فخرالدین پشاوری
روشنی کی کرن کے مصنف حافظ محمد زاہد سے میرا تعارف آل پاکستان رائٹرز
ویلفیئر ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے ہواجس کے آپ سینئر نائب صدر ہیں۔ ان
کی تحریریں پڑھنے لگا تو دلچسپی بڑی۔ دلچسپی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ
مشکل الفاظ و تراکیب سے اجتناب کر کے مقصدیت (اصلاح) کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس
کے علاوہ سو لفظی کہانی ایسے لکھتے ہیں کہ قاری دنگ رہ جائے۔ حافظ محمد
زاہد جیسا لکھتے ہیں ان سے اچھا دِکھتے بھی ہیں۔ چہرے پر سنت رسول ﷺسجائے
ہوئے پرسکون چہرے کے مالک ہیں اور وضع قطع سے ایسا لگتا ہے جیسے کوئی مفکر
یا دانشور۔ کبھی بالمشافہ ملاقات تو نہیں ہوئی‘ لیکن فیس بک اور وٹس ایپ پر
ان کی مختلف تصاویردیکھنے اور تحریریں پڑھنے کو مل جاتی ہیں‘ جسے آدھی
ملاقات کہا جاسکتا ہے۔موجودہ سال میں ان کی یہ کتاب’’روشنی کی کرن‘‘ شائع
ہوئی۔ یہ ان کی پہلی کتاب تو نہیں‘البتہ مجھے ہدیتاً ملنے والی یہ پہلی
کتاب ہے۔ حافظ محمد زاہد نصف درجن کتابوں کے مصنف ہیں‘ اس کے علاوہ وہ
سینکڑوں کالمز و مضامین اور درجنوں کے حساب سے مختصر کہانیاں لکھ چکے ہیں۔
یہ کتاب انہی سینکڑوں کالموں میں سے چند کا انتخاب ہے۔
حافظ محمد زاہد نے نہایت خلوص و محبت سے ’’روشنی کی کرن‘‘بذریعہ ڈاک ارسال
فرمائی اور تبصرہ لکھنے کو کہا۔ میں کوئی باقاعدہ لکھاری تو نہیں‘ محض
مبتدی ہوں اور ابھی لکھنا سیکھ رہا ہوں۔ میری کیا اوقات کہ میں تبصرہ لکھ
سکوں‘وہ بھی ایسے مصنف کی کتاب پر جو نصف درجن کتابیں لکھ چکے ہوں۔ اس کتاب
پر تبصرہ لکھنا سورج کے سامنے دیا جلانے کے مترادف ہوگا‘ لیکن کیا کریں
زاہد صاحب کی محبت کو بھی نہیں ٹال سکتے۔کتاب موصول ہوئی تو مصنف کا شکریہ
ادا کیا اور کتاب کو تین نشستوں میں مکمل کرکے خوشی خوشی الماری میں سجا
لیا۔ میں پڑھائی اور دیگر مصروفیاتِ زندگی میں کچھ یوں مصروف ہوگیاکہ صبح
کو گھر سے نکلتا تو شام کو لوٹتا۔ ایک طرف یہ مصروفیات اور دوسری طرف کتاب
سے دوری۔ آج کی شدید بارش نے گھر سے باہر قدم نہ رکھنے دیا تو الماری سے
کتاب نکال کر تبصرے کا قرض چکانے بیٹھ گیا۔
روشنی کی کرن میں حافظ محمد زاہد صاحب نے تین سو سے زائد کالموں میں ستاسٹھ
کا انتخاب کرکے انہیں چھ ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا باب: اسلام اور
قرآن۔ دوم: قائد اور پاکستان۔ سوم: رشتے اور رویے۔ چہارم: سماج اور حکمران۔
پنجم: آداب اور فرائض۔ششم: کتاب دوستی۔ پورے کتاب پر تبصرہ کروں تو مزید
ایک کتاب وجود میں آئے‘لیکن پھر بھی شاید حافظ محمد زاہد کی محبت کا قرض
ادا نہ کر سکوں۔ مجموعی طور پر اندازِ تحریر پر بات کروں تو حافظ محمد زاہد
’’جہاد بالقلم‘‘ کے’’عظیم مجاہد‘‘ ہیں۔ ان کے روشن چہرے کی طرح ان کی
تحریروں سے بھی پختگی جھلکتی ہے۔ بعض مقامات پر ایسے جملے لکھے ہیں جو
یقیناً ’’اقوالِ زریں‘‘ میں شمار ہوتے ہیں۔ کتاب پڑھ کر معلوم ہوا کہ زاہد
صاحب نے قلم کا قرض ادا کردیا ہے۔ جتنے بھی لوگ یہ کتاب پڑھیں گے ان شاء اﷲ
العزیز ان کی زندگی سنور جائے گی۔
کتابوں پر تبصرے تو بہت پڑھے تھے لیکن پہلی بار’’روشنی کی کرن‘‘ میں
شاعرانہ اور منظومانہ تبصرے پڑھنے کو ملے ہیں‘گویا حافظ صاحب اور ان کی
مذکورہ کتاب کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ’’شاعرانہ تبصروں‘‘کی ابتدا اسی
کتاب سے ہورہی ہے۔شاعرانہ تبصروں میں پوری پوری غزلیں بھی ہیں‘ آزاد نظم
بھی‘قطعات بھی اور ایک ایک شعر بھی۔یہ سب کے سب پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ان
میں سے جو مجھے سب سے زیادہ پسند آیا وہ سمیرا عابد صاحبہ کا کلام ہے۔آپ سب
قارئین کے لیے وہ کلام پیش خدمت ہے:
یہ زمانہ اندھیروں سے لڑتا ہوا
عصر حاضر وبا سے جھگڑتا ہوا
وقت ایسا کہ انسانیت خوار ہے
روشنی کی کرن اس کو درکار ہے
یہ جہاد آج کا: باللسان و بالقلم
آج کے نوجوان ہیں اٹھائے عَلَم
رند و زاہد کے قصے سے آگے کہیں
لکھ رہے ہیں جنوں‘ دے رہے ہیں یقین
یہ اندھیروں میں مشعل بکف آئے ہیں
’’روشنی کی کرن‘‘ بانٹنے لائے ہیں
یقیناً میں مصنف اور اس کی کتاب ’’روشنی کی کرن‘‘ کے ساتھ انصاف نہ کر سکا‘
بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ میرا ذہن اور قلم ابھی اس سطح تک پہنچا
ہی نہیں ہے کہ میں حافظ محمد زاہد جیسے بلند پایہ مصنف کی کتاب پر تبصرہ
لکھ سکوں۔ کتاب پڑھ کر آپ بھی مجھ سے اتفاق کریں گے‘ اس لیے دیر کرنے کی
ضرورت نہیں۔ جلد از جلد کتاب حاصل کرکے خود بھی پڑھنے کی کوشش کریں اور
دوست احباب کو تحفہ بھی دیں۔ والدین اپنے بچوں کو بھی یہ کتاب پڑھائیں اور
خود بھی پڑھیں۔ کیوں کہ یہ ہے’’روشنی کی کرن‘‘ اور روشنی کی ضرورت سب کو
ہوتی ہے‘بلکہ موجودہ دور میں ہر طرف چھائے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اس روشنی
کی کرن کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے۔ اﷲ تعالیٰ مصنف کی اس عظیم کاوش کو قبول
فرمائے اور ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!!
|