جی ہاں دنیا میں پاکستان ایک واحد ایسا ملک ہے جس میں
الیکشن ہارنے والے سیاست دان فوج اور عدلیہ پر حملے کر رہے ہیں۔ ویسے تو
الیکشن میں دھاندلی کی یہ ریت پرانی ہے۔ مگر پہلے وقتوں میں ذرا دھیمے راگ
میں ہوتی تھی۔جیسے ڈکٹیٹر ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو ، نواز شریف اور اب
عمران خان حکومت کے خلاف الیکشن میں دھاندلی کے الزام لگے ہیں۔مگر اس دفعہ
سیاست دانوں نے کرپشن زیادہ کی اس لیے اس کی شدت بھی اپنی انتہا کو پہنچ
گئی ہے۔ اپوزیشن نے فوج اور عدلیہ پر الیکشن میں دھاندلی اور فیصلوں میں
جانبداری کیے الزام لگا کر ملک کو بھی داؤ پر لگا دیا۔کیا شایدفوج نے اس
دفعہ ان کو موقعہ نہیں دیا؟۔بلاول زرداری پرچی چیئر مین نے سمجھ داری
کامظاہرہ کرتے ہوئے بڑے پرچارک نواز شریف سے ثبوت مانگے ہیں۔
سیاست دانوں کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ جو فیصلے( بقول ان کے) یہ ادارے
کر چکے ہیں وہ ان کے دباؤ ڈالنے پر کبھی بھی واپس نہیں لیں گے؟۔ کیا یہ
ادارے الیکشن میں ہارے ہوئے سیاست دانوں کے ناجائز دباؤ میں آکر اپنے
فیصلوں کو خود بدل کر عوام میں اپنی بے توقیری کرائیں گے؟ جبکہ ملک کے
دکھیا عوام، فوج اور عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہے۔سیاست دانوں نے عوام کے خون
پسینے کی کمائی کو لوٹ کر باہر منتقل کر دیا۔ ان کی جائیدادیں باہر ملکوں
میں ہیں۔ کسی کے سرے محل تو کسی کے قیمتی فلیٹس وغیرہ۔ ان کے بچے باہر
تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ان کا علاج باہر ملکوں میں ہوتاتھا۔ ان کا کاروبار
باہر ملکوں میں ہے۔ بے نظیر بھی کہتی تھی پاکستان میں سیاست دانوں کے پیسے
محفوظ نہیں اس لے باہر رکھتے ہیں۔ نواز شریف نے بھی کہا تھا کہ کرپشن کرنے
والے نشان نہیں چھوڑا کرتے۔ عوام کہتے ہیں کہ نواز شریف نے ایک اتفاق
فوئنڈری سے گیارہ ملیں کیسے بنائیں؟
زرداری صاحب کراچی بھمبینو سینما کے ٹکٹ بلیک میں فروخت کیا کرتے تھے۔ ملک
اور غیر ملک اتنی جائیدادیں کسے بن گئیں۔کیا سرے محل کی وجہ سے مسٹر ٹین
پرسنت کالقب ملا؟ عوام کے مطابق زرداریوں کو آ صف علی زداردی کی بے نذیر
بھٹو سے شادی کی صورت میں سونے کی چڑیا مل گئی ہے۔یہ بھی اپوزیشن کو یاد
رکھنا چاہیے کہ زرداری صاحب نے جب غلط طریقے سے ملک کی فوج کوکہا تھا کہ آپ
کی اینٹ سی انیٹ بجا دوں گا۔میرے پاس آپ کے سارے یکارڈ موجود ہے۔ پھر خود
ساختہ جلا وطنی پر چلے گئے۔ منت سماجت کرنے کے بعد واپس آئے۔ کیا فوج اور
عدلیہ پر ناجائز حملے کرنے والے ایم کیو ایم کے سربراہ غدار ِ واطن الطاف
حسین کی روداد سے سیاستدان ناواقف ہیں؟
عجیب اتفاق ہے کہ سیاست دان اس کا ادراک نہیں رکھتے کہ ملک کے یہ دو ادارے
بہت ہی اہم ہیں۔ ان اداروں کو اختیارات پاکستان کے آئین نے دیے ہیں
جوخودسیاست دانوں نے بنایاہے۔ سیاست دان یہ بھول گئے ہیں کہ فوج ملک کی
اندرونی اور بیرونی سرحدوں کی محافظ ہے۔ فوج نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش
کر کے ملک سے دہشت گردی کو شکست دی۔کیا دہشت گردوں ہمارے محافظوں کے سرروں
فٹ بال نہیں کھیلے؟ عدلیہ کے ججوں نے جان کی پروا کیے بغیر دہشت گردوں کو
سزائیں سنائیں۔ عدلیہ ان ہی سیاست دانوں کے حق میں فیصلے دے کر ان کو انصاف
پہنچاتی رہی ہے۔ پھر میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو والی بات
کیوں ہے؟
جب نواز شریف صاحب کی فیملی کا آف شور کمپنیوں میں نام آیا ۔نواز شریف صاحب
گھبرائے، دو دفعہ الیکٹرونک میڈیا میں ایک دفعہ پارلیمنٹ میں عوام کے سامنے
نامکمل ثبوت رکھے۔ بڑے فخر سے کہا جناب ِاسپیکر یہ ہیں ثبوت! مگر بعد میں
عدالت میں منی ٹریل پیش نہیں کر سکے۔ قطری خط سے بھی کچھ نہ بنا۔ نواز شریف
کے کہنے پر سپریم کورٹ نے مقدمہ سنا۔ جب عدلیہ کاپہلے فیصلہ (بقول ان کے)ان
کے حق میں آیا تو مٹھایاں بانٹیں گئیں۔جب دوسرا اور مکمل فیصلہ آیا جس میں
نواز شریف کو پاکستان کے آئین کی دفعہ ۶۲۔۶۳ کے تحت سپریم کورٹ کے فل بینچ
نے سیاست سے تاحیات نا اہل قرار دیا، تو ملک کی اعلی اور معزز سپریم کورٹ
کے خلاف محاذ بنا لیا۔ فوج پر بھی الزام تراشی کی کہ سب کچھ فوج کر رہی ہے۔
شہروں شہر کہا’’ مجھے کیوں نکالا۔ ووٹ کو عزت دو‘‘۔پیپلز پارٹی کے رہنما
اورسنیئر وکیل اعتزاز احسن صاحب پھرصحیح کہتے تھے کہ اس سے قبل عدلیہ نواز
فیملی کے حق میں فیصلے دیتی تھی۔ ذرائع اس میں اضافہ کرتے ہیں کہ نون لیگ
والے اپنے دور میں جسٹس قیوم صاحب کو فون پر آڈر دے کر سیاسی مخالفوں کے
خلاف فیصلے لیتے تھے ۔ مخالف ا س کی ویڈیو بھی عوام کے سامنے رکھتے ہیں۔
عوام جانتے ہیں کہ ملک میں پینتیس(۳۵)سالہ دور حکومت میں پیپلز پارٹی اور
نون لیگ نے اداروں میں اپنے اپنے بندے بھرتی کیے ۔ یہ ان دونوں جماعتوں کی
کرپشن چھپانے میں مدد کرتے ہیں۔ کبھی ریکارڈ جلا دیتے، تو کبھی غائب کر
دیتے ہیں۔زرداری صاحب کے میگا کرپشن کیس نیب نے یہ کہہ کر بند کر دیے تھے
کہ فوٹو اسٹیٹ پر مقدمے نہیں چلا سکتے؟ نیب سے عوام پوچھتی کہ آپ نے ریکارڈ
جلانے یا غائب کرنے والوں کو کیوں نہیں پکڑا؟ مسئلہ تو ہی اقتدار میں رہ کر
عوام کے پیسوں لوٹنے کا ہے۔ اس میں تو نیب کو جڑوں تک جانا چاہیے تھا۔ نیب
کو اس کے مکمل اختیارات ہیں۔ایک موقعہ پر نواز شریف صاحب نے خود فرمایا تھا
کہ کرپشن کرنے والے نشان نہیں چھوڑتے۔ بے نظیر صاحبہ کہہ چکیں کی سیاست دان
پیسے باہر اس لیے رکھتے کہ پاکستان میں ان کے پیسے محفوظ نہیں ہوتے۔ جبکہ
پچھلے پینتیس سالوں سے دونوں کی پارٹیاں ملک کی حکمران رہی ہیں۔ سپریم کورٹ
بہت پہلے کہہ چکی ہے کہ سیاست دانوں نے ملک کے سارے ادارے تباہ کر دیے ہیں۔
یہ بات پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹ کمیٹی نے بھی اپنے اجلاس میں کہی تھی۔ پبلک
اکاؤنٹ کمیٹی نے اپنی آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے انہیں حکماً بلایا
تو حاضر ہوئے ۔ کرپشن کو کنٹرول کرنے کے بارے میں کمیٹی نے اس سے سوال کیے
، کہا گیا کہ آپ نے کرپشن کو کیوں نہیں کنٹرول کیا۔ تو سب نے اپنے ہاتھ
اُٹھا دیے تھے۔
اپوزیش کے دباؤ کا صاف مطلب ہے کہ کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف جاری کرپشن کے
مقدمے ختم نہ کئے تووہ ملک کو داؤ پر لگا دیں گے؟ اسی صورت حال میں وطن سے
محبت کرنے والے ذرایع کہتے ہیں کہ ملک کے ان اداروں کو مل بیٹھ کر ضرور
کوئی ایسا قانونی اقدام کرنا چاہیے کہ ملک سے لوٹا ہوا پیسا بھی واپس غریب
عوام کے خزانے میں جمع ہو ۔ اگر اس وقت کرپٹ سیاست دانوں کے دباؤ میں آکر
ان کو کسی قسم کا بھی این اور آر دے دیا گیا تو پھر کوئی بھی پاکستان سے
کرپش ختم نے کر سکے گا؟ اپوزیشن کے بیانیہ سے ہمارا ازلی دشمن بھارت فاہدہ
اُٹھانا چاہتا ہے۔ وہ کوئی بھی بہانا بنا کر پاکستان کو ختم کر کے اکھنڈ
بھارت کے خواب دیکھ رہا ہے۔ اقتدار تو آنی جانی شے ہے۔ ملک ہے تو سیاست ہے۔
اگر خدا نخواستہ ملک کو نقصان پہنچتا ہے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے
گی،یہی مقافات عمل ہے۔
|