علامہ خادم حسین رضوی کی اصل طاقت ان کی خطابت تھی جس میں
وہ سامعین پرسحرطاری کردیتے تھے ،جگہ جگہ ان کی تقاریر ہوتی تھیں ، ہر جگہ
ان کی تقریروں کو پذیرائی حاصل تھی ، وہ ایک اچھے خطیب تھے ، موقع شناسی
ومردم شناسی کے ماہر تھے،کس جگہ کیسی بات ہونی چاہیے مولانا اس فن کے
تاجدار تھے، انہیں اپنے خطیبانہ لب ولہجہ کی وجہ سے بھی کافی تنقیدکابھی
سامنارہا، ان کی تقریروں میں کوئی انوکھی اور اچھوتی باتیں نہیں ہوتی تھیں
؛ بلکہ مجمع کے لیے جس چیز کی ضرورت محسوس کرتے تھے، اس کو بڑے سادہ انداز
میں بیان کردیتے تھے ، الفاظ کی الٹ پھیر ، لہجہ کا تصنع اورپرتکلف انداز
بیان سے مولانا بالکل بیزارتھے ، وہ بالکل سنجیدہ لہجے کے عادی اور اس کے
حامی بھی تھے ، اور چاہتے یہی تھے کہ تقریروبیان میں اپنی صلاحیت کا نہیں ؛
بلکہ مجمع کی صلاحیت کا لحاظ کیا جائے ، خطابت ،بے خوفی ، بے باکی اورعشق
رسالت میں دیوانگی یہی ان کی خوبیاں تھیں اوریہ ہی ان کی اصل طاقت تھی ۔
دوسال قبل 19نومبرکی ہی بات ہے کہ کالم نگاردوست علامہ نویدمسعود ہاشمی کے
ہمراہ علامہ خادم حسین رضوی کے ساتھ ہری پورکاسفرکیاتھااس سفرکاسبب تحریک
لبیک کے رہنماء علامہ عنایت الحق شاہ اوربھائی عثمان مرزابنے تھے علامہ نے
ہری پورکی دورافتادہ چھوٹی سی بستی میں ولولہ انگیزخطاب کیا وہ تقریروں میں
اپنی واہ واہ نہیں چاہتے تھے ، وہ اس میدان میں ایک مختلف شخصیت بن کر
ابھرے تھے ، بڑے دبے اور سادہ لہجہ میں ایسی گفتگو کرتے تھے کہ دین وشریعت
کی باتیں ایک عام سے عام بے پڑھے لکھے انسان کوبھی سمجھ میں آجاتی تھیں ۔
آپ اپنے بیانوں میں صرف زبانی جملے نہیں کہتے تھے؛ بلکہ اپنا درد دل بیان
کرتے تھے، وہ جسمانی معذوری کے باوجود عزیمت کاکوہ گراں تھے ،مداہنت ان کے
پاس سے بھی نہیں گزری تھی مولانا خشک مزاج تھے اور نہ انہیں خشک مزاجی پسند
تھی، وہ ایک آزاداور زندہ دل انسان تھے ۔
ہرحکومت پر علامہ خادم حسین رضوی کے احتجاج اوردھرنے کاخوف طاری رہتاتھا
ملک میں دھرنوں کی جوریت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ڈالی
تھی علامہ خادم حسین رضوی نے بتایاکہ دھرناکیاہوتاہے تین سال قبل فیض
آبادکے مقام پرہونے والے چنددنوں کے دھرنے نے مسلم لیگ ن کی حکومت کی
اکڑفوں ختم کردی تھی حالانکہ ن لیگ کی حکومت کاپاکستان تحریک انصاف کا
126دھرنابھی کچھ نہیں بگاڑسکاتھا ،دوسال قبل جب علامہ نے فیض آبادکے مقام
پرجلسہ کرنے کاپروگرام بنایاتوموجودہ حکومت نے ان سے معاہدہ
کیااورپھرمعاہدے کی خلاف و رزی کرتے ہوئے علامہ خادم حسین رضوی
کوگرفتارکرلیا اب کی بارعلامہ خادم حسین رضوی نے فرانس میں توہین آمیزخاکے
شائع کرنے کے خلاف ایک مرتبہ پھراحتجاج کااعلان کیا توحکومت کے ہاتھ پاؤں
پھول گئے طاقت کے استعمال کے بعد حکومت معاہدے پرمجبورہوئی مگربعدازاں
وفاقی وزیرمذہبی امورکے اس اعلان نے کہ اس معاہدے کی کوئی قانونی حیثیت
نہیں انہیں رنجیدہ کردیاتھا ۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ اس مرتبہ علامہ خادم حسین رضوی نے اتنی جلدی معاہدہ کیوں
کیا ؟لوگوں کومعلوم نہیں مگرعلامہ رضوی جانتا تھا اسے شدید بخار تھا سانس
مشکل سے لے رہا تھا وہ ہسپتال سے دھرنے میں پہنچاتھاوہ جانتا تھا اسلام
آباد کی ٹھٹھرتی راتیں اس بخار میں جان لیوا ہو سکتی ہیں مگروہ پھربھی
دھرنے میں شریک ہوااور آخری چند سانسیں بھی اس نے دفاع ناموس رسالت کے مقدس
مشن اورعشق رسالت میں گزاریں ، علامہ خادم حسین رضوی کوقرآن وسنت کے بعد
علامہ اقبال سے عشق تھا علامہ اقبال کی اردووفارسی شاعری انہیں ازبرتھی
اپنے خطاب میں وہ اقبال کے اشعارایسے اندازمیں پڑھتے تھے کہ مجمع جھوم
اٹھتاتھا نومبرکے مہینے سے علامہ خام رضوی کاخاص لگاؤتھا کیوں کہ اسی
نومبرکی 9تاریخ کوعلامہ اقبال پیداہوئے تھے علامہ خادم رضوی نے زیادہ
احتجاج اوردھرنے نومبرکے مہینے میں ہی دیئے اوراسی نومبرکی 19تاریخ کووہ اس
دنیاسے کوچ کرگئے ۔
علامہ رضوی دراصل ایک مدرس تھے مگرناموس رسالت پررکیک حملوں ،توہین رسالت
کے پے درپے واقعات اوراورناموس رسالت کے محاذپردینی جماعتوں کی کمزوری نے
انہیں ایک تحریک آدمی بنادیاتھا یہی وجہ ہے کہ ان کے ساتھ ہجوم زیادہ
اورکارکن کم تھے مگرہرگزرتے دن کے ساتھ علامہ خادم اس ہجوم کومنظم کررہے
تھے اسی کودیکھتے ہوئے انہوں نے تحریک لبیک کوسیاسی پلیٹ فارم پربھی مضبوط
کیا 2018میں ہونے والے انتخابات کودیکھاجائے توعلامہ خادم رضوی پاکستان
تحریک انصاف کے محسن ثابت ہوئے تھے کیوں کہ الیکشن میں تو تحریک لبیک اگرچہ
بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکی مگرتمام سیاسی جماعتوں کواس نے نقصان
پہنچایااورخاص کرکے مسلم لیگ ن کوپنچاب سے آؤٹ کرنے میں علامہ خادم رضوی نے
اہم کرداراداکیاہے جس کافائدہ پی ٹی آئی کوہوا ۔پنچاب جومسلم لیگ ن کاگڑھ
تھا وہاں تحریک لبیک نے 18 لاکھ سے زائدووٹ لے کرسب کوحیران کردیاتھا۔
تحریک لبیک نے سندھ میں تحریک لبیک کو 4لاکھ سے زائدووٹ ملے تھے۔ قومی
اسمبلی کے انتخاب میں 22 لاکھ 31 ہزار 6 سو 97 ووٹ حاصل کیے ۔جبکہ عام
انتخابات میں متحدہ مجلس عمل نے25 لاکھ 41 ہزار 5سو20ہیں حاصل کرکے 12
نشستیں حاصل کی تھیں۔
علامہ خادم حسین رضوی سے جب بھی ملاقات ہوئی انہوں نے ہمیشہ پرنٹ
والیکٹرانک میڈیاکی بے رخی کاشکوہ کیا مگرجلدہی دیگرمذہبی جماعتوں کی طرح
انہوں نے بھی سوشل میڈیاکومضبوط کیاانہیں اپنے مسلک سے بھی شکایت تھی ان کے
مسلک نے بھی کماحقہ ان کی قدرنہ کی جبکہ دیگرمسلک والوں سے بھی وہ خفارہتے
تھے یاوہ ان سے خفارہتے تھے،بدقسمتی سے علامہ رضوی کی سوشل میڈیاپروائرل
ہونے والی چندویڈیوزسے ان کی شخصیت کے متعلق تاثرقائم کیاگیا جس میں وہ
اپنے مخالفین کے خلاف سخت زبان استعمال کررہے ہیں اس حوالے سے میں نے ایک
مرتبہ علامہ رضوی سے استفسارکیاتوانہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیاکہ یہاں
توسیاستدان ٹی وی شوزمیں لائیوایک دوسرے کوگالیاں دیتے ہیں ،گھونسے مارتے
ہیں اورغلیظ سے غلیظ القابات سے نوازاتے ہیں اور میرے چندجملوں
کوپکڑکرطوفان اٹھادیاجاتاہے ،اور چندویڈیوزکوتوڑموڑکرطوفان برپاکردیاجاتاہے
۔
وہ اپنے آپ کو پیغمبر اسلام کا چوکیدار کہہ کر بلاتے تھے۔ہ حافظ قرآن ہونے
کے علاوہ شیخ الحدیث بھی تھے ،راردو،عربی ،پنچابی کے ساتھ فارسی زبان پر
بھی عبور رکھتے تھے۔وہ 22 جون 1966 کو نکہ توت ضلع اٹک میں حاجی لعل خان کے
ہاں پیدا ہوئے تھے۔ جہلم و دینہ کے مدارس دینیہ سے حفظ و تجوید کی تعلیم
حاصل کی جس کے بعد لاہور میں جامعہ نظامیہ رضویہ سے درس نظامی کی تکمیل
کی۔ایک حادثے میں وہ معذورہوگئے مگراس معذوری کوانہوں نے کبھی آڑے نہیں آنے
دیا۔ علامہ خادم حسین رضوی کے بارے میں چند برس پہلے تک کچھ زیادہ معلوم
نہیں تھا۔مگراس وقت ملک سمیت بیرون ملک بھی لاکھوں لوگ انہیں نہ صرف جانتے
ہیں بلکہ ان کے حکم پرجان قربان کرنے کوسعادت سمجھتے ہیں ۔
ایک عاشق کی زبان میں یہی کہاجاسکتاہے کہ اس 21 ویں صدی کے ایمان سوز ،
گمراہ کن ماحول میں روح رومی ، جذبہ سعدی، کیف اقبالی، سوز جامی لئے، جانے
وہ کہاں سے آیا اور خوابیدہ و غافل قوم کو عشق رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہ
وسلم کی اذانوں سے جگایا اور پھر یکدم کہیں چل دیا میں حیرت میں غلطاں و
پیچاں یہ کھڑا سوچ رہا ہوں!وہ کون تھا؟ وہ کیا تھا؟وہ عشق تھا وہ سوز تھاوہ
کہاں ملے! وہ کہاں گیا ! آہ امیر عاشقاں آہ۔
ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|