کورونا کی وباء ایک دفعہ پھر اپنے ظالم پنجے کھولے معصوم
انسانوں کو ہڑپ کر نے کے لئے میدان میں نکل آئی ہے۔پاکستانی عوام ابھی تک
اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں کہ کورونا جیسی کوئی وباء اپنا وجود
رکھتی ہے۔وہ اسے عالمی سازش کے ساتھ ساتھ پاکستان حکومت کی کارستانی سے بھی
تعبیر کرتے ہیں ۔عوام کو جتنے بھی دلائل دو وہ سب نقش بر آب ثابت ہوتے ہیں
کیونکہ عوام حتمی فیصلہ کر چکے ہیں کہ کورونا نام کی کوئی وباء پاکستان میں
موجود نہیں ہے بلکہ یہ سب میڈیا کی کارستانی ہے جو کورونا کا ہوا کھڑا کر
کے انھیں بیوقوف بنا رہی ہے ۔عالمی سطح پر کورونا نے جس طرح تباہی مچائی ہے
وہ کسی سے مخفی نہیں ہے ۔کئی ممالک کی معیشت بالکل تباہ ہو گئی ہے جبکہ
امریکہ،برطانیہ،فرانس ،جرمنی،اٹلی، برازیل،سپین اور بھارت کی معیشت پراس کے
انتہائی مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس وقت بھارت اور امریکہ کورونا کا سب
سے بڑا شکار ہیں اور وہاں پر لاک ڈاؤن معمول کی کاروائیاں تصورہو رہی
ہیں۔ان دونوں ممالک میں ہر روز ہزاروں افراد کورونا کا شکار ہو رہے ہیں
جبکہ سینکڑوں افراد روزانہ موت کی آغوش میں جا رہے ہیں۔ویکسین کی نوید تو
سنائی دے رہی ہے لیکن ویکسین مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔پاکستان بھی
کوروناکا شکار ہے لیکن قدرت کی نظرِ کرم کی بدولت یہاں پر ہلاکت خیزی کی وہ
شدت نہیں جو ترقی یافتہ اقوام میں پائی جاتی ہے۔اس کی ٹھوس اور جامع توجیہہ
تلاش کرنا کسی کیلئے بھی ممکن نہیں ہے۔ بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ اﷲ تعالی
کی پاکستانیوں پر کوئی خاص عنائیت ہے جس کی وجہ سے یہ قوم اس مہلک وباء سے
محفوظ ہے۔اعمال پر جائیں گے تو پھر بچنے کی توکوئی صورت باقی نہیں رہے گی
کیونکہ ہمارے اعمال اس قابل نہیں کہ یہ ہمیں کورونا جیسی بیماری سے بچا
سکیں ۔یہ تومالکِ ارض و سماء کی کرم گستری ہے کہ و ہ ہم جیسے گنہگاروں کو
اپنی رحمت کی چادر میں سمیٹے ہوئے ہے ۔احتیاطی تدابیر کوئی کام نہیں کر
رہیں اور نہ ہی کوئی ان پر عمل پیراء ہے۔حکومت اس معاملے میں بالکل بے بس
ہے کیونکہ کوئی اس کے احکامات کی پرواہ نہیں کررہا۔ہر کوئی یہی کہہ رہا ہے
کہ موت کا ایک دن معین ہے لہذا جو بھی ہو گا دیکھا جائے گا۔اس طرح کی غیر
منطقی اور غیر حقیقی سو چ کے سامنے کوئی حکومت کچھ نہیں کر سکتی ۔ جب عوام
وباء کو وباء سمجھنے کے لئے تیار نہ ہوں تو انھیں ہلاکت سے کون بچا سکتا
ہے؟ماسک پہننا اور چھ فٹ کا فٹ کا فاصلہ رکھنا تصوراتی دنیا کی بو قلمونیاں
ہیں جس کا عوام سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ہاں اگر ماسک نہ پہننے پر
جرمانے کی سزاکو لا گو کیا جائے تو پھر شائد جرمانے کے خوف سے قوم ماسک
پہننے کے لئے تیار ہو جائے۔شادی بیاہ کے مو اقعوں پر خواتین ماسک پہننے پر
بالکل راضی نہیں ہوتیں کیونکہ اایسا کرنے سے ان کی نمائشی حس مجروح ہو تی
ہے جبکہ مرد حضرات اس موقعہ پر بے بس نظر آتے ہیں اور وہ بھی ماسک پہننے سے
گر یز کرتے ہیں۔یعنی پورا معاشرہ ایک ایسی راہ پر نکل کھڑا ہوا ہے جس میں
احتیاط نام کا کہیں کوئی شائبہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود حکومت اور اس کے
وزراء کورونا پر قابوپانے کا سہرا اپنے سر سجانے پر بضد ہیں۔وہ خود بھی
جانتے ہیں وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں جھوٹ ہے کیونکہ عوام تو ایس او پیز پر عمل
پیرا ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود بھی حکومت اپنی اعلی
کارکردگی کا ڈھول پیٹنے سے باز نہیں آ رہی ۔
انسان قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں لیکن وزرا ء سیاست بازی میں الجھے
ہوئے ہیں۔ان کے ہاں مخالفین کو نیچا دکھانے کے سوا کوئی دوسری ترجیح نہیں
ہے ۔سدا اقتدار سے چمٹے رہنے کی ازلی خوا ہش اور اس خواہش کی تخم ریزی
کیلئے ہرحربہ جائز اور حلال قرار پا رہا ہے ۔ایک طرف تو کورونا کی مہلک
صورتِ حا ل ہے جبکہ دوسری طرف اپو زیشن اور حکومت کی باہمی سر پھٹول اپنی
انتہاؤں کو چھو رہی ہے ۔ ایک تصادم ہے جو وقوع پذیر ہونے کو ہے۔ایک انتشار
ہے جو نوشتہِ دیوار ہے لیکن سب اپنی اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں۔حکومت کرپشن کی
آڑ میں اپنے مخالفین کو جیلوں میں ٹھونس رہی ہے جبکہ اپوزیشن حکومت کا
بوریا بستر گول کرنے کیلئے جلسے جلوسوں کا سہارا لے رہی ہے۔اپوزیشن کی نظر
دسمبر میں لانگ مارچ پر مرکوز ہے جس سے وہ حکومت کو بے بس کر دے گی اور
حکومت کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہو گا۔یہ لانگ مارچ عام لانگ
مارچ نہیں ہو گا بلکہ یہ ایک یلغار ہو گی اور اس یلغار کا نتیجہ حکومت کی
رخصتی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔اپوزیشن اس بات پر متفق ہے کہ پاکستان کی بقا
،استحکام اور ترقی کیلئے موجودہ حکومت کو گھر بھیجنا ضروری ہے ۔ اپوزیشن کے
بقول جس حکومت میں ترقی کی شرح نفی میں ہو جائے اس کامزید اقتدار میں رہنا
ملکی وجود کیلئے خطرہ بن جاتاہے لہذاایسی نا اہل حکومت کو رخصت کر کے کسی
اہل قیادت کے ذریعے ملک کو ترقی کی نشاہراہ پر گامزن کیا جائے ۔حکومتی
اتحادی خا موش بھی ہیں اور ناراض بھی ہیں کیونکہ ان کے پاس عوام کی تشفی
کیلئے کوئی کارنامہ نہیں ہے۔میں نہیں چھوڑوں گا سے نہ تو ریاست چلتی ہے
اورنہ ہی عوامی مسائل حل ہوتے ہیں۔عوام بے روزگاری اور مہنگائی کی چکی میں
پس رہے ہیں جبکہ وزیرِ اعظم انھیں این آر او نہیں دوں گا کہ نعروں سے بہلا
نے کی کوشش کررہے ہیں ۔یہ نعرے اس وقت انتہائی دلکش، د لپذیر اور پر اثر
لگتے ہیں جب عوام کے ہاں روٹی روزی کے مسائل نہ ہوں۔عوام دو وقت کی روٹی کو
ترس رہے ہیں لیکن حکومت اعلان پر اعلان فرما رہی ہے کہ کسی کو نہیں چھوڑا
جائیگا۔بھئی کوئی نہیں کہہ رہا کہ کسی کو چھوڑ دو لیکن کم از کم عوام کو تو
کوئی ریلیف دواور ان کی بنیادی ضروریاتِ زندگی پو ری کرنے کی کوشش کرو۔عوام
نے عمران خان کے معاشی خوشخالی کے منشور پر یقین کر کے انھیں ووٹ دئے
تھے۔لیکن بد قسمتی سے اڑھائی سال گزر جانے کے بعد منشور کا ایک بھی وعدہ
ایفا نہیں ہوا۔ عوام میں اضطر اب پایا جاتا ہے وہ اب بھی پی ٹی آئی کو پسند
کرتے ہیں لیکن انھیں کچھ تو ریلیف ملے۔خالی نعروں سے تو پیٹ نہیں بھر اکر
تا ۔ پیٹ روٹی مانگتا ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب لوگوں کے پاس روزگار
ہو۔نہ ایک کروڑ نوکریاں ملیں ، نہ ہی پچاس لاکھ گھر بن سکے اورنہ ہی معاشی
ترقی کے نعرے عوامی زندگی میں خوشخالی کی نوید لاسکے ۔وقت کا بے رحم پہیہ
سب کچھ روندھتا چلا جا رہا ہے اور عوام حسرت و یاس کی تصویر بنے سب کچھ
دیکھ رہے ہیں۔ انھیں اپنی اولاد اور اپنے خاندان کے مسائل چین سے بیٹھنے
نہیں دے رہے ۔وہ دو وقت کی روٹی کے طلبگار ہیں جو ان سے چھیننے کی کوشش ہو
رہی ہے ۔اپوزیشن اس ساری صورتِ حال سے آگاہ ہے اسی لئے اس نے جلسے جلوسوں
سے حکومت پر دباؤ بڑھا دیا ہے ۔کارکردگی کا گراف بلند ہو تا تو کس کی مجال
تھی عمران خان کے سامنے کھڑا ہو سکتا لیکن حکومت کی ناکامیوں نے اپو زیشن
کو حوصلہ دیا اور وہ حکومت کو چلتا کرنے کیلئے میدانِ عمل میں نکل پڑی ہے
جس سے قتل و غارت گری اور فساد کا ماحول پیدا ہو چکا ہے ۔ اپوزیشن کو علم
ہے کہ حکومت ناکامیوں کی دلدل میں دھنسی ہوئی ہے اس لئے اسے چلتا کیا جا
سکتا ہے۔عوام کی ہمدردیوں سے محروم حکومت کا زیا دہ دیر تک اقتدار میں رہنا
ممکن نہیں ہوتا۔ بیساکھیاں کب تک ساتھ دیں گی۔جب پلے ہی کچھ نہ ہو تو
بیساکھیاں کیا کریں گی ۔ بیساکھیوں کیلئے بھی تو بازوؤں میں دم خم ہو نا
ضروری ہوتا ہے لیکن یہاں پر تو تھوتھا چنا باجے گنا والا معاملہ ہے جو
حقیقی دنیا میں کوئی وقعت نہیں رکھتا۔،۔
|