مطالعہ میں غرق رہتے ہیں۔ جب مطالعہ حد سے بڑھ جاتا ہے تو وہ کسی سے اپنے من کی بات کرنا چاہتے ہیں لیکن جب کوئی سنگی ساتھی دکھائی نہیں دیتا تو پھر وہ اپنے دل کی کتھا اپنے تخلیقی وجدان سے خامہ وقرطاس پر منتقل کرکے ادب پارہ تشکیل دیتے ہیں۔
ان کا افسانہ ’’آسیب‘‘ پیچ در پیچ الجھی ہوئی خواہشات کے بہت سے پرت رکھتا ہے ۔ گم گشتہ دنیا کی تمنا ، تخیلاتی طاقتوں کے حصول کی تمنا ، مافوق الفطرت عناصر سے ربط کی آرزو ، تخیلاتی عمل کے نمو کی امنگ ، اجنبی ماحول میں اشہب قلم کی جولانیاں دکھانے اور ماضی کی باز یافت کی خواہشات شامل ہیں۔
ان کے افسانوں کے کردار داستان پارینہ کے کردار نہیں ہیں بلکہ ان کے تصورات کی پائندگی اور انسان دوستی حلقہ شام وسحر سے ماورا ہے ۔
اس تصور کی حدیں’’بیاکہ قاعدہ آسماں بگرانیم‘‘ کے تصور سے جاملتی ہیں۔ ان کے لئے کائنات ایک کھلی کتاب ہے وہ اس کائنات کے خزائن کے اسرار ورموز کا مشاہدہ کرکے اپنی تخلیقی حسیات کی زیب وآرائش کرتے ہیں۔ وہ غالبؔ کے اس شعر کے مصداق ہیں:
؂ ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ وساغر کہے بغیر 21؂
بادہ وساغر ایک بلیغ استعارہ ہے ۔ جس کی تہہ میں غواصی کرکے زخرف تلاشنا شبیر رانا ایسے صاحب بصیرت اور صاحب کمال حسن کے لئے چنداں مشکل نہیں۔ غلام شبیر رانا ایک ایسا جوہری ہے جس کی کسوٹی پر پورا اترنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ وہ ایک شب زندہ دار صوفی ہے ۔ یہ صوفی مردم شناس ہے ، نباض ہے ۔ اس کی باتوں اور تحریروں میں حکمت ودانائی کی مہک ہے ۔ ایسی عطر بینر مہک جو دھیرے دھیرے پتھر دل انسان کو بھی خوشبو کی لپٹوں سے اپنا گرویدہ بنالیتی ہے ۔ وہ تقویٰ پر کاربند ہے ۔ ایسے لوگوں کے بارے میں آئن سٹائن نے کہا تھا:
’’ وہ انسان جو کائنات پر اظہار تعجب کے لئے نہیں ٹھہرتا اور اس پر تقوی کی کیفیت طار ی نہیں ہوتی وہ مرچکا ہے اور اس کی آنکھیں بصارت سے محروم ہیں۔‘‘
غلام شبیر رانا نے شاید بہت پہلے آئن سٹائن کی حکمت کے رموز کو پالیا ہیں۔ وہ اپنی بصیرت سے بہت سے لاینحل عقدے سلجھا چکے ہیں۔ بقول شاعر:
؂ وہ کون سا عقدہ ہے جووا ہو نہیں سکتا
ہمت کرے انساں تو کیا ہو نہیں سکتا
شبیر رانا نے جو خواب دیکھے تھے ، انہیں ان خوابوں کی تعبیر تو نہ مل سکی لیکن وہ اس کے شعور میں ایسے رچ بس گئے ہیں کہ وہ شعور کی روکو بروئے کارلاتے ہوئے وہ اپنی کہانیوں میں نت نئے تجربات کرتے ہیں۔ اگر ہم شعور کی روکا جائزہ لیں تو یہ ادبی ، نفسیاتی اصطلاح کے طورپر سامنے آتی ہے ۔ شعور کی رو جسے انگریزی میں "Stream of Conciusness"کہتے ہیں۔ دراصل نفسیات کا علم جدید ہے ا س کی دریافت امریکی سکالر ولیم جیز نے کی تھی ۔ اس کے مطابق :
’’انسانی شعور ایک سیال مادے کی طرح ہوتا ہے ۔ کبھی کبھی انسان کے ذہن میں کوئی خیال پیدا ہوتا ہے اورخیالات و تصورات فلم کے پردے کی طرح چلنے لگتے ہیں۔‘‘22؂
چنانچہ جیمز کی اس رائے کے مطابق ہم دیکھتے ہیں کہ ایک خیال کسی دوسرے خیال یا واقعے سے ذراسی مناسبت کے سہارے آگے بڑھتا ہے اور یہ عمل کسی نقطے پر اختتام پذیر ہوتا ہے ۔ سجاد ظہیر کا ناول ’’لندن کی ایک رات‘‘ بھی آزاد تلازمۂ خیال کی تکنیک میں لکھا گیا ہے:
سید سبطِ حسن لکھتے ہیں:
’’سجاد ظہیر اردو کے غالباً پہلے ادیب ہیں جنہوں نے اپنے ناول ’’لندن کی ایک رات‘‘ میں شعور کی موج در موج بہاؤ کو قلم بند کیا۔‘‘23؂
ماضی کی باز یافت بہت سے ادیبوں کی تحریروں کا مرکزی حصہ رہی ہیں۔ ماضی میں جھانکنے کے لئے ہم کچھ خواب آنکھوں میں سجاتے ہیں۔ ان کی تعبیر کے متمنی ہوتے ہیں اور یہی خواب ہمارے لا شعور میں ہمارے لئے بسا اوقات زندگی کی ایسی گنجلک الجھنیں پیدا کردیتے ہیں کہ جن سے نکلنا ہمارے بس سے باہر ہوتا ہے ۔ اگر ہم مغربی ادب کا مطالعہ کریں تو ہمیں تو رتھی رچرڈسن ، انگریزی ادب میں شعور کی رو استعمال کرنے والی پہلی ادیبہ دکھائی دیتی ہیں جنہوں نے اپنے ناول ’’پوائنٹڈ روف‘‘ میں اس کا استعمال کیا۔
جیمز جوائس نے اس تکنیک کو عروج پر پہنچایا ۔ اس نے اپنے ناول ’’یویسیس‘‘ میں اسے درجہ کمال تک پہنچایا ۔ 24؂
اردو ناولوں میں شعور کی رو کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کی جھلکیاں حسن عسکری کے تراجم، قرۃ العین کے ناول ’’آگ کا دریا‘‘ ، سعادت حسن منٹو کے افسانہ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ ‘‘، ’’سیاہ حاشیے ‘‘میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ علاوہ ازیں پریم چند، ممتاز مفتی ، راجندرسنگھ بیدی ، عصمت چغتائی ، انتظار حسین کے ہاں شعور کی رو کے اثرات بخوبی ملتے ہیں۔
ہمارے اکثر ادیب زندگی کے معاملات میں ناکامی ، گھریلو لڑائی جھگڑے ، بے روز گاری ، ذہنی دباؤ، جسمانی تھکن، تنہائی ، کسی قریبی یا اپنے سگے رشتوں کے انتقال کی وجہ سے اداسی اور ذہنی اذیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس مصائب وآلام سے چھٹکارا پانا ان کے لئے ناممکن ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے وہ ڈیپر یشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور بعد میں یہی ڈپریشن ان کے شعور یا لا شعور میں ایک طوفان کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور اپنے اندر ابلنے والے اس لاوے کو کہانی ، افسانہ یا ناول کی شکل میں اگل دیتے ہیں۔ متوسط طبقے کے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیں یا پھر زندگی کے مصائب وآلام کے سامنے سپر ڈال دیں۔ بسا اوقات شعور میں پکنے والا لاوا دماغی عارضے کا شکار بنا دیتا ہے اور اچھا خاصا انسان ایسی حرکتیں کر بیٹھتا ہے کہ دیکھنے والے اس کی حرکتوں پر ماتم کرتے ہیں۔
برطانوی ادیبہ ورجینا وولف کو ہی لے لیجئے کہ اس نے اپنی شادی کے بعد کئی مرتبہ خود کشی کی کوشش کی ۔ ورجینا وولف یکے بعد دیگرے حوادث کے باعث بائی پولر ڈس آرڈر کا شکار ہوگئی جس کے باعث انسان بظاہر تو خوش نظر آتا ہے لیکن باطنی طور پر بنجر بن چکا ہوتا ہے ۔ اسی تذبذب سے آزادی کی خاطر اس نے شادی کے بعد پہلی دفعہ 1912ء میں خود کشی کی ناکام کوشش کی اور 1941ء تک یہ سلسلہ جاری رہا ۔ بالآخر 28مارچ 1941ء کو یہ ایک لمبا کوٹ پہن کر گھر سے نکلی اور کوٹ کی جیبوں میں بہت سے پتھروں کے ٹکڑے پھرلئے اور آؤز ے نامی دریا میں چھلانگ لگادی۔ 18اپریل 1941ء میں اس کی لاش نکالی گئی۔ جب انسان کے شعور میں کسی چیز کو کرنے کی دھن سما جائے تو پھر وہ یہ سوچے سمجھے بنا کہ وہ کس انجام سے دو چار ہوگا وہ اس پر عمل کر گزرتا ہے ۔ چنانچہ شعور کی رو، ناسئیلیجایہ وہ مسائل ہیں جو انسان کی زندگی کا حصہ ہیں اور آج ایک تحریک اور علم کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ ان پر تحقیقات کی جارہی ہیں ، علاج معالجے بھی دریافت ہورہے ہیں لیکن کوئی ایسا حل سامنے نظر آیا جس کی بدولت انسان اس سے چھٹکارا پاسکے ۔ فرائڈ نے ان امور پر کافی روشنی ڈالی ہے لیکن کوئی ایسا حل بتانے میں ناکام رہے ہیں کہ جس کی بدولت لا شعور کی الجھنوں سے چھٹکارا پایا جاسکے ۔ پروفیسر نعیم احمد اپنے مضمون’’انسانی شخصیت فرائڈ اور اقبال کی نظر میں ‘‘ لکھتے ہیں:
’’فرائڈ کا انسان موروثی رحجانات اور لاشعوری الجھنوں کے بوجھ تلے دبا کر اہتا ہو ا انسان ہے جسے اس کے اعمال وافعال کا ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا جبکہ اقبال کا انسان آزاد خود مختار انسان ہے جو ہر دم نت نئے مقاصد اور آدرش وضع کرتا ہے اور وفور تخلیق میں توارث اور ماحول کے بندھنوں کو بھی توڑ دیتا ہے ۔ ‘‘25؂
اس اقتباس کی روشنی میں غلام شبیر رانا کی تحریروں پر فرائڈ کے اثرات بھی دکھائی دیتے ہیں جہاں وہ کہتے ہیں کہ میرے بزرگ سلطان خان میرے شعور میں آتے ہیں مجھ سے سرگوشیاں کرتے ہیں اور مجھے اپنے ساتھ لے جانے کی بات کرتے ہیں ۔ میرے شعور میں میرے اپنے جو ملک عدم کو سدھا رچکے ہیں وہ بھی آکر میرا حال احوال دریافت کرتے ہیں اور عدم کا راستہ دکھاتے ہیں۔ گردش ایام دیکھیے ایک ایک کرکے میرے عزیز واقارب اور جوان اولاد مجھے چھوڑ کر چلے گئے ۔ میرا بھائی جو اپنی بیٹی کو میری بہو بنانا چاہتا تھا، اس کی آنکھیں بند ہوتے ہی اس کے اہل خانہ نے ہم سے آنکھیں پھیرلیں۔ وہ بیمار بھائی جس کے علاج معالجے کے لئے میں نے دن رات ایک کردیا ۔ ہسپتالوں کے چکر لگائے ۔ کوئی وید، کوئی طبیب ، کوئی سیانانہ چھوڑا کہ کسی طریقے سے میرے بھائی کو شفا مل جائے لیکن افسوس میری سب کاوش رائیگاں گئیں۔ میرے خوابوں میں عالم بالا سے میرے اسلاف کی روح ملنے آئیں لیکن افسوس کہ میں ان کا ساتھ دینے سے قاصر رہا ۔ جوان بیٹی اور بیٹے کی موت نے مجھے زندہ درگورکردیا ۔ یہاں تک کہ میں نے اپنے بیٹے کی قبر پر جو کتبہ لکھوایا اس پر یہ لکھا ’’اس میں میرا بیٹا سجاد نہیں بلکہ غلام شبیر رانا دفن ہے ۔‘‘ مثل مشہور ہے ’’جس تن لاگے وہی تن جانے ‘‘ میں ہوش وحواس میں تو ہوں لیکن اندر ہی اندر گھن مجھے دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے ۔ بظاہر میں چلتا پھرتا زندگی گزارتا نظر آتا ہوں لیکن اندر سے ذاتی طور میری عمارت ڈھے گئی ہے ۔
؂ دیدنی ہے شکستگی دل کی
کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے 26؂
ایک کتاب’’A Chronical of Death foretold‘‘میں لکھا ہے کہ دکھی کو اس کے رنج وآلام کے بارے میں پہلے آگاہ کردیا جاتا ہے ۔ مجھے بھی میرے خواب میں آنے والے اسلاف کی ارواحوں نے مجھے پہلے سے آنے والے طوفانوں کے بارے میں آگاہ کردیا تھا ۔
غالب نے کہا تھاکہ میں خطوں کے سہارے جیتا ہوں ۔ میرا حال مجھ سے کیا پوچھتے ہو میری بھی یہی کیفیت ہے کسی مخلص دوست کا فون یا خط آجائے تو میرے چہرے پر لہو کی سرخی دوڑ جاتی ہے ورنہ ہمہ وقت پژ مردگی کا شکار رہتاہوں ۔ خوابوں میں زندگی بسرکرنا میرا وطیرہ بن چکا ہے۔ اتنی سکت نہیں کہ اپنی محرومیوں کا بدلہ معاشرے سے مقابلہ کرکے لے سکوں۔ کچھ لوگ اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ جن سے چومکھی لڑنا مجھ جیسے ضعیف کہانی کار کے لئے ممکن نہیں۔ اب تو یہ حال ہے کہ کبھی خواب دیکھتا ہوں کبھی خواب بوتا ہوں ، کبھی خواب چنتا ہوں ، کبھی خواب سنبھال کر رکھتا ہوں کہ شاید اس کی تعبیر ممکن ہوسکے ۔ خواب ٹوٹنے پر دل کرچی کرچی ہوجاتا ہے ۔ ہاتھ کانپوں تو خواب ہوا ہوجاتا ہے ۔ خواب بانٹنا یہ میری زندگی کا حاصل رہ گیا ہے ۔ یہاں تک کہ بسا اوقات خواب بیچ کر دوسروں کی خوشیوں کا سامان کرنا پڑتا ہے ۔
احمد فراز نے کیا خوب کہا ہے :
؂ ایسی تاریکیاں آنکھوں میں بسی ہیں کہ فراز
رات تو رات ہے ہم دن کو جلاتے ہیں چراغ
غلام شیبر رانا اپنے تخیل اور جگر کا لہو جلا کر بدعنوان معاشرے کی معاشرتی ناہموار یوں کی اس انداز میں اصلاح کرتے ہیں کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور ان کی محرومیوں کوبھی آسودگی کا سانس نصیب ہو ۔ غلام شبیر رانا نے ضعیف معلم بشیر کی داستان غم سناتے ہوئے لکھا ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں بہتری لانے کے لئے خوب سے خوب تر کی تلاش کی ۔ کالج کیڈر کی ملازمت سے نکل کر پبلک سیکٹر یونیورسٹی کو اس نیت سے جوائن کیا کہ اﷲ نے اسے جس علم وفضل سے نوازا ہے وہ اس سے نو آموز سکالروں کی زندگی کا دھارا بدلنے کا کام لے گا۔ لیکن افسوس بوڑھے معلم کا یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ بقول غالب
؂ بہت نکلے مرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
بسا اوقات بے لوث اور بے غرضانہ جذبہ بھی انسان کے لئے وبال جان بن جاتا ہے یہی کچھ صغیف کے ساتھ بھی پیش آیا کہ اس نے اردو سندی تحقیق کے لئے ’’اردو اوردکنی زبان کے افعال‘‘ کی تلاش کے لئے ملک بھر کے کتب خانوں کی خاک چھانی دو سو سے زائد بنیادی ماخذات تلاشے ۔ اس کی عکسی نقول بنوائیں ۔ نوٹس تیار کئے ان کی فرہنگ مرتب کی دن رات ایک کرکے چار سو صفحات کا مقالہ تسو ید کیا ۔ یہاں تک کہ کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ کے لئے آنکھ کا تیل ٹپکایا۔ ہارڈ کاپی اور سافٹ کاپی تک ایک ایسی ماہ رخ کے گھر پہنچائی جسے وہ اپنی بیٹیوں سے بڑھ کر چاہتے تھے اور اس مہ رخ نے بھی یہی وعدہ کیا تھا کہ وہ معلم بشیر کے گھر میں اس کی بہو بنے گی ۔ لیکن افسوس اس ضعیف کا یہ خواب بھی چکنا چور ہوگیا۔ مطلب نکلتے ہی اس مہ جبیں اور اس کے والدین نے طوطے کی طرح آنکھیں پھیرلیں۔
ان کہانیوں کے ذریعے اگرچہ انہوں نے اپنا کھتارسس کیا ہے لیکن ساتھ ساتھ معاشرتی رویوں کی ناہمواریوں کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ کسی کی ذات پر حرف نہ آئے۔ وہ لگی لپٹی کے بغیر ادبی تخلیقات پیش کرنے میں کچھ اس طرح مگن ہیں کہ ادب میں مثبت رویوں کو فروغ دیں ۔
غلام شبیر رانا کی کہانیاں آسیب ، رضوان کی وصیت ، سنتری کی جنتری ، ٹھگوں کی ملکہ سب کا تانابا نا ایک ہی ہے لیکن غلام شبیر رانا نے سب کے کردار تبدیل کرکے سب کہانیوں میں اپنی محرومیوں اور زندگی میں پیش آئندہ مصائب و آلام کو موضوع بنایا ہے ۔
یہ کہانیاں اپنے اندر جہاں تاریخی شعور کا بڑا گہرا ادراک رکھتی ہیں۔ وہی ہمیں اپنے اردگرد رہنے والوں کے منافقانہ رویوں کے بارے میں آگہی دیتی ہے ۔ غلام شبیر رانا کی تحریر کا آفاقی پہلو یہ ہے کہ وہ لاشعوری طور پر ماضی کے بیشتر یونیورسل انسانی تجربات ومشاہدات کا عرفان حاصل کرتے ہیں اور انہیں اپنے ترسیلی پیکروں میں سمو دیتے ہیں ۔ اس کا اظہار الفاظ کی تلازماتی کیفیت سے بھی ہوتا ہے ۔ یہ پیکر اپنے عہد کی نفسیاتی معنویت کے امین ہوتے ہیں ۔ غالب نے اس طرف بڑے بلیغ انداز میں اشارہ کیا ہے :
؂ رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو اگر اک شرار ہوتا
غلام شبیر رانا کا ماضی انہیں اک پل بھی چین نہیں لینے دیتا اور نہ ہی وہ اسے بھلا پانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ سیل زماں کے مہیب تھپڑوں اقوام وملل کا رعب ودبدبہ، جاہ و حشمت اور نصرت وثروت کی داستانیں ، خس وخاشاک کے مانند بہہ جاتی ہیں لیکن ناسٹیجلیا تہذیب کو فراموش نہیں ہونے دیتا۔ غلام شبیر رانا کی کہانیاں بھی اسی ناسٹیلجیے کے المیے کامرقع ہے ۔ وہ اپنے خوابوں کو حقیقت بنتا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن خواب ہیں کہ انہیں باولا بنا دیتے ہیں لیکن حقیقت کا روپ نہیں دھارتے ۔
افتخار عارف نے لکھا ہے :
؂ خواب کی طرح بکھر جانے کوجی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مرجانے کو جی چاہتا ہے
جبکہ احمد فراز لکھتے ہیں:
؂ عاشقی میں میرے جیسے خواب مت دیکھا کرو
باولے ہوجاؤ گے مہتاب مت دیکھا کرو
مصحفی نے تو اس سے بڑھ کر بھی کہا:
؂ مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہوگا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کانکلا
غلام شبیر رانا کے پاس کیا ہے ؟ خواب ہیں ، زخم ہیں، رنج والم کے انبار ہیں۔ اپنوں ، غیروں اور دوست احباب کے دیے ہوئے وہ ناسور ہیں جو مندمل ہونے کی بجائے مسلسل رس رہے ہیں۔ غلام شبیر رانا پنجابی کے اس گیت کی مثال بنے ہوئے ہیں:
؂ چپ کر دروٹ جا ، ناں عشق کا کھول خلاصہ
چمڑی لتھ جاؤں گی ایویں مفت دا پے جاؤ ہاسہ
لیکن غلام شبیر کی ہمت ، حوصلے ، تدبر ، سلیقہ مندی ، جواں حوصلگی اور عالی دماغ کی داد دینا پڑتی ہے کہ ان تمام کھوں اور بکھیڑوں کے باوجود وہ مضامین کہانیاں افسانے ، تحقیق وتنقید کا اسلوب اور شاعرانہ وجدان کسی ایک گوشے تک محدود نہیں ہے بلکہ ملک بھر کے علمی وادبی جرائد اور رسائل اور بین الاقوامی اور آن لائن رسائل وجرائد بھی ان کی کہانیوں کو پذیرائی بخش رہے ہیں ۔ غلام شبیر رانا شکست وریخت کا پہاڑ ہونے کے باوجود جوانمردی سے پر آشوب حالات کا مقابلہ کررہے ہیں ۔ اردو مثل ’’نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ کے مصداق غلام شبیر رانا بھی کسی تمنا وستائش کے صلے کے بغیر نیکیاں کرتے چلے جارہے ہیں ۔ وہ جس تجربات وحوادث کی بھٹی سے گزر چکے ہیں ۔ اب انہیں یہ دنیا ، دنیا کا سارا لہو ولعب مال ومتاع حتی کہ زندگی بھی حقیر دکھائی دیتی ہے ۔ اب تو ان کی یہی آرزو ہے کہ زندگی کے جتنے بھی لمحات میسر ہیں انہیں اپنے رب کی رضا میں بسر کریں۔



 

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 606235 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.