تبدیلی ایسی آئی۔۔۔کہ گلے پڑ گئی مہنگائی

ہمارے کپتان وزیراعظم کرکٹ میں سنچری کے قائل تھے اور اب سبزیاں، دالوں سے لے کر ہر اشیائے خورد نوش کی قیمتوں سنچری مکمل کر چکے ہیں۔ وہی کابینہ سمیت مشیروں کی تعداد بھی سنچری کر چکی ہے۔ کئی ماہ سے اوپر ہو گیا وزیراعظم صاحب کو نوٹس لیتے لیکن مہنگائی جوں کی توں ہے۔ایسا لگتا ہے کی زندگی میں جیسا دکھ کم نہیں ہوتے ویسے اس موجودہ حکومت میں مہنگائی کم ہونا ناممکن نظر آتی ہے۔جیسا کے ہم جانتے ہیں جہاں کورونا کی وجہ سے لوگ روز مر رہے ہیں وہاں موجودہ حکومت کی مہنگائی نے بھی عام انسان کے سانسوں کے دائرے کھنچ لئے ہیں۔ایسا لگتا ہے کئی نہ کئی کورونا کا تو علاج ممکن بن ہی جائے گا لیکن مہنگائی میں کمی کرنا موجودہ حکومت کے بس میں نہیں ہے۔کئی کمیشن بنے،لیکن قیمتیں کم نہ ھوئیں۔انکوائریاں بھی ھوگئیں،جب ہر حربہ ناکام ہوا۔ تو ٹائیگر فورس کا تجربہ سامنے لایا گیا ، جبکہ ٹائیگر فورس کے پاس اختیارات تو کوئی نہیں وہ صرف شکایات کر سکتے ہیں۔ لیکن شکایت بھی کریں تو کس کو۔۔۔؟؟؟؟ وزیراعظم صاحب جانتے ہیں کہ تبدیلی کی راہ میں مافیا رکاوٹیں روڑھے اٹکالیتی ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں یہ مافیا کون ہے۔؟؟ وہ نام جو وزیراعظم صاحب کے ذہن میں ہیں عوام سے شیئر کریں کہ کون کون مافیا ہے۔ حکومت کیوں ان مافیاز کو قانون کی شکنجے میں نہیں جکڑسکتی۔؟؟پاپھر مافیا اور حکومت کا ا?پس کا گٹھ جوڑ ہوگا یا ایسا بھی ہو سکتا ہے حکومت کو لانے میں اس مافیا نے اپنا کردار ادا کیا ہو ادارہ شماریات پاکستان کی ماہانہ رپورٹ کے مطابق جنوری 2020 میں مہنگائی کی شرح 14.6 فیصد رہی جو کہ ریکارڈ اضافہ ہے، یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی میں اضافہ ہوا، پیٹرول کی قیمت بھی آسمان سے باتیں کرنے لگی، ہر چیز کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگیا۔ پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث افراط زر کا نیچے آنا ممکن نہیں۔عوام ضرورت زندگی خریدنے کیلئے جب بھی کسی مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں تو ان کی خریدی کی مقدار کلو سے کم ہو کر گرام کی سطح پر پہنچ آئی ہے

پچھلے ایک ماہ میں مہنگائی کی شرح میں ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق 8.2 فیصد سے بڑھ کر .20. 9فیصد ہوگئی ہے۔ ٹماٹر 40 فیصد اور سبزیاں 33 فیصد مہنگی ہوئیں، آٹا، انڈے، دالیں سب مہنگے ہوگئے۔ چینی کی قیمت میں 22.5 فیصد اضافہ ہوا۔چینی کی موجودہ قیمت پچھلے 73 سالہ سابقہ حکومت کے دورانیہ میں 55 روپے کلو تک پہنچی جبکہ موجودہ حکومت چینی کی اس حکومت میں 73سالہ سے موزانہ کیا جائے دو سالہ میں 55 روپے فی کلو کے ساتھ110 روپے تک جا پہنچی جو موجود حکومت کی مہنگائی کے شرح میں ریکارڈ اضافے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔گوشت اورآٹے کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا۔ آخر سرکاری ریٹ لسٹ پر عمل درآمدآخر کس نے کروانا ہے۔؟؟؟

چند مہینوں میں بجلی کی قیمت میں سات بار اضافہ کیا گیا۔ 10 ارب مزید بوجھ عوام پر ڈالا گیا ہے۔دوائی کی قیمتوں میں 500 فیصد اضافہ ہوا,, چینی 55 سے 110 روپے کلو پرچلی گئی۔ اور چینی کی یہ قیمت پاکستان کی دیگر سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں چار گناہ زیادہ ریٹ کے ساتھ بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔اور اس مافیا کے خلاف انکوائری اب تک مکمل نہ کی جا سکی ؟اور اس کے ساتھ سردیوں آجانے پر ملک بھر میں گھریلو صارفین کو گیس کی صورت میں بھی لوڈ شیڈنگ کا ملک بھر میں سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو موجودہ حکومت نے سردی سے قبل عوام کو آگاہ تو کر دیا مگر اس کا حل ممکن بنانے میں ناکام رہی ۔ کیا سابقہ حکومت کے دور میں اس شدت کے ساتھ لوڈشیڈنگ عوام کو دیکھنے کو ملی ؟
صدائے کن سے بھی پہلے ، کسی جہان میں تھے۔۔۔۔۔وجود میں نہ سہی ، ہم خدا کے دھیان میں تو تھے

حکومت اور اپوزیشن میں کرسی کی جنگ میں مصروف عمل ہے۔ غریب مہنگائی، بیروزگاری، بدامنی اور روزبروز جرائم میں اضافے سے پریشان ہے۔مہنگائی کی شرح آسمان کی بلندی کو چھو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے روزمرہ استعمال کی اشیاء عوام کی دسترس سے دور ہو تی جارہی ہیں،مہنگائی معاشی بدحالی کا باعث بن رہی ہے۔ جس سے جرائم، خود غرضی جیسے سنگین مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی عوام اپنی آمدنی کا 70 فیصد غذائی اشیاء کی خرید پر خرچ کرتے ہیں۔

پاکستان میں مہنگائی کی موجودہ لہر کا آغاز اس وقت ہوا جب اقتدار کے ایوانوں میں براجمان مافیا نے ملک میں گندم کی پیداوار جو 21 ملین ٹن تھی کو 23 ملین ٹن دکھا کر 7.5 لاکھ ٹن گندم بیرون ملک 220 ڈالر فی ٹن کے حساب سے فروخت کر دی. اس کے علاوہ جو سمگل ہوئی وہ الگ.جس کی وجہ سے اندرون ملک گندم کی شدید قلت پیدا ہوگئی ،اس قلت کو دور کرنے کے لئے 673 ڈالر فی ٹن کے حساب سے 3 لاکھ ٹن گندم ملک میں درآمد کی گئی۔ اس طرح مصنوعی بحران میں 45ارب روپے اس مافیا نے کما لئے اور پاکستانی عوام کو آٹے کے سنگین بحران سے دوچار کر دیا۔

صرف آٹا ہی نہیں بلکہ گھی، دال،چینی،سبزی،چاول اور دودھ سب ہی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے حکومتی دعوے مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ موجودہ صورتحال ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بن رہی ہے۔ تجارتی ذرائع کے مطابق قیمتوں میں یومیہ بنیادوں پر اضافہ کیا جارہا ہے۔ اجناس کی مرکزی ہول سیل مارکیٹ میں سٹہ جاری ہے۔دکاندار تھوک بھاو میں اضافے کو جواز بناکر صارفین سے من مانی قیمت وصول کر رہے ہیں۔

آئی ایم ایف نے بجلی،گیس مہنگی کئے بغیر 6 ارب ڈالر پروگرام سے انکار کر دیا ہے۔ہمیں اپنی معاشی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی سطح پر سنجیدہ پالیسیاں مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ اور رہی سہی کسر کرونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن سے روزانہ اجرت پر کام کرنے والے سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور اس وائرس کی وجہ سے پاکستان میں پچاس لاکھ لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ اور مزید بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے حکومت افراط زر میں کمی کرے اور بیروزگاری میں بھی، شرح نمو کو بڑھایا جائے۔ معیشت اس وقت ٹریک پر آئے گی جب مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی آئے گی۔

حکومت کو چاہیے کہ مہنگائی کم کرنے کے لیے موثر قانون سازی کرے۔مڈل مین کے کردار کو ختم کرنے کے لیے، ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کو روکنے کے لیے جب تک موثر قانون سازی نہیں کی جاتی مہنگائی کے طوفان کے آگے بند باندھنا ناممکن ہے۔ قانون سازی کے ساتھ ساتھ مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے فی کس آمدنی میں اضافہ بھی ضروری ہے۔مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

اور موجودہ حکومت اور عمران خان نے سابقہ حکومتوں کی کرپشن اور عوام سے ناجائز منافع خوری کے نام پر ووٹ لیا اور وہی ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک ڈی چوک میں دھرنا دیا اور ان دھرنوں میں عوام کو کبھی سابقہ حکومتوں کو بجلی بلوں کے اضافے پر اور کبھی پٹرول اورچینی کے نام پر سابقہ حکومتوں کی زیادتیوں کا یاد دلائی جس پر پاکستانی عوام نے کھل کر عمران خان کی تحریک انصاف کو وفاقی حکومت پر ووٹ کی طاقت سے براجمان تو کیا مگر تحریک انصاف کی حکومت نے بھی ماضی کے حکمرانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دھرنے میں عوام کی زیادیتوں کا ازلہ کرنے کے بجائے پاکستان کی تاریخ میں بلند ترین سطح پر مہنگائی کا تحفہ عوام کو دیا اور موجودہ وزیر اعظم کی کابینہ مہنگائی کو قابو کرنے میں ابتک ناکام نظر آئی۔

غریت کرتا رہا جدوجہد روٹی کے لئے۔۔۔۔۔۔اور حاکم وقت تماشا سمجھ کر تالیاں بجاتے رہے حالیہ گندم کے نرخ مقرر ہونے کے باوجود حکومت مافیا کو ناجائز منافع خوری سے روکنے میں ہر طرح سے ناکام نظر آرہی ہے ذخیرہ اندوزوں نے سندھ اور جنوبی پنجاب کی گندم فلور ملوں کو 2200روپے من اوپن مارکیٹ میں فروخت کرنا شروع کر دی ہے جبکہ درآمدی گندم کے ریٹ 2000سے 2100روپے فی من وفاقی دارالحکومت میں ہو گئے ہیں۔ فلور ملز مالکان نے سرکاری پیکیج کا بیس کلو کا تھیلا 840روپے میں دکانداروں کو مہیا کرنا شروع کیا ہے جو سہولت بازاروں میں 860روپے کا فروخت ہو گا۔ سپر فائن بیس کلو گرام کا تھیلا 1150روپے میں فروخت کیا جائیگا۔ آزاد کشمیر میں 20کلوگرام کا سپر فائن سوا دس سے ساڑھے دس سو روپے میں فروخت ہو گا۔ پاکستان بھر کے گندم کے کاشت کاروں کی طرف سے احتجاج ہو رہا ہے کہ ان سے 1400روپے من گندم لیکر اب حکومت پاکستان کی نگاہوں کے سامنے 2200روپے من لوگ بیچ رہے ہیں اور حکومت انکے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے رہی جبکہ کٹائی کے وقت کاشت کاروں کو وارننگ دی گئی تھی کہ وہ سال بھر کی ضرورت پوری کرنے کیلئے دس بوری سے زیادہ گندم اگر گھر میں رکھیں گے تو ان کو اینٹی ہورڈنگ ایکٹ کے تحت 3سال کیلئے جیل بھجوا دیا جائیگا۔ جبکہ فلور ملز مالکان کو زبردستی کاشتکار سے براہ راست گندم خریدنے سے روک دیا گیا اور انکے جو ٹریلر کسان سے براہ راست خریداری کر کے گندم لا رہے تھے وہ جنوبی پنجاب سے اسلام آباد کے راستے میں ہی محکمہ خوراک نے جبری طور پر قبضے میں لے لئے اور ان کو سرکاری گوداموں میں لے جا کر خالی کرا لیا۔ اور ان کو 1400روپے فی من کے حساب سے بینکوں سے ادائیگیاں کرائی گئیں حالانکہ ان فلور ملز مالکان نے 1700روپے من کے لگ بھگ کاشت کار سے اس وقت براہ راست گندم خریدی تھی جب محکمہ خوراک‘ پاسکو 45لاکھ ٹن گندم خریدنے میں ناکام رہا اور 41لاکھ ٹن گندم خریدنے کے بعد ان سرکاری اداروں نے خریداری کے مراکز بند کر دیئے۔ ذرائع کے مطابق یہ محکمہ خوراک اور مڈل مین کی ملی بھگت تھی۔ اسکے بعد ا?ٹے کی ملوں کو جو کہ اصل سٹیک ہولڈرز ہیں کو گندم کسان سے لینے سے جبری روکا گیا مگر گندم مافیا‘ سٹاکسٹوں‘ ذخیرہ اندوزوں کو کاشت کار سے 1300‘ 1400‘ 1500روپے فی من کے حساب سے لاکھوں ٹن گندم خریدنے کا سنہری موقع دیا گیا۔ یہی گندم مافیا آج بھی 2200روپے فی من گندم فلور ملوں اور چکیوں کو اوپن مارکیٹ میں دے رہا ہے مگر حکومت کی آنکھیں بند ہیں کیونکہ اڑھائی سو ایف ا?ئی ا?ر کاٹنے کے باوجود کسی ذخیرہ اندوز کو اینٹی ہورڈنگ ایکٹ کے تحت 3سال تک کیلئے جیل میں حکومت نے نہیں ڈالا۔ اس لاتعلقی کی وجہ سے پاکستان بھر میں آٹے کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور غریب کی روٹی نان آٹے میدے سوجی کی مصنوعات رس ڈبل روٹی بسکٹ اور مٹھائیوں کے ریٹ کم و بیش دوگنے ہو چکے ہیں۔ غریب کے منہ سے نوالہ گندم مافیا کے ذریعے چھینا گیا ہے۔ آج چاروں صوبوں میں آٹے میدے سوجی اور گندم کی مصنوعات کی قیمتیں عام آدمی کی رسائی میں نہیں ہیں۔ غریب بچوں کو تین وقت کی روٹی کھلانے سے مجبور ہو گیا ہے جبکہ سابقہ حکومت کے پانچ سالوں میں امدادی قیمت 1350روپے فی من رکھی گئی اور اسی قیمت پر پانچ سال تک گندم فلور ملوں کو جاری ہوتی رہی۔ اسی وجہ سے عوام مطمئن تھے اور ملک میں گندم آٹے میدے اور انکی مصنوعات کی قیمتیں آج کے مقابلے میں کم و بیش بیس سے چالیس فیصد کم تھیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ سرکاری یوٹیلیٹی سٹورز پر غریب کو 800روپے میں ملنے والا بیس کلو تھیلا رک گیا ہے‘ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن نے ملک بھر میں سینکڑوں ہزاروں اپنے سٹورز پر 800روپے فی بیس کلو سرکاری پیکیج کے آٹے کی فراہمی نامعلوم وجوہات کی بناء پر بحال نہیں کی اور غریب لوگوں کو تندوروں پر 7روپے والی روٹی 12روپیفروخت کی جانے لگی۔

اور کیا خوب کسی شاعر نے خوب کہا جو موجودہ وقت پر ایسے اشعار حاکم وقت کیلئے عوام کی زبان سے صدائے آواز کی طرح پڑھیں جانے لگے۔
ہم کہاں کے دانا تھے! کس ہنر میں یکتا تھے!۔۔۔۔۔بے سبب ہوا غاآلب۔۔۔۔ دشمن آسماں اپنا

موجودہ حکومت کو قانون کو حرکت میں لایا جانا چاہیں حکومت چیک کرے منافع خور زیادہ منافع تو وصول نہیں کر رہے۔حکومت مہنگائی کے خاتمے کو ہی کم از کم اپنا پہلا مشن بنالے تو عوام کو کچھ سکھ ملے گا۔نہیں تو عوام ہی یہی سمجھے گی جس سیاسی جماعت نے تبدیلی کے نام پر ووٹ مانگا تھا وہی تبدیلی ہمارے گلے پڑ گئی مہنگائی کی صورت میں


 

Saima Rana
About the Author: Saima Rana Read More Articles by Saima Rana: 4 Articles with 3228 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.