محمد مطلوب انقلابی

محمد مطلوب انقلابی کی ملی خدمات
انقلاب کا لفظ ہم نے تب سے سن رکھا تھا جب سے تاریخ سے شناسائی ہوئی تھی ہم نے اس کا پس منظر پڑھ رکھا تھا کہ کیسے سرخ انقلاب آیا تھا. اب ہم جہاں بھی لفظ انقلاب دیکھتے تو ہمیں فوراً ایران یا ایرنیان یاد آ جاتے....

کچھ اور شعور میں پہنچے تو ہمیں الیکشن کے چھپے ہوئے پوسٹر پڑھنے کو ملے جن پر کچے رنگوں سے لکھائی کی ہوتی تھی یا تصویر بنائی ہوتی تھی وہ پوسٹر جب تازے تازے دیواروں پر لگتے تو بہت بھلے لگتے لیکن ایک رات کی شبنم سے وہ ایسے دھلتے کہ دوسرے دن دیکھنے کو کاغذ ہی رہ جاتا. کہیں بار ایسا ہوا کہ جلیبی فروش دیواروں یا پیلرز سے پوسٹر اتارتے اور جلیبیاں لپیٹ کر دے دیتے کیوں کہ ان پر لکھائی یا فوٹو تو باقی ہوتی نہیں تھی.

انہی دنوں میں ہمیں انقلاب سے کشید کیا ہوا لفظ انقلابی پڑھنے کو ملا جو ایڈووکیٹ چودھری بشیر اپنے نام کے ساتھ لکھا کرتے تھے ہم نے چودھری بشیر صرف پوسٹر کی حد تک ہی دیکھے تھے اور جب ساتھ انقلابی پڑھتے تو فوراً ذہن کے دریچے وا ہو جاتے اور انقلاب یاد آ جاتا.. ہم نے اپنے پرکھوں سے سن رکھا تھا کہ شخصیت پر نام کا بڑا اثر ہوتا ہے. اس لیے ہمیں یہ شوق رہتا کہ انقلابی دیکھیں لیکن ایسا ہو نہ سکا.. یعنی ہم ایڈووکیٹ بشیر انقلابی نہ دیکھ سکے.

پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ہم نے ڈونگی بازار جہاں سے کوٹلی اور چڑھوئی کی سڑکیں جدا ہوتی ہیں وہاں دکان کے پیلر پر ایک پوسٹر دیکھا جس پر انقلابی لکھا ہوا تھا. لیکن وہاں جو نام تھا وہ محمد مطلوب کا تھا جس نے ساتھ انقلابی لکھا ہوا تھا.. فوٹو چڑھتے شباب کی رتوں کی تھی جو دیکھتا دیکھتا ہی رہ جاتا لیکن ہماری سوچیں کچھ متزلزل سی ہو گئی کہ ایسی شکل و صورت والے نے انقلابی کیوں لکھا.. خیر یہ ہمارے افکار کی اڑان تھی جو ایران سے اِدھر نہ ٹھہرتی تھی…

وقت اپنی سی رفتار چلتا رہا مطلوب انقلابی کی شخصیت میں واقعتاً انقلاب ابھار لے رہا تھا اور آس پاس کے بلکہ ضلعی حدود تک نام مع تخلص کے جانا پہچانا جاتا تھا. ہمیں پہلی بار جو قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا وہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال کی لیڈیز وارڈ تھی جس میں ہم ایک مریضہ کی عیادت کو گئے ہوئے تھے وہی ساتھ والے بیڈ پر جو مریضہ تھی اس کو دیکھنے مطلوب انقلابی بھی آئے تھے. اب پوری وارڈ کی نظریں مطلوب انقلابی پر تھیں جو ایک بات کے ساتھ دو دو بار مونچھوں کو سہلاتے تھے چونکہ موصوف سیاست میں قدم رنجہ فرما چکے تھے اس لیے ہر کسی سے حال احوال پوچھنا فرائض میں شامل کر لیا تھا خیر سے اسی زمرے میں ہم سے بھی بالمشافہ ہوئے اور وہاں آنے کا مدعا پوچھا گیا. جب وہ کچھ دیر بعد چلے گئے تو مریضہ نے بتایا کہ میرے ماموں زاد تھے جو میری عیادت کو آئے تھے.

سیاسی افق کے ستاروں میں بڑی چمک دمک رکھنے والا یہ ستارہ دوسری مرتبہ ہم سے مظفرآباد پاپوش ہاوس کے سامنے ملا، ہمارے ساتھ کچھ دوسرے سرکاری لوگ بھی تھے جن پر کچھ رعب جمانے کے لیے ہم ہی آگے بڑھ کر مطلوب انقلابی صاحب سے بالمشافہ ہوئے اور اُن لوگوں کو تعارف کرایا کہ یہ ہمارے علاقے کے ہیں. اور آج کل سیاست میں ہیں وہ ہمیں سن رہے تھے کہ نہیں لیکن مطلوب انقلابی کا مونچھوں کو تاؤ دینا وہ ضرور دیکھ رہے تھے. وہ لوگ اُن کے حسنِ اخلاق بل کہ یہاں حسن اور اخلاق الگ لکھنا بےجا نہ ہو گا دونوں سے متاثر ہوئے. اُن میں سے ایک جو کچھ سیاسی سوجھ بوجھ رکھتا تھا اس نے دوسروں کو یوں مدح سرائی کرتے سنا تو اتنا کہہ کر کچھ شانت کر دیا کہ یار یہ حسن اخلاق سیاست کے لبادے میں لیپٹا ہوا ہوتا ہے. خیر وہ میرا سینئر اور سیاسی نشیب و فراز کو سمجھنے والا تھا اِس لیے صرف اسے دل کی حد تک ہی برا جانا اور اس کی رائے سے دل ہی دل میں اختلاف کرتے ہوئے کہا تُغی بڈا پتا اے

مطلوب انقلابی کے سیاسی شُتر کو مہمیز لگ چکی تھی 1990 میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا جس میں ناکام ہو گئے لیکن کیا کہا تھا کسی نے کہ " بدنام ہوں گے تو کہا نام نہ ہو گا" ایسا ہی ہوا کہ یہ ہار بھی جیت بن گئی سیاسی حلقوں میں جان پہچان ہو گئی اور یوں اپ 1995 میں کشمیر کونسل کے ممبر بنے گئے جس کی مدت 1999 میں پوری ہوئی تو دوبارہ نامزد ہو گئے. سیاسی قد کاٹھ میں کچھ اور عروج آ گیا تھا اور مستقبل قریب کی راہیں ہموار ہو چکی تھی.

کچھ لوگوں کو قدرت نے اچھائی کے لیے چن لیا ہوتا ہے اور پھر ان سے اچھائی ہی ہوتی رہتی ہے. مطلوب انقلابی بھی اُن خوش نصیبوں میں سے تھے جنھیں اللہ کی ذات نے اچھائی کے لیے نامزد کر دیا تھا اور اُن کے ہاتھوں اچھا ہونا شروع ہو چکا تھا.

2006 کا الیکشن ہارنے کے باوجود شہرت میں کوئی کمی نہیں آئی تھی بلکہ سیاسی پلیٹ فارم کو کچھ اور تقویت مل چکی تھی.

مطلوب انقلابی کو برجستہ جملے کہنے پر ملکہ حاصل ہے اس کا ادراک راقم کو دو جگہ پر ہوا.

ہوا یوں کہ 2006 کی الیکشن کمپین کے دوران چودھری یٰسین صاحب کے ساتھ مطلوب انقلابی سیری کٹیا (چودھری جمروز صاحب مرحوم) کے گھر بیٹھے ہوئے تھے جب یسین صاحب نے بتایا کہ جس گھر میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں یہ میرے چچا کا گھر ہے اور یہ جو ( چودھری جمروز صاحب کی طرف اشارہ کرتے کہا) میرے چچا ہیں تو مطلوب انقلابی آگے ہو کر کہنے لگے فیر تے مہاڑے پہاپا ہوئے نا.

دوسری بار ہم نے سیری ہائی اسکول میں سنا. جب میلادالنبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تقریب کے اختتام پر ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہا کہ اگر مجھے یہ پتہ ہوتا کہ اس مذہبی تقریب میں سیاسی لوگ بھی شمولیت کریں گے تو میں اس تقریب کے انعقاد کی اسکول میں کبھی اجازت نہ دیتا.. اس موقع پر مطلوب انقلابی نے ہیڈ ماسٹر صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے برجستہ اقبال کا یہ شعر پڑھا کہ "جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی"

مطلوب انقلابی کا یوں برجستہ یہ شعر کہنا نہ صرف مجھے بلکہ سارے شرکاء محفل مع ہیڈ ماسٹر صاحب کو ایک بار ان الفاظ پر شرمندہ کر چکا تھا، جو ہیڈ ماسٹر صاحب نے دانستہ یا نادانستہ طور پر کہے تھے.
2011 کے انتخابات میں مطلوب انقلابی کامیابی سے ہمکنار ہوئے اور وزیر تعلیم کا قلم دان سنبھالا. ہم نے جب سنا تو فوراً ہمیں وہ اسکول کا واقع یاد آیا اور دل میں سوچا کہ بےشک آپ اسی وزارت کے حقدار تھے.

دوران وزارت آپ نے بہت سے ایسے کارنامے انجام دیے جو برسوں سے سوہان روح بنے ہوئے تھے اسکولز کی اَپ گریڈنگ سڑکیں اور پُل وغیرہ بنوائے. محکمہ تعلیم اور دوسرے کئی محکموں میں تقرریاں کیں بےشک آپ کا یہ بہت بڑا کارنامہ تھا کیوں کہ آپ کے اس کارنامے سے بہت سے چولہوں پر پھر سے ہنڈیا چڑھنے لگی. کہا جاتا ہے غداری غربت سے اور بغاوت تعلیم یافتہ اذہان سے پروان چڑھتی ہے آپ نے بے شمار پڑھے لکھے بےروزگار لوگوں کو محکموں میں بھرتی کیا جس سے انتشار کی آگ میں کچھ ٹھہراؤ آیا.

سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی کہے پر قائم رہ سکتا ہے لیکن پھر بھی بہت سوں کی خواہشات پر پورے اترتے رہے ہیں جہاں محکمانہ رسائی میسر نہ ہو سکی وہاں فی سبیل اللہ کچھ کر دیا.
مطلوب انقلابی چوں کہ انقلابی لکھتے ہیں اس لیے اُن کے اندر انقلاب آتے رہتے ہیں اور اُن کا ایک انقلابی کارنامہ جو مجھ جیسے ناچیز کو اچھا لگا وہ بھروٹ گالہ کے ہائی سکول کو شفیع بٹ مرحوم سے منسوب کرنا تھا.

شفیع بٹ مرحوم اچھے نامور آدمی تھے زمانہ حیات بڑھی سیاسی سماجی حیثیت سے گزار تھا علاقے کی پہچان تھے بھلے مطلوب انقلابی سے اُن کے کوئی سیاسی مراسم نہیں تھے پھر بھی اسکول اُن سے منسوب کرنا جہاں مطلوب انقلابی کا مدبرانہ فیصلہ تھا وہی سیاسی دور اندیشی کی ضمانت بھی تھا..

راقم کچھ بھی سیاسی سوجھ بوجھ نہیں رکھتا لیکن ایک محب وطن شہری ہونے کی حیثیت سے اس چیز کا انتہائی احساس رکھتا ہے کہ میرے وطن کے "انمول ہیرے دریافت ہونے کے بعد پھر سے مٹی میں نہ مل جائیں" . اسی سلسلے میں پہلوان لطیف، پہلوان فیض احمد، پہلوان چراغ دین، چودھری صدا حسین، ذیلدار راجہ محمد خان اور چیئرمین عزیز بٹ جیسے نام اس چیز کے متقاضی ہیں کہ اُن سے منسوب وادی بناہ حلقہ 6 کی شاہرائیں اسکول اسپتال یا سپورٹس کلب( جو کہیں نہیں) کیے جائیں.

یہ ایسے جاگتی آنکھوں کے سپنے ہیں جنھیں شاید کوئی انقلاب پسندانہ عزائم کا مالک ہی شرمندہ تعبیر کر سکے. راقم نے ان موضوعات پر کچھ کالم بھی لکھے جو صرف اخبارات تک ہی محدود رہے.

مطلوب انقلابی ایک ایسی شخصیت کا نام ہے جس نے صرف ایک الیکشن جیت کر لاکھوں دلوں میں گھر بنا لیے تھے دلی ہمدردی کے طور ہر بیروزگاری کے خاتمے کے لئے کوشاں رہے. بیمار پرسی اور جنازوں میں شمولیت کے رواج کو عام کیا... بلکہ بہت سے ایسے جنازے دیکھے جن میں علماء جنازے کی مناسبت سے تقریر کے لیے مطلوب انقلابی کو دعوت دیتے ہیں ایسی تقاریر بےشک مطلوب انقلابی کی مذہبی امور سے دلچسپی کی عکاسی بھی ہیں. جماعت اسلامی کے امراء کے بعد غالباً مطلوب انقلابی ہی وہ سیاسی لیڈر ہیں جو مذہبی تقاضوں پر پورا اترتے ہیں.

جنازے سے ہی ایک واقعہ یاد آیا کہ سیری اسکول میں ایک جنازہ کی ادائیگی کے سلسلے میں اکٹھے تھے کہ مطلوب انقلابی آئے تقریباً سب لوگ ہی آپ سے یا آپ لوگوں سے ملے لیکن اس دن بندہ ناچیز مصافحہ نہ کر سکا جس کی وجہ یہ تھی کہ میرے ساتھ کسی دوسری پارٹی کے وکیل صاحب کھڑے تھے. حالاں کہ میں سوچ رہا تھا کہ انقلابی صاحب آگے بڑھ کر مجھ سے نہ سہی اُن محترم سے ضرور ملیں گے اور یُوں اُن کا ملنا اُن کے قد کاٹھ کو مذید بلند کر دے گا، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا جس کا مجھے آج تک قلق باقی ہے کیوں کہ وہاں انہوں نے سیاسیات کے اصولوں کے بجائے انقلابی محرکات کو ترجیح دے دی اور یوں مجھے اپنے اُس سرکاری سینئر کی بات تقریباً تیس سال بعد یاد آ گئی کہ "کچھ حسن اخلاق سیاسی لبادے میں لپیٹے ہوتے ہیں" .

مطلوب انقلابی میں ایک فن تحریر و تقریر کا بھی ہے جس کا انکشاف راقم کو حالیہ دنوں میں لکھے ہوئے ایک آرٹیکل سے ہوا جو اُنہوں نے اپنے سیاسی دوست چودھری یٰسین صاحب کی بیماری کے موضوع پر لکھا. آپ کی تعلیمی قابلیت کے ہم پہلے ہی گرویدہ تھے لیکن جب لفظوں کو درد کی قلم سے لکھا جائے تو کچھ اور ہی نکھار آ جاتا ہے. مطلوب انقلابی نے سندیس ملنے سے لے کر عیادت تک کہ مراحل کو جس خوب صورتی سے لکھا اس کا بیان ناقابل بیان ہے...

سیاست کے اپنے ہی الفاظ ہوتے ہیں اور ان میں بھرے جذبات بھی مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں اپنے پارٹی لیڈر کی شان میں کیا کیا قصیدے پڑھے جاتے ہیں جن میں ایک سطر ہماری طرح تقریباً سبھی نے ہی پڑھی ہو گی کہ تعمیر و ترقی کا نشان فلاں خان______ لیکن ہم غیر سیاسی ہونے کے باوجود مطلوب انقلابی کی صرف پانچ سالہ کارکردگی کا بغور جائزہ لیتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ مطلوب انقلابی نہ صرف تعمیر و ترقی کا نشان ہے بلکہ تعمیر و ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہے ..
(نوٹ:- یہ تحریر مطلوب صاحب کی حیات میں لکھی گئی تھی)
 
گل زیب انجم
About the Author: گل زیب انجم Read More Articles by گل زیب انجم: 2 Articles with 1025 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.