کیا کرونا اتنا خطرناک ہے، جتنا آپ سمجھتے ہیں؟

وائرس کا علاج ویکسین سے ہوتا ہے،اور اگر میں کسی نہ ہو تو آپ کی قوت مدافعت اس وائرس سے لڑتی ہے۔لیکن اس لڑائی میںآپ کی سوچ اہم کردار ادا کرتی ہے
زمین ازل سے گول ہے اور گول ہی رہے گی۔ کرو نا سے کوئی فرق پڑا ہے، نہ پڑے گا۔ میرے گردوپیش میں بہت سے لوگوں کو کرونا تھا اور اب وہ اپنا کتا/ ٹومی لے کر مارننگ واک پہ جا رہے ہیں۔ 38 ملین لوگ اس بیماری سے لڑنے میں کامیاب ہوئے اور 1.4 ملین لوگ اپنا دم توڑ بیٹھے۔ وجہ؟یہ سب دماغ کا کھیل ہے، جو جیتا وہ سکندر، جو ہارا وہ قبر کے اندر۔

اب خود ہی دیکھیں! ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے لڑنے کے لیے قوت ِمدافعت کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ بڑھاپے میں آپ کی قوتِ مدافعت کمزور ہو جاتی ہے اس لیے وائرس سے لڑنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اب ذرا غور فرمائیے گا:
" انا ڈی ویلا ،106 سالہ خاتون کرونا سے لڑ کر صحت یاب ہوگئی اور تیس سالہ استاد بین لوڈرر کرونا وائرس کا شکار ہوتے ہی مر گیا"۔ وجہ؟

قوتِ مدافعت کس کی مضبوط تھی؟ عمر رسیدہ کون تھا؟ موت کس کی واقع ہوئی؟

آج سے آٹھ دن قبل میرے والد صاحب اپنا کرونا ٹیسٹ کرانے ہسپتال گئے ، شام تک رپورٹ آگئ۔ان میں کرونا کا نتیجہ مثبت آیا۔گو کہ انہیں پہلے ہی شک تھا کہ انہیں کرونا ہے، مگر چونکہ یقین نہیں تھا تو اپنی روز مرہ کے معمولات کے مطابق کام کرتے رہے ۔ شام تقریباً سات بجے ڈاکٹر نے کی جانب سے انکو ایک کال موصول ہوئی جس میں ان کی کرونا کی تصدیق ہو گئی ۔

نہایت مایوس کن لہجے میں انہوں نے کال کر کے گھر اطلاع دی۔ہم سب پریشانی کے عالم میں تھے کیونکہ جب ان کو ڈاکٹر کی جانب سے مطلع کیا گیا ،وہ ڈیوٹی پر تھےاور انھوں نے گھر آنے سے انکار کر تے ہوئےوہیں عارضی طور پر کسی جگہ پر خود کو قرنطینہ کرنے پر اصرار کیا۔تاہم گھر والوں کے اصرار اور ضد کے سامنے والد صاحب زیر ہوگئے۔کچھ دیر گزر جانے کے بعد والد صاحب کی گاڑی کی موجودگی کا گھر کے باہر احساس ہوا جسکی تصدیق کھڑکی سے گاڑی دیکھ کر ہو گئی۔گھر کے باہر ہی والد صاحب اضطرابی کیفیت میں گاڑی دائیں بائیں کرتے رہے اور تقریباً پانچ منٹ بعد انکی گاڑی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ایک بار پھر انکو کال کر کے پرزور اصرار کرنے کے بعد انکو گھر بلانے میں کامیاب ہوگئے، ایک گھنٹہ بعد وہ گھر آگئے۔ بیک وقت دو مسائل کا سامنا تھا، ایک یہ کہ ڈاکٹر صاحب نے انکو نہایت ہی تشویشناک حالت بتائی،دوسری یہ کہ انہوں نے کرونا کو اپنے اعصاب پر حاوی کر لیا اور مایوسی کا شکار ہو گئے۔

دروازے پر کھڑے ہی کئی خیالات ان کے دماغ میں جنم لے رہے تھے مگر ہم بھی جانتے تھے کہ یہ ایک جسمانی بیماری کی نسبت ذہنی بحران زیادہ ہے، بیشک کرونا اپنے ابتدائی مرحلے پہ ہو لیکن اگر انسان اسے اپنے دماغ اور اعصاب پر حاوی کر لے تو وہ اس کے لئے جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔لہذا ہم نے سب سے پہلے ان کے دماغ کو مستحکم بنانے کی کوشش کی۔ انہیں معروف ڈاکٹر عظمت کا یہ قول یاد کروایا کہ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں، ایک نہ ایک دن ہر انسان کو اس کا سامنا کرنا ہوگا اور انسان کا اپنا وجود ہی وائرس کے خلاف لڑنے کی طاقت پیدا کرے گا پھر بہت منت سماجت کر کے انہیں کمرے میں لے کر گئے۔

اس طرح کی صورتحال مریض اور لواحقین، دونوں کے لیے نہایت تکلیف دہ ہوتی ہے جہاں کہ علاج ہی قرنطینہ ہے۔ایک طرف بچوں کے لیے مشکل وقت میں والد کے پاس رہ کر خدمت نہ کرنے کا دکھ تو دوسری طرف والد کے لیے اپنی جان سے عزیز آل و عیال کو موذی مرض سے دور رکھنے کی خواہش، گوکہ دونوں ہی اپنی جگہ درست تھے مگر یہ معاملہ جزباتیت اور انسیت کا تھا۔ خیر!ہم نے انہیں کوئی دوا نہ دی کیونکہ اگر مرض وائرس کی وجہ سے ہو تو اس کا علاج اس کی ویکسین میں ہوتا اس میں کوئی عقلمندی نہیں کہ تمام ادویات بطور علاج استعمال کرنا شروع کر دیں۔

یہاں ایک بات سے آگاہ کرتی چلوں، انسان جیسا سوچتا ہے اس کے ساتھ ویسا ہی ہوتا ہے۔یہ معاملہ ان کے دماغ اور ان کی سوچ کا تھا، وقت گزرتا گیا اور ہم محض ان کی تسلی کے لیے ان کی نازک حالت کے باوجودہم یہی کہتے رہے کہ آج آپ کل سے بہتر لگ رہے ہیں۔ اس اطمینان بخش جملہ کی بدولت وہ کچھ دیر تک اپنی حالت میں بہتری محسوس کرتے رہتے۔ دو تین دنوں میں وہ خود اپنی حالت میں بہتری محسوس کرنے لگے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ذیابیطس کے مریض ہیں، وہ یہی سوچنے لگے کہ میرے جسم میں اتنی طاقت ہے کہ میں اس وائرس کے خلاف لڑ سکتا ہوں۔ کچھ ہی دنوں میں ان کی سوچ انہیں اس تکلیف سے باہر لے آئی اور وہ اپنے معمول کی زندگی میں واپس لوٹ آئے۔

ہم نے ان کی اس تکلیف کے بارے میں باقی رشتہ داروں کو بھی بتانے سے گریز کیا جس کی وجہ یہی تھی کہ لوگ حال احوال پوچھنے کی غرض سے فون کر کے مریض کو مزید پریشان کرتے ہیں۔

ظاہر ہے ایک ہی گھر میں رہتے تھے، دو ہی دن میں کہ ہم سب میں بھی وہی علامات نظر آنے لگیں۔ تنہائی میں تو بہت سے خیالات دماغ میں جنم لیتے لیکن اکٹھے بیٹھ کر ایک دوسرے کو یہی کہتے:
" او یار! یہ تو کچھ بھی نہیں ہے"۔ اب ہم بلکل ٹھیک ہیں۔

ہم نے اس کو اپنے دماغ پر حاوی ہونے نہ دیا ۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم نے احتیاط کرنا چھوڑ دی۔ احتیاطی تدابیر اپنانا آپ کا فرض ہے ہم نے بیشک بہت پر اعتمادی کے ساتھ یہ جنگ جیتی۔ اپنی غذا میں انڈے ،مچھلی، مٹن، وٹامن سی اور اے ، ادرک اور لونگ کا قہوہ ،سونف اور کلونجی شامل کی ۔بہادری کی مثال قائم کرتے ہوئے اس سردی میں تقریباً 35 -30 بار ہاتھ دھوتے رہے اور روزانہ نہاتے بھی رہے۔پھر دھوپ میں بیٹھ کر ٹھنڈ بھی ختم ہو جاتی اور وٹامن ڈی بھی جسم میں جذب ہو جاتا۔ بھا پ بھی کثرت سے لے کر رہے اور غرارےبھی کرتے رہے آپ خود ہی دیکھیں اس کرونا نے کتنی نعمتیں کھلائیں، پلائیں۔

اور سنئے! اول تو اس وائرس سے بچنے کی کوشش کریں اور اگر ناکام ہو جائیں تو اس کو کم از کم اسے اپنے دماغ پر حاوی نہ کریں کہ "میں تو گیا"۔ اشرف المخلوقات آپ ہیں ،کرونا نہیں ۔بس بادشاہوں والی غذائیں کھائیں، اب یہ نہ ہو کہ آپ فاسٹ فوڈ کوکاکولا کے چسکوں کے ساتھ شروع کر دیں۔ اور ہاں! فون کر کے مریض کو تسلی دیں ورنہ کال نہ کریں۔
ختم شد!

 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Amna Shehzadi
About the Author: Amna Shehzadi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.