ناحق قتل کرنا

ناحقّ قتل کی مذمّت قرآن کی روشنی میں
اللہ ربُّ العالمین قتل ِ ناحقّ کی مذمّت میں ارشاد فرماتا ہے:(وَمَن یَّقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خَالِداً فِیْہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ لَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَاباً عَظِیْمًا)
ترجمہ کنزالایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے، تو اُس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدّتوں اُس میں رہے، اور اللہ نے اُس پر غضب کیا،اور اُس پر لعنت کی اور اُس کے لیے تیار رکھا ہے بڑا عذاب۔
اور فرماتا ہے:(وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُونَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہاً اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُونَ وَ مَن یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَاماً یُضٰعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہٖ مُہَاناً اِلَّا مَن تَابَ)
ترجمہ کنزالایمان: اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود نہیں پوجتے، اور اُس جان کو جس کی اللہ نے حُرمت رکھی، ناحق نہیں مارتے،اور بدکاری نہیں کرتے۔ اور جو یہ کام کرے، وہ سزا پائے گا، بڑھایا جائے گا اس پر عذاب قیامت کے دن،اور ہمیشہ اُس میں ذِلّت سے رہے گا،مگر جو توبہ کرے۔
اور فرماتاہے:(مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً)
ترجمہ کنزالایمان: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کیے تو گویا اُس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔

حضرت حسن بصری علیہ رحمۃ اللہ القوی نے اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرمایا: اُس قاتل پر ناحق مسلمان کو قتل کرنے کے سبب وہی قصاص لازم ہوگا، جو کہ تمام لوگوں کو قتل کردینے کی صورت میں اس پر لازم ہوتا۔
اور فرماتا ہے:(وَ اِذَا الْمَوْءٗدَۃُ سُئلَتْ بِأَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ)
ترجمہ کنزالایمان: اور جب زندہ دبائی ہوئی سے پوچھا جائے کس خطا پر ماری گئی؟
یعنی، اُس لڑکی سے جو زندہ دفن کی گئی ہو، جیسا کہ عرب کا دستور تھا کہ زمانہئ جاہلیت میں لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے۔ یہ سوال قاتل کی توبیخ کے لیے ہے، تاکہ وہ لڑکی جواب دے کہ میں بے گناہ ہوں۔

ناحقّ قتل کی مذمّت احادیث کی روشنی میں
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: سات ہلاک کرنے والے گُناہوں سے بچو۔ اُن گناہوں میں نبی پاکﷺ نے اللہ تعالی کی حرام کردہ جان کو ناحق قتل کرنے کا بھی ذِکر فرمایا ہے۔

نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا: سب سے عظیم گُناہ کون سا ہے؟نبی پاک ﷺ نے فرمایا: تیرا کسی کو اللہ تعالی کے ساتھ ہمسر قرار دینا، حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔سائل نے عرض کیا: پھر کون سا؟فرمایا: تیرا اپنی اولاد کو اِس خوف سے مار ڈالنا کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گا۔ عرض کیا گیا: پھر کون سا؟فرمایا: تیرا اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرنا۔

نبی پاک ﷺ نے فرمایا: جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ باہم ٹکراتے ہیں، تو قاتل اور مقتول دونوں آگ میں ہیں۔ عرض کیا گیا: یارسول اللہ! یہ شخص تو قاتل ہے، مقتول کا انجام ایسا کیوں ہوگا؟ ارشاد فرمایا”وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنے کی شدید خواہش رکھتا تھا۔

نبی پاک ﷺ نے فرمایا: آدمی اپنے دین میں کشادگی ووسعت میں رہتا ہے جب تک کہ وہ حرام خون سے آلودہ نہ ہو۔

نبی پاک ﷺنے فرمایا: میرے بعد کافر مت ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔

امام نووی نے فرمایا:اس حدیث پاک کی مختلف تاویلیں کی گئی ہیں، راجح قول کے مطابق معنی یہ ہے کہ یہ فعل یعنی ایک دوسرے کوقتل کرنا کُفّار کے افعال کی طرح ہے۔

حضرت بُشیر بن مہاجر، ابن بُرید ۃسے،وہ اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں:نبی پاک ﷺنے فرمایا: ایک مومن کا قتل کیا جانا، اللہ تعالی کے نزدیک دُنیا کے تباہ ہوجانے سے زیادہ بڑا ہے۔

نبی پاکﷺ نے فرمایا: آدمی اپنے دین میں کُشادگی و وسعت میں رہتا ہے، جب تک کہ حرام خون کو نہ پہنچے، (یعنی جب تک ناحق کسی کو قتل نہ کرے) یہ بخاری کے الفاظ ہیں۔

نبی پاک ﷺ نے فرمایا:”لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:نبی پاک ﷺ نے فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا، (ناحق) کسی جان کو قتل کرنا، اور والدین کی نافرمانی کرنا ہے۔إلخ

حضرت عقبہ بن مالک نے یہ حدیث بیان کی: نبی پاک ﷺنے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ عزّوجلّ نے مجھے منع فرمادیا (اُس کی توبہ قبول کرنے سے) جس نے کسی مسلمان کو قتل کیا ہو۔آپ ﷺنے یہ بات تین بار فرمائی۔

یعنی، جس نے ظُلماً کسی مسلمان کو قتل کیا ہو، میں نے اللہ تعالیٰ سے اُس کی توبہ قبول کرلینے کا تین مرتبہ سوال کیا، پس اللہ تعالیٰ نے مجھے اِس سے منع فرمادیا۔ یہ کلام بطور زجر و توبیخ ہے، گویا یہ بات معلوم ہے کہ مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا سچی توبہ نہیں کرسکتا کہ اُسے معافی ملے یا اِس سے مرادوہ جو شخص ہے جو ناحق مسلمان کو قتل کرنے کو حلال جانے۔

نبی پاکﷺ نے فرمایا:”جو جان بھی ظلماً قتل کی جاتی ہے، آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے (قابیل) پر اُس کے خون میں سے حصہ ہے، کیونکہ وہ پہلا شخص ہے جس نے قتل ایجا دکیا۔ یہ حدیث پاک متفق علیہ ہے۔
حضرت ابن عمرو بیان کرتے ہیں:نبی پاک ﷺ نے فرمایا: جس نے اُس شخص کو قتل کیا جس نے اسلامی حکومت سے معاہدہ کررکھا تھا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھے گا اور بلا شبہ اس کی خوشبو چالیس سال کی راہ سے پائی جاتی ہوگی۔

مُعاھِد سے مرادمُسْتامِن ہے۔ صدر الشریعہ، بدر الطریقہ مفتی امجد علی اعظمی متوفی ۷۶۳۱ھ نے مستامن کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: مستامن وہ شخص ہے، جو دوسرے ملک میں امان لے کر گیا، دوسرے ملک سے مراد وہ ملک ہے، جس میں غیر قوم کی سلطنت ہو،یعنی: حربی، دارالاسلام میں، یا مسلمان، دار الکفر میں امان لے کر گیا،تو مستامن ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں:نبی پاک ﷺنے فرمایا:آگاہ ہوجاؤ!جس نے اُس جان کو قتل کیا،جس نے اسلامی حکومت سے معاہدہ کر رکھا تھا، جس کے لیے اللہ کا ذمہ اور اُس کے رسول کا ذمہ تھا، پس تحقیق اُس نے اللہ کے ذمہ کو حقیر سمجھا، اور ایسا شخص جنت کی خوشبو نہ سونگھے گا،اور بلاشبہ اُس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے پائی جائیگی۔ اس حدیث کو ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے۔

حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں:نبی پاک ﷺنے ارشاد فرمایا: جس شخص نے آدھی بات کے ذریعے بھی کسی مسلمان کے قتل پر مدد کی، وہ اللہ تعالی سے اِس حالت میں ملے گا کہ اُس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا: یہ شخص رحمتِ الٰہی سے مایوس ہے۔

اس شخص کی پیشانی پر یہ عبارت، لوگوں کے سامنے اُس کی ذِلّت و رسوائی کو ظاہر کرنے کے لیے مکتوب ہوگی، اور اِس عبارت کا لکھا ہونا یا تو اس شخص کے لیے ہوگا، جو اِس عمل کو حلال جانتا ہو، یا یہ حدیث پاک اِس گُناہ کی شدّت کو بیان کرنے کے لیے ہے کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہے۔ یہ کفر سے کنایہ ہے، یعنی حرام اعتقاد کرنے کے باوجود اِس گُناہ کے مرتکب کا خاتمہ کفر پرہوسکتا ہے۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی پاکﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اُمید ہے کہ ہر گُناہ کو اللہ تعالی بخش دے گا،مگر وہ شخص جو کفر کی موت مراہو، یا جس شخص نے جان بوجھ کر کسی مسلمان کو (ناحق) قتل کیا ہو۔

اس حدیث پاک کے جزء:”جس شخص نے جان بوجھ کر کسی مسلما ن کوناحقّ قتل کیاہو“ کی مختلف تاویلات کی گئی ہیں۔(۱) جو شخص مقتول کو مسلمان ہونے کی وجہ سے قتل کرے، اُس کے لیے یہ حکم ہے۔(۲) اِس پیرائے میں حکم ذِکر کرنے سے مقصود تغلیظ ہے۔ (۳) یا معنی یہ ہے کہ جب تک مقتول کے ورثاء معاف نہ کردیں، اللہ تعالیٰ معاف نہیں فرمائے گا۔ یا اللہ تعالیٰ اپنے اس فرمان: (اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَن یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُونَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُوَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدِ افْتَرٰٓی اِثْماً عَظِیْمًا)
ترجمہ کنزالایمان:بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے، اور کفر سے نیچے جو کچھ ہے، جسے چاہے معاف فرمادیتا ہے۔ کے باعث اس کی مغفرت فرمادے۔

 

Imran Attari Abu Hamza
About the Author: Imran Attari Abu Hamza Read More Articles by Imran Attari Abu Hamza: 51 Articles with 60730 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.