یادش بخیر چند برس ادھر کی بات ہے ایک شادی کی تقریب میں
جانا ہوا، میزبان نے اپنی حویلی کے وسیع آنگن میں مہمانوں کی تفنن طبع کے
لئے ناچ کی محفل کا خصوصی انتطام کر رکھا تھا لکھنوی انداز میں فرش پر
قالین اور چاندنی بچھا دی گئی اور گاؤ تکئے سج چکے، رات بھیگنے لگی اور ہوا
میں خنکی نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا، اتنے میں سازندوں نے اپنی جگہ
سنبھالی اور ہلکی ہلکی موسیقی کی لہروں نے سکوت توڑا، اور ایک نازنین پیلے
رنگ کی گھاگر اور سبز چوڑی دار پاجامہ زیب تن کئے پاؤں میں گھنگھرو باندھے
لچکتی ہوئی نمودار ہوئی اور ایک کلاسیکل قسم کی غزل پر اپنے تئیں نیم کتھک
ناچ کا مظاہرہ کرنے لگی، اگرچہ مجھے موسیقی اور رقص کی سمجھ نہیں ہے لیکن
پھر بھی اندازہ ہوا کہ رقاصہ کوئی تربیت یافتہ نہیں اور اعضا کی شاعری نہ
صرف خارج از بحر ہے بلکہ خاصی بے وزنی کی کیفیت سے بھی دو چار ہے، ادھر
سازندے بھی شاید اس طریق پر تھے کہ موسیقی اور رقص میں کہیں پر بھی کوئی
تال میل دکھائی نہ دیا اور نہ میرے جذبات میں کوئی ’’می رقصم‘‘ کی خواہش
جاگی، فنون لطیفہ کی یہ واردات لگ بھگ رات کے آخری پہر تک چلی جب بیشتر
مہمان اٹھ کر جا چکے اور رقاصہ تھک کر وہیں بیٹھ گئی اور اس کی پیشانی اور
سنگھار زدہ گلابی رخساروں پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے اور سانس کے شدت سے
دل کی بے قابو دھڑکنیں صاف نظر آ رہی تھیں، میں نے ایک جواں سال لڑکے سے
کہا کہ رقاصہ کو شربت پیش کرو اس پر اس نے تشکر آمیز نگاہوں سے مجھے دیکھا
تو میرا حوصلہ بڑھا کہ اس سے بات کی جائے، پوچھنے پر پتہ چلا کہ سنبل نام
ہے اور معمولی سی تعلیم بھی حاصل کر رکھی ہے، بتانے لگی کہ رقص کا شوق بچپن
سے تھا لیکن باقاعدہ کسی استاد سے تربیت نہیں لی بس سٹیج ڈراموں میں ناچ
دیکھ دیکھ کر سیکھا ہے، میں نے پوچھا کہ ایسی کیا افتاد آن پڑی کہ یہ پیشہ
اختیار کرنا پڑا، اس نے نہایت نازک انداز اور ناک چڑھاتے ہوئے یہ کہہ کر
میرے چودہ طبق روشن کر دئے کہ بس جی مجھے فنکار بننے اور’’فن کی خدمت کا
شوق ‘‘ ہے، اور میں سوچنے لگا کہ یہ شادی بیاہ پر سستا ناچ گانا کیسا فن
اور کیسی خدمت ، ابھی میں اسی کشمکش کا شکار تھا کہ ایک صاحب آئے سازندوں
کے سربراہ سے کان میں کوئی بات کی اور کچھ گفتگو کے بعد سربراہ کے کہنے پر
رقاصہ ان صاحب کے ساتھ گاڑی میں کہیں روانہ ہو گئی اور میں فن کی خدمت کی
اس جہت کے بارے سوچتا رہ گیا۔
البتہ، اس واقعے سے مجھے فنکار اور کاریگر کے مابین فرق سمجھ میں آنا شروع
ہوا جو اب تک جاری ہے اور فن کے نام پر خود ساختہ کئی فنکاروں سے مل چکا
ہوں جو اصل میں کاریگر ہیں اور اپنی کاریگری کو ہی فن کی خدمت کا نام دیتے
ہیں اور کہیں شہرت اور کہیں مال سمیٹتے نظر آتے ہیں، قلم قبیلے کے بہت سے
دوستوں سے مراسم ہیں اور ایسی محافل میں آنا جانا لگا رہتا ہے اور کئی
مرتبہ فن کے ان خود ساختہ خدمت گاروں سے بھی ملاقات ہو جاتی ہے اور کبھی تو
ان کاریگروں پر غصہ آتا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے لکھنے کی صلاحیت ودیعت نہیں
کی تو یہ خانماں خراب دوسرے لکھاریوں کے مال پر ہاتھ صاف کر کے خود کو اہل
قلم و ہنر کیوں ثابت کرنا چاہتے ہیں ،تو کبھی ترس آتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں
جن کے دل میں یہ خواہش برپا ہے کہ انہیں قلمکار ، مدبر اور دانشور سمجھا
لکھا اور پکارا جائے، اور کبھی یہ سوچ کر خاموش رہنے کو دل کرتا ہے کہ اگر
ملا وجہی اپنی کتاب’’ سب رس ‘‘میں فتاحی کی فارسی کتاب’’ دستور عشق‘‘ اور
مرزا ہادی رسوا اپنے ناول’’ امراؤ جان ادا‘‘ میں قاری سرفراز حسین عزمی کے
ناول ’’شاہد رعنا‘‘ پر ہاتھ صاف کرسکتے ہیں تو آج کل کے نام نہاد قلمی
دانشوروں پر کیا روک ٹوک، (حوالہ : اردو ادب میں سرقہ اور جعل سازی کی
روایت از پروفیسر ڈاکٹر نذر خلیق)
یہ مضمون قلمبند کرنے کو یہ تحریک اس لئے بھی ملی کہ کچھ عرصہ قبل ایک
مشاعرے کی رکارڈنگ دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں ایک متشاعرہ نے کمال ڈھٹائی سے
پروین شاکر کی غزل اپنے نام سے پڑھی اور ناخواندگان ادب سے خوب داد وصول
کی، ایسی ہی ایک واردات کا سراغ تب ملا جب لاہور کی ایک معروف ادبی تنظیم
جو سرکاری سرپرستی میں چلتی ہے اپنی ایک اردو کانفرنس میں کچھ ایسے
کاریگروں کو دعوت سخن دی جن کے بارے میں تین سال قبل معروف اخبار ’’دنیا ‘‘
کے بلاگ میں ایک مضمون نگار ’’آصف جاوید‘‘ نے’’ٹورنٹو میں جعلی ادب‘‘ کے
نام سے مضمون لکھا تھا اور کینیڈا میں مقیم ایک جعلی دانشور کی منظر عام پر
آنے والی کتاب میں ’’مال مسروقہ‘‘ کی خوب نشاندہی کی تھی، اور کینیڈا میں
موجود کئی ایک کاریگروں کا بھی تفصیلی ذکر کیا تھا۔
اردو ادب میں فن کی خدمت کے نام پر جہاں مرد حضرات نے اپنی حسنِ آوارگی کی
داستانیں چھوڑی ہیں وہیں بے شمار نسوانی قصے بھی زبان زد عام ہیں، ان
کاریگروں میں دو باتیں مشترک ہیں اول یہ کہ شہرت نام کے لئے بدنام ہونے کو
عار نہیں جانتے اور دوم مالی لحاظ سے کچھ مستحکم ہوتے ہیں اور اسی بل بوتے
پر نامساعد حالات کے شکار تخلیق کاروں کی تخلیقات پر کچھ مالی معاونت کے
عوض ہاتھ صاف کر کے خود کو ادیب، شاعر اور دانشور کے طور پر پیش کرتے نظر
آتے ہیں، اس ضمن میں پروفیسر ڈاکٹر نذر خلیق کی کتاب جو ان کا پی ایچ ڈی کا
مقالہ ہے بنام ’’اردو ادب میں سرقہ اور جعل سازی کی روایت ‘‘ پڑھنے سے تعلق
رکھتی ہے جس میں آسمان ِ ادب پر چمکتے بہت سے ستارے سرقہ اور جعل سازی کی
اتھا ہ گہرائیوں میں ڈوبتے نظر آتے ہیں۔ اردو ادب سے اچھی دلچسپی رکھنے
والا کوئی بھی قاری ان جعل سازوں اور ’’سرقہ نویسوں‘‘ کے شعر و نثر کو بہت
آسانی سے بھانپ سکتا ہے کہ ان کی تحریریں اور اشعار بھی سنبل کے رقص کی طرح
بے وزنی بے خیالی جیسی بے راہروی کا نمونہ ہوتی ہیں اور صاف پتہ چلتا ہے کہ
نہ تو انکی کوئی ادبی تعلیم اور مطالعہ ہے اور نہ ہی کسی استاد کی مجلس
نصیب ہوئی ہے، بس یونہی ادھر کی اینٹ ادھر کا روڑہ بھان متی نے کنبہ جوڑا
کے مصداق نو آموز اور ناپختہ کار تخلیق کاروں سے وعدہ فردا پر کلام ھتیا کر
ادب کے نام پر کاریگری کرتے نظر آتے ہیں اور دوسروں کے لکھے گئے پر اپنی
مہر ثبت کر کے کبھی سینہ چوڑا کرتے ہیں تو کہیں ابھارنے سے کام چلاتے ہیں۔
گزشتہ سال پاکستان جانے کا ارادہ بنا تو ایک دوست کے توسط سے معلوم ہوا کہ
اسلام آباد میں ایک ادبی کانفرنس کا انعقاد ہے اس میں بطور سامع شرکت کی
جائے چناچہ اس کانفرنس میں شریک مندوبین اور اصحاب سخن بارے معلومات حاصل
کیں تو ان میں ایک خاتون ہماری واقف کار بھی تھیں جن کے بارے مصدقہ اطلاعات
ہیں کہ ادبی میدان میں وہ بھی کسی تعلیم و تربیت کے بغیر ہی وارد ہوئی ہیں
اور فن کی خدمت میں سنبل سے زیادہ ماہر نہیں اور ان کے متشاعرانہ کلام کی
ویڈیوز بھی موجود ہیں، بس یہ سن کر اس نام نہاد کانفرنس میں شرکت کا خیال
دل سے نکال پھینکا کہ بلا ضرورت اختلاج قلب کو دعوت دینے کی کیا ضرورت ہے۔
افسوس ان پر ہے جو ادبی تنظیموں کے مدارالمہام ہیں اور بغیر تحقیق کئے کسی
بھی متشاعر اور جعلی ادیب کو دعوت سخن دے کر حقیقی ادب پرور لوگوں کی راہ
میں کانٹے بچھاتے ہیں، آج اردو ادب پر جو زوال کی کیفیت طاری ہے اس میں
جہاں ان کاریگروں کا حصہ ہے وہیں ان کے سرپرستوں کا کمال بھی جو اپنی تنظیم
کی معمولی سی مالی منعفت کی غرض سے ان کو اپنی محافل میں بلا بھیجتے ہیں،
اور یہ کاریگر اتنے باکمال کہ کانفرنس کے آخر میں سنبل کی طرح بڑے فخر سے
کہتے ہیں
|