یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
حبیب جالب کی انقلابی نظم نظروں سے گذری، تو ایسا لگا کہ شاعر، ایوان
اقتدار کے سامنے آج بھی نوحہ کناں ہے ۔ ملکی سیاست کا رُخ کس جانب ہے، اس
اَمر سے قطع نظر شدت سے محسوس کیا جارہا ہے کہ غیر مرئی طور پر قومی دھارے
میں شامل سیاسی جماعتیں ، علاقائی ( صوبائی) معاملات تک محدود ہوگئی ہیں۔
یک جماعتی نظام( جس کی سمت ٹیکنو کریٹ یا صدارتی نظام کی جانب ہے) پر طے
شدہ ایجنڈے کے مطابق قومی دھارے میں شامل سیاسی و مذہبی جماعتوں کی حدود کو
محدود کیا جارہا ہے۔
سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جلسوں سے جہاں آج تک کوئی حکومت نہیں گئی تو اس
اَمر پر بھی سب متفق ہیں کہ سیاسی جماعت کوئی بھی ہو ، اُس کو جلسہ یا مجمع
اکھٹاکرنے سے روکنا ، ریاست کے لئے بھی بڑا مشکل ہوتا ہے ، بلکہ بعض اوقات
ناممکن ہوجاتا ہے۔ پُر امن مظاہرین ، تشدد کی جانب اُس وقت بڑھتے ہیں، جب
سیکورٹی ادارے انہیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں ، جذبات سے مغلوب کسی بھی
سیاسی جماعت کے کارکن کو انفرادی طور پر روک لینا تو شاید ممکن ہو ،لیکن یہ
بہت دشوار گذار عمل ہوتا ہے کہ کسی دھڑے کو روک سکیں ، ان گنت ایسی مثالیں
موجودہیں کہ احتجاجی مظاہرین ہوں یا جلسے ، ریلیوں کے شرکا ء ، انہیں بزور
طاقت روکنا آسان کام نہیں ہوتا ۔
ماضی میں موجودہ حکمران جماعت نے جب نواز شریف کی حکومت کے خلاف احتجاج کا
سلسلہ شروع کیا اور سول نافرمانی کی تحریک کی کال دینے کے علاوہ، لال حویلی
کے شیخ ،تمام تر پابندیوں کے باوجود موٹر سائیکل پر بیٹھ کر اعلان کردہ جگہ
پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے او ر مجمع سے خطاب کیا او ر وہ بھی نجی چینل کے
ڈی ایس این جی کی چھت سے ، تو یہ وہی پیغام ہے کہ کسی سیاسی رہنما کو روکنا
،ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے ، اسی طرح پشاور سے سابق وزیراعلیٰ
پرویز خٹک کی سربراہی میں جب موٹر وے پر قافلہ پہنچا تو وزیراعلیٰ اورپنجاب
پولیس کے درمیان برہان انٹر چینج پر جھڑپ و ہارون آباد موٹر وے پل پر ، کئی
گھنٹوں کی بدترین کشیدگی کی براہ راست کوریج محو نہیں ہوئی۔
حکومت ، جذباتی و مشتعل کارکنان و رہنماؤں کو جبراََ نہیں روک سکتی ، انہیں
جلسے جلوس ، مظاہرے کرنے سے بھی روکنا مشکل ہوتا ہے ، ( جیسا کہ ملتان میں
ہوا)معروف پریس کلب کے سامنے آئے روز کسی نہ کسی تنظیم یا گروپ کا مظاہرہ
ہوتا ہے ، پھر ریڈ زون جانے کی کوشش میں سیکورٹی اداروں سے مد بھیڑ اور
گرفتاریاں ہوتی ہیں ، لیکن مذاکرات کے بعد یقین دہانیوں پر پُر امن منتشر
بھی ہوجاتے ہیں اور گرفتار افراد رہا بھی ہوجاتے ہیں ، سمجھنا آسان ہے کہ
کسی سیاسی جماعت یا مذہبی گروپ کو پُر امن نقل و حرکت کو اس لئے روکا جاتا
ہے ہے کیونکہ علم ہے کہ جلسوں سے حکومت تو نہیں جاتی لیکن گورنس پر سوال
ضرور اٹھ جاتے ہیں ۔
بار بار ماضی کے دریچوں میں مستقبل کے حوالے سے کچھ یادیں سامنے آرہی ہیں ،
جس میں ایک معروف واقعہ بھی یاد آیا کہ مملکت کے اہم اعلیٰ عہدے پر فائز
سیاسی شخصیت نے اپنے احباب سے ایک غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے مسلح افواج کے
جرنیلوں کے بارے میں انتہائی نازیبا و متکبرانہ لب و لہجے کے ساتھ کہا تھا
کہ دس ہزار کا مجمع بھی اکھٹا ہوجائے تو’ ایسا ہوجاتا ہے ، ویسا ہوجاتا
ہے‘۔
غالباََیہی وہ ڈر ہے کہ پی ڈی ایم یا سیاسی مخالفین کے جلسوں کو روکنے کی
کوشش کی جا رہی ہے ، اپوزیشن کو بھی یقین ہے کہ جلسوں میں ایک ہزار افراد
آئیں یا ایک لاکھ ، حکومت کو فوری فرق نہیں پڑتا ، لیکن انہیں پریشانی لاحق
ہوجاتی ہے کہ مقتدور حلقوں میں ان کی گورنس پر سوالیہ نشان اٹھ جاتا ہے کہ
یہ سب کیا ہے ؟۔ گوجرانوالہ ، کوئٹہ ، پشاور اور ملتان جلسوں میں دیکھا
جاچکا ہے کہ حکومت کی جانب سے کوشش کی گئی کہ جلسے نہ ہوسکیں ، کوئٹہ میں
سیکورٹی اورپشاور میں دہشت گردی کے الرٹ بھی جاری ہوئے ، جلسوں سے کچھ دور
مبینہ واقعات بھی ہوئے، سیکورٹی فورسز کے جوانوں پر حملوں میں شہادتیں بھی
ہوئیں لیکن جلسوں کوروکا نہیں جاسکا ۔ پی ڈی ایم اپنے طے شدہ شیڈول کے
مطابق جلسوں کو منعقد کراتی رہی ، اب کرونا کے پھیلاؤ کے حوالے سے شدید
تنقید کی زد میں ہونے کے باوجود حزب اختلاف کو جلسوں سے نہیں روکا جاسکا تو
اشارہ سمجھ لینا چاہیے کہ اسٹیک ہولڈرز کو بند گلی میں جانے سے قبل ہی
درمیانی راستہ خود نکال لینا چاہیے، ضد صرف بچے کرتے اچھے لگتے ہیں۔ پی ڈی
ایم ملتا ن کے بعد لاہور کا جلسہ بھی کرے گی اور توقع یہی ہے کہ جلسہ بھی
ہوگا اور پکڑ دھکڑ بھی۔ قابل غور پہلو یہ ہے کہ مذاکرات کیلئے سازگار ماحول
کیوں نہیں بن رہا ، غیر جانبدار حلقے خاموش اور بااثر قوتیں ، تیل اور اُس
کی دھار دیکھ رہی ہیں ؟۔
ملتان جلسے سے قبل جلسہ گاہ جانے کے لئے سیاسی کارکنان نے انتہائی جذبات سے
کام لیا اور قلعہ کہنہ قاسم باغ گراؤنڈ کو انتظامیہ سے چھین لیا ، لیکن بعد
میں پُراسرا ر خاموشی کے بعد انتظامیہ نے گراؤنڈ کا قبضہ دوبارہ حاصل
کرلیا، ( جو دوبارہ مظاہرین نے حاصل کرلیا) ، تاہم ملتان میں مسئلہ جلسہ
گاہ کا نہیں تھا بلکہ پی ڈی ایم نے جہاں جلسہ کرنا تھا، وہیں پشاور کی طرح
ڈیرا جمالینے کا تہہ کرلیا تھا ، دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ، پی ڈی ایم کو فری
ہینڈ دینے میں تامل کیوں برتتی رہی ، ایک جانب جلسوں کی ناکامی کا راگ الاپ
رہے ہیں ، عوام کی مبینہ عدم شرکت کا ’’ شکریہ ‘‘ اور مبارکباد دے رہے ہیں
، تو دوسری جانب سیاسی کارکنان و رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاٗون بھی جاری ہے ۔
زمینی حقیقت ہے کہ جب بھی کسی کمزور پر طاقت ر کا استعمال کیا جاتا ہے تو
وہ ایک بار بھرپور مزاحمت ضرور کرتا ہے دلچسپ پہلو یہی ہے کہ جو پہلے ہی
نااتفاقیوں کا مجموعہ بنے ہوئے ہیں ، ان سے کوئی خوف زدہ کیوں ہے ، ایسی
کیا وجہ ہے کہ روز با روز سہمے جا رہے ہیں ، کیا انہیں کوئی خوف لاحق ہے یا
پھر ایمپائر ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ، کوئی تو ایسی وجہ ضرور ہے کہ
پی ڈی ایم کی تحریک کا خوف حاوی ہوتا جارہا ہے۔ کمزور طاقت ور اور طاقت ور
لاغر ہورہا ہے ، آخر کیوں ، سوچیں ضرور ! ، کیونکہ ۔۔۔۔۔
اے چاند یہاں نہ نکلا کر
بے نام سے سپنے دیکھا کر
یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے
اس دیس میں اندھے حاکم ہیں
نہ ڈرتے ہیں نہ نادم ہیں
نہ لوگوں کے وہ خادم ہیں
(حبیب جالب)
|