سید مسرت علی صاحب نے اپنی اس تصنیف میں تلقین کی ہے کہ
ہم اچھے شہری بنیں۔ سچ تو یہ ہے ہمارے ملک اور ہماری قوم کے بے شمار مسائل
صرف اسی وجہ سے ہیں کہ ہم اچھے شہری نہیں بنے ، نہ صرف اچھے شہری نہیں بنے
بلکہ اچھا شہری بننے کی نہ تو خواہش دل میں ہے اور نہ ہی اچھا شہری بننا
چاہتے ہیں۔ سید مسرت علی صاحب نے جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے وہ انتہائی اہم
ہے۔ انہوں نے اس مختصر سی کتاب کے عنوان کے نیچے ذیلی عنوان میں لکھا ہے کہ
’’آٹھ سے بارہ سال کی عمر کے بچوں کی معاشرتی تربیت کے راہنما اصول‘‘۔ گویا
مصنف نے 8سے 12سال کے بچوں کے لیے یہ کتاب مرتب کی ہے ۔ اگر اس عمر کے بچوں
نے یہ راہنما اصول دل سے پڑھ لیے تو امید کی جاسکتی ہے کہ ہماری یہ نسل
اچھا شہری بھی بن جائیں لیکن بے راہ روی، اصولوں کی خلاف ورزی، ہر کام کو
الٹ کرنا، جس کام کو منع کیا جائے اسے ہی کرنا، مثال کے طور پر سڑک پر
زیبرا کراسنگ سے عبور کرنی ہے تو وہاں سے نہیں بلکہ اس زیبرا کراسنگ سے
پہلے یا بعد میں روڈ کراس کی جاتی ہے، ریڈ سنگنل کی موجود گی میں دندناتے
ہوئے سنگنل کی خلاف ورزی کرنا، بنک،پوسٹ آفس، ائر پورٹس ،بسوں میں سوار
ہونا، یا کسی اور جگہ لائن میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرنا ہمیں
برداشت نہیں ہوتا،موٹر سائیکل کا سائیلنسر نکالکر تیز آواز سے موٹر سائیکل
دوڑانا، اسپیڈ کا خیال نہ رکھنا، پان، گٹکا کی پیک راہ چلتے سڑک پر کلی
کردینا ،سیگریٹ کے ٹوٹے، پان کی پڑیا کا کاغذ، سونف سپاری کا خالی ریپر راہ
چلتے سڑک یا فٹ پاتھ پر پھینکدینا، کیا کیا بتایا جائے کہ ہماری قوم کس قدر
معاملات میں بے راہ روی کا شکار ہوچکی ہے۔ سوشل میڈیا پر اخلاق سے گری ہوئی
زبان، بیہودہ الفاظ، یہاں تک کہ گالی گلوچ تک لکھ دینے کی روش عام ہوچکی
ہے، ٹی وی ٹاک شو میں بعض سیاستدان ، تجزیہ کاراس بات کا بھی خیال نہیں
رکھتے کہ ان کے ساتھ خواتین بھی گفتگو میں شامل ہیں، کس کس بات کا ذکر کیا
جائے۔ کہتے ہیں نا کہ آوا کا آوا ہی بگڑ چکا ہے۔ افسوس اس بات پر بھی ہے کہ
مستقل قریب میں کوئی ایسی صورت بھی سامنے دکھائی نہیں دے رہی کہ کہ کوئی
حکومت آئے گی اور وہ معاشرہ میں سدھار لاسکے گی۔ہمارے ملک کو قائم ہوئے
72سال ہونے کو آئے کسی بھی حکومت نے خواہ وہ جمہوری حکومت رہی ہو یا کسی
آمر کی حکومت رہی پاکستان کو ایک قوم بنانے کی کوئی بھی سنجیدہ کوشش نہیں
کی گئی۔
حسب عادت ابتدئیہ طویل ہوگیا، سید مسرت علی صاحب سے تعلق ِ خاطر’ ہماری ویب
رائیٹرز کلب ‘کے حوالے سے کئی سالوں پر محیط ہے۔ وہ پیشہ کے اعتبار سے تو
ایروناٹیکل انجینئر ہیں لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد قلم وقرطاس اور ادیبوں اور
شاعروں سے قربت حاصل کرلی ہے، ان کے اس عمل کا ایک فائدہ ہمیں یہ ہوا کہ
ایک نفیس انسان ، اچھا شہری ہمارے دوستوں کی فہرست میں شامل ہوگیا۔ مسرت
صاحب ہماری ویب رائیٹرز کلب کے نائب صدر ہیں۔ پیش نظر کتاب ’’اچھے شہری
بنیں‘‘مجھے کئی ماہ پہلے عنایت فرمائی تھیں، کتاب پر لکھا ہے ’’آپ کی شاباش
مجھے حوصلہ بخشے گی، آپ کا اختلافی نوٹ میری سُولو ُ پرواز کو مزید بلندیوں
پر لے جائیگا‘‘۔ میری تساہلی اور کاہلی کہ کتاب جتنی مختصر تھی میرے لیے
اتنی ہی مشکل بن گئی، بعد میں موصول ہونے والی کتابیں لائن توڑ کر آگے
آگئیں، یعنی کہ یہاں بھی اچھے شہری بننے کی روش کو نظر انداز کیا گیا، جس
کے لیے معزرت خواہ ہوں۔
کتاب بڑے سائز میں ، پیراماؤنٹ بکس نے شائع کی ہے۔ مصنف نے کتاب کا مقصد
واضع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’بہت کم گھروں میں معاشرتی تربیت پہ توجہ دی
جاتی ہے اور بہت کم اسکولوں میں اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ نہ صرف
ہماری زندگی کو معیاری بنانے بلکہ ایک مثالی معاشرہ اور ایک بہتر بلک بنانے
میں یہ کس قدر اہم ہے۔ میں نے اسی اہمیت کے پیش نظر ایسے موضوعات کی فہرست
ترتیب دی ہے جن کے ذریعہ ہم گھر میں اپنے بچوں کی زندگی کے ہرزاویے سے اچھی
تربیت اور مثبت رویے کی ایسی مضبوط بنیاد ررکھ سکیں جس پر عمل پیرا ہوکر
آنے والی نسلیں ایک تہذیب یافتہ معاشرہ فراہم کرسکیں اور ہمارا ملک بھی کم
از کم تہذیب یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوجائے‘‘۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے
مصنف نے لکھ ’’اصل میں ہمارا مرکزی نکتہ Focusاخلاقیات ہے نہ کہ قانون پہ
عملدرآمد، جوکہ ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔لہٰذا ہم قانون کی خلاف
ورزیوں اور اُن کے نتائج کے بجائے زندگی کے ہر قدم پر اخلاقیات کے ہماری
شخصیت پر اثرات کے بارے میں بات کررہے ہیں جس کے نتیجہ میں ایک بہترین
تہذیب یافتہ معاشرہ تشکیل پاتا ہے‘‘۔مسرت علی صاحب کی باتوں میں سچائی ہے،
صداقت ہے۔ ہم بہ حیثیت ایک لکھاری کے اچھی بات ، اچھا عمل کرنے کی ترغیب ہی
دے سکتے ہیں۔ قانون کے تحت عمل درآمد حکومت ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
کتاب کو 10حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ہر حصہ میں اس موضوع سے متعلق بنیادی
باتوں کو اختصار سے بیان کیا گیا ہے۔ جیسے گھر والوں سے معاملات میں اپنے
سے بڑوں سے سلوک، اپنے سے چھوٹوں سے سلوک اور والدین کے حقوق کا بیان ہے۔
حصہ دوم ’گھر میں رہنے والوں کی ذ مہ داریوں کے تحت پانی م بجلی گیس اور
کھانے پینے کی اشیاء ضائع ہونے سے بچانا ۔ حصہ سوم محلہ میں رہنے کے آداب
سکھاتا ہے ، سڑک پر چلنے کے اصول، بازار، بنک یا کسی ادارے میں لین دین کی
اخلاقیات ، وقت کی اہمیت ، نظم و ضبط اور منصوبہ بندی، آداب گفتگو، خوش نما
شخصیت کے اُصول اور اپنی شخصیت کا جائزہ شامل ہے۔ مجموعی طور پر مختصر، سہل
و سلیس زبان، چھوٹے چھوٹے جملے، باتوں باتوں میں بے شمار کام کی باتو ں کو
ایک مختصر سی کتاب میں مہارت سے یکجا کردیا گیا ہے۔ بچوں کو سمجھانے کے لیے
جگہ جگہ تصاویر کا سہارا بھی لیا گیا ہے۔ بچوں کی اخلاقی تربیت کے موضوع پر
مختصر تصنیف مرتب کرنے پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔امید کرتا ہوں کہ
کتاب کے بارے میں میری توسیفی رائے مصنف کی سُولُو پرواز کو تصنیف و تالیف
کی مزید بلندیوں پر لے جاے گی۔(29نومبر2020ء)
|