دارالسلطنت دہلی پر یلغار کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اس
بار کوئی فوج نہیں خود اپنے ملک کے کسان ٹینک کے بجائے ٹریکٹر پر سوا ر
ہوکر آرہے ہیں ۔ وہ کسان کسی کا تختہ پلٹنے کی خاطر نہیں بلکہ اپنے چند
مطالبات کو پیش کرنے کے لیے آئے ہیں ۔ ہندوستان کے اندر ہر کسی کو احتجاج
کرنے کا حق ہے ۔ ملک کا ہر شہری یا تنظیم کسی بھی حصے میں مظاہرہ کرسکتی ہے۔
اس طرح کے مظاہرے آئے دن ہوتے رہتے ہیں ۔ 1987میں معروف کسان رہنما مہندر
سنگھ ٹکیٹ کی قیادت میں اسی طرح کا احتجاج ہوچکا ہے لیکن اس وقت کی راجیو
گاندھی سرکار اس طرح سے گھبرائی نہیں تھی جس طرح مودی جی تھر تھر کانپ رہے
ہیں ۔ دہلی پہنچنے سے قبل ہریانہ میں انہیں روکنے کی کوشش کی گئی ۔ ان کے
راستے میں بڑی بڑی رکاوٹیں ڈالی گئیں تاکہ وہ دہلی کے پاس بھی نہیں پھٹک
سکیں لیکن دلیر کسانوں نے ان سب کو اکھاڑ کر پھینک دیا ۔ یہ عجیب منظر بھی
چشم فلک نے دیکھا کہ ہریانہ کی کسان دشمن بی جے پی حکومت کسانوں کےجلوس کو
روک رہی تھی اور ہریانہ کا کسان اپنے بھائیوں کا استقبال کررہا تھا ۔ اس
طرح گویا ہریانہ کی کھٹر سرکار نے اپنے کسانوں کو بھی دشمن بنالیا اس لیے
کہ ہریانہ کے اندر جن کسانوں پر پانی کی بوچھار کی جارہی ہے اور آنسو گیس
کے گولے چھوڑے جارہے ہیں ان میں صرف پنجاب کے نہیں بلکہ ہریانوی کسان بھی
شامل ہیں۔ اب آئندہ انتخاب میں وہ کسان منوہر لال کھٹر کے ساتھ ساتھ دشینت
چوٹالہ کی بھی سیاسی ارتھی اٹھائیں گے ۔
پہلے زمانے میں گوکہ ترقی یافتہ میڈیا موجود نہیں تھا اس کے باوجود دہلی کی
پراسرار تاریخ میں حقائق کے ساتھ بہت سارے من گھڑت ا فسانے بھی شامل ہوگئے۔
مثلاً یہ مشہور کردیا گیا کہ مہا بھارت میں پانڈو کادارالخلافہ ، ’’اندر
پرستھ‘‘دہلی میں تھا حالانکہ مہابھارت کے بارے میں غالب گمان یہی ہے کہ یہ
ایک رزمیہ داستان ہے۔ آثار قدیمہ کے مطابق دو ہزار قبل مسیح سے پہلے بھی
دہلی اور اس کے آس پاس انسان آباد تھے ۔ موریہ کے دور سے یہاں ایک شہر
بسنے لگا۔ پرتھوی راج چوہان کے درباری شاعر چند بردائی نے تومر بادشاہ
انگپال(300 ق م) کو دہلی کا بانی بتایا ہے۔ دہلی میں تومر کا دور حکومت سال
900-1200سال تک مانا جاتا ہے۔ 1178ء میں اجمیر ریاست کے پرتھوی راج چوہان
نے دہلی پرچڑھائی کی اور دور جدید میں پہلی مرتبہ یہ شہر اس کے ہاتھوں تباہ
ہوا۔ پرتھوی راج نے تومر سلطنت کےلال کوٹ پر قبضہ کر لیا۔ اس نے شہر کو
وسعت دی اور ایک نیا قلعہ تعمیر کرایا۔ اس کا نام ’’قلعہ رائے پتھورا‘‘
رکھا گیا ۔
اس کے بعد دہلی پر حملوں کی مدون تاریخ ملتی ہے ۔1192ء میں محمد غوری نے
پرتھوی راج کو شکست دی اور قلعہ رائے پتھورا پر قبضہ کر لیا۔ 1206ء میں
محمد غوری کی رحلت کے بعد ان کے جرنیل، قطب الدین ایبک نےخاندانِ غلاماں کی
بنا رکھی جو ’’سلطنتِ دہلی‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ قطب الدین ایبک
نے’’مسجد قوت اسلام‘‘ اور قطب مینار تعمیر کرایا۔ ایبک نے’’مہرولی‘‘شہر کی
بنیاد رکھی بعید نہیں کہ دہلی یا دلی کا لفظ اسی نام سے نکلا ہومگر بعض
مورخین اس کو 50 قبل مسیح کے ڈھلّو نامی بادشاہ سے منسوب کرتے ہیں ۔ کچھ
لوگوں کا خیال ہے چونکہ یہ سندھ و گنگا کے میدانوں میں حد فاصل یعنی دروازے
کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے اسے ’’دہلیز‘‘ کا نام دیا گیا اور اسی سے دہلی
نکلا ۔
خاندان غلاماں کے بعد خلجی آئے اور 1303ء میں علاؤالدین خلجی نے دہلی میں
’’سیری قلعہ‘‘ تعمیر کرایا۔ 1320ء میں تغلق بادشاہوں نے دہلی کو پایہ تخت
بنا یا۔ 1320ء میں عنایت الدین تغلق نے شہر کو نئے سرے سے تعمیر کر کے اس
کا نام ’’تغلق آباد‘‘ رکھا جو اب بھی موجود ہے۔ محمد بن تغلق نے 1325ء میں
مہرولی اور سیری قلعہ کے مابین دو طویل دیواریں تعمیر کرائیں ۔1354ء میں
فیروز شاہ تغلق نے فیروز شاہ کوٹلہ نامی قلعہ بنوایا جہاں اب اسٹیڈیم ہے
اور نئے شہر کا نام ’’فیروز آباد‘‘ رکھا ۔1414ء تا 1451ء کے درمیان سید
خاندان اور پھر لودھی خاندان نے 1451ء تا 1526ء کے درمیان یہاں سے حکومت کی
۔1398ء میں تیمورلنگ نے ہندوستان پر حملہ کر دیااور اس کی فوج نے شہر تباہ
و برباد کر دیا۔ تاہم آنے والے برسوں میں دہلی پھر سے آباد ہوگیا۔1526ء
میں پانی پت کی جنگ میں بابر نے ابراہم لودھی کو شکست دے کر مغل سلطنت کی
بنیاد رکھی۔ مغلوں نے پہلے آگرہ اور پھر فتح پور سیکری کو اپنا دارالحکومت
بنایا مگر دہلی میں ان کی سلطنت کا اہم شہر رہا۔1540ء میں شیر شاہ سوری نے
دہلی فتح کیا تو وہاں مختلف تعمیرات کی بنیاد رکھی۔ اس وقت یہ شہر ’’شیر
گڑھ‘‘ کہلانے لگا۔ ہمایوں اور شیر شاہ سوری نے ’’پرانی دہلی‘‘ کو آباد کیا
۔
شاہجہان نے 1638ء سے دہلی میں لال قلعہ کی تعمیر شروع کی جو 1649ء میں مکمل
ہوئی اور اس پھر سے دہلی دارالحکوت بن گیا ۔ اونگزیب عالمگیر کی وفات کے
بعد مغلیہ سلطنت زوال پذیر ہو گئی۔ 1737ء میں باجی راؤ کی زیر قیادت مرہٹہ
فوج نے دہلی پر حملہ کرکے اسے تاراج کردیا۔ 1739ء میں ایرانی بادشاہ، نادر
شاہ نے دہلی پر دھاوا بولا اور اُسے تباہ کیا۔ 1761ء میں مرہٹوں کو احمد
شاہ ابدالی نے شکست دےدی اور1803ء میں دہلی انگریزوں کی ایسٹ اینڈیا کمپنی
کے قبضے میں آ گئی۔ 1857ء میں بہادر شاہ ظفر علامتی بادشاہ تھے۔ ان کی
قیادت میں مجاہدین آزادی انگریزوں سے نبردآزما ہوئے مگر ناکام رہے۔ اس
جنگ آزادی کے بعد انگریزوں دہلی کو تباہ کیا اور1911ء میں اپنا صدر مقام
کولکاتہ سے دہلی منتقل کردیا ۔انگریزوں نے جس علاقے کو آباد کیا وہ اب
’’نئی دہلی‘‘ کہلاتا ہے۔ اس زمانےحکمراں نئے شہر آباد کرتے تھے آج کل صرف
نام تبدیل کرکے خوش ہوجاتے ہیں۔
آزادی کے بعد دہلی پر کوئی بیرونی حملہ تو نہیں ہوا مگر 1984ء میں اندرا
گاندھی کاقتل کے بعد اس کا انتقام لینے کے لیے تین ہزار سکھوں کی جان لی
گئی اور پھر اس سال دہلی میں ہندو مسلم فسادت ہوئے جس میں ۵۵ لوگ ہلاک ہوئے
۔شہر دہلی کی یہ تاریخ اس لیے بیان کی گئی ہے کہ اس دوران کوئی ایسا بزدل
سربراہ برسرِ اقتدار نہیں آیا جس نے اپنے ہی ملک کے نہتے باشندوں کو دہلی
آنے سے روکا ہو۔ ان کسانوں نے حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کیا ہے۔
یہ امن پسند کسان گزشتہ کئی دنوں سے پنجاب میں احتجاج کرتے کرتے تھک چکے
ہیں مگر مرکزی سرکار کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ اب یوم آئین کے موقع پر
انہوں نے دہلی کی جانب کوچ کیا تو ان کو پہلے ہریانہ میں داخل ہو نے روکا
گیا اور جب وہ ان رکاوٹوں کو توڑ کر آگے بڑھے تو ان کو نومبر کی سردی میں
پانی کی بوچھار اور آنسو گیس کے گولوں سے منتشر کرنے کی سعی کی گئی ۔ دہلی
کو بالکل قلعہ بند کردیا گیا جیسے کوئی حملہ آور آرہا ہے حالانکہ یہ کسان
فی الحال صرف تین باتوں کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ پہلے تو انہیں اپنی راجدھانی
میں داخل ہونے دیا جائے۔ اس کے بعد ان کے احتجاج کے لیے ایک مقام کا تعین
کیا جائے اور تیسرے حکومت ان سے گفت و شنید کرے ۔
کسانوں کے مطالبات بالکل جائز ہیں ۔ ان میں سے کو ئی مطالبہ غیر واجب نہیں
ہے ؟ لیکن اڑیل سرکار اس کے لیے تیار نہیں ہے ۔ نہ جانے اس کو کس بات کا
خوف ستا رہا ہے؟ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کسانوں کے ہمنوا ہیں
مگر ان کی حالت بہادر شاہ ظفر جیسی ہے ۔ ملک پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی مانند
مودی سامراج کا قبضہ ہے جو اپنے کسانوں کے حقوق پامال کررہا ہے لیکن یہ جبر
و استبداد اب زیادہ دن نہیں چلے گا ۔ انگریزوں کی مانند انہیں بھی جلد ہی
بوریا بستر لپیٹ کر جانا ہوگا۔ یہ ہندوستان کی دوسری جنگ آزادی ہے اور اس
آندھی کو روک پانا اب سنگھ پریوار کے بس کی بات نہیں ۔ ملک کے محنت کش
کسانوں سے پنگا لے کر مودی سرکار نے اپنی قبر میں آخری کیل ٹھونک لی ہے۔۔
اس صورتحال میں کانگریسرہنما جے ویر شیرگل کا بیان درست نظر آتا ہے کہ ملک
کے کسانوں کے ساتھ بی جے پی ایسٹ انڈیا کمپنی اور جنرل ڈائر کی طرح کا سلوک
کر رہی ہے۔ مودی حکومت ریڈ کارپیٹ بچھا کر آئی ایس آئی کا پنجاب میں
استقبال کرتی ہے لیکن پنجاب کے کسانوں کو اپنے ہی ملک کی راجدھانی میں
گھسنے نہیں دیتی۔
مرکزی حکومت کی سمجھ میں جب آگیا کہ اب کسانوں کو روکنا ناممکن ہے تو
انہیں حراست میں لےکر محصور کرنے کے لئے پولیس کے ذریعہ دہلی حکومت سےنو
اسٹیڈیموں کو عارضی جیل بنانے کی اجازت مانگی جس کو عام آدمی پارٹی نے
برہمی کا اظہار کرکے نامنظور کر دیا ۔ اس نے کہا ہمارے ملک کے کسان مجرم یا
دہشت گرد نہیں ہیں۔ آئین کی دفعہ 19(1) پُر امن احتجاج کی اجازت دیتی ہے۔
دہلی سرحد پر کسانوں کو روکنے میں پسپا ہونے کے بعد انتظامیہ نے انھیں دہلی
میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ دہلی پولس کمشنر نے اپنے بیان میں کہا کہ
’’مظاہرین کسانوں کو قومی راجدھانی آنے دیا جائے گا۔ انھیں دہلی کے براڑی
علاقے میں موجود نرنکاری سماگم گراؤنڈ میں مظاہرے کی اجازت ہو گی۔‘‘ ساتھ
ہی پولس کمشنر نے مظاہرین کسانوں سے پرامن مظاہرہ کرنے کی اپیل کی حالانکہ
اس کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ وہ پہلت پر امن ہیں بلکہ پولس ان کو اشتعال
دلا رہی ہے۔ پہلے پنجاب پھر ہریانہ اور بالآخر دہلی کی سرحد تک کسان تین
ریاستوں کی بڑی ناکہ بندی کو پھلانگ کر فاتحانہ انداز میں دہلی کے اندر
داخل ہوئے ہیں ۔ دہلی پر کسانوں کی یلغار ضرور رنگ لائے گی یہ قربانی ہر گز
رائیگاں نہیں جائے گی ۔
|