#العمAlilm علمُ الکتاب ((((( سُورَہِ یُونس ، اٰیت
41 تا 48 ))))) کارِ نبوت اور انکارِ نبوت !! اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
ان کذبوک
فقل لی عملی
ولکم عملکم انتم
بریئون مما اعمل وانا
برئ مما تعملون 41 ومنھم
من یستمعون الیک افانت تسمع
الصم ولوکانوالایعقلون 42 ومنھم
من ینظر الیک افانت تھدی العمی ولوکانوا
لایبصرون 43 ان اللہ لا یظلم الناس شیئا ولٰکن الناس
انفسھم یظلمون 44 ویوم یحشرھم کان لم یلبثواالا ساعة
من النھار یتعارفون بینھم قد خسر الذین کذبوا بلقاء اللہ وماکانوا
مھتدین 45 وامانرینک بعض الذی نعدھم او نتوفینک فالینا مرجعھم
ثم اللہ شھید علٰی ما یفعلون 46 ولکل امة الرسول فاذاجاء رسولھم قضی
بینھم بالقسط وھم لایظلمون 47 ویقولون متٰی ھٰذالوعد ان کنتم صٰدقین 48
اے ھمارے رسول ! اگر آپ کی قوم کے لوگوں نے آپ کی تکذیب کردی ھے تو آپ اُن
سے کہیں کہ میرا کارِ نبوت میرا عمل ھے اور تُمہارا انکارِ نبوت تُمہارا
عمل ھے ، تُم میرے کارِنبوت کے مُثبت نتائج سے لاتعلق ہو اور میں تُمہارے
انکارِ نبوت کے مَنفی نتائج سے لاتعلق ہوں ، اِن لوگوں میں کُچھ لوگ وہ ہیں
جو بظاہر کان دھیان لگاکر آپ کی باتیں سُنتے ہیں لیکن یہ عقل کے اَندھے اور
کانوں سے بہرے لوگ ہیں ، آپ اِن بے عقل اور بے بہرے لوگوں کو کُچھ بھی نہیں
سُناسکتے اور کُچھ بھی نہیں سمجھا سکتے ، اِن ہی لوگوں میں کُچھ لوگ وہ ہیں
جو بظاہر آپ کو توجہ سے دیکھ ر ھے ہوتے ہیں لیکن اُن کی صرف نگاہیں ہی آپ
کی طرف ہوتی ہیں توجہ آپ کی طرف نہیں ہوتی ، اِن بے بصارت و بے بصیرت لوگوں
کو بھی آپ کُچھ نہیں سمجھا پائیں گے ، اِن لوگوں کی اِس سمعی و بصری اور
عقلی و فکری خرابی کا باعث اِن کے اعمال کی خرابی ھے ، ورنہ اللہ تو اپنے
کسی بندے کے ساتھ کوئ بھی ناانصافی نہیں کرتا ، اللہ تعالٰی جس روز انسانوں
کو اپنی ایک ترقی یافتہ دُنیا میں داخل کرنے کے لیۓ جمع کرے گا اور اِن
مُنکر لوگوں کو جب اُس دُنیا کی وسعت کا کُچھ اَندازہ ہو گا تو اِن کو اپنے
پیچھے چھوڑی ہوئ دُنیا کی زندگی وہ مُختصر سی زندگی لگے گی جس میں وہ ایک
دن کے ایک پَل کے لیۓ ایک دُوسرے کو جاننے کے لیۓ ایک دُوسرے کے ساتھ ملے
تھے اور تَب اُن کو احساس ہوگا کہ اُن کو تو اپنی بد عملی کی وجہ سے پہلے
بھی کُچھ نہیں ملا ھے اور بعد میں بھی کُچھ نہیں ملنے لگا ، جن لوگوں نے
حیات کے بعد ملنے والی حیات اور اپنے خالق کی ملاقات کو جُھٹلایا ھے تو ھم
چاہیں تو آپ کے جیتی جی اُن کو اِس اِنکار کا نتیجہ دکھائیں اور چاہیں تو
آپ کے بعد اِن کو اِس کا مزہ چکھائیں ، ھم جانتے ہیں کہ اِن لوگوں کے آنے
کا ہر راستہ ھماری اُسی محشر کی طرف آتا ھے جس میں سب انسانوں نے سب
انسانوں کے ساتھ جمع ہو کر آنا ھے اور جس میں سب انسانوں نے اپنے اُن سب
اعمال کا جواب دینا ھے جن پر اللہ بذاتِ خود گواہ ھے ، یاد رکھو کہ اللہ کے
قانونِ اَزل کے تحت ہر اُمت کے لیۓ ایک رسول ھے اور جس قوم میں جس وقت اُس
قوم کا وہ رسول آجاتا ھے تو اُس قوم کا وہ مُنصفانہ فیصلہ ہو جاتا ھے جس کا
ہونا اللہ کی مشیت کے مطابق مقرر ہو چکا ہوتا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کا موضوعِ سُخن بھی وہی ھے جو گزشتہ اور گزشتہ سے پیوستہ اُن
مُتعدد اٰیات کا موضوعِ سُخن رہا ھے جن میں قُرآن نے اپنے ماننے والوں کو
توحید کے اعتراف اور شرک سے انحراف کی تعلیم دی ھے اور جن میں قُرآن نے
اپنے ماننے والوں کو اپنے کلامِ وحی پر ایمان لانے اور اپنے کلامِ وحی کے
حامل رسول پر ایمان لانے کی تلقین کی ھے ، مُحولہ بالا اٰیات میں وارد ہونے
والی پہلی اٰیت اِس مضمون کی مرکزی اٰیت ھے اور اِس میں بیان ہونے والا
مضمون اُن تمام اٰیات کا بھی مرکزی مضمون ھے جو اٰیات اِس اٰیت کے بعد وارد
ہوئ ہیں ، قُرآنِ کریم نے اپنے اِس مضمون کی سب سے پہلی اٰیت میں سب سے
پہلے یہ اُصول بیان کیا ھے کہ جس اُمت میں جو رسول آتا ھے وہ رسول اپنی اُس
اُمت میں ایک اِلٰہی مُعلم ہوتا ھے اور اُس رسول کی اُس اُمت کا ہر فرد اُس
رسول کا ایک اِلٰہی مُتعلم ہوتا ھے جب تک اُس اُمت کے وہ اِلٰہی مُتعلم
اپنے اُس اِلٰہی مُعلم کے کلامِ وحی کو گوشِ دل سے سُنتے رہتے ہیں تَب تک
اُن پر علم کی برسات جاری رہتی ھے لیکن جب اُس نبی کی درس گاہ کے اُن طالبِ
علموں کے کان اپنے نبی کی آواز سُننے سے اِنکار کردیتے ہیں ، اُن کی آنکھیں
اُس نبی کی وحیِ تنزیل کو دیکھنے کی روادار نہیں رہتیں اور جب اُن کے دماغ
اُس رسول کے پیغام پر غور و فکر کرنا ترک کر دیتے ہیں تو اُس اُمت کے اُن
سرکش اَفراد پر ھدایت کا ہر دروازہ بند ہو جاتا ھے اور ہلاکت کا ہر دروازہ
کُھل جاتا ھے ، عھدِ نبوی میں جب یہ صورتِ حال پیدا ہوئ تو اللہ نے اپنے
رسول کو آگاہ کیا کہ اگر آپ کی قوم کے کُچھ لوگوں نے آپ کے پیغام کی تکذیب
کر دی ھے تو آپ اپنی اُمت کے اُن مُنکر اَفراد سے کہہ دیں کہ میرا کارِ
نبوت میرا اِلٰہی فریضہ ھے جس سے تُمہارا کوئ تعلق نہیں ھے اور تُمہارا
انکارِ نبوت تُمہارا اپنا عمل ھے جس سے میرا کوئ تعلق نہیں ھے ، یہ بات
چونکہ اللہ کے ایک حُکم کے طور پر آئ تھی اِس لیۓ آپ نے اللہ کے حُکم کے
طور پر اُن مُنکرینِ حق کو سُنادی تھی لیکن اُمت کے لیۓ آپ کے دل میں جو
رحمت و شفقت کی جُوۓ رواں تھی وہ بار بار آپ کو اِس بات پر بر اَنگیختہ
کرتی رہتی تھی کہ آپ اِن مُنکر لوگوں کو بار بار سمجھائیں تا کہ یہ مُنکر
لوگ دُنیا میں آنے والے خُدا کے کسی اِمکانی عتاب اور عُقبٰی میں ملنے والے
یقینی عذاب سے بَچ جائیں لیکن اِس پہلی اٰیت کے بعد آنے والی دو اٰیات
بتاتی ہیں کہ اللہ تعالٰی نے آپ کو تسلّی دی کہ آپ اِن لوگوں کے لیۓ پریشان
نہ ہوں کیونکہ یہ لوگ اپنے کفر و شرک اور اپنی منافقت میں اتنے پُختہ کار
ہو چکے ہیں کہ اَب اِن کے دل و دماغ اور اِن کے احساس و حواس مُکمل طور پر
قبولِ حق کے لیۓ بیکار ہو چکے ہیں اور اِن اٰیات کے بعد آنے والی اٰیات میں
اللہ نے اپنے رسول کو یہ بتایا ھے کہ اِن لوگوں کے بارے میں اللہ نے آپ کو
جو فیصلہ کُن حُکم دیا ھے وہ اِن کے اپنے اُس ظلم کا نتیجہ ھے جو انہوں نے
اپنی ذات پر کیا ھے ورنہ اللہ تعالٰی تو اپنی مخلوق کے کسی فرد پر بھی کوئ
ظلم نہیں کرتا ، اِس سلسلہِ کلام کے بعد اللہ تعالٰی نے اپنے رسول کو مزید
بتایا ھے کہ اِن لوگوں کو اپنے تمام بُرے اعمال کے تمام بُرے نتائج کا اُس
روز علم ہوگا جس روز اِن کو ارتقاۓ حیات کے ایک دُوسرے ارتقائ مرحلے سے
گزارنے کے لیۓ ایک جگہ جمع کیا جاۓ گا اور اُس جگہ پر پُہنچنے کے بعد جب
اِن کے دل و دماغ گزری زندگی کے بعد ملنے والی زندگی کی ایک دُور پار کی
جَھلک دیکھیں گے کہ تو اِن کا وہ پَچھتاوا قابلِ دید ہو گا کہ جب یہ کہیں
گے کہ ہم تو وہ بد بخت لوگ ہیں جنہوں نے پچھلی زندگی کی مُیسر نعمتیں بھی
ضائع کردی ہیں اور اَگلی زندگی میں بھی ھمارے لیۓ کُچھ نہیں ھے اور قُرآن
نے اپنے اِس مضمون کو اللہ کے اِس ارشاد پر ختم کیا ھے کہ ھمارے ہر رسول کے
زمان و مکان میں آنے کا ھماری طرف سے ایک مقررہ زمان و مکان رہا ھے اور پھر
جس جس زمان و مکان میں ھمارا جو جو رسول آیا ھے تو اُس رسول کے آنے کے ساتھ
ہی وہ حساس اور فیصلہ کُن لَمحہ بھی ضرور آیا ھے جس حساس لَمحے نے اُس کی
اُمت کے اَفراد کو اسی طرح اقرار و انکار کے دو اَلگ اَلگ خانوں میں تقسیم
کیا ھے جس طرح کہ ھمارے آخری رسول کی آمد نے اِس آخری اُمت کے اَفرادِ نیک
و بَد کو دو اَلگ اَلگ خانوں میں تقسیم کیا ھے !!
|