پیغامِ حبیبِ کبریا ﷺ/ تصنیف: محمد سرور رانا
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
پیغامِ حبیبِ کبریا ﷺ/ تصنیف: محمد سرور رانا ڈاکٹر رئیس احمد صمدنی پروفیسر ایمیریٹس، منہاج یونیورسٹی، لاہور نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کی سیرت طیبہ بیان کرنا، لکھنا، ثناخوانی کرنا، نعت لکھنا بابرکت، باعث ثواب اور ہماری آخرت سنوارنے کا ذریعہ ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں کو سیرت مصطفےٰ کو قلم بند کرنے میں صرف کرتے ہیں۔قرآن مجید فرقان حمید کا ترجمہ ہو، تفسیر ہو، احادیث مبارکہ کی تدوین ہو یا سیرت نبوی ﷺ،رب تعالیٰ کی خصوصی عنایت ہی کی صورت میں نصیب ہوتی ہے۔ آپ ﷺ کی لازوال عظمتوں کا احاطہ کون کرسکتا جس ہستی کی عظمت و مقام کا بیان اللہ تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں فرمایا ہو۔ صاحبزادہ فیض الا مین فاروقی سیالوی صاحب نے پیش نظر تصنیف ”پیغامِ حبیبِ کبریا ﷺ“کے مصنف کے بارے میں سچ کہا۔ ان کو ودیعت خوبیاں ہیں حق تعالیٰ سے کئی ہیں ملت اسلامیہ کے آپ اِک درد آشنا مصنف نے حرفِ آغاز میں لکھا کہ ’ایک خطا کار نے اپنے رب کے حضور کاغذ اور قلم کی زبان سے توبہ کی ہے، نہ تو کسی مکتب کی ڈگری اور نہ ہی علمی استطا عت ہے۔ بس ایک کاوش ہے کہ شاید اسی ذریعہ سے اس ناتواں اور عاجز کی نجات ہوجائے‘۔ اصل میں مالکِ کائینات جس کو توفیق عطا فرمادے، جس پر عنایت ہوجائے، جس پر مہربانی ہوجائے اسے کسی مکتب کی سند کی ضرورت نہیں ہوا کرتی، بس اس کے لیے اللہ کی خصوصی عطا ہی کافی ہوتی ہے۔ قرآن، ترجمہ، تفسیر، احادیث اور سیرت نبوی ﷺ پر وہی شخص قلم اٹھا سکتا ہے جس میں حدرجہ عقیدت و محبت، کمال درجے کا ادب و احترام، علم و عمل، تقویٰ و پرہیز گاری، سچی لگن، اپنے نبی ﷺ کی چاہت کوٹ کوٹ کر بھری ہو، ایسے لکھاری کے سامنے الفاظ اور جملے، زبان، قواعد و انشاء خود بہ خود ہاتھ جوڑے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ایسی مثالیں کئی ملتی ہیں کہ کسی بھی مکتب سے وابستہ ہوئے، نہ باقاعدہ کسی اسکول، کالج یونیورسٹی میں باقاعدہ تعلیم حاصل کی لیکن انہیں توفیق خداوندی نصیب ہوئی، انہوں نے ایسی خوبصورت، مسجع و مقفہ نثر اور نظم لکھی کہ پڑھ کر انسان عش عش کر اٹھتاہے۔ پیش نظر تصنیف کے مرتب سرور رانا صاحب ہیں جو امریکہ میں مقیم ہیں۔ کتاب کی تدوینی و طباعتی امورکا ذمہ دار اسلامک میڈیا سینٹر ہے اور سینٹر کے روح رواں ملک محبوب الرسول قادری صاحب ودیگر احباب کی انتھک محنت سے سیرت نبوی ﷺ پر ایک خوبصورت گلدستہ تشکیل پا چکا ہے۔ ملک محبوب الرسول قادری صاحب نے ’خوش نصیب قلم کار محترم محمد سرور رانا کی کتاب اور عصر حاضر“ کے عنوان سے تقدیم تحریر فرمائی۔ جس میں قبلہ قادری صاحب نے تفصیل اور دلیلوں کے ساتھ بیان کیا ہے کہ حضور سیدِ عالم ﷺ تخلیق کے لحاظ سے اول الخلق ہیں اور آخر الا نبیاء ہیں۔ آپ نے اللہ کی قرب حاصل کرنے کے چھ وسیلے بیان کیے جن سے فائدہ اٹھایا جائے تو ان شاء اللہ عبودیت اور حب الہٰی دونوں کما حقہ حاصل ہوں گے۔ بدعت اور دین، محفل میلات شریف کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی ہے۔ کتاب کے بارے میں متعدد احاب دانش و بینش کی رائے موجود ہے۔ احباب میں ڈاکٹر عبد القدیر خان، ٖڈاکٹر قاسم پیرزادہ، مولانا مفتی محمد اطہر نعیمی، جسٹس(ر) میاں نذیر اختر، ابو لخیر ڈاکٹر محمد زبیر، مولانا مفتی محمد منیب الرحمن، مفتی محمد خان قادری، مفتی جمیل احمد نعیمی، علامہ ڈاکٹر محمد صحبت خان کوہاٹی، محمد عبد الرحمن السنی، علامہ شاہد اقبال جلالی شامل ہیں۔ تقاریظ کے بعد حصہ اول ہے جو15ابواب پر مشتمل ہے جب کہ حصہ دوم ’تعلیمات‘ پر مبنی ہے۔ سیرت النبی ﷺ کاکوئی ایک پہلو بھی ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ جس کا احاطہ اس تصنیف میں شامل نہ ہو۔ موضوعات جن پر نبی مکرم ﷺ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے کی تفصیل بیان کیے بغیر بات واضح نہیں ہوگی، باب اول جزیرہ عرب (حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مسکن، دین حنیف، خانہ کعبہ کی تعمیر، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی اور سعی(صفا اور مروہ) کی تفصیل بیان کرتا ہے۔باب2میں خاندانِ قریش (سقایہ و رفادہ)، ابراہہ کی خانہ کعبہ پر چڑھائی، زم زم کی تلاش اور عبدا للہ ابن المطلب کی قربانی کا احاطہ کرتا ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ کا سلسلہ نسب، ظہور قدسی (ولادت) حضرت عیسی علیہ السلام کی بشارت، رضاعت (حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا، شق صدر اور مدینہ کاسفر باب 3میں بیان کیا گیا ہے۔باب 4عبدالمطلب کی کفالت، ابو طالب کی کفالت، شام کا سفر، حرب فجار(قریش اور قیس قبیلہ کے درمیان ہوئی)، حلف الفضول کی تفصیل ہے۔باب5تعمیر کعبہ، حجر اسود، شغل تجارت، حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے نکاح، احبابِ قاص، طلوع آفتاب رسالت (پہلی وحی)، غارِ حرا میں عبادت، ورقہ بن نوفل کے پاس جانا، انبیا کرام کے مقامات کا احاطہ کرتا ہے۔باب 6توحید کی دعوت، قریش کی مخالفت، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام، سردارانِ قریش کی مدافعت، حضرت ابو زرغفاری رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام، روم اور فارس کی جنگم حضور انور ﷺ سے عداوت کے اسباب، آنحضرت ﷺ کا اسلام کی خاطر مصائب جھیلنا، مسلمانوں کا اذیت برداشت کرنا، قریش کی ایذاء رسانیاں جیسے موضوعات شامل ہیں۔ باب 7میں ہجرت حبشہ، قریش کا سفارتی وفد نجاشی کے پاس، قریش کا مقاطعہ (شعب ابی طالب)، عم الحزن، طائف میں توحید کی دعوت اور لیلتہ الجن جیسے موضوعات شامل ہیں۔ باب8میں اسراء و معراج، دوس قبیلہ کا مشرف با اسلام ہونا، اوس و خزرج کاا سلام کی دعوت، بیعت عقبہ اولیٰ پر مشتمل ہے۔ باب9ہجرت مدینہ، غار ثور، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی معیت، سراقہ بن جعشم کا واقعہ، اُم معبد کے گھر قیام، مسجد قبا کی تعمیر اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر پر قیام (مدینہ آمد)۔ باب 10مسجد نبوری ﷺ کی تعمیر، مواخاۃ، باقاعدہ نماز کا حکم، اذان کی ابتدا اور متفرق واقعات بھی اس باب میں شامل ہیں۔ باب 11 آنحضرت ﷺ کی زندگی کے معاملات واقعات کو آگے بڑھاتا ہے اس باب میں مدینہ کے قبائل سے معاہدات، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام، روزہ کی فرضیت، لیلتہ القدر، تحویل کعبہ، آغا زِ غزوات، آیت جہاد کانزول، غزوہ بدر، حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی شادی، غزوہ بنی قینقاع، غزوہئ اُحد، غزہئ بنو نصیر، غزوہئ مریسیع یا نبی المطلق، واقعہ افک، غزوہئ احزاب اور بنو قریظہ کا خاتمہ کا ذکر اختصار سے کیا گیا ہے۔باب 12میں غزوہئ رجیع، حضرت زینب رضی اللہ عنہ سے نکاح، صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان، سلاطین کو اسلام کی دعوت، غزہئ خیبر، ادائے عمرہ، غزوہئ موتہ، غزوہئ سیف البحر، فتح مکہ، غزوہ ئ حنین، اواس، طائف، واقعہ ایلا ء و تخیر، غزوہئ روم یا غزوہ ئ تبوک، مسجد ضرار، حج اسلام اور اعلانِ برأت اور جہاد جیسے موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ باب 13 حجتہ الوداع، تکمیل فرض نبوت۔ وصال نبی ﷺ متروکات پر ختم ہوتا ہے۔باب14شمائل، حلیہ اقدس، ازواج مطہرات رضی اللہ عنہا، اولاد، خطابتِ نبویﷺ عبادات، خصائص نبوی ﷺپر مشتمل ہے۔ آخری باب یعنی باب 15معجزات، توحید، عقائد، ایمانیات، اللہ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان۔ رسولوں پر ایمان، کتب الٰہی اور صحیفہئ وحی پر ایمان، آخرت پر ایمان، برزخ الموت اور قیامت صغریٰ پر ختم ہوتا ہے۔ان ابواب سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مصنف نے سیرت پاک حضرت محمد ﷺ کے تما م گوشوں پر مختصر لیکن جامع احاطہ کیا ہے۔ تصنف کا حصہ دوم ”تعلیمات“ ہے جس میں 12فصلیں ہیں ہر ایک فصل میں ایک موضوع پر سیر حاصل مواد فراہم کیا گیا ہے جیسے امر بالمعروف و نہی عن المنکر، عمل صالح، تقویٰ، روزہ، توکل، رزقِ حلال، صبر، ذکر، شکر،عفو و درگزر، توبہ علاماتِ ساعت کے تحت بیت القدس کی فتح،طاعون، حجاز میں بہت بڑی آگ کا واقعہ ہونا، ترکوں سے جنگیں، سچائی سے انحراف، جہالت کا دور، بد کاری(زنا) عام ہوجائے گی، سود کی لعنت، مساجد کی تعمیر میں سجاوٹ، عورت اپنے آقا کو جنم دے گی، وقت سمٹ جائے گا، تجارت وسیع پیمانے پر ہوگی، جھوٹی گواہی، اچانک موت، مرد اور عورت کی تعداد کا تناسب، Hostality،دریائے فرات سے سونے کا پہاڑ ظاہر ہوگا، جانور اور چیزیں باتیں کریں گے، لوگ موت کی خواہش کریں گے، رومیوں کے ساتھ جنگیں، قسطنطنیہ کی فتح، یہود کے ساتھ جنگ، المہدی کا ظہور، یوم حساب کے بارے میں چند بڑی علامات، دجال کی شکل و صورت کیسی ہوگی، وہ کہاں سے ظاہر ہوگا،دجال کا خاتمہ، سید نا عیسی علیہ السلام کا نزول،یاجوج ماجوج، قصہ ئ ذو لقرنین، زمین کا دھنسنا، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، ابن صیاد، نبوت کے جھوٹے دعویدار، بدکاری کا عام ہونا، مذہب میں جھوٹ اور اختراع کا استعمال، رومیوں کے ساتھ جنگ، یومِ حساب کے بارے میں چند بڑی علامات، دجال کے فتنے سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟ سیرت بنوری ﷺ پر مختلف زبانوں میں مختصر اور ضخیم تصانیف لکھی جاچکی ہیں جو کئی کئی جلدوں پر مشتمل ہیں، سیرت ﷺ پر اہل علم مصروف قلم ہیں۔آپ ﷺ کی سیرت پر لکھنے کا عمل تا قیامت جاری و ساری رہے گا۔کسی بھی مسلمان کے لیے قرآن، ترجمہ، تفسیر اور سیرت بنوی ﷺ ایسے موضوعات ہیں کہ ان موضوعات کو قرطاس پر منتقل کرنے والے دین اسلام کے علم کو دنیا میں منتقل کرنے کا فریضہ تو سر انجام دے ہی رہے ہیں ساتھ ہی اس دنیا کے علاوہ حقیقی دنیا جو آخرت کی دنیا ہوگی میں اپنے لیے آسانی کا سامان بھی پیدا کررہے ہیں۔ پیغام حبیب کبریا ﷺ کے مصنف محمد سرور رانا نے سیرت نبوی ﷺ پر یہ مجموعہ مرتب کر کے اسلامی ادب میں خوبصورت اضافہ کیا بلکہ اپنے لیے جنت کا سامان بھی کر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت کو قبول فرمائے، آمین۔اپنی بات ظفر الا سلام ظفر برہانی کے اس قطعہ پر کرتا ہوں۔ بادہئ ِ تہذیب حاضر میں تغیر کے لیے ہے ہوائے تازہ ”پیغام حبیبِ کبریا ﷺ (یکم نومبر 2020ء)
|