ترقی اور آنسو

ہمارے ایک دوست ہیں ضیاء الدین ۔۔ ہم انہیں بابا ضیاء بھی کہہ دیتے ۔۔۔عمر کے تفاوت کے باوجود ان سے گہرا تعلق رہا وہ بڑے نستعلیق قسم کے انسان تھے ،بڑے ہمدرد،مخلص اور سچے پکے پاکستانی۔۔۔جوانوں سے زیادہ متحرک ،فعال اورسوشل۔۔۔ سال پہلے کی بات ہے ایک دن معلوم ہوا کہ وہ کافی غلیل ہیں۔ ملاقات ہوئی تو خاصے کرب میں تھے ہمیں دیکھ کر بسترسے اٹھ بیٹھے ۔۔شاید
ان کے دیکھے جو آجاتی ہے منہ پررونق
وہ سمجھتے ہیں بیمارکا حال اچھا ہے

ہم نے انہیں کریدا۔۔پھر پاکستانی معاشرے،ترقی و تنزلی کی بات ہوئی جو کچھ انہوں نے کہا دل میں ترازو ہوگیا آپ بھی بابا ضیاء الدین کے خیالات سنئے اختلاف آپ کا حق ہے وہ کہتے ہیں سیاست دھرنے ،احتجاج،لاقانونیت سب کچھ برداشت کرلیا اربوں خرچ ہوگئے کھربوں کا نقصان ہوگیا۔۔پاکستان کا ۔۔عوام کا اس سے اپریشن ضرب ِ عضب کو بھی دھچکا لگا اگر یہی اربوں روپے بچ جاتے تو یقینا ملکی معیشت مضبوط ہوتی غیروں کو تو ایسے بہا نے چاہییں ہوتے ہیں کہ پاکستان ترقی نہ کرے ۔۔یہ ملک مضبوط نہ ہو ایک اسلامی ملک ترقی کیوں کرے؟اسے ایٹم بم بنانے کی جرأت کیونکر ہوئی؟ ہمارے ازلی دشمن بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ میں ایسی پالیسیاں بنائی گئی ہیں یہ عمل مسلسل جاری ہے کیسے کیسے حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔۔۔عوام ہیں کہ کبھی خوش ہوتے ہیں اور کبھی ناراض،نوجوانوں،عورتوں اور مردوں کوومحض تفریح بنائے رکھا سوچا جائے تو لگتاہے گویا انہیں زہریلا انجکشن لگا دیا گیا ہو جس کااثر دیرپا ہو۔۔۔ کاش ایسا نہ ہوتا میری رائے میں ایک شیخ نے اس دوران مزاحیہ اندازمیں منافقانہ رویہ روا رکھا ضرور اس میں عوام کیلئے شکوک و شبہات پنہاں ہیں۔۔۔ بہرحال ابھی اﷲ تعالیٰ کو پاکستان کی بہتری منظور ہے یہ قائم دائم رہے گا خوب ترقی بھی کرے گا۔۔۔ سیاسی بیانات میں بعض خود ساختہ لیڈر اپنی شعلہ بیانی کا حصہ بناتے ہیں کہ’’ 65برسوں تک پاکستان کو ہر حکومت نے لوٹا اور غریب ۔۔غریب ہی رہا‘‘۔۔ جناب یہ بالکل ہی غلط ہے پاکستان بنتے وقت کتنے لوگوں کے پاس موٹر سائیکل تھے کتنے مسلمان کاریں لئے پھرتے تھے ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی اور آج لاکھوں لوگ اپنا معیار ِز ندگی اوپر لا چکے ہیں۔۔کتنی بڑی بڑی فیکٹریاں بن چکی ہیں لاہورمیں1963ء میں پہلی بارالفلاح بلڈنگ اور واپڈاہاؤس بنایا گیا آج کتنی بڑی بڑی بلڈنگیں موجودہیں تعدادشمار نہیں کی جا سکتی اب جھونپڑی میں رہنے والے کے پاس،گدھا گاڑی والے کے پاس بھی موبائل فون ہے۔۔۔ جھونپڑیوں میںTVموجودہیں۔۔کسی بھی سڑک کو لے لیں آپ بآسانی پارنہیں کر سکتے آج کتنے انڈرپاس۔۔ اوورہیڈبرجزہیں،موٹروے ہے رنگ روڈزہیں ہرشہرمیں بائی پاس ہیں ناقدین کو چاہیے وہ ایک بار بادامی باغ میں آزادی چوک کا نظارہ کرلیں۔۔چونگی امرسدھو۔والٹن کی سڑکوں کا چکر لگا لیں ۔۔۔ایک بار صرف ایک بار شاہدرہ سے گجو متہ تک میٹرو بس(جسے چوہدری برادران جنگلہ بس کہتے ہیں) میں سفر کرکے دیکھیں آج ملک میں میڈیکل کالجز،یونیورسٹیوں،پمزہسپتال،PICہسپتال،جلوپارک،لاہور وائلڈ لائف پارک، سفاری پارک ہی جائیں پھر اپنے سینے پرہاتھ رکھ کر ۔۔۔اپنے خدا کو یاد کرکے دومنٹ سوچیں آپکو سب معلوم ہو جائے گا یہ سب کچھ ہم کو پاکستان نے دیاہے اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ہم نے پاکستان کو کیا دیا؟۔۔۔پاکستان نے تو اپنی قوم کو ایٹم بم دیا قوم نے پاکستان کو کیا دیا؟۔۔ سبھی حکومتوں نے ۔۔۔ہر برسراقتدار پارٹی نے اپنے دور ِ حکومت میں بہت سے کام کئے۔۔۔ غورکریں مسلم لیگی ادوار ان میں سب سے آگے ۔۔۔سب سے بہتر نظرآئے گابخل،انتقام،حسد سے کام نہ لیا جائے ایک خالص پاکستانی بن کر سوچئے اہو دعا کیجئے اﷲ ہمارے پیارے وطن کو تا قیامت شاد و آبادرکھے موجودہ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ رشوت،اقرباپروری،مہنگائی پر قابو پائے،نچلی سطح پر عوامی مسائل حل کرنے کیلئے بھی دھیان دیا جائے وزیر،مشیر اور ارکانِ اسمبلی کوئی پراگرس نہیں دے رہے آخرمیں پشاورآرمی پبلک سکول میں ہونے والے اندوہناک سانحہ پردعا کریں شہید ہونے والے بچوں کے و الدین کو اﷲ پاک صبرِ جمیل عطافرمائے یہ سانحہ بھلائے نہیں بھولتا میں تو کئی دن رویا،ڈیپریشن کا شکار ہوگیا طبیعت اتنی ناسازہوئی کو ڈاکٹرنےTVدیکھنے پر پابندی لگادی بہرحال ایسے واقعات ہی قوموں کو جگا دینے کا سبب بن جاتے ہیں ان شہیدوں کی یاد میں ایک نظم میری کیفیت کااظہارکرتی ہے
بہت دیرہو چکی،اب تک نہیں لوٹے
کہاں گئے ،ہمارے بچے کوئی توبتلائے
کہیں ٹھنڈ نہ لگ جائے میرے لال کو
گرم جرسی کی بجائے اس کو کفن پہنائے
ظالموں،دہشت گردو تمہیں خدا پوچھے
معصوم بچوں کو چن چن کے گولیاں ماریں
ترس نہ آیا تمہیں ہائے ہائے ہائے ہائے
گھرسے نکلے تھے چہچہاتے سکول کو
میرے بچے ،میرے پوتے،میرے نواسے
کہاں ہو آبھی جاؤ۔دوڑتے ہوئے
لگ جاؤ سینے سے نانا ابوجان کے
ماں تک رہی ہے راہ، بہن کو ہے انتظار
بلا ہاتھ میں لئے دوست ہیں بے قرار
چھوڑو ناراضگی یار تم تو مستقبل ہو ہمارے
تمہی سے بننا تھا کوئی کیپٹن،کوئی میجر،کوئی سپہ سالار
بہت دیر ہو چکی کیوں نہیں آئے ابھی تک
ارے کہاں گئے ہمارے بچے کوئی تو بتلائے؟
یہ کہتے ہوئے وہ ایک بارپھر پھوٹ پھوٹ کررونے لگ گئے۔
A جمہورکی آواز
ایم سرورصدیقی
A ترقی اور آنسو
 

Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 462 Articles with 338145 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.