حدیث نبوی ﷺ ہے ــ’مسواک منہ کو صاف کرنے والی اور اﷲ کو
راضی کرنے والی ہے اگر میری امت پر گراں نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے وقت
مسواک کا حکم دیتاـ‘۔
دانتوں کی صفائی اسلام میں بھی بے حد ضروری ہے لہذٰ ہمیں چاہئیے کہ اپنے
بچوں کو بچپن سے ہی دن میں دو بار برش کرنے کی عادت ڈالیں۔ماؤں کو چاہیئے
کہ جب بچے کا پہلا دانت آئے تو اسے بھی صاف کریں اور جب اس کے دودھ کے سارے
دانت آجائیں تو اسے proper brushing technique سکھائیں جائے۔ کیونکہ اگر ہم
شروع میں ہی احتیاط کریں گے تو نقصان کم ہو سکتا ہے مگر جیسے کیسے نقصان
بڑھے گا خرچہ دگنا چگنا ہوتا چلا جائے گا۔ جیسے آج کے زمانے میں Filling کم
سے کم 2500 میں ہو جاتی ہے جب کہ RCT پہ اسکا دگنا 6000 کے قریب خرچہ آتا
ہے اور اگر دانت زیادہ کمزور ہو توcrown لگانے کا 4000 مزید خرچہ RCT کے
بعدکا آجاتا ہے اور پھر اگر نیا فکسڈ دانت لگوانا ہو تو10,000کے قریب صرف
نئے دانت کا خرچہ تو کل ملا کر 15/20ہزار صرف ایک دانت کے چکر میں لگ جاتے
ہیں جو آپ اپنی لاپرواہی کی قیمت کے طور پر ادا کرتے ہیں۔
یہ ابھی کی نھیں برسوں پرانی عادت ہے(یہاں لفظ ہماری سے مراد پاکستانی عوام
ہے)کہ کام بگڑ جانے کے بعد معالج تلاش کرتے ہیں ۔یہی معاملہ ہوامیری بڑی
بہن کے ساتھ جسکومیں پچھلے دو سالوں سے کہہ کہہ کر تھک گیٰ تھی کہ جا کر
کسی Dentist سے دانت ٹھیک کروا لو مگر اسے تو لگا تھا کی دانت نہیں کمرے
میں رکھا ہوا کویٗDecoration Pieceہے کہ نیا آجائیگا ۔خیر! آخرکارجب اسے
خوداحساس ہوا کہ دائیں جانب کی آڑتوپہلے عرصہ قدیم میں ہی اسکا ساتھ چھوڑ
چکی تھی مگر اب توبائیں جانب سے کھانا کھانا بھی وبالِ جان بن گیا ہے تو
دوڑتی دوڑتی میرے پاس آئی کہنے لگی کہ کسی Dentist کے پاس لے چلو۔ پہلے تو
میں بڑی حیران ہوئی کہ آخرآج کیا معجزہ ہوگیا خود چل کر میرے پاس آئی ہے
پوچھنے پر معلوم پڑاکہ بی بی تو اب کھانے سے ہی محروم ہوئی جا رہی ہیں۔
خیر! ہم نے دو تین Dentists سے مشورہ کیا مگر انھوں نے جواب دے دیا ا۔پھر
میں اسے انہی Dentistکے پاس لے گئی جنھوں نے میرے چار دانتوں کی Fillingکی
تھی ۔میں نے ڈاکٹر نوید بنگش (جو کہ ایوب میڈیکل کمپلکس ایبٹ آباد میں
Dentistہیں) سے رابطہ کیا تو ڈاکٹر صاحب بھی پہلے تو موصوفہ کے دانت دیکھ
کر بولے ’’إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعونَ ‘‘ بچے دائیں جانب کا
علاج ممکن نہیں رہا بہتر ہے ان خستہ حال دانتوں کو نکلوا ہی لیجیئے۔بہر حال
بائیں جانب کا کچھ نہ کچھ کیا جا سکتا ہے۔ان کی اسی بات سے ہمیں تھوڑی امید
ملی۔اسی دوران میں نے منہ ہی منہ میں اپنی بہن کو ’۲۲ سالہ بوڑھیا‘پکارا جو
کہ شاید اسے سنائی دے گیا اور وہ چڑتے چڑتے منہ بنا کر بولی کاش کسی کی بات
سن لی ہوتی ۔وقت پر علاج نہ کروانے والے اکثر یوں ہی پچھتاتے ہیں۔
تبھی ڈاکٹر نویدنے بڑی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسکے دانتوں کا مسئلہ حل
کر ہی لیا۔ الحمداﷲ! اب تک بچاری انہی تین چار دانتوں کے سہارے اپنی زندگی
گزاررہی ہے۔
بہن کی کہانی بیان کرنے کا مقصد میٹھا کھانے سے ممانعت بالکل نہیں ہے مگر
کھانے کے بعد دانتوں کی صفائی اور چیک اب کرواتے رہنا ضروری نہیں بلکہ بہت
ضروری ہے، تاکہ ہم دانت جو کہ اﷲ کی بہت بڑی نعمت ہے کا وقت پر علاج کر کے
انہیں بچا سکیں۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ ہمیں ہمیشہ چیز کھو دینے کہ بعداسکی اہمیت کا اندازہ
ہوتا ہے پھر چاہے وہ دانت ہو کہ اﷲ تبارک کی کوئی اور نعمت۔
|