بہار اور گجرات کے تناظر میں بیروزگاری و اجرت کا جائزہ

بہار کے انتخابی نتائج نے ان سارے لوگوں کو مایوس کیا جو ہندوستان کا سب کم عمر وزیر اعلیٰ دیکھنے کے خواب بن رہے تھے ۔ پچھلے پندرہ سالوں سے یہ ہورہا ہے کہ نتیش کمار جس کے ساتھ جاتے ہیں وہ انتخاب جیت جاتا ہے ۔ اس بار بھی یہی ہوا مگر خود نتیش کمار چلے گئے ۔ ان کی جماعت جو پچھلے انتخاب میں پہلے سے دوسرے نمبر پر سرکی تھی وہ اب تیسرے پر پہنچ گئی اور انہوں نے یہ اپنی سبکدوشی کا اعلان بھی کردیا۔ اس طرح گویا تیجسوی نے اپنی ناکامی کے باوجود بہار کی سیاست میں ایک اہم باب کو بند کردیا ۔ اس انتخاب کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ باوجود کوشش کے وزیر اعظم اس کو جذباتی موضوعات کی نظر نہیں کرسکے اور اس میں پڑھائی ، کمائی دوائی اور سنیچائی کا مدعا چھا گیا۔ ان چاروں میں سب سے زیادہ زور بیروزگاری پر تھا اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر یہ چمتکار کیسے رونما ہوا؟ کیا وجہ ہے کہ ا سبار کوئی 10 لاکھ تو کوئی 19 لاکھ ملازمتوں کا وعدہ کررہا تھا؟
ہندوستانی انتخاب میں جہاں جذباتی نعروں پر الیکشن بازی کی جاتی تھی اس بنیادی مسئلہ پر انتخاب کا ہونا خوش آئند بات ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آخر بہار میں بیروزگاری کو اس قدر اہمیت کیوں کر حاصل ہوگئی؟ اور کیا ملک کے دیگر صوبوں جیسے گجرات میں بھی انتخاب کا مرکزی موضوع بن سکتا ہے؟ ان سوالات کا جواب ہمیں ان جائزوں میں نہیں ملے گا جو ٹیلی ویژن چینل اور سوشیل میڈیا کے ذریعہ کیے جاتےرہے۔ ایک ایسے دور میں جبکہ قومی ذرائع ابلاغ چند استثناء کے علاوہ پوری طرح سرکار کی مٹھی میں بند ہوچکے ہیں سوشیل میڈیا نے زمینی حقیقت سے عوام کو روشناس کرانے کی ذمہ داری ادا کرنا بہت اچھی بات ہے لیکن جن چند لوگوں کی بات موبائل کا کیمرہ فلمبند کرناعوام کی مکمل نمائندگی نہیں کرپاتا۔ کیمرےکے سامنے بولنے والے لوگوں کا مشاہدہ محدود ہوتا ہے اس لیے مجموعی صورتحال کا پتہ لگانے کے لیے کچھ سرکاری و غیر سرکاری تحقیقی رپورٹس کے اعدادوشمار کو دیکھنا ضروری ہے ۔
ریزرو بنک آف انڈیا ہر سال ایک سالانہ ہینڈ بک شائع کرتا ہے۔ اس میں مختلف معاشی موضوعات کے حوالے سے تازہ اعدادو شمار اور اس کا گزشتہ سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ یہ دستاویز ہنوز سرکاری خرد برد سے محفوظ ہے اس لیے کافی معاون و مددگار ہوسکتی ہے ۔ پچھلے ہفتہ ریزرو بنک آف انڈیا نے اسے شائع کیا ۔ یہ چونکہ ایک بہت ضخیم کتاب ہے اس لیے فی الحال اس میں شامل صرف بیروزگاری والے جدول پیش نظر ہیں ۔ ملک کی ساری ریاستوں کا موازنہ لکھنے اور پڑھنے دونوں کے لیے دقت طلب ہوسکتا ہے اس لیے آسانی کی خاطر بہار جہاں انتخابات جاری ہیں اور گجرات کو منتخب کیا گیا ہے۔ عام طور پر بہار کے سارے مسائل کو بلا ثبوت لالو پرشاد یادو سے جوڑ دیا جاتا ہے اور ساری خوبیاں بلاجواز نتیش کمار کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہیں لیکن یہ اعدادو شمار اس خیال کی نفی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔

1993-1994 کے اندر لالو پرشاد یادو وزیر اعلیٰ تھے۔ اس وقت بہار میں شہری مردوں کے اندر بیروزگاری کا تناسب 6.8 فیصد تھا۔1999-2000 میں یہ بڑھ کر 7.3پر پہنچ گیا لیکن جب انہوں نے اقتدار نتیش کمار کو سونپا تو یہ معاملہ 6.7فیصدتک پہنچ گیا تھا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لالو جی کے راج میں بیروزگاری کے اندر جو اضافہ ہوا تھا وہ اس کو جاتے جاتے کم کرکے گئے۔ نتیش کمار نے 2009 -2000 تک اسے 6.3 فیصد تک اور 2011-2012 میں 4.5 فیصد تک پہنچا دیا جو اچھی صورتحال تھی ۔ غالباً اسی لیے انہیں 2015 میں کامیابی بھی ملی لیکن 2017-2018 کے آتے آتے حالات بگڑ گئے اور بیروزگاری کی9.2 تک جاپہنچی جو 2018-2019 میں بڑھ کر 10.4فیصد ہوگئی۔ یہ کورونا سے پہلے کی بات ہے ۔ کورونا میں جو لاکھوں مہاجر مزدور واپس ہوئے تو یہ مسئلہ سنگین صورت اختیار کرگیا ہے ۔ بہار کے لوگ مختصر جتھوں میں روزگار کے لیے باہر جاتے تھے تو محسوس نہیں ہوتا تھا لیکن جب وباء کے سبب ایک ساتھ لوٹے تو یقیناً اس کو بہت زیادہ محسوس کیا گیا اور پھر جب انتخابات کا اعلان ہوا تو یہ مرکزی مسئلہ بن گیا ۔

اب آئیے دیکھیں کہ اس دورانیہ میں گجرات کے اندر کیا ہوا۔ 1993-1994 میں گجرات کے آنجہانی کیشو بھائی پٹیل وزیر اعلیٰ تھے اس وقت شہر کے مردوں میں بیروزگاری کا تناسب3 فیصد تھا۔ 1999-2000 میں یہ گھٹ کر 2 فیصد پر پہنچ گیااس طرح گویا جب نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا تو انہیں گجرات بہت اچھی حالت میں ملا ۔ ان کے دور میں گجرات کے اندر زبردست فسادات ہوئے اس کے سبب 2004-2005 تک بیروزگاری ۱۵ فیصد بڑھ ک2.3 فیصد پر پہنچ گئی۔ نریندر مودی نے 2009-2010 تک اسے 1.5 فیصد تک اور 2011-2012 میں 0.6 تک پہنچانے کا کارنامہ وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے انجام دیا اور وہ مسلسل 3 انتخابات میں کامیاب ہوئےلیکن وزیر اعظم بن جانے کے بعد انہوں نےنوٹ بندی کرکے اور جی ایس ٹی لگا کر قومی معیشت کا ایسا بھٹاّ بٹھایا کہ اس سے گجرات بھی متاثر ہوا اور 20 سال سے بھی زیادہ پیچھے چلا گیا۔ 2017-2018 کے آتے آتے حالات ایسے بگڑے کہ بیروزگاری کی شرح 7 گنا بڑھ کر 4.3 تک جاپہنچی۔ اسی سال مودی اور شاہ کے تمام زور لگانے کے باوجود صوبائی انتخاب میں بی جے پی کی نشستیں 116سے گھٹ کر 99 پر آگئیں ۔ اس سے پتہ چلتا ہے بیروزگاری کا مدعا انتخابی نتائج کو متاثر کرتا ہے۔ 2018-2019 میں حالت سدھری تو ہے لیکن ابھی 1993-1994 کے برابر نہیں آئی ہے یعنی 3.4فیصد پر ہے ۔ کورونا نے اس میں جو اضافہ کیا ہے وہ الگ ہے۔

ان اعدادو شمار کا قومی اوسط سے بھی موازنہ دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ 1993-1994 میں نرسمھا راووزیر اعظم تھے ۔ اس وقت ملک کے اندر شہر ی مردوں میں بیروزگاری کا تناسب4فیصد یعنی گجرات سے زیادہ اور بہار سے کم تھا۔ 1999-2000 میں مرکزی حکومت بدل گئی اور اٹل بہاری واجپائی نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھال لیا لیکن اس دوران قومی سطح پر بیروزگاری میں 12 فیصد کا اضافہ ہوا اور وہ 4.5پر پہنچ گئی۔ 2004-2005 کے آتے آتے اس پر خاصہ کام ہوا اور وہ 3.8فیصد پر پہنچ گئی۔ یہ 16فیصد کی بہتری تھی لیکن وہ انتخاب پر اثر انداز نہیں ہوئی اور منموہن وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوگئے ان کی کوششوں سے 2009-2010 تک اسے 2.8 فیصد پر لایا گیا یعنی تقریباً 30فیصد کی کمی ہوئی۔ 2011-2012 میں یہ 3 فیصد پرپہنچی یعنی معمولی اضافہ ہوا۔ نریندر مودی نے اس کو خوب بھنایا اور دوکروڈ ملازمتوں کا کھوکھلا نعرہ لگا کر انتخاب جیت گئے۔

وزیر اعظم بن جانے کے بعد نریندر مودی نے قومی معیشت کا ستیہ ناس کردیا اس لیے 2017-2018 کے آتے آتے حالات ایسے بگڑے کہ بیروزگاری کی شرح 2گنا سے زیادہ بڑھ کر 7.1 تک جاپہنچی۔ یہ گزشتہ 45 سالوں میں سب سے اونچی شرح تھی ۔2018-2019 میں بھی یہ حالت نہیں سدھری اور وزیر اعظم کے لیے دوبارہ انتخاب میں کامیابی مشکل ہوگئی۔ اس زمانے رافیل کا ہنگامہ چل رہا تھا چوکیدار چور ہے کے نعرے لگ رہے تھے اس لیے مجبوراً پلوامہ اور ائیر اسٹرائیک کی مدد لے کر انتخابی جنگ لڑی گئی اور مودی جی پھر سے کامیاب ہوگئے لیکن اس بار بہار میں یہ قوم پرستی کا جعلی نعرہ نہیں چل پایااس لیے بی جے پی کو دقت پیش آگئی ۔ تیجسوی یادو نےبیروزگاری کے مسئلہ کو اس قدر زوردار انداز میں اچھال دیا کہ بی جے پی کو بھی مجبوراً رام مندر ، کشمیر اور پاکستان کو چھوڑ کر 19 لاکھ روزگار کا وعدہ کرنا پڑا لیکن چونکہ وہ ماضی میں دوکروڈ ملازمتوں کا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہی ہے اس لیے عوام کو اس پر اعتماد کرنا مشکل ہوگیا ۔ اس کے باوجود بی جے پی کے وفادار رائے دہندگان نے اسے کامیاب کیا۔

یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ ہندوستان کے دیہی علاقوں میں بیروزگاری کی شرح شہروں کے مقابلے ہمیشہ کم رہی ہے ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ دیہات کا بیروزگار شہر میں آجاتا ہے۔ اس لیے 1993-1994میں قومی سطح پر دیہات کی بیروزگاری صرف 1.4فیصد تھی بہار میں یہ تناسب 1.9 اور گجرات میں 1.3 فیصد تھا یعنی کوئی خاص فرق نہیں تھا ۔ نتیش کمار نے جب اقتدار سنبھالا تب بھی بہار کے دیہات میں بیروزگاری 1.8فیصد اور گجرات میں اس کے نصف سے بھیم 0.8 فیصد تھی۔ 2011-2012 کے آتے آتے جہاں گجرات کے دیہات کی بیروزگاری نصف ہوکر 0.4 فیصد پر پہنچی تو بہار میں یہ ڈیڑھ گنا بڑھ کر 2.7پر چلی گئی۔ اس کے پانچ سال بعد مودی راج میں تو دیہات کی معاشی ایسی تباہ برباد ہوئی کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 2017-2018 میں قومی سطح کا اوسط 3گنا سے زیادہ بڑھ کر 5.8 فیصد پر چلا گیا ۔ گجرات کے اندر بھی 5.5 پر جاپہنچا اور بہار میں تو 7.2فیصد پر چلا گیا ۔ اس کے ایک سال بعد قومی سطح پر اور گجرات کے اندر تو اس میں کمی دیکھنے کو ملی مگر بہار میں یہ مزید ڈیڑھ گنا بڑھ کر 10.6 فیصد پر پہنچ گئی۔

یہ ایک غیر معمولہ اضافہ ہے پچھلے سال تک بہار کے دیہی علاقہ میں بیروزگاری کی شرح شہروں سے بدتر ہوچکی تھی اور کورونا نے اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے۔ اس کا موازنہ اگر 15 یا 25 سال قدیم اعدادو شمار سے کیا جائے تو یہ 5 گنا سے بھی زیادہ کا اضافہ ہے۔ اس تناظر میں دیکھیں تو بیروزگاری اب صرف شہروں کا نہیں بلکہ گاوں گاوں کا مسئلہ بن چکی ہے۔ کوئی نامہ نگار جب شہر سے نکل کر گاوں میں بھی جاتا ہے تو اسے وہی گونج سنائی دیتی ہے ۔ این ڈی اے کے لیے فی الحال سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ لوگ اس مسئلہ کے لیے نتیش کمار اور نریندر مودی دونوں کو مشترکہ ذمہ دار مان رہے ہیں ۔ اس کی بھاری قیمت انہیں حالیہ صوبائی انتخاب میں چکانی پڑی اور بڑی مشکل سے نصف سے آگے بڑھ پائی لیکن آئندہ قومی انتخاب میں بھی اس کی دھمک سنائی دے گی اس لیے کہ پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے ۔ اب اس ملک کے بیروزگار نوجوان کو پاکستان اور چین کے نام سے بہلانا پھسلانا ناممکن ہوگیا ہے۔

غربت و افلاس کی ایک وجہ تو بیروزگاری ہوتی ہے لیکن دوسرا سبب آمدنی کی کمی ہے۔ ریزرو بنک کی ہینڈ بک سے اگر شہروں میں تعمیراتی صنعت کے اندر روزآنہ کی مزدوری کا جائزہ لیا جائے تو ایسے حیرت انگیز انکشافات ہوتے ہیں جن کا تصور محال ہے۔ یہ جدول بتاتے ہیں کہ 2014-2015 میں بہار کا ایک مرد مزدور روزآنہ 227 روپئے کماتا تھا اور اس کی آمدنی میں ہر سال بتدریج اضافہ ہوتا رہا ہے اور وہ 2019- 2020 کے آتے آتے یہ اجرت 302 پر پہنچ گئی۔ مہنگائی کے لحاظ سے یہ اضافہ خوش آئند ہے لیکن اگر اس کا موازنہ قومی اوسط سے کیا جائے تو یہ خاصہ کم ہے مثلاًکہ 2014-2015 میں مزدوری کا یہ قومی اوسط روزآنہ 275 روپئے پر تھا۔ مہنگائی کے ساتھ اس میں بھی ہر سال بتدریج اضافہ دیکھنے کو ملا اور وہ 2019- 2020تک وہ ۳۴۱ پر پہنچ گئی۔ یعنی اب بھی بہار کے اندر مزدور دیگر صوبوں کی بہ نسبت یومیہ 39 روپئے کم کماتا ہے۔یہ اعدادو شمار بھی بتاتے ہیں کہ آخر بہار کا مز دور اپنا صوبہ چھوڑ کر دوسری ریاستوں میں کیوں جاتا ہے؟ اس لیے کہ اسے وہاں پر زیادہ روپیہ ملتا ہے۔

یہاں پر چونکانے والی صورتحال آدرش گجرات کی ہے جہاں بڑے بڑے ٹاور تعمیر ہورہے ہیں اور بڑی صنعتیں لگ رہی ہیں۔2014-2015میں گجرات کے اندر مزدوروں کی روزآنہ اجرت بہار سے بہتر مگر قومی اوسط سے44 روپئے کم 241روپئےتھی۔ یہ کوئی معمولی فرق نہیں ہے کہ جسے نظر انداز کردیا جائے۔ اس کے بعد وہاں بھی آمدنی میں ہر سال اضافہ تو ہوا مگر قومی اوسط تو دور بہار سے بھی بہت کم تھا ۔ مثلاً اگر 2019- 2020کے اعدادو شمار کا موازنہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس سال قومی اوسط 341 یومیہ اجرت تھی جبکہ بہار میں یہ آمدنی 302 روپئے تک پہنچ گئی تھی لیکن گجرات میں یہ صرف 269پر تھی یعنی بہار سے 33 روپئے کم اور قومی اوسط سے تو 74 روپئے کم ۔ یہ زبردست فرق اس بات کا غماز ہے کہ گجرات میں مجبور ہوکر آنے والوں مزدوروں کا زبردست استحصال ہورہا ہے۔ اس سے بی جے پی کا استحصالی چہرہ بھی کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سورت کے اندر ہیروں کے عالمی مال کا کام لاک ڈاون میں بھی بغیر احتیاط کے جاری و ساری تھا اور اس دوران مزدوروں کے سب سے زیادہ پرتشدد مظاہرے گجرات کے شہروں میں نظر آئے کیونکہ جب ان کا کام بند ہوا تو مالکوں ان سے نظرین پھیر لیں اور انہیں بھوکا مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔

شہروں سے نکل کر دیہی علاقوں کی جانب چلیں تب بھی اجرت کے معاملے میں یہ صورتحال بہت مختلف نہیں ہے۔ ریزرو بنک کی اس ہینڈ بک میں دیہات کے اندر کام کرنے والے زرعی مزدوروں کی آمدنی کا بھی موازنہ پیش کیا گیا ہے۔ ۔ 2014-2015میں گجرات کے اندر ایک عام کھیت مزدور کی اجرت صرف 160 رپئے یومیہ تھی جبکہ وہ بہار میں 199 روپیہ یعنی 39 روپیہ زیادہ کماتا تھا ۔ یہ بہت بڑا فرق ہے یعنی تقریباً 25 فیصد جو مودی جی کے آدرش کو آئینہ دکھاتا ہے۔ اس زمانے میں قومی اوسط 225روپئے تھا۔ اس کے بعد ہرسطح پر اضافہ ہوا جو فطری ہے اس لیے اگر مہنگائی بڑھتی ہے تو اجرت بھی بڑھنی ہی چاہیےلیکن پھر بھی گجرات میں اجرت کا سالانہ اضافہ قومی اوسط اور بہار کی بہ نسبت بہت کم ہے ۔ مثلاً اگر 2019- 2020 کے اعدادو شمار کا موازنہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس سال قومی اوسط 287یومیہ اجرت تھی جبکہ بہار میں یہ آمدنی 257روپئے تک پہنچ گئی تھی لیکن گجرات میں یہ صرف ۲۰۸ تک پہنچ سکی تھی یعنی بہار سے 49 روپئے کم اور قومی اوسط سے تو 79 روپئے کم ۔ اس شرمناک صورتحال پر جتنا ماتم کیا جائے کم ہے۔

آدرش گجرات کی جعلی قوم پرستی (دیش بھکتی) میں اپنی قوم کے لوگوں کو مشکل کی گھڑی میں بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس سفاکی کا مظاہرہ شہروں میں لاک ڈاون کے دوران ہوا۔ شہروں اور دیہاتوں کی اجرت کے موازنہ سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ گاوں میں لوگ کم کماتے ہیں۔ پہلے دیہات میں خرچ کم ہوتا تھا لیکن اب یہ حالت بدل گئی ہے کیونکہ گاوں کا نوجوان بھی موبائل کا استعمال کرتا ہے اور موٹر سائیکل پر چلتا اور ان دونوں کا خرچ یکساں ہے اس لیے آمدنی کی کمی نوجوانوں کو شہروں کی جانب نقل مکانی کے لیے مجبور کرتی ہے نیز وہاں تعلیم وغیرہ کی سہولیات بھی بہتر ہوتی ہیں۔ بہار کی بابت ایک چونکانے والی یہ بھی ہے کہ اس صوبے میں جی ڈی پی کی شرح قومی سطح یعنی ۱۰ فیصد سے زیادہ ۱ء۱۱ فیصد ہے اس کے باوجود فی فرد آمدنی قومی اوسط سے ایک تہائی سے بھی کم ہے ۔ ملک میں اوسطاً ایک فرد کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ 35ہزار ہے اور بہار میں یہ صرف 43 ہزار 800ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دولت کی تقسیم کا مسئلہ بہت سنگین ہے ۔ ملک میں مٹھی بھر امیر لوگ امیر ترین ہوتے جارہے ہیں اور غریب مزدور کومفلسی کی اندھیری کھائی میں ڈھکیلا جارہا ہے۔ یہ سلسلہ اگر جاری رہتا ہے تو وہ دن دور نہیں جب ایک ایسا آتش فشاں پھٹ پڑے گا جو سرکار، دربار اور سرمایہ دار سب کو صفحۂ ہستی سے مٹا دے گا ۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1221486 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.