ایہام گوئی کا خاتمہ (حصہ دوم)‎

جیسا کہ ایہام گوئی کا آغاز محمد شاہ کے ابتدائی عہد سے ہوا اور اسے تیزی سے شرف قبولیت بھی حاصل ہو گیا۔ تقریباً بیس سے پچیس سال اسے شہرہ دوام بھی نصیب ہوئی،لیکن محمد شاہ ہی کے آخری دور میں اس تحریک کے خلاف شدید ردعمل شروع ہوگیا اور ایہام گوئی کا شیرازہ بکھر کر خیرہ خیرہ ہو گیا۔

ایہام گوئی کے خلاف صدا بلند کرنے والے پہلے شاعر مظہر جان جاناں ٹھہرے۔ اُردو کو ایہام گوئی جیسی کثافت سے پاک کرکے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا سہرا انھیں کو جاتا ہے۔

ثناء الحق کے مطابق:
متقدمین کا دور اول ایہام گوئی کا دور تھا۔رعایت لفظی اور ایہام گوئی کا شوق پندرہ بیس برس تک تو مقبول رہا مگر بعد میں طبیعتیں اس سے اکتا گئیں۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شاہ حاتم نے ترک ایہام گوئی کا آغاز کیا۔مگر حقیقت یہ ہے کہ انھیں بھی بدلتے ہوئے رجحان کو دیکھ کر پہلو تہی کرنا پڑی۔اور انھوں نے اپنے ضخیم کلیات سے ایسے اشعار کو الگ کر کے ایک چھوٹا سا دیوان مرتب کیا اور اس کا نام "دیوان زادہ " رکھا۔
انھوں نے اپنے ان اشعار میں بھی ایہام سے بیزاری دکھائی ہے مثلاً:
کہتا ہے صاف وشستہ سخن بسکہ بےتلاش
حاتم کو اس سبب نہیں ایہام پر نگاہ
ان دنوں سب کو ہوا ہے صاف گوئی کا تلاش
نام کو چرچہ نہیں حاتم کہیں ایہام کا

مظہر جان جاناں کے ایک شاگرد انعام اللّٰہ خان یقین نے ترک ایہام گوئی کے رجحان کو عملی جامہ پہنایا۔شروع میں اس کو پسندیدگی حاصل نہ ہونے کے باوجود بھی وقت کے تقاضوں نے اسے مقبول بنا دیا۔اسی وجہ سے ایہام گوئی کے اہم نمائندوں کو بھی قدیم رجحان ترک کرنا پڑا۔

تقریباً 1739 ء سے ایہام گوئی کا زوال شروع ہوا اور 45_1744 تک اس کا خاتمہ ہو چکا تھا۔اس کے بعد بھی اس کا معمولی سا اثر رہا جوکہ میر،سودا اور قائم تک زائل ہوتا گیا۔
خواجہ میر درد اور میر حسن نے ایہام گوئی پر ختم شد کی مہر ثبت کر دی۔

 

Surat Khan
About the Author: Surat Khan Read More Articles by Surat Khan: 13 Articles with 32297 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.