حکومت کے دعوے اور خوشامدی لوگ

جوش ملیح آبادی صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ ، جو ش ملیح آبادی ایک مشاعرے میں موجود تھے ،ایک نو آموز شاعر کلام سنانے لگے جو تخیل اور تکنیک دونوں سے عاری تھا۔جوش یکدم واہ واہ کہتے جھوم اٹھے اور چلا چلا کر داد دینے لگے۔ پاس بیٹھے ایک شاعر سے رہا نہ گیا ،شاعرنے جوش صاحب سے متعجب ہو کر پوچھا ۔ جوش صاحب کیا کر رہے ہیں؟
جوش صاحب نے جواب دیا،( منافقت)

جی ایسا ہی کچھ آج کل ہماری اسمبلی میں بھی ہو رہا ہے ۔بادشاہ سلامت کی ہر بات پر ڈسک بجا بجا کر اور تالیوں کی گھونج سے بادشاہ سلامت کو داد دی جا رہی ہے ۔بادشاہ سلامت بھی فرحت جذبات میں وہ کچھ بھی بول دیتے ہیں جو حقیقت سے کوسوں دور اورحقائق کے بلکل منافی ہو تا ہے ۔آج تک جتنے بھی اعلانات گورنمنٹ کی طرف سے کیئے گئے ہیں ان میں سے کتنے اعلانات پر عمل ہو ا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک اس وقت بہت سارے مسائل سے دوچارہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہرمسلہ کا حل وزیر اعظم کے پاس نہیں اور نہ کوئی فردواحد ان مسائل کو حل کر سکتا ہے،وزیر اعظم صاحب نے گھر بنانے کا اعلان کیا کہ ہماری گورنمنٹ غریب اور مستحق افراد کو گھر بنا کر دے گی۔اب اعلان تو ہو گیا اس کے بعد عمل کی باری آتی ہے تو کیا اس پر کوئی عمل ہو ا،نوکریوں کا اعلان کیا گیا کیا اس پر عمل ہو ا،سونامی ٹری اور اس کے ساتھ ساتھ بہت سے اعلانات کئے گئے ۔اب یہ سارے کام عمران خان صاحب نے خود تو نہیں کرنے تھے،جن لوگوں نے یہ ذمہ داریاں سمبھالنی تھیں وہ صرف داد دینے میں مصروف ہو گئے ہیں تو کیا یہ کام خود سے ہو جاہیں گے۔اس سب میں قصور ہمارا بھی ہے کہ ہم ہر بار ان کے بہکاوئے میں آ کر ان کو ووٹ دے دیتے ہیں اور یہ ہر بار ہمیں استعمال کر کے اسمبلی میں پہنچ جاتے ہیں اور واپس الیکشن کے وقت ہی نظر آتے ہیں ۔اور ہم کبھی برادری کے ڈر سے تو کبھی کسی ذاتی مفاد کی خاطر اپنے کل کے ساتھ ساتھ اپنی آنے والی نسل کا بھی سودا کر دیتے ہیں۔ہم یہ نہیں سوچتے کے یہ ووٹ تو مانگنے آجاتے ہیں کیا ان کی گزر بسر بھی یہاں ہو تی ہے کیا یہ ہمارے مسائل سے آشناء بھی ہیں،کیا یہ ہمارے بچوں کے مسائل سے آشناء ہیں کیا ان کو ہماری روز مرہ کی مشکلات سے واقفیت ہے،،نہیں ہم کبھی یہ نہیں سوچتے۔ہم ایک ایسے انسان کو ووٹ دے دیتے ہیں جو نہ ہمارے مسائل سے واقف ہے اور نہ ہی ہم اس سے واقف ہیں اور نہ ہی ہم الیکشن کے بعد اس سے کبھی مل سکتے ہیں۔آپ اپنے اپنے حلقے میں چیک کریں کیا آپ کا ایم پی اے،ایم این اے،آپ کے حلقے میں کتنی بار آیا ہے کیا الیکشن کے بعد کبھی اس نے آپ کے مسائل پر توجہ دی ہے ،کیا آپ کے ایم پی اے کے بچے اسی اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جہاں آپ کے بچے حاصل کر رہے ہیں،کیا آپ کے ایم این اے اور ایم پی اے اسی ہسپتال میں جا کر بخار اور سردرد کی دوا لے رہے ہیں جس ہسپتال میں آپ جا رہے ہیں۔اگر ایسا ہے تو پھر یقینا آپ کے مسائل حل ہونے میں دیر نہیں لگے گی ،آپ اطمینان رکھیں وہ وقت دور نہیں کہ آپ ایک خشحال مستقبل میں داخل ہو جاہیں گے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ بھی حقیقت تسلیم کر لیں کے آپ کے مسائل کبھی حل نہیں ہو ں گے۔مسائل وہ حل کرتا ہے جو مسائل کو مسائل سمجھتا ہے،جس نے کبھی مسائل کا سامنا کیا ہی نہ ہو وہ کیا مسائل حل کرے گا۔ہم میں سے ہر فرد کا یہ فرض بنتا ہے اخلاقی بھی اور شرعی بھی کہ ہم اپنے منتخب نمائندوں سے پوچھیں کے آپ نے جو ہم سے وعدے کیے تھے وہ کہاں گئے،کیا آپ کا کام صرف داد دینا ہی ہے ،کیا آپ اسمبلی میں اس لئے بیٹھے ہیں۔یاد رکھیں داد دینا کوئی جرم نہیں داد رسی ہونی چاہے جو اچھا کام کرے اسے داد ملنی چاہے،لیکن داد کے لینے کے لیے کو ئی کام کوئی کارنامہ بھی تو ہونا چاہیے۔جب تک ہمارے منتخب نمائندے ہمارے مسائل سمجھیں گے نہیں تب تک ہمارے مسائل حل بھی نہیں ہو گے،ہم میں سے ہر ایک کا کام ہے کہ وہ اپنے مسائل اپنے ایم پی اے ،ایم این اے،اپنے کونسلر تک ضرور پہنچائیں اور صرف پہنچائیں ہی نہیں ان کے حل کے لیے ان پر دبائو بھی ڈالیں۔اور اگر آپ کو اگر محسوس ہو رہا ہے کہ آپ کا نمائندہ آپ کے مسائل کے حل کے لیے مخلص نہیں ہے تو پھر آپ اس کو داد دے کر اور اس کو سپورٹ کر کے خود کے ساتھ اور اپنے آنے والے کل کے ساتھ اپنے بچوں کے ساتھ اور اپنے ملک کے ساتھ منافقت نہ کریں ۔یہ منافقت ہمیںنسل در نسل تاریکی کی سمت لے کر جا رہی ہے اور ہم اس کو داد سمجھ رہے ہیں۔ہمارے معاشرے میں سب بُرے ہی نہیں کچھ اچھے لوگ بھی موجود ہیں جو قوم و ملت کے ساتھ مخلص ہیں ہمیں ان کی داد رسی کر نی چاہیے۔اور یہ جو سب اچھے کی رپورٹ دینے والے ہیں ان کو اصل حقائق سے کوئی واقفیت نہیں ہے اور نہ ہی ان کوکو ئی دلچسپی ہے کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ ہر بار وہ ہمیں اپنی باتوں کے جال میں قید کر نے کے ماہر ہیں اور ہم بھی ان کے جال میں بڑی آسانی سے قید قبول کر لیتے ہیں۔ ہمارے مسائل ہیں اور ان کو حل بھی ہم نے خود کرنا ہے ،گائوں کی ٹوٹی سڑک سے لے کر گائوں کے تعلیمی مراکز تک اور گائوں میں عدم دستیابی آب سے لے کر صحت کی بنیادی سہولیات تک یہ سب مسائل ہمارے ہیں اور نے ہی ان کو حل کرنا ہے کیسے حل کرنا ہے اس کی کیا ترتیب ہونی چاہیے یہ بھی ہم نے خود طے کرنا ہے یاد رکھیں منتخب نمائندے پابند ہیں ہمارے مسائل کو سننے اور ان کے حل کے لئے،لیکن ہم خود ان سے کام لینے کے بجائے ان کی چاپلوسی کر کے اپنے وقتی مفاد کی خاطر اپنے لوگوں کا اپنے بچوں کو مستقبل تاریک کر رہے ہیں ۔

جب ہم خود یہ طے کر لیں گے کہ ہمارے مسائل ہمارے ہیں اور ہم نے ہی ان کو حل کرنا ہے تو اس دن سے ہمارے مسائل کے حل کی ترتیب بھی خود بخور ہمارے دماغ میں آنا شروع ہو جائے گی۔ہمیں آج سے سوچنا ہو گا اپنے کل کے لئے اپنی اگلی نسل کے لئے اپنے ملک کے لئے،اور آج سے یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہم منافقت سے دور رہیں گے۔
 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 16 Articles with 14640 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.