میوا لال: سر منڈاتے ہی اولے پڑے

وزارت کے چکر میں لوگ عمر کھپا دیتے ہیں اور پھر بھی وہ ہاتھ نہیں آتی ۔ اس پر بھی صبر کیا جاسکتا ہے لیکن اگر ملنے کے بعد وہ فوراً چھن جائے تو دل پر کیا گزرتی ہے یہ تو ڈاکٹر میوا لال چودھری ہی بتا سکتے ہیں جن کو تین گھنٹے کے اندر استعفیٰ دینا پڑا۔ ویسے اپنا غم غلط کرنے کے لیے ان کے سامنے کئی مثالیں ہیں ۔ ان کے گرو نتیش کمار کو سن 2000 میں 8 دن بعد وزارت اعلیٰ کی کرسی چھوڑنی پڑی تھی۔ ان کے علاوہ کئی لوگوں کے ساتھ قسمت نے یہ مذاق کیا مثلاً ہریانہ کے اوم پرکاش چوٹالہ کو 1990میں صرف 6دنوں تک وزیر اعلیٰ بننے کا موقع ملا۔ دیویندر فڈنویس پچھلے سال مہاراشٹر میں 4 دن کے لیے وزیر اعلیٰ بنے ۔ اس سے پہلے2018 میں کرناٹک کے اندر یدورپاّ 3 دن میں چلتے بنے ۔ اترپردیش کے اندر جگدمبیکا پال کو 1998 میں دو دن کے بعد ہی کرسی خالی کرنی پڑی۔ میوالال چودھری ان بدقسمت وزراء میں سے ایک ہے جسے عہدہ سنبھالنے کے چند گھنٹے بعد سبکدوش ہونا پڑا۔ وہ بیچارے پہلے دن اپنی لال بتی والی گاڑی سے دفتر آئے اور منہلٹکا کرکے رخصت ہوگئے ۔

میوا لال چودھری کو سیاست وراثت میں ملی اور یہ وراثت ان کی آنجہانی زوجہ نیتا چودھری کی تھی۔ جس نیتا چودھری نے انہیں رکن اسمبلی بنوایا اسی کی وارداتِ موت نے میوا لال سے وزارت چھین لی۔ نیتا جس وقت رکن اسمبلی تھیں تو ڈاکٹر صاحب بھاگلپور ایگریکلچر یونیورسیٹی کے وائس چانسلر ہوا کرتے تھے۔بدعنوانی کے سنگین الزامات کے بعد انہوں ازخود سبکدوشی(وی آر ایس) لینے کا فیصلہ کیا ۔ اس کے بعد بدعنوان وائس چانسلر کے لیے سیاست بازی کی ساری رکاوٹیں دور ہو گئیں ۔ میوا لال نے عملی سیاست میں قدم رکھا اور2015 میں اپنی بیوی کے بجائے خود انتخاب لڑا اور کامیاب ہوگئے ۔ 2017 میں میوالال پر بھاگلپور کی زرعی یونیورسٹی کی وائس چانسلر شپ کے دوران ملازمت کے معاملے میں بدعنوانی کے سنگین الزامات منظر عام پر آچکے تھے اور بی جے پی والے ان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے تھے لیکن پھر نتیش کمار نے این ڈی اے میں قدم رنجا فرمایا تو میوا لال بھی گنگا نہا لیے اور بی جے پی ان کےسارے پاپ بھول گئی ۔ دودھ کے دھلے نتیش کمار نے موقع غنیمت جان کر اپنے پرانے دوست میوا لال کو وزیر تعلیم کے عہدے پر فائز کردیا ۔ لوگوں نے حیرت کااظہارکیا لیکن بی جے پی ان کی تقرری پر کوئی اعتراض کرنے کی زحمت نہیں کی ۔یہ وہی ڈاکٹر میوالال چودھری ہیں جن کے خلاف 161 اسسٹنٹ پروفیسروں کی غلط طریقہ سے بحالی کے معاملے میں ایف آئی آر درج کی گئی تھی اور مجبوراً انہیں اپنی ذمہ داری سے ہٹنا پڑا تھا۔انہوں نے جملہ 105 لوگوں کا تقرر کیا ان میں بہار کے باشندے صرف 18 تھے اور باقی سب دیگر صوبوں کے رہنے والے لوگ تھے ۔

یہ عجیب معاملہ تھا کہ بہار سے لوگ سارے ہندوستان میں ملازمت کے لیے جاتے ہیں اور خود بہار کے اندر اتنی بڑی تعداد میں باہر سے لاکر لوگوں کو ملازمت دی گئی۔نتیش کمار کو سوشیل انجیبیرنگ کاچانکیہ کہا جاتا ہے ۔ انہوں نے بظاہرپسماندہ طبقات میں تقسیم در تقسیم کرکے ان کے لیے الگ الگ ریزرویشن کا اہتمام کیا تاکہ کوئی ان کو اس حق سے محروم نہ کرسکے لیکن اس کا عملی مظاہرہ میوالال چودھری کے ذریعہ اس طرح ہوا کہ ان کی یونیورسٹی میں جون 2011 کے اندر ملازمت کی خاطر اشتہار نکلا اس میں قبائلی ذاتوں کے لیے 19 شعبوں کی28 اسامیاں تھیں ۔ ان میں سے15 شعبوں میں ایک بھی بھرتی نہیں ہوئی اور ہارٹیکلچر کے شعبے کی بھی ایک اسامی خالی رہ گئی۔ کل ریزرو اسامیاں 159 تھیں ان میں سے صرف 56 کو پُر کیا گیا اور 103 خالی رہیں۔ یعنی شیڈول کاسٹ کی 64 فیصد، قبائلیو ں کی 86 فیصد اور بے حد پسماندہ طبقات یعنی ای بی سی 80 فیصد اسامیاں خالی چھوڑ دی گئیں۔

یہ ہے نتیش کمار کے پسماندہ طبقات سے ہمدردی کی حقیقت جن کی بنیاد پر وہ سیاست کرتے ہیں اور ساتویں مرتبہ وزیر اعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل فرماتے ہیں۔ اس رویہ کے باوجود نتیش کمار نے لگاتار دوسری بات ڈاکٹر میوا لال چودھری کو نہ صرف ٹکٹ دیا بلکہ اس بار تو وزارت سے بھی نواز دیا۔موجودہ صدر مملکت رام ناتھ کوونداس زمانے میں بہارکے گورنر ہوا کرتے تھے ۔ انہوں نے چودھری کے خلاف تفتیش کے جو احکامات صادر کیے تھے اوران میں الزامات کو درست پایا گیا تھا ۔ میوالال پر یونیورسٹی عمارت کی تعمیر میں رشوت خوری کا الزام بھی ہے جبکہ ہر سیاستداں کی طرح کا وہ ان سب کو سیاسی مخالفت کا نام دے کرمسترد کرتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں یہ بات بھی آچکی ہے کہ میوا لال نے پٹنہ ہائی کورٹ میں سابق جج ایس ایم ایم عالم کی انکوائری کمیٹی کے سامنے تقررات کے اندر تفریق و امتیاز کیے جانے کا اعتراف کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی مان لیا تھا کہ امیدواروں کے لیے ریمارکس ، وائی وا(زبانی امتحان) اور ایگریمنٹ کے کالم انہوں خود بھرے تھے ۔

اس بدعنوانی کے منظر عام پر آنے کی وجہ بھی نہایت دلچسپ ہے۔ حکومت ہند نے اس طرح کی تقرری کے لیے نیٹ کے امتحان میں کامیابی کی شرط لگا رکھی ہے لیکن ڈاکٹر میوا الال نے اس سرکاری فرمان کو بالائے طاق رکھ کر 30 سے زیادہ ایسے امیدواروں کا انتخاب کرلیا جو اس امتحان میں ناکام ہوچکے تھے ۔ ان مثالوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر میوالال کس ڈھٹائی کے ساتھ بدعنوانی کرتے رہے ہیں ۔ اس کے باوجود لالو کے چارہ گھوٹالا کی آڑ میں ان کو وزارت سے سرفراز کرنا سراسر منافقت ہے؟ آر جے ڈی گزشتہ دو سالوں سے لگاتار میوالا چودھری کی بدعنوانی اور ان کی بیوی کی مشکوک حالات میں موت کی جانچ کا مطالبہ کر تی رہی ہے اور اس بار بھی ان کے استعفیٰ کی اصل وجہ بدعنوانی میں ملوث ہونا نہیں بلکہ زوجہ اور سابق رکن اسمبلی نیتا چودھری کی پر اسرار موت کا معاملہ ہے۔ نیتا چودھری کی موت گزشتہ سال 27 جولائی (2019) کو آگ سے جھلس جانے کے سبب ہوئی تھی ۔

میوالال کے وزارت کا حلف لینے کے بعد انڈین پولیس سروس (آئی پی ایس) کے ایک سابق افسر امیتابھ کمار داس نے ریاست کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس ایس کے سنگھل کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ نیتا چودھری کی موت کے معاملے کی تفتیش خصوصی جانچ ٹیم (ایس آئی ٹی) سے کرائی جائے۔ امیتابھ داس نے اپنے خط میں لکھا کہ نیتا کی موت کے پیچھے بڑی سیاسی سازش ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس موت کا تعلق زرعی یونیورسٹی کے بھرتی میں ہونے والے گھوٹالے سے ہو۔ انہوں نے سشانت سنگھ راجپوت کی مانند اس معاملے میں بھی سرعت سے ایس آئی ٹی تشکیل دے کر ڈاکٹر میوالال سے تفتیش کرنے کا مطالبہ کیا ۔ اس طرح گویا سشانت سنگھ کا جنِ پھر ایک بار بوتل سے باہر آگیا اور میوالال کو اپنی بوتل میں بند کردیا ۔

اس طرح وزارت سازی کے فوراً بعد ہی حزب اختلاف کو حکومت پر چڑھ دوڑنے کا ایک نادر موقع ہاتھ آگیا اور ان دونوں معاملات کو لےکر اس نےحکومت پر ہلہ بول دیا۔ اس سے وزیر اعلیٰ نتیش کمار گھبرا گئے اور انہوں نے یہ معاملہ جرائم کی تفتیش کے محکمہ (سی آئی ڈی) کے حوالے کرکے جانچ کا حکم دے دیانتیجتاً میوا لال کو اقتدار کے میوے محروم ہونا پڑا۔میوا لال کے استعفیٰ میں ذرائع ابلاغ کے دباو کا بھی اہم کردار ہے۔ ہندی زبان کے ایک بڑے اخبار بھاسکر کو دوپہر 12 بجےد اس کے خط کی اطلاع ملی تو اس نے متعلقہ تھانیدار سے رابطہ کرکے فون پر چند سوالات کیے۔ مونگیر میں تارا پور چوکی کے تھانیدار نے بتایا کہ 27مئی 2019 کو میوا لال کی بیوی نیتا چودھری باورچی خانے میں آگ لگنے سے بری طرح جھلس گئیں۔ اس کے ایک ہفتہ بعد 2 جون کو ان کا انتقال ہوگیا۔ اپنی بیوی کو بچانے کی کوشش میں میوالال کا ہاتھ بری طرح جھلس گیا ۔ (اب یہ بات تو تفتیش کے بعد ہی سامنے آئے گی کہ وہ ہاتھ بچانے کی کوشش میں جلا تھا یا جلانے کی سعی کرتے ہوئے ایسا ہوا تھا خیر)۔ تھانیدار کے مطابق رات 8 تا 9 بجے کے درمیان گیس کا پائپ رسنے کے سبب یہ سانحہ رونما ہوا جب نیتا چودھری دودھ ابالنے کے لیے گئی تھیں۔ اس لیے تھانے میں غیر فطری موت کا کیس درج کیا گیا ۔

اس فون کے22منٹ بعد اخباری نامہ نگار کو وزیر کے نجی سکریٹری کا فون آگیا اور اس نے پوچھا وزیر کے بارے میں تفتیش کررہے تھے کیا؟ دراصل یہی فون میوا لال کو لے ڈوبا ۔ اس فون کے جواب میں نامہ نگار نے سوال کردیا کہ آپ کو اس کی اطلاع کیسے ملی؟ اس پر سامنے سے جواب آیا بس مل گئی خبر! اس کا مطلب صاف ہے کہ تھانے سے وزیر موصوف کے دفتر میں فون گیا اور اس نے انہیں فکرمند کردیا۔ اگر یہ ایک عام سا حادثہ ہوتا تو میوالال نہ پریشان ہوتے اور نہ فون کرواتے خیرمثل مشہور ہےچور کی داڑھی میں تنکا۔ نامہ نگار نے حاضر دماغی کا ثبوت دیتے ہوئے نجی سکریٹری سے بھی وہی سوالات پوچھنا شروع کردیئے تو پتہ چلا کہ دونوں کے بیان میں اختلاف ہے۔ تھانیدار نے تو بتایا تھا کہ یہ حادثہ 8 تا 9 بجے کے درمیان کا ہے جبکہ پی اے صاحب بتا رہے تھے یہ تقریباً 11بجے کی بات ہے۔ انہوں نےیہ اضافہ بھی کیا کہ گیس پورے گھر میں پھیل چکی تھی اور میڈم کو پتہ ہی نہیں چلا۔ گیس کا پھیل جانا دراصل مدعی سست اور گواہ چست کی مصداق ہونے کی وجہ سے شکوک شبہات پیدا کرتا ہے۔ اس معاملے سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ ذرائع ابلاغ اگر حکومت کی چاپلوسی یا شکوہ شکایت اور گریہ وزاری سے آگے بڑھ کر اپنا مثبت کردار ادا کرے تو کس قدر موثر ثابت ہوسکتا ہے؟
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451088 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.