#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ یُونس ، اٰیت 48 تا 52
قانون قیامِ حُجت و اتمامِ حُجت !! ازقلم...... اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
یقولون
متٰی ھٰذالوعد
ان کنتم صٰدقین 48
قل لا املک لنفسی ضرا ولا
نفعا الا ماشاء اللہ لکل امة اجل
اذاجاء اجلھم فلایستاخرون ساعة ولا
یستقدمون 49 قل ارئیتم ان اتٰکم عذابا او
نھارا ماذایستعجل منہ المجرمون 50 اثم اذا
ماوقع اٰمنتم بہ آلئٰن وقد کنتم بہ تستعجلون 51
ثم قیل للذین ظلمواذوقواعذاب الخلد ھل تجزون الا
بما کنتم تکسبون 52
اے ھمارے رسول ! یہ مُنکرین حق جو آپ سے یہ کہہ رھے ہیں کہ اگر آپ اللہ کے
سَچے نبی ہیں تو پھر آپ ھم پر وہ عذاب کیوں نہیں لے آتے جس عذاب سے آپ ہمیں
ڈراتے رہتے ہیں ، آپ اِن لوگوں کو بتائیں کہ نوعِ انسانی کے ایک فرد کے طور
مُجھے دُنیا سے اپنی جان و نفس کے لیۓ کوئ راحت پانے کا اتنا ہی
محدُوداختیار ہوتا ھے جتنا محدُود اختیار مُجھے اللہ دیتا ھے اور اپنی جان
و نفس پر کوئ رَنج سہنے کا بھی مُجھ میں اتنا ہی محدُود حوصلہ ہوتا ھے جتنا
محدُود حوصلہ اللہ مُجھے دیتا ھے اور نَظمِ عالَم میں نوعِ انسانی کی ہر
اُمت کا ایک مقررہ آغاز و اَنجام ہوتا ھے جو اپنے وقت سے ایک لَمحہ آگے
ہوتا ھے اور نہ ہی ایک لَحظہ پیچھے ہوسکتا ھے ، آپ مُنکرینِِ حق کو اِس بات
سے آگاہ کر دیجیۓ کہ تُم لوگ اللہ کے جس عذاب کے لیۓ مَچل رھے ہو تمیں اِس
بات سے کیا فرق پڑتا ھے کہ وہ دن میں آۓ یا رات میں آجاۓ ، اگر تُم عذاب کے
اُس خاص موقعے پر اللہ کے عذاب کےحق ہونے کا یقین کر کے ایمان لانا چاہتے
ہو تو وہ ایمان لانے کا موقع نہیں ھے کیونکہ جب عذاب آجاتا ھے تو پھر رجوع
الی الحق کا وقت ختم ہو جاتا ھے اِس لیۓ اگر وہ عذاب آجاۓ گا تو پھر تُم کو
قبُولِ حق کا موقع نہیں دیا جاۓ گا بلکہ صرف یہ کہا جاۓ گا اَب چکھو تُم
اُس دائمی عذاب کا مزہ جس کے لیۓ تُم مَچل رھے تھے ، تُمہارے اِن بُرے
اعمال کا تو یہی بُرا مآل ھے !
رَبطِ کلام و رَبطِ مضمونِ کلام !
گزشتہ سے پیوستہ اٰیات میں یہ حقیقت واضح کی گئ تھی کہ قُرآن اللہ نے اِس
لیۓ نازل کیا ھے کہ انسان اِس پر ایمان لاۓ اور اِس کے اَحکامِ نازلہ پر
عمل کرے اور اِس کے ساتھ ساتھ انسان کو اِس اَمر سے بھی آگاہ کیا گیا تھا
کہ گزشتہ زمان و مکان کی جو اَقوام گزشتہ زمان و مکان میں اللہ کے اَحکامِ
نازلہ کا انکار کرتی رہی ہیں اُن اَقوام پر مُختلف اَوقات میں وہ مُختلف
عذاب نازل ہوتے رھے ہیں جن کے آثارِ عبرت آج بھی سینہِ زمین پر جابجا بکھرے
ہوۓ ہیں اور پھر گزشتہ اٰیات میں اللہ تعالٰی نے اپنے نبی سے یہ ارشاد
فرمایا تھا کہ آپ کی قوم کے جن نے اَفراد نے آپ کی اور آپ پر نازل ہونے
والی کتاب کی تکذیب کردی ھے تو آپ اُن سے کہیں کہ میرا کارِ نبوت و رسالت
میرا عمل ھے اور تُمہارا اِنکارِ نبوت و رسالت تُمہارا عمل ھے ، تُم میرے
کارِ رسالت کے اُن مُثبت نتائج سے لاتعلق ہو چکے ہو جنہوں نے اپنے مقررہ
وقت پر ظاہر ہونا ھے اور میں بھی تُمہارے اِنکارِ نبوت و رسالت کے اُن
مَنفی نتائج سے لاتعلق ہو چکاہوں جن کا اپنے مقررہ وقت پر ظہور ہونا ھے ،
انسانی اَعمال اور نتائجِ اعمال کی یہ وضاحت اِس لیۓ کی گئ تھی کہ مُنکرینِ
قُرآن جب اِنکار قُرآن کرتے تھے تو اِس اِنکار کے ساتھ ساتھ ایک مُتکبرانہ
تعلّی کے ساتھ یہ بھی کہتے جاتے تھے کہ کہاں ھے تُمہارا وہ عذاب جس کی تُم
ہمیں دھمکی دیتے رہتے ہو اِس لیۓ موجُودہ اٰیات میں اُس زمانے کے اُن
مُنکرینِ قُرآن کو بلا واسطہ اور اُن کے بعد پیدا ہونے والے مُنکرینِ قُرآن
کو بالواسطہ یہ بتایا جا رہا ھے کہ دُنیا کے ہر انسان کے ہر عمل کا ایک وقت
ہوتا ھے اور اُس عمل کے رَدِ عمل کا بھی ایک وقت ہوتا ھے اور اِِس عمل و
رَدِ عمل کے درمیان میں بھی ایک وقفہِ وقت ہوتا ھے ، جب تک عمل اور رَدِ
عمل اور اِن کے وقفہِ عمل کی اِس زنجیر کی یہ تین کڑیاں مُکمل نہیں ہوجاتیں
تَب تک کسی انسان کے کسی مُثبت و مَنفی عمل کے نتائج ظاہر نہیں ہوتے ، جن
زمانوں میں زمین پر اَنبیاء و رُسل کی آمد کا سلسلہ جاری تھا اُن زمانوں
میں انسان کے اِن اعمال اور نتائجِ اعمال کی عملی صورت یہ ہوتی تھی کہ زمین
پر جب تک اللہ کا کوئ رسول انسانوں کو اللہ کا پیغامِ حق سُناتا رہتا تھا
تو اُس وقت تک زمین پر اللہ کا وہ قانونِ حُجت اپنی تکمیل کی طرف بڑھتا
رہتا تھا جس قانون حُجت کو قائم کرنے کے لیۓ اُس رسول کو اُس قوم میں مامور
کیا جاتا تھا ، پھر جب کبھی جو قوم اُس رسول کے ذریعے ملنے والے پیغامِ حق
کو مُکمل طور پر رَد کر دیتی تھی تو اُس وقت اُس قوم پر اتمامِ حُجت ہو
جاتا ھے اور اتمامِ حُجت کے بعد اُس پر عذاب نازل کردیا جاتا تھا لیکن جس
قوم کے کُچھ لوگ حق پر ایمان لے آتے تھے اور کُچھ لوگ حق کا انکار کر دیتے
تھے تو اُس قوم کے عذابِ دُنیا کو عذابِ آخرت میں بدل دیا جاتا تھا ،
سُورتِ یونس کی یہ اٰیت اسی قانونِ عذاب کی تشریح کرتی ھے جس کے تحت ایک
قوم کے قومی وجُود پر دُنیا ہی میں اللہ کا عذاب ڈال دیا جاتا ھے اور ایک
قوم کے جسم و جان کا عذاب آخرت پر ٹال دیا جاتا ھے ، عذابِ دُنیا اور عذابِ
آخرت کے اِس قانون کی تشریح کرنے والی یہ اٰیت سُورتِ یُونس کے اِس مقام کے
علاوہ سُورةُالاَنبیاء کی اٰیت 38 ، سُورةُالنمل کی اٰیت 71 ، سُُورَہِ
یٰسن کی اٰیت 48 اور سُورةُالمُلک کی اٰیت 25 میں بھی اسی طرح سے آئ ھے ،
اِس اٰیت میں آنے والے لَفظِ " الوعد " میں جس اَمرِ اِلٰہی یا جس حُکمِ
اِلٰہی کے لازما واقع ہونے کا ذکر ہوا ھے اُس اَمرِ اِلٰہی سے اُس " الساعة
" کا برپا ہونا بھی مُراد ھے جس کے برپا ہونے کا ہر زمین اور ہر زمانے کے
مُنکرینِ حق اِنکار کیا کرتے تھے اور اُس حُکمِ اِلٰہی سے اُس عذاب کا آنا
بھی مُراد ھے جس عذاب کی سابقہ اُمتوں کے مُنکرینِ حق تکذیب کیا کرتے تھے
اور اسی عذاب کے لیۓ اللہ کے آخری رسول کی اُمت کے وہ مُنکرینِ حق بھی
مَچلتے رہتے تھے جن کو اِس اٰیت میں رسولِ حق کے ذریعے بتایا گیا ھے کہ
زمین کی کسی قوم پر جب بھی کوئ عذاب آتا ھے وہ اللہ کے حُکم سے آتا ھے کسی
قوم کی خواہش پر نہیں آتا اور قیامت بھی اللہ کے حُکم سے آۓ گی اور اپنے
وقت پر ہی آۓ گی ، کسی فرد یا کسی قوم کے مطالبے پر نہیں آۓ گی اور حق کے
وہ مُنکر لوگ چونکہ اِس عذاب کا ایک طنزیہ اَنداز میں اللہ کے نبی سے اس
طرح مطالبہ کیا کرتے تھے کہ اللہ کا یہ نبی جس طرح ہمیں عذاب کی دھمکی دیتا
ھے اسی طرح یہ ھم پر وہ مجوزہ عذاب نازل بھی کرکے دکھاۓ تاکہ ھم بھی دیکھیں
کہ اِس کا لایا ہوا عذاب کیا ھے ، اِس لیۓ اُن لوگوں کے سامنے اللہ کے نبی
کی زبان سے یہ اعلان کرایا گیا کہ زمین پر اپنی میرا اپنی مرضی سے کوئ عذاب
لانا تو بہت دُور کی بات ھے ، میں تو اللہ کی اِس زمین پر رہتے ہوۓ اس زمین
سے راحت بھی اتنی ہی پاسکتا ہوں کہ جتنی راحت پانے کی مُجھے اللہ توفیق
دیتا اور اِس زمین پر رہتے ہوۓ کوئ رَنج بھی اتنا ہی برداشت کر سکتا ہوں
جتنا رَنج برداشت کرنے کی مُجھے اللہ ہمت دیتا ھے ، اِس اعلان کا مقصد صرف
یہ تھا کہ خالق کے کسی کام میں مخلوق کا کوئ فرد بھی مداخت نہیں کر سکتا
لیکن بُرا ہو فرقہ پرستیوں کی فرقہ پرستی کا کہ اِن فرقہ پرستوں نے عذاب کے
اِس خاص پس منظر کے ساتھ نازل ہونے والی اِس اٰیت سے بھی رُسول اللہ کے
مُختار کُل ہونے یا بے اختیارِ محض ہونے کی ایک بیہُودہ بحث نکالی ہوئ ھے
جس کا اللہ کے رسول کے اختیار و عدمِ اختیار سے کوئ دُور پار کا تعلق بھی
نہیں ھے !!
|