آج ہم سائنسی دور میں زندگی گزار رہے ہیں۔ طبی اور سائنسی
تحقیقات کی بدولت جہان ہم آنے والے بچے کی جنس کے متعلق قبل از ولادت جان
سکتے ہیں ، میڈیکل کی جدت پسندی کی وجہ سے انسانی گردے ، دل وغیرہ کی جانچ
پڑتال سے ان کی کاکردگی اور ان کی زندگی کے متعلق سمجھ سکتے ہیں وہاں پوری
دنیا میں ’’ کوروناوائرس نے زیادہ نہیں تو کم از کم ہمیں ایک صدی پیچھے
دھکیل دیا ہے۔ کورونا وائرس نے زندگی کا پہیہ جام کردیا ہے حالانکہ ’’
کوروناوائرس سے بھی زیادہ جان لیوا HIV ہے ‘‘ طبی تحقیات نے جہان زندگی کے
دکھ درد کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے وہاں ہمیں جدید میڈیکل سائنس بعض
صورتوں میں مکمل بے بس نظر آتی ہے۔
ایڈز ایک مہلک اور جان لیوا مرض ہے ایڈز کی دہشت اور خوف نے انسانیت کے
پرخچے اُڑا دئیے ہیں ۔ خدا نہ کرے اگر کسی کو HIV یا ایڈز ہو جائے تو اس کو
خونی رشتے بھی ہاتھ نہیں لگاتے حالانکہ طبی سائنس چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ
ایڈز یا ایچ آئی ٭ایک ہی ہوا میں سانس لینے سے٭معانقہ کرنے سے، بوسہ لینے
سے یا ہاتھ ملانے سے٭ایک دوسرے کے کھانے کے برتن استعمال کرنے سے٭نہانے کے
لیے ایک شاور استعمال کرنے سے٭ایک دوسرے کی ذاتی اشیا استعمال کرنے سے٭جم
میں ایک ہی مشین استعمال کرنے سے٭ٹائلٹ کی سیٹ کو چھونے سے، دروازے کے
ہینڈل کو چھونے سے نہیں پھیلتیی ، سوال پیدا ہوتا ہے ایڈز یا ایچ آئی وی
کیا ہے؟
ایڈز ایک ایسی بیماری ہے جو وائرس کے ذریعے پھیلتی ہے اور جسم میں جاکر اس
کے دفاعی نظام کو ختم کردیتی ہے۔یہ بیماری ایک سے دوسرے کو لگ سکتی ہے۔ اس
کو پیدا کرنے والے وائرس کو ہیومن لائیفاڈینو پیتھی وائرس یا ایچ آئی وی
کہا جاتاہے۔اس کی بڑی اور اہم وجہ غیر محفوظ جنسی تعلقات، سوئی یا انجیکشن
کا ایک سے زیادہ بار استعمال یا انفیکشن والے خون کا جسم میں داخل ہوجانا
ہے۔
ایچ آئی وی اور ایڈز میں کیا فرق ہے؟
ایچ آئی وی اور ایڈز یوں تو ایک ہی مرض کے لیے استعمال ہوتے ہیں لیکن اس کے
معنی مختلف ہیں۔ ایچ آئی وی اس خاص وائرس کا نام ہے جبکہ ایڈز ایچ آئی وی
انفیکشن کی آخری اسٹیج ہے۔ اس مرحلے پر ایچ آئی وی انفیکشن سے متاثرہ فرد
کی قوت مدافعت بے حد کمزور ہو جاتی ہے اور اس میں کینسر یا دیگر جان لیوا
بیماریوں سے لڑنے کی صلاحیت نہیں رہتی۔ اگر صحیح علاج نہ مل پائے تو ایچ
آئی وی سے متاثرہ مریض چند سالوں میں ہی انفیکشن کی آخری اسٹیج یعنی ایڈز
تک پہنچ جاتا ہے۔ البتہ یہ ضروری نہیں کہ ہر ایچ آئی وی پازیٹو شخص کو ایڈز
ہوجائے۔ مناسب علاج سے ایڈز کے خطرات اور کسی دوسرے میں اس کے جراثیم منتقل
ہونے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ قومی ایڈز پروگرام کے مطابق 1986سے اب تک
پاکستان میں ایچ آئی وی کے چالیس ہزار کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
صاحب ایمان جانتے ہیں کہ اﷲ پاک نے کوئی ایسی بیماری نازل نہیں کی جس کی
شفاء نہ اُتاری ہو ۔پھر اگر شعبہ طب کی بے بسی کی بات کی جائے تو ہم اس بات
کو ایسے سمجھ سکتے ہیں کہ جو بیماری وائرس ہے اس کا علاج بھی موجود ہے مگر
ہم علاج کی دسترس تک نہیں پہنچ سکے ۔یعنی آج کے لا علاج امراض کا ایک نہ
ایک دن علاج دریافت ہو جائے گا جس کے لئے ہمیں مسلسل تحقیقات کرنی ہو گئی ۔کیونکہ
اﷲ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری پیدا ہی نہیں کی جس کی شفاء نہ رکھی ہو (
ماسوائے موت)
ایک غلط فہمی دور کرنا ہوگئی کہ انسان کا بیمار ہونا( کسی بھی بیماری وائرس
وغیرہ)کسی گناہ کے سبب ہے ۔یا خدا کا عذاب ہے۔ ایسا بالکل نہیں ۔اﷲ کی طرف
سے آزمائش یا امتحان کہہ سکتے ہیں کسی
گناہ کا نتیجہ نہیں کیونکہ جو آدمی کسی بھی بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے وہ اﷲ
پاک کے بہت قریب ہو جاتا ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ
رسول اﷲؐ نے فرمایا:’’جب مسلمان کسی جسمانی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو
فرشتہ سے کہا جاتا ہے کہ اس کی وہی نیکیاں لکھ جو پہلے کرتا تھا۔پھر اگر رب
عزوجل اسے شفا دیتا ہے تو اسے دھودیتا ہے اور پاک کر دیتا ہے اور اگر اسے
وفات دیتا ہے تو اسے بخش دیتا ہے اور رحم کرتا ہے۔‘‘(مشکوٰۃ)اس حدیث کی شرح
کرتے ہوئے مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: ’’سبحان اﷲ
تعالیٰ کیسا مبارک فرمان ہے۔کہ بیمار کو تندرستی کی نیکیوں کا ثواب ملتا
رہتا ہے۔مگر تندرستی کے گناہوں کا عذاب نہیں ہوتا۔ہمارا مسلہ یہ ہے کہ جب
ہم بیمار یا کسی مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ اﷲ پاک کی
طرف سے آزمائش ہے مگر جب ہم دوسروں کو اُسی دکھ درد میں دیکھتے ہیں تو کہتے
ہیں یہ اﷲ کی پکڑہے ۔ حالانکہ اﷲ پاک معاف فرمائے بیماری سے ہمارے گناہ
جھڑتے اور نیکیاں بڑھتی ہے جیسا کہ ایک حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے کہ حضرت
انس رضی اﷲ عنہ روایت فرماتے ہیں رسول اکرم ؐ نے فرمایا:’’جب اﷲ تعالیٰ کسی
کی بھلائی چاہتا ہے تو اسے فوری طور پر دنیا میں سزائیں دے دیتا ہے اور جب
کسی بندے کی برائی چاہتا ہے تو اس کی سزا مع گناہوں کے محفوظ رکھتا ہے۔حتیٰ
کہ اسے قیامت کے دن پوری پوری دے گا۔‘‘(ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ)مفسر شہیرحضرت
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اﷲ علیہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے
ہیں:’’یعنی گناہوں پر دنیا میں پکڑ ہو جانا اﷲ کی رحمت کی علامت ہے اور با
وجود سرکشی اور زیادتی گناہ کے ہر طرح کا عیش ملنا غضب الہٰی کی نشانی
ہے،کہ اس کا منشاء یہ ہے کہ تمام گناہوں کی سزا آخرت میں دی جائے گی۔‘‘(اﷲ
کی پناہ) (مرآۃ)اﷲ تعالیٰ کے پیارے محبوب حضرت محمد ﷺ نے فرمایا:’’جب بندہ
تین دن بیمار ہوتا ہے،تو گناہوں سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے اس دن تھا جس دن
اس کی ماں نے اُسے جنا تھا۔‘‘(الجمع الزوائد)۔ضروت اس امر کی ہے کہ اسلام
اور سیرت النبی ﷺ پر عمل کرنے سے اس موزی مرض HIVسے چھٹکارہ ممکن ہے اور اس
کے لئے لازمی ہے کہ بنیادی نصاب میں درجہ بدرجہ شامل ہو۔ اور مریض سے نفرت
کی بجائے محبت اور مرض کے پھیلاؤکی وجوہات کو عام کیا جائے ۔
|