دھوپ میں جلتے خواب:افسانے /نغمانہ شیخ
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
|
دھوپ میں جلتے خواب:افسانے /نغمانہ شیخ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی ادبی کتابی جریدے ”سلسلہ“ کے مدیر اعلیٰ مرتضیٰ شریف نے نغمانہ شیخ کے افسانوں کا مجموعہ ”دھوپ میں جلتے خواب“ مجھے پہنچایا۔ جس پر افسانہ نگار نے ’بصد خلوص و احترام‘کے الفاظ میرے لیے استعمال کرتے ہوئے اپنے افسانوں کا مجموعہ مجھے عنایت فرمایا۔ ”کتاب کو عزت دو“ میرا نصب العین ہے، نعرہ ہے، پیغام ہے۔میری کوشش ہوتی ہے کہ کتاب کے ساتھ ساتھ کتاب کے خالق کو بھی احترام دوں اور اس کی تخلیق پر اپنی صلاحیت بھر کچھ توسیفی جملے لکھوں۔ کتاب میں چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی نشاندھی کا میں قائل نہیں۔ کتاب کی اشاعت میں انتہائی کوشش کے باوجود کچھ نہ کچھ کمی کوتاہی رہ ہی جاتی ہے۔ بعض اوقات کمپیوٹر ہی الفاظ کو ملا کر درست کو غلط کردیتا ہے۔ اس طرح نغمانہ شیخ کے افسانوں کا مجموعہ میری ذاتی لائبریری کی زینت بن گیا، اس انتظار میں کہ کب اس کی باری آتی ہے اور میں اس پر اظہار خیال کرتا ہوں۔لکھنے کے حوالے سے میرا طریقہ وارداد کچھ یو ہے کہ میں کمپوٹر پر برائے راست لکھتا ہوں یعنی قلم اور قرطاس پر نہیں لکھتا، برائے راست انگلیا ں کی بورڈ پر چلتی ہیں اور تحریر آگے بڑھتی رہتی، دوسری بات یہ کہ میں ایک وقت میں کئی کئی موضوعات کی فائل بنالیتا ہوں، جب جس موضوع پر لکھنے کا موڈ ہوا، اس میں کچھ اضافہ دیا۔ اس طرح نغمانہ شیخ کے افسانوں پر بھی بہت پہلے لکھنے کا آغاز کردیا تھا، اسے اب مکمل ہونا تھا۔ دھوپ میں جلتے خواب‘ کا چہرہ(ٹائیٹل) دیدہ زیب ہے، عنوان کی مناسبت سے دھوپ اور کسی دوشیزہ کا عکس خوابوں کے جلنے کی تصویر کشی کا منظرپیش کر رہا ہے۔ رنگوں کا امتزاج عمدہ ہے۔ بیک ٹائیٹل کتاب کے سرورق سے کم دیدہ ذیب نہیں، یہاں افسانہ نگار مسکراہتے چہرے کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ تہذیب انٹر نیشنل نے کتاب کی اشاعت کا اہتمام کیا اور بہت خوب کیا۔ فلیپ پر افسانہ نگار کے افسانوں سے اقتباس درج ہیں۔ طباعت صاف ستھری، سفید کاغذ اورخوبصورت جلد نے کتاب کو مجموعی طور پر جاذب نظر بنادیا ہے۔کتاب کا ظاہر توہے ہی حسین،اس کا باطن بھی حسین و دلچسپ ہے،دل میں اتر جانے والا ہے خاص طور پر اس اعتبار سے کہ یہ افسانہ نگار کی اولین تصنیف ہے گو وہ گزشتہ کئی سال سے افسانے لکھ رہی ہیں لیکن اس کتاب سے وہ ایک صاحب تصنیف کی حیثیت سے متعارف ہونے جارہی ہیں۔جس کے لیے وہ قابل مبارک باد ہیں۔ افسانہ نگارنے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ انہیں ’کہانیاں بنانے‘ کا بچپن سے شوق تھا اور کہانیاں بناتے بناتے خود کہانی بن گئیں اور افسانہ نگار بھی۔ موصوفہ نے کہانیاں بنانا لکھا ہے، جب کہ کہانیاں بنائی نہیں جاتی، البتہ باتیں بنائی جاتی ہیں اور کہانیاں سنائی یا لکھی جاتی ہیں۔ خیر اس تحریر میں یہ خبر بھی ہے کہ یہ نغمانہ شیخ کے افسانوں کی پہلی کتاب ہے۔ کتاب کی اشاعت پر کسی بھی مصنف کو کس قدر خوشی ہوتی ہے اس کا احساس مصنفین کو بخوبی ہوتا ہے اور نغمانہ شیخ کو بھی یقینا ایسی ہی خوشی ہوئی ہوگی۔ پہلی تخلیق پر دلی مبارک باد۔ مجموعہ کی تدوین میں نغمانہ شیخ کے بیٹے اور بیٹیاں معاون ہوئیں یہ اور بھی اچھی بات ہے۔ کسی بھی لکھاری کی اولاد میں اس جذبہ کا ہونا خوش آئند بات ہے۔یہ 17افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ابتدائی صفحات میں مصنفہ کی افسانہ نگار پرچند احباب کی رائے بھی ہے ان میں نسیم درانی، اے خیام، رحمن نشاط، زیب اذکار حسین، نسیم انجم، ڈاکٹر شاہد ضمیر اور ظریف احسن شامل ہیں۔ان احباب میں اکثر کہانی کار اور افسانہ نگار بھی ہیں ان کی رائے سے اندازہ ہوتا ہے کہ نغمانہ شیخ کو افسانہ نگاری کا فن آتا ہے۔ وہ افسانہ کی کاری گری، کہانی، پلاٹ اور کرداروں سے بخوبی واقف ہیں۔ادبی جریدے ”سیپ“ کی افسانہ نگار ہیں، سیپ کے مدیر اعلیٰ نسیم درانی کا کہنا ہے کہ ”نغمانہ شیخ کے افسانے جرات مندی کا اظہار ہوتے ہیں، کہتے ہیں کہ وہ بہت جی دار خاتون ہیں معاشرے پر بہت گہری نظر رکھتی ہیں“۔اے خیام کا خیال ہے کہ”نغمانہ شیخ کی تحریر میں طنز کی تیزی بھی ہے، دکھوں کا کس بھی ہے، بے اطمینانی بھی ہے، انصاف کی ارزانی بھی ہے اور جذبات کی فراوانی اور رائیگانی بھی ہے“۔رحمن نشاط کے مطابق ”نغمانہ شیخ نے اپنے بیشتر افسانوں کی بنیاد کرداروں اور ان کی نفسیات پر رکھی ہے“۔زیب اذکار حسین نے ”نغمانہ شیخ کو جرأت ِ اظہار کی افسانہ نگار قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ”وہ موضوعات کو بہت سچائی کے ساتھ دیکھتی ہیں ان پر خوب غور وفکر کرتی ہیں اور اس کے بعد انہیں افسانوں کا حصہ بناتی ہیں“۔افسانہ نگار، کالم نگار نسیم انجم کا کہنا ہے کہ ”ان کے افسانے بُنت اور اسلوب بیان کے اعتبار سے کامیاب افسانے ہیں وہ ایسے تلخ موضوعات پر قلم اٹھاتی ہیں جن سے دوسرے قلمکار بچ کر گزرجاتے ہیں اور پھر ابتداء سے انجام تک بے حد مہارت کے ساتھ پہنچاتی ہیں“۔ڈاکٹر شاہد ضمیر نے اپنے اظہاریہ کو ”نغمانہ شیخ کی جادو گری“ کا نام دیا ان کا خیال ہے کہ تخلیقی شان کے ساتھ ایسی شفاف نثر کم ہی لوگ لکھنے پر قادر ہوتے ہیں“۔ مجموعے میں شامل چند افسانوں کا ہی پوسٹ مارٹم ممکن ہے ورنہ بات بہت طویل ہوجائے گی۔ پہلا افسانہ ’کڑوا گھونٹ‘ ہے۔ جس کا آغاز ہی ایک خاتون کی تیسری بار طلاق سے ہوتا ہے۔ جس میں نادیہ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ میکے چلی جاتی ہے،عدت پوری ہونے کے بعد وہ ایک رسالے میں نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی لیکن یہ نوکری اسے چھوڑنا پڑی، دوسری جگہ جاب بھی مل گئی، اسی دوران اس کا شوہر نرمی کا مظاہرہ کرتا ہے یہاں تک کہ دونوں پھر سے ایک ہوجانے پر اتفاق کرتے ہیں، نادیہ کوئی فتوہ لے آتی ہے، والدین کی ناراضگی پر وہ اطمینان سے بھر پور لہجے میں خود کلامی کرتے ہوئے بولی کہ”جب زندہ رہنے کے لیے حرام کاری کرنی ہی پڑے تو کیوں نہ عزت کے ساتھ ”حرام زندگی“ گزاری جائے“۔افسانہ ”تنہائی“ میں میاں بیوی کے جھگڑے سے شروع ہوتا ہے، شوہر گھر چھوڑ کر باہر نکل جاتا، رات کی تاریکی اور اندھیرا،دور جاکر سنسان جگہ کسی دوسری عورت سے ٹکراؤہوجاتا ہے اور دونوں ساتھ چلنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ وہ خاتون سہیل کو اپنے گھر چلنے کی دعوت دیتی ہے وہ اس کے گھر بھی چلا جاتا ہے۔ عورت کا معاملہ بھی خوب تھا، شوہر ملک سے باہر، بچے ہاسٹل میں، دولت کی فراوانی، عالی شان گھر لیکن تنہائی سے وہ عورت پریشان، دونوں رات میں باتیں کرتے کرتے وہ کچھ کرگزرے جو نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن عورت اپنے کیے پر سہیل سے کہتی ہے کہ ’کوئی بات نہیں مگر میں خوش ہوں کہ ایک رات ہی سہی میں تنہا نہیں تھی میری وحشتوں کو سکون مل گیا‘۔ صبح ہوتے ہی سہیل کچھ بتاتا اس عورت نے سہیل کو اپنے گھر سے جانے کے لیے کہا اور سہیل نے اپنی راہ لی۔ایک افسانہ ”ونڈو شاپنگ‘‘ میں افسانہ نگار نے افسانے کے ایک کردار جس کا نام رشید ہے سے زندگی کے بارے میں خوبصورت بات کہلوائی۔ رشید کہتا ہے”زندگی کو ٹھرے ہوئے پانی کی طرح مت گزارو کہ ٹھرا ہوا پانی سڑ جاتا ہے جس کو نہ تو پیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس سے ہاتھ منہ دھویا جاسکتا ہے۔ زندگی ارتقاء کا نام ہے اپنی بقا کا نام ہے ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے“۔ اسی طرح افسانہ ”انتہائے محبت“ دو محبت کرنے والوں وقاص اور حنا کی کہانی ہے جس میں وقاص نہ صرف حنا سے بے انتہا محبت کرتا ہے خاص طور پر اس کے لمبے بالوں کا عاشق ہوتا ہے۔ زندگی خوشگوار تھی، اللہ نے تین بیٹے عطا کیے تھے، گھر میں تین بہوؤں کاخوشگوار اضافہ ہوگیا تھا۔ گھر کے خوشگوار ماحول کو اچانک چھٹکا لگتا ہے اور ہارٹ اٹیک کے نتیجے میں وقاص کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ افسانہ کا اختتام حنا کے اس جملے پر ہوتا ہے جس میں حنا اپنی ہیجانی کیفیت پر قابو پاکر دانت پیستے ہوئے کہتی ہے کہ ”میں نے یہی تو کہا ہے نا کہ مجھے اپنے بال کٹوانے ہیں کونکہ یہ مجھے وقاص کی جدائی کی طرح چھبتے ہیں“۔ اسی طرح نغمانہ شیخ کے مجموعے میں شامل تمام افسانچے انسانی معاشرہ کی چھوٹی بڑی، اچھی اور منفی کہانیوں کے گردہی گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ کہیں عورت کی مظلومیت اور کہیں مرد کی زیادتی افسانہ کی اصل روح قرار پاتا ہے۔ مجموعی طور پر افسانچوں کا مجموعہ افسانہ نگار کی صلاحتوں کا بہترین نمونہ ہے۔ اس امید کے ساتھ اپنی بات کا اختتام کرتا ہوں کہ افسانہ نگار اسی طرح افسانہ نگاری کرتی رہیں اور نئی تصانیف کی اشاعت کا اہتمام کرتے ہوئے اپنے خیالات و افکار اور تجربات لوگوں تک پہنچائیں۔ ان کا یہ عمل ادب کے فروغ میں سنگ میل ثابت ہوگا۔ (25نومبر2020ء)
|